مساواتِ مرد و زَن کے نعرے اور مغربی خواتین کی حالتِ زار

مغربی تہذیب کے بنیادی مراکز کا خصوصی مطالعہ


جدید مغربی تہذیب کا مولد اور اوّلین پیشوا انگلستان یا برطانیہ ہے۔ امریکہ سپر پاور ہونے کے باوجود مغرب کی تہذیبی اقدار کی نمائندگی کے حوالے سے آج بھی برطانیہ کا ہم پلّہ نہیں۔ اس لئے مغرب میں عورتوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے برطانیہ کا مطالعہ نہایت اہم ہے۔ مساواتِ مرد و زن کا نعرہ برطانیہ ہی میں سب سے پہلے بلند ہوا لیکن آزادئ نسواں کی تحریک کو تقریباً تین صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی خود برطانوی اہل فکرونظر کے مطابق برطانیہ کی عورت مساوی حقو ق اور باوقار مقام سے محروم ہے اور دفاتر اور کارگاہوں میں اس کے ساتھ امتیازی سلوک معمول کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے کچھ اہم حقائق اور معلومات اس باب میں پیش کی جارہی ہیں۔

تیس ہزار برطانوی عورتیں حمل کے باعث ہر سال روزگار سے محروم

مؤقر اور معروف برطانوی جریدے گارجین کی 5؍ جون 2009ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مساواتِ مرد وزن کی تحریک کے سرخیل اس ملک میں آج بھی ہر سال اوسطاً 30ہزار عورتیں ملازمتوں سے فارغ کی جاتی ہیں۔ "Employers targeting pregnant women for redundancy" یعنی ''مالکان حاملہ عورتوں کو فاضل قرار دے کر نشانہ بنا رہے ہیں'' کی سرخی کے تحت شائع کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے:

''اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے والی حاملہ عورتوں اور نئی ماؤں کی تعداد میں چونکا دینے والا اضافہ دیکھا جارہا ہے کیونکہ مالکان، بچے نہ رکھنے والے اُن کے دفتری ساتھیوں کےمقابلے میں اُنہیں غیر ضروری قرار دے کر ملازمتوں سے نکال دیتے ہیں۔ یہ معلومات اس ہفتے وجود میں آنے والا مددگار گروپوں کا ایک اتحاد منظر عام پر لایا ہے۔ حاملہ عورتوں کے ساتھ کارگاہوں میں امتیازی سلوک کے خلاف بننے والے اتحاد "The Alliance Against Pregnancy Discrimination in the Workplace" نے وکلا اور امدادی اداروں سے مشاورت کرنے والی عورتوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ دیکھا ہے کیونکہ زچگی کی چھٹیوں یا ایام حمل کے دوران ان کی نوکریاں ختم کی جاتی رہی ہیں۔ اتحاد نے گزشتہ روز متنبہ کیا کہ ''اس صورتِ حال سے پتہ چلتا ہے کہ بعض مالکان سرد بازاری کو امتیازی سلوک کے انسدادی قانون کو توڑنے کا بہانہ بنا رہے ہیں.... زچگی کی چھٹی کےنتیجے میں ملازمت سے محرومی کے طویل المیعاد اثرات عورتوں کے مالی تحفظ کو اُن کی پوری زندگی کے لئے خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔''

'ایکولٹی'Equality نامی تنظیم اور انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق اندازہ لگایا گیا کہ ہر سال تقریباً 30 ہزار عورتیں حمل کی بنا پر اپنے روزگار سے محروم ہوجاتی ہیں، لیکن خدشہ ہے کہ معاشی انحطاط کی وجہ سے یہ تعداد اور بڑھے گی۔ حکومت اس نوعیت کے امتیازی سلوک کے بارے میں کوئی معلومات اور اعداد و شمار جمع نہیں کررہی ہے اور ٹربیونلز سروس کے لیے اس عمل میں کوئی رکاوٹ ڈالنا فی الوقت محال ہے۔''1

مردوں کے مساوی تنخواہ کے لئے 98 سال مزید انتظار

گارجین نے اپنی 31؍اگست 2011ء کی اشاعت میں ایک خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی ہے کہ ''خواتین ایگزیکٹیوز کو مساوی تنخواہ کے لئے 98 سال انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔''

"Women executives could wait 98 years for equal pay." یہ خبر برطانیہ کے چارٹرڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ پر مبنی ہے۔ اس کی ذیلی سرخی یہ ہےکہ ''انتظامی عہدوں پر کام کرنے والی عورتیں پہلے ہی مردوں سے دس ہزار پونڈ کم لے رہی ہیں۔'' خبر کاآغاز یوں ہوتا ہے : ''عورتوں کو رائے دہی کا مساوی حق تو1928ء سے حاصل ہے مگر تنخواہوں میں برابری کے لئے اُنہیں مزید 98 سال انتظار کرنا پڑسکتا ہے ۔ یہ بات ایک ریسرچ کےنتیجے میں سامنے آئی ہے۔''

خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ ''خواتین ایگزیکٹیوز کی تنخواہیں اگرچہ اپنے مرد ساتھیوں کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہیں لیکن اگر اضافے کی رفتار وہی رہی جو اب ہے تو باہمی فرق ختم ہوتے ہوتے سن 2109ء آجائے گا، یہ انکشاف چارٹرڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ نےکیا ہے۔ ریسرچ کی رُو سے مرد منتظمین کو یکساں ذمہ داریوں کے لئے بدستور عورتیں سے زیادہ معاوضہ دیا جارہا ہے، عورتوں کی 31895 پاؤنڈ تنخواہ کے مقابلے میں مردوں کو اوسطاً 42441 پاؤنڈ دیے جارہے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق پچھلے سال تنخواہوں میں جو فرق 10031 پاؤنڈ تھا، وہ بڑھ کر 10546 پاؤنڈ ہوگیا ہے، باوجود یہ کہ فروری 2011ء تک بارہ مہینوں میں عورتوں کی تنخواہیں مردوں کی 2،1 شرح کے مقابلے میں 2،4 کی شرح سے بڑھیں۔''2

بیس فی صد بڑی کمپنیوں کی انتظامیہ میں عورتوں کا حصہ صفر

گارجین کی 13؍اکتوبر 2011ء کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ کی بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹروں میں عورتوں کا حصہ ہولناک حد تک کم ہے۔

"Shocking, lack of women top company directors"کی سرخی کے تحت شائع ہونےوالی اس خبر میں، جس کی بنیاد'ڈیلائٹ' نامی ادارے کی ایک ریسرچ ہے، کہا گیا ہے:

''برطانیہ کی سب سے بڑی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں عورتوں کا ہولناک حد تک کم تناسب جمعرات کو منظر عام پر آنے والے ایک تجزیے سے عیاں ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھرتیوں کی موجودہ شرح سے بورڈ رومز میں یہ فرق 20سال میں تین ڈائریکٹروں میں سے ایک کے عورت ہونے تک پہنچے گا۔ڈیلائٹ کی اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ FTSE 100 کی 20 فی صد کمپنیوں کے بورڈوں میں کوئی خاتون ڈائریکٹر شامل نہیں ہے جبکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں میں سے صرف پانچ فی صد پرعورتیں فائز ہیں۔ڈیلائٹ کی ٹیم میں شامل کیرول ایرواسمتھ کے بقول ایسی کمپنیوں کی تعداد بلاشبہ ہولناک ہے جن کے بورڈز میں کوئی خاتون رکن نہیں۔ یہ بات خاص طور پر باعثِ تشویش ہے کہ 10سال کے دوران بورڈز آف ڈائریکٹر میں عورتوں کا تناسب 5 سے بڑھ کر صرف 9 فی صد تک پہنچا ہے۔ اس شرح سے بورڈز میں عورتوں کی نمائندگی کے 30 فی صد تک پہنچنےمیں مزید 20 سال لگیں گے جو 'تھرٹی پرسنٹ کلب' کا ہدف ہے۔''3

برطانیہ کی 'سیکس انڈسٹری' کو سالانہ چار ہزار عورتوں کی فراہمی

گارجین کی 22؍اگست 2007ء کی اشاعت میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال ناقابل یقین تعداد میں عورتیں عصمت فروشی کے کاروبار کے لئے مختلف ملکوں سے لائی جاتی ہیں۔'مارکیٹ فورسز' کی سرخی والی اس خبر کی ذیلی سرخی کے الفاظ ہیں:

''بہت سے مرد جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے عورتوں کی خریداری کو محض شاپنگ کی ایک اور قسم سمجھتے ہیں، لیکن ان کا یہ طرزِ عمل اس کاروبار کے لئے عورتوں کی غیرقانون تجارت اور درآمد (ٹریفکنگ) کو تیز ی سےبڑھا رہا ہے۔''

رپورٹ میں کیا گیا یہ انکشاف مغربی تہذیب کے اس عظیم مرکز میں عورتوں کے مقام ومرتبےکی بلندی کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ

''سرکاری اعداد و شمار سے یہ تخمینہ سامنے آتا ہےکہ برطانیہ میں ہر سال کوئی چار ہزار عورتیں سکڑتی ہوئی سرحدوں اور سیکس کی خریداری کے حوالے سے بدلتے ہوئے رویوں سے مہیا ہونے والی سہولتوں کی بنا پر فروغ پذیر سیکس انڈسٹری کی مانگ پوری کرنے کے لئے درآمد کی جاتی ہیں۔''

ان حقائق کو سامنے لانے کا سہراCCAT نامی ادارے کے سر ہے جو 'کرائیڈن کمیونٹی اگینسٹ ٹریفکنگ' کا مختلف ہے۔ کرائیڈن (Croydon) جنوبی لندن کا علاقہ ہے۔ یہاں وزارتِ داخلہ کے دفاتر واقع ہیں جن میں بارڈر اور امیگریشن ایجنسی بھی شامل ہیں لہٰذا اس علاقے میں یہ کاروبار زیادہ آسان ہے۔نتیجہ یہ کہ گارجین کے الفاظ میں یہاں ''جنسی ہوس پوری کرنے کےلئے درآمد کی گئی عورتوں کی خریداری اتنی ہی سہل ہے جیسے پیزا کا آرڈر دینا۔''

خبر کے مطابق علاقے میں اس کاروبار کے تیزی سے پھلنے پھولنے کی وجہ سے مقامی لوگوں نے پریشان ہوکر اپنے طور پر معاملات کی تحقیق کی کوشش کی تاہم انتقامی کارروائی کے خوف سے اُنہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کا اہتمام کیا۔ اُنہوں نے سٹے بازوں کی حیثیت سے سو قحبہ خانوں، حماموں(Saunas) اور اسکارٹ ایجنسیوں کو فون کیے جن کے اشتہارات مقامی اخبارات میں شائع ہوئے تھے اور پھر یہ جان کرششدر رہ گئے کہ عصمت فروشی کے لیے بیچی جانے والی 84 فیصد عورتیں بیرونِ ملک سے لائی گئی تھیں ، اور ان میں سے اکثر غیر قانونی طور پر خریدی اور بیچی گئی تھیں۔4

مظلوم عورتوں کو 2011ء میں بھی قانونی تحفظ نہیں ملا

برطانیہ میں عورتوں کی یوں بے روک ٹوک تجارتی سطح پر درآمد اور اُنہیں عصمت فروشی پر مجبور کیے جانے کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور حکومت نے انسانی ٹریفکنگ کے خلاف 2011ء میں قانون سازی بھی کی لیکن ماہرین کے بقول یہ قانون سازی برطانیہ میں جبری عصمت فروشی کے لیے عورتوں کی درآمد پر اثر انداز نہیں ہوگی بلکہ روزگار کے لیے برطانیہ کا رخ کرنے والے عام تارکین وطن کی آمد کو روکنے تک محدود رہے گی۔

گارجین کی 2 جولائی 2011ء کی اشاعت میں "New trafficking laws, will not care for slavery victims"کی سرخی کے تحت 'ہیومن ٹریفکنگ فاؤنڈیشن' کے سربراہ اور 2010ء تک پارلیمنٹ کے رکن رہنے والے انتھونی اسٹین کا بیان عصمت فروشی پر مجبور کردی جانے والی درآمد شدہ عورتوں کے حوالے سے حقیقت واضح کرتا ہے۔ انتھونی نے اس مسئلے کےحل کے لئے کل جماعتی پارلیمانی گروپ بھی بنایا تھا۔ تاہم اس ضمن میں بننے والے قانون پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات باعثِ افسوس ہے کہ انسانی تجارت کی روک تھام کے لئے تشکیل دی جانے والی حکمتِ عملی میں اصل زور بے بس عورتوں کے مسئلے کے بجائے سیاسی معاملات پر دیا گیا ہے، اُن کے بقول :

''حکومت کی جانب سے انسانی تجارت کے مسئلے کو ترجیح دینے کا دعویٰ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا، انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے اس قانون کو تارکین وطن کے بجائے انسانوں کی تجارت کرنے والوں کے خلاف اور ان کا نشانہ بننے والوں کے لئے ہمدردی پر مبنی ہونا چاہیے تھا۔''5

برطانیہ میں عورتوں پر گھروں میں تشدد

مغرب کی تہذیبی اقدار کے مثالی مرکز انگلستان میں عورتوں کے ساتھ گھروں میں ان کے شوہروں یا بوائے فرینڈز وغیرہ کی جانب سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ، اس بارے میں سرکاری اور دیگر معتبر ذرائع کے فراہم کردہ کچھ اہم اعداد و شمار ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:6

1. 45 فیصد عورتیں کسی نہ کسی نوعیت کے گھریلو تشدد کے تجربے سے گزرتی ہیں مثلاً جنسی زیادتی یا خوف زدہ کیا جانا۔7

2. تقریباً 21 فیصد لڑکیاں بچپن میں کسی نہ کسی قسم کی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔8

3. ہر سال کم از کم 80ہزار عورتیں زنا بالجبر کا نشانہ بنتی ہیں۔9

4. ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق سوال کا جواب دینے والے چار میں سے ایک شخص کا خیال تھا کہ زنا بالجبر کا نشانہ بننے والی عورت اس عمل کی جزوی یا کلی طور پر خود ذمہ دار ہے، اگر اس نے جنسی خواہش کو بھڑکانے یا جسم کو نمایاں کرنے والا لباس پہن رکھا ہو اور ہر پانچ میں سے ایک شخص اس نقطہ نظر کا حامی تھا کہ اگر کوئی عورت متعدد افراد سے جنسی تعلق رکھتی ہو۔10

5. انگلستان اور ویلز میں ہر ہفتے دو عورتیں اپنے کسی متشدد مرد دوست یا سابق دوست کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں۔ یوں گھروں میں ماری جانے والی تقریباً 40 فیصد عورتیں اسی طرح قتل ہوتی ہیں۔11

6. گھریلو تشدد کے 70 فیصد واقعات کا نتیجہ زخمی ہونے کی شکل میں نکلتا ہے جبکہ جان پہچان والوں کے تشدد میں یہ تناسب 50 فیصد ، اجنبی لوگوں کے تشدد میں 47 فیصد اور راہ زنی کے واقعات میں 29 فیصد دیکھاگیا۔12

7. جبری شادیوں کا ہدف بننے والوں میں 85 فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔13

8. گھریلو تشدد پر ، اس کا نشانہ بننے والوں کے ذاتی خرچ کے علاوہ علاج معالجے اور ریاست کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 23 بلین پاؤنڈ سالانہ ہے۔14

پالتو کتے پر تشدد قابل مذمت،لیکن عورتوں پر نہیں

گھروں کے اندر عورتوں پر تشدد کو برطانوی معاشرے میں جس طرح قبول کرلیا گیا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی سی کی جانب سے 18 فروری 2003ء کو پیٹرگلاؤڈ کی "Scale of domestic abuse uncovered" یعنی ''گھریلو تشدد کا پیمانہ بےنقاب'' کے زیر عنوان پیش کردہ ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ 78 فیصد مردوں اور عورتوں نے کہا کہ اگر ان کے پڑوس میں کوئی شخص اپنے پالتو کتے کو پیٹ رہا ہوگا تو وہ پولیس کو اطلاع دے کر اُسے بچانے کی کوشش کریں گے جبکہ کسی گھر میں کسی مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا دوست عورت پر تشدد کیے جانے کی صورت میں پولیس کو اطلاع دینے پر صرف 53 فیصد نے آمادگی ظاہر کی۔15

گھر، عورتوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ

اس تکلیف دہ اور شرمناک صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ممتاز برطانوی دانشور اور تجزیہ کارIan Sinclairاپنے تجزیے'عورتو ں کے خلاف تشدد' (Violence Against Women) کے زیر عنوان میں کہتے ہیں:

''عورتوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے ہمیں پورے معاملے پر از سر نو سوچ بچار کی ضرورت ہے۔مین اسٹریم میڈیا اگرچہ مسلسل اجنبیوں کے خطرے کا غوغا برپا کیے ہوئے ہے،مگر فی الحقیقت عورت کے لئے سب سے خطرناک جگہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اکثر اسے آرام دہ اور محفوظ جنت تصور کیا جاتا ہے لیکن عملاً یہ ایسی جگہ ہے جہاں اُسے خوف، زخم اور بعض اوقات موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جیسے کہ برطانیہ میں ہر ہفتے دو عورتیں اپنے موجودہ یا سابقہ مرد آشناؤں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔''16

گھروں میں یہ سب کچھ کیوں کر ممکن ہوتا ہے؟ ...اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے یونیورسٹی آف بریسٹول کے 'وائلنس اگینسٹ ویمن ریسرچ گروپ' کی ڈائریکٹر گل ہیگ(Gill Hague)کہتی ہیں:

''گھر بہر صورت بند دروازوں کے پیچھے ، عام لوگوں کی نگاہوں سے دور، پرائیویسی اور دوسرے لوگوں کے معاملات میں عدم مداخلت کے گفتہ و ناگفتہ قوانین کے فراہم کردہ تحفظ کا حامل ہے۔''17

آبرور ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح میں مسلسل کمی

برطانوی وزارتِ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو گارجین کی 21 جولائی 2007ء کی اشاعت میں''آبروریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح میں اضافے کی کوششیں ناکام''"Efforts fail to improve rape conviction rates" کے عنوان سے شائع ہوئی، بتایا گیا ہے کہ عورتوں کی آبرو ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح پست ترین سطح تک گرچکی ہے۔Sandra Laville کی ا س رپورٹ کے مطابق حکومت، پولیس اور پراسیکیوٹرز کی کوششوں کے باوجود اس شرح میں اضافہ نہیں ہورہا اور کئی سال سے یہی کیفیت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2003ء اور 2004ء میں پولیس کو رپورٹ کیے جانے والی عصمت دری کی و ارداتوں میں صرف چھ فیصد ملزمان کو سزا ہوئی جبکہ 1970ء کی دہائی میں یہ شرح 32 فیصد تھی۔18

آبرور ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی اتنی کم شرح پر "Rape: a history from 1860 to present" نامی کتاب کی مصنفہJoanna Bourke لکھتی ہیں:

''عصمت دری کے جن مجرموں کے مقدمات کا نتیجہ سزا کی شکل میں نکلے اُنہیں اپنے آپ کو استثنائی طور پر بدقسمت سمجھنا چاہیئے۔''19

اس کے ساتھ ساتھ جنسی جارحیت کا نشانہ بننے والی خواتین کی دیکھ بھال کے مراکز کی تعداد اور ان کے لئے مختص کی جانے والی رقم میں بھی مسلسل کمی ہورہی ہے۔گارجین میں تین جولائی 2007ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انگلستان اور ویلز میں 'ریپ کرائسز سنٹرز' کی تعداد 1985ء میں 84 تھی جو 2007ء میں گھٹ کر صرف 32 رہ گئی اور ان میں سے بھی نصف کو قلتِ وسائل کے سبب بندش کے خطرے کا سامنا تھا۔20

'لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی'میں جنس زدہ تشدد کے مضمون کی پر وفیسرLiz Kelly نشاندہی کرتی ہیں کہ اس عرصے میں پول ڈانسنگ کلبوں کی تعداد بڑھ کر تین گنا ہوگئی ہے جس سے برطانوی معاشرے کی موجودہ ترجیحات واضح ہیں۔

(2) امریکہ میں خواتین سے سلوک


یکساں کام کی اُجرت مردوں سے 33 فیصد کم

امریکہ کی نیشنل آرگنائزیشن فارویمن کی جانب سے ''امریکہ میں محنت کش عورتوں کے کام کے حالات یورپ کے مقابلے میں ابتر ہیں۔'' کے عنوان سے پیش کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، جو فروری 2011ء میں منظر عام پر آئی جسےRiley Karbonاور Field intern نے مرتب کیا ہے، امریکہ میں ایک ہی نوعیت کے جس کام کے لئے مرد کارکن کو ایک ڈالر دیا جاتا ہے، خاتون ورکر کے لئے اسی کام کی اُجرت 77 سینٹ ہے حالانکہ ورک فورس میں اب امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے اور یہ حقیقت رپورٹ کے مطابق محکمہ محنت کے ان ہی دنوں جاری کردہ رپورٹ سے واضح ہے۔21

چنانچہ 'نیشنل آرگنائزیشن فارویمن' نے 12؍ اپریل 2011ء کو عورتوں اور مردوں کی اُجرتوں کے فرق کے خاتمے کا دن منایا۔ اس موقع پر تنظیم کی صدر ٹیری اونیل Terry O'Neill نے بیان دیتے ہوئے کہا:

''فی الوقت عورتو ں کو مردوں کے ایک ڈالر کے مقابلے میں 77 سینٹ ادا کیے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیئے، پورے سال کل وقتی ملازمتیں کرنے والی محنت کش خواتین کارکنان، دو دہائیوں سے مردوں کے مقابلے میں 70 اور 80 فیصد کے درمیان تنخواہوں پر رُکی ہوئی ہیں۔ مساوی اُجرت کا دن اس عدم مساوات کے خلاف ایک پُرزور یاددہانی ہے۔ یہ دن اس با ت کی نشاندہی کرتا ہے کہ نئے سال میں متوسط درجے کی عورتوں کو وہ رقم حاصل کرنے کے لئے لازمی طور پر کتنا کام کرنا ہوگا جو متوسط درجے کے مردوں کو پچھلے سال ادا کی جاچکی ہے۔ اس امر پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہیے کہ رنگ دار عورتوں کی تنخواہیں، نسلی امتیاز کی وجہ سے اوسط سے اور بھی پیچھے ہیں۔''22

عورتوں پر تشدد: اقوام متحدہ کی نمائندۂ خصوصی کی رپورٹ

امریکہ میں عورتوں پر تشدد کے ہمہ پہلو جائزے کے لئے 24 جنوری سے 7 فروری 2011ء تک اقوام متحدہ کی 'ہیومن رائٹس کونسل' کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے پروفیسر راشدہ منجو نے امریکہ کا مطالعاتی دورہ کیا۔ اس سے پہلے 2009ء میں بھی وہ تین ماہ کے لئے اس تحقیقی مشن پر کام کرچکی تھیں۔ راشدہ منجو جنوبی افریقہ میں ہائی کورٹ کی وکیل ہیں اور امریکہ کی ویبسٹر یونیورسٹی میں معلّمی کے فرائض بھی انجام دیتی رہی ہیں۔ اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی میں اُنہوں نے ''عورتوں کے خلاف تشدد، اُس کی وجوہات اور نتائج و اثرات'' کے عنوان سے یہ رپورٹ 10؍اکتوبر 2011ء کے اجلاس میں پیش کی جس کی خبر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔23

اس مفصل رپورٹ میں پیش کیے گئے کچھ اہم واقعات، حقائق اور اعداد و شمار یہ ہیں:24

شوہروں اور دوستوں کے ہاتھوں تشدد

گھریلو تشدد یعنی شوہروں یا مرد آشناؤں یا دوستوں کے ہاتھوں عورتوں پر ہونے والے تشدد کے ضمن میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''گھریلو تشدد یا قریبی ساتھیوں کی جانب سے ہونے والا تشدد انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزی ہے جو امریکہ کے طول و عرض میں وسیع پیمانے پر جاری ہے۔'نیشنل کرائم وکٹی مائزیشن سروے' کے مطابق 2008ء میں امریکہ میں عورتوں پر مرد ساتھیوں کی جانب سے تقریباً 552000 پُرتشدد جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ان میں 35690 زنا بالجبر یا جنسی زیادتی کی وارداتیں ،38820 ڈکیتیاں، 70550 شدید طور پر زخمی کرنے والے حملے اور 406530 نسبتاً کم جسمانی نقصان پہنچانے والے حملے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2008ء میں اوسطاً ہر روز 500 عورتیں جنسی حملوں کا نشانہ بنیں۔ تشدد کے واقعات کی شرح عورتوں میں 4ء3فی ہزار اور مردوں میں 8ء0 فی ہزار رہی۔ (پیرا گراف :8)

2007ء میں قتل ہونے والی عورتوں میں سے 64 فیصد اپنے قریبی مرد دوستوں یا گھر کے کسی فرد کے ہاتھوں ماری گئیں۔ اُن میں سے 24 فیصد واقعات کے مرتکب ان عورتوں کے موجودہ یا سابق شوہر ہوئے، 21 فیصد واقعات بوائے فرینڈز یا گرل فرینڈز کے ہاتھوں پیش آئے جبکہ 19 فیصد واقعات میں خاندان کا کوئی دوسرا فرد ملوث پایا گیا۔ اس سال قریبی دوستوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی شرح ایک لاکھ عورتوں میں70ء1جبکہ ایک لاکھ مردوں میں47ء0 رہی۔ (پیرا گراف: 9)

رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ اعداد و شمار حقیقی صورت حال کی مکمل عکاسی نہیں کرتے کیونکہ قریبی ساتھیوں کی جانب سے ہونے والے تشدد اور جنسی زیادتی کی وارداتیں خوف و ہراس اور دیگر وجوہ کی بنا پر بہت ہی کم رپورٹ کی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1992ء سے 2000ء تک زنا بالجبر کے صرف 36 فیصد ، جنسی زیادتی کی کوشش کے 34 فیصد اور جنسی حملوں کے 26 فیصد واقعات پولیس کو رپورٹ کیے گئے۔(پیراگراف:17)

جیلوں میں بدسلوکی

امریکی جیلوں میں عورتوں سے بدسلوکی کی تفصیلات ، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی خصوصی نمائندہ کی چشم کشا رپورٹ کے کئی صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بہتری کی کوششوں کےباوجود اب تک امریکی جیلوں میں قید عورتیں ہر قسم کی زیادتیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ان تفصیلات کا خلاصہ بھی بہت جگہ چاہتا ہے، اسلئے محض چند اقتباسات پر اکتفا کررہے ہیں جن سے مجموعی صورت حال کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں اگرچہ تقریبا پچھلے ڈیڑھ عشرے کے حالات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے لیکن ہم حالیہ چند برسوں کی کیفیت کے حوالے سے رپورٹ کے مندرجات نقل کررہے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:

''جہاں تک جیلوں میں عورتوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کا تعلق ہے ، تو2008- 2009ء کی ایک رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ بارہ مہینوں کی مدت میں امریکی جیلوں میں 4.7 فیصد عورتوں کو اپنےمرد قیدی ساتھیوں اور 2.1فیصد کو جیل کے عملے کے ارکان کے ہاتھوں مختلف نوعیت کی جنسی بدسلوکی، زیادتی، خوف و ہراس اور جنسی حملوں کا تجربہ ہوا۔ انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری ہونے والی 2009ء کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جیل کے عملے کے مرد ارکان اکثر قیدی عورتوں کی جامہ تلاشی کے دوران جنسی چھیڑ چھاڑ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عملے کے یہ ارکان اپنے اختیارات اور طاقت کے بل پر قیدی عورتوں کو زبردستی جنسی تعلق پر مجبور کرتے ہیں۔''

''قیدی عورتوں کے جیل کے ساتھیوں سے انٹرویوز سے پتہ چلا کہ قیدی عورتیں بعض اوقات ٹیلیفون تک رسائی ، کھانے پینے کی اشیا اور صابن اور شیمپو جیسی چیزوں کے حصول تک کے لیے جنسی زیادتی قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔اس کے نتیجے میں اُن میں سے بہت سی پوری زندگی کے لئے ذہنی انتشار ، بے چینی اور ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں ، حتیٰ کہ ان تلخ اور ذلت آمیز واقعات کوبھلا نہ پانے کی بنا پر اُن میں سے بہت سی عورتیں خود کشی تک کرگزرتی ہیں۔ (پیرا گراف: 32، 33)25

فوج میں جنسی زیادتی روز کامعمول

درج بالا سرخی کے تحت رپورٹ میں کہا گیا ہے: ''فوج کے اندر عورتوں پر جنسی حملے اور اُنہیں خو ف زدہ کرنے کو عورتوں کے خلاف تشدد کی ایک وسیع قسم کے طور پر امریکہ میں بلا تأمل تسلیم کیا جاتا ہے۔ وکلا بتاتے ہیں کہ عورتیں جب فوج کی ملازمت اختیار کرتی ہیں تووہ نہ صرف جنگ و جدل کے حوالے سے جسمانی خطرات مول لیتی ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کی جانب سے جنسی حملوں کے خطرے کا سامنا بھی کرتی ہیں۔جنسی حملوں کا سامنا اگرچہ مردوں اور عورتوں دونوں کو کرنا پڑتا ہے ، تاہم دستیاب اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نشانہ بننے والوں میں بھاری اکثریت جونیئر رینکس کی 25 سال سے کم عمر عورتوں کی ہوتی ہے۔ (پیرا گراف : 22)

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ رپورٹ میں کیے گئے اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کو درپیش ناگفتہ بہ صورت حال پر دو سابق وزرائے دفاع کے خلاف اجتماعی مقدمات بھی دائر کیے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے رپورٹ میں کہا گہا ہے :

''سابق وزرائے دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ اور رابرٹ گیٹس کے خلاف، آبرو ریزی اور جنسی حملوں کی شکایات پر کارروائی نہ کرنے ، ان کی تحقیقات نہ کرنے، مجرموں کو سزا دینے میں ناکام رہنے اور انصاف کی فراہمی کے نظام کو کمزور رکھنے پر متاثرین کی جانب سے اجتماعی مقدمے کے بارے میں بھی خصوصی نمائندے کو بتایا گیا۔مقدمے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عصمت دری اور جنسی حملوں کا نشانہ بننے والوں کے خلاف کھلم کھلا خوف زدہ کرنے اور نقصان پہنچانے کی کارروائیاں کی گئیں، جرائم کی شکایت درج کرانے کے معاملے میں ان کی حوصلہ شکنی کی گئی، نیز انہیں اپنی زبان بند رکھنے اور جو زیادتی اُن کے ساتھ ہوئی، اسے کسی کو نہ بتانے کا حکم دیا گیا۔'' (پیراگراف:23)

امریکہ میں عورتوں کے خلاف تشدد خصوصاً جنسی زیادتی اور جرائم پر مبنی اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی کی اس رپورٹ کے اگلے پیراگراف میں اس حقیقت کی نشان دہی کی گئی ہے کہ فوج میں ہونے والے اس نوعیت کے جرائم عام طور پر ریکارڈ پر نہیں آتے کیونکہ متاثرین چپ رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے :

''کیونکہ فوج میں جنسی حملوں کے بیشتر واقعات کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی لہٰذا درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔محکمہ دفاع کے مطابق، تازہ ترین بےنام سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایکٹو ڈیوٹی عورتوں میں سے 4.4 فیصد اور ایکٹو ڈیوٹی مردوں میں سے 0.9فیصد نے اشارہ دیا کہ وہ سروے سے پہلے کے بارہ ماہ کے دوران جبری جنسی تعلق کے تجربے سے گزرے ہیں۔ اُن میں سے صرف 29 فیصد عورتوں اور 14 فیصد مردوں نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت محکمہ دفاع یا کسی سول اتھارٹی سے کی ہے۔'' (پیرا گراف :24)

فوج میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ کے اس قدر کم ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج کے تحکمانہ نظام کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والے شکایت کرنے کی صورت میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اگر زیادتی کے ذمہ دار، متاثرہ فرد کے افسران میں سے ہوں تو ان کے خلاف شکایت کرنا محال کو ممکن بنانے کی کوشش کے مترادف ہوتا ہے اور متاثرین اکثر محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں اپنی فوجی ملازمت یا انصاف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ (پیرا گراف :27)

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرین کے وکلا نےبتایا کہ شکایت کرنے کی صورت میں متاثرین بااثر ملزمان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خوف رکھتے ہیں کیونکہ کمانڈر عام طور پر شکایت کرنے والوں کوملزمان کے انتقامی اقدامات سے تحفظ مہیا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔(پیرا گراف:28)

خاتون رکن کانگریس کی گواہی

سی این این کی 31؍جولائی 2008ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے :

''کانگریس کی ایک خاتون رکن کے بقول اُن کا منہ اس وقت کھلا کا کھلا رہ گیا جب سابق فوجیوں کے ایک اسپتال میں فوجی ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا کہ دس میں سے چار عورتوں نے شکایت کی ہے کہ فوجی ملازمت کے دوران اُنہیں جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ ایک سرکاری رپورٹ کی رُو سے یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ڈی کیلیفورنیا سے کانگریس کی رکن جین ہرمین نے یہ انکشاف کانگریس کے ایک پینل کے سامنے بیان دیتے ہوئے کیا جو یہ تحقیق کررہا ہے کہ فوج میں جنسی زیادتیوں کے واقعات سےکس طرح نمٹا جاتا ہے۔ جین ہرمین نے بتایا کہ اُنہوں نے حال ہی میں لاس اینجلس میں سابق فوجیوں کے ایک اسپتال کا دورہ کیا، جہاں انہیں فوج میں عورتوں کی آبرو ریزی کی خوفناک کہانیاں سنائی گئیں۔''

جین ہرمین کے مطابق جنسی حملوں کا نشانہ بننے والی ان عورتوں میں سے 29 فیصد نے انکشاف کیا کہ فوجی ملازمت کے دوران اُن کی عزت لوٹی گئی۔ ان عورتوں نے اپنے مستقل خوف، بے بسی کے احساس اور مسلسل ابتر ہوتی نفسیاتی کیفیت کے بارے میں بتایا جس میں وہ اسی وقت سے مبتلا ہیں جب اُنہیں اس ظلم کا ہدف بنایا گیا۔

جین ہرمین نے صورتِ حال کی سنگینی کو یوں واضح کیا:

''ہماری فوج میں یہ چیز ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ امریکی فوج میں ملازمت کرنے والی عورتیں آج عراق میں دشمن کی گولی سے مرنے سے کہیں زیادہ اپنے مرد ساتھیوں کے ہاتھوں آبروریزی کے خطرے سے دوچار ہیں۔''

امریکہ کانگریس کی اس خاتون رکن کے بقول 2007ء میں فوج کے اندر جنسی حملوں کے 2212کیس رپورٹ ہوئے مگر ان میں سے صرف 181 یعنی محض 8 فیصد کورٹ مارشل کے لیے بھیجے گئے ۔ جین ہرمین نے بتایا کہ اس کے مقابلے میں شہری معاشرے میں ایسے معاملات کے عدالتوں تک پہنچنے کی شرح 40 فیصد ہے۔26

متاثرہ عورتیں زندہ درگور

امریکی فوج میں اپنے مرد ساتھیوں کی بہیمانہ ہوس کا نشانہ بننے والی ان عورتوں کی داد رسی کس حد تک ہوتی ہے اور اپنی بقیہ زندگی میں اُنہیں کن ذہنی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دستیاب واقعاتی حقائق سے اس کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ امریکی فوج میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر امریکی اخبار ڈینور پوسٹ(Denver Post) سے وابستہ ایمی ہرڈی(Amy Herdy) اور مائلز موفیٹ(Miles Moffeit) نے نوماہ کی تحقیق کے بعدایک رپورٹ تیار کی جو اخبار کی 16 تا 18 نومبر 2003ء کی اشاعتوں میں بالاقساط شائع ہوئی۔ 2004ء میں اسے (Betrayal in the Ranks)کے عنوان سے مستقل دستاویز کے طور پر بھی شائع کردیا گیا۔

ڈینوپوسٹ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج میں اپنے مرد ساتھیوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی ان مظلوم عورتوں کی دادرسی کے بجائے عموماً اُنہیں خاموش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اُن کے خلاف جنسی تشدد کے مرتکب مجرموں کو عام طور پر کسی باز پرس اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ رپورٹ میں 'کولوریڈو ایئر فورس اکیڈمی' کے اسکینڈل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 142 کیس رپورٹ ہونے کے باوجود ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی گئی۔

ان رپورٹروں نے ایسی مزید مثالیں دیتے ہوئے لاس ویگاس میں 1991ء میں ہونے والے 'نیوی ٹیل ہک کنونشن' کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس موقع پر سو سے زائد افسروں نے درجنوں خاتون اہلکاروں کو جنسی طور پر ہراساں کیا مگر جب اس سلسلے میں نیوی کی طرف سے انکوائری ہوئی تو مجرم افسروں نے تحقیقاتی عمل کو بالکل سبوتاژ کرکے رکھ دیا اور ان میں سے ایک کو بھی سزا نہیں دی جاسکی۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کا فوجی نظام یہ رعایت جن مجرموں کو دے رہا ہے، ان کےجرم کے اثرات و نتائج کیا ہیں اور جو عورتیں ان کی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں ، ان کی بقیہ زندگی کس طرح گزرتی ہیں۔ ڈینوپوسٹ نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ایسی 60 عورتوں سے بات چیت کی جنہوں نے انتقام کے خوف یا مجرموں کے خلاف کسی کارروائی سے مایوس ہونے کی بنا پر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہیں رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔

اخبار لکھتا ہے کہ مجرمانہ حملوں کا نشانہ بننے والی درجنوں سابق فوجی خواتین اہلکاروں نے بتایا کہ اذیت کے اندرونی احساس کے سبب ان کے کیریئر تباہ ہوگئے۔ اُنہوں نے منشیات اور کثرت شراب نوشی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جس سے ان کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔

ماریان ہڈ ایسی ہی ایک مظلوم سابق امریکی سپاہی ہے۔اس نے اپنے کرب کا ا ظہار جن الفاظ میں کیا، وہ دل دہلا دینے والے ہیں، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا شرمناک اور وحشیانہ سلوک کس طرح خود امریکہ کے خلاف نفرت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ سابق فوجی ہونے کے باوجود امریکی پرچم لہرانے سے انکار کرنے والی ماریان ہڈ کہتی ہے:

''پہلے جب میں امریکی پرچم پر نظر ڈالتی تو یہ مجھے سرخ، سفید اور نیلا دکھائی دیتا تھا ، مگر اب میں اس پر صرف خون کے رنگ دیکھتی ہوں۔ سرخ رنگ اس خون کی علامت ہے جو میرے بدن سے بہا۔نیلا رنگ ان چوٹوں کی نمائندگی کرتا ہے جو میرے جسم نے سہیں۔ اور سفید رنگ میرے خوفزدہ چہرے کا ہے۔ میں اپنے ملک کے لئے ماری پیٹی گئی اور میری عزت لوٹی گئی ۔ اسے کافی سمجھا جانا چاہیے۔''27

(3) مغربی عورت کا حالِ زار: فطرت سے بغاوت کا نتیجہ!


مغربی تہذیب نے ماں، باپ اور شوہر و بیوی کی حیثیت سے عورت اور مرد کے فطری دائرہ کار، صنفی و جسمانی تقاضوں اور نفسیاتی و جذباتی مطالبات کے کھلے فرق کو نظر انداز کرکے زندگی کے ہر میدان میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کرنے کی جو غلطی کی تھی، مغرب کی عورت کو درپیش مسائل اور ذلت انگیز حالات، جن کا کچھ ذکر سطور بالا میں ہوا، فی الحقیقت اسی غلطی کا نتیجہ ہیں۔ مغربی عورت گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ مردوں کی طرح معاشی جدوجہد میں بھی جوت دی گئی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام ضرور کررہی ہے لیکن عملاً وہ مردوں کا دل بہلانے کا کھلونا بن گئی ہے۔ اس طرزِ زندگی کے کئی عشروں کے تجربے نے مغربی عورت پر یہ حقیقت روشن کردی ہے کہ آزادی و مساوات کے نام پر یہ سودا اُسے بہت مہنگا پڑا ہے۔ لہٰذا آج مغربی عورت دوبارہ گھر کی پناہ گاہ میں واپس جانے کی آرزو مند ہے۔

مغربی عورتوں میں اسلام کی حیرت انگیز مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات عورت کو گھر کا مرکز بناتی ہیں اور معاشی جدوجہد میں شرکت کی کوئی ذمہ داری اس پر عائد کیے بغیر محبت،عزت اور احترام کا وہ مقام دیتی ہیں، جس کا کوئی تصور مغربی معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ مسلمان ہونے والی مغربی خواتین اپنے قبولِ اسلام کے اسباب میں اسلام کے ان اوصاف کا عموماً بطور خاص ذکر کرتی ہیں۔ تاہم ذیل میں اس حوالے سے کئی ہزار برطانوی عورتوں کی ایک کھلی گواہی پیش کی جارہی ہے جو ہر معقول شخص کیلئے سوچ بچار کا بڑا سامان رکھتی ہے۔

94 فیصد برطانوی عورتیں 'سپر وومین رول ماڈل' سے بیزار

برطانیہ کی خواتین بیک وقت گھریلو ذمہ داریوں اور ملازمت کی ذمہ داریوں کو بھاری بوجھ محسوس کرتی ہیں۔ خواتین کے بہت سے میگزین اکثر ایسی آرا اور معلومات پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹاپ سانتے(Top Sante) نامی برطانوی میگزین کے ایک سروے کے مطابق، جس کی تفصیلات ہم نے برطانوی اخبار 'ڈیلی میل' میں شائع ہونے والی رپورٹ سے لی ہیں، برطانیہ کی 94 فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ زوجیت ، مادریت اور ملازمت کے تقاضے بیک وقت پورے کرتے کرتے بے دم ہوچکی ہیں اور اس سپر وومن رول ماڈل سے نجات کی آرزو مند ہیں۔

میگزین کی ایڈیٹر جولیٹ کیلو (Juliet Kellow) جنہوں نے برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ کی پانچ ہزار ملازمت پیشہ عورتوں کے انٹرویو کا اہتمام کرکے یہ جائزہ پیش کیا ہے، کہتی ہیں "It is time for super woman to put back in her box."یعنی وقت آگیا ہے کہ سپر وومن واپس اپنے گھر کا رُخ کرے اور اپنی اصل ذمہ داریاں نبھائے۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ سپر وومن کا یہ رول ماڈل ان عام عورتوں کے لیے قطعی سازگار نہیں جن کے پاس گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیےبچے کھلانے والی اناؤں، صفائی ستھرائی کرنے والی خادماؤں، پرسنل سیکرٹریوں اور ہیر ڈریسروں وغیرہ کی فوج نہیں ہے۔ سروے کے مطابق ہر دس میں سے آٹھ ملازمت پیشہ عورتوں کا خیال ہے کہ ماں اور باپ دونوں کی کل وقتی ملازمت خاندانوں کے ٹوٹنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ عورتوں کے تعلقات اپنے شریکِ حیات کے ساتھ تلخ ہوجاتے ہیں کیونکہ بیشتر عورتیں سمجھتی ہیں کہ مرد اپنا بوجھ اتنا نہیں اُٹھاتے جتنا اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ خیال84 فیصد عورتوں نے ظاہر کیا ہے۔ اس کے باوجود ایک تہائی عورتوں کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنے آپ کو گھر کے لیے وقف کردینا ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے شوہروں یا مرد پارٹنروں کی نسبت زیادہ کماتی ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں بھی، جو موجودہ مغربی تہذیب کا امامِ اوّل ہے اور جس نے پوری مغربی دنیا کو اس راہ پر لگایا ہے، مساواتِ مرد و زن کے تمام دعووں کے باوجود سروے کے مطابق اب تک عورتیں ہی گھر اور خاندان کے اُمور کے لیے بنیادی طور پر جواب دہ اور ذمّہ دار ہیں حالانکہ وہ مردوں ہی کی طرح اپنا پورا دن ملازمت کی مصروفیت میں گزار کر تھکی ہاری گھر پہنچتی ہیں۔ اپنی ان سہ طرفہ مستقل اور سخت ذمہ داریوں کی مسلسل ادائیگی نے انہیں زمین سے لگا دیا ہے۔ جو لیٹ کیلو کا کہنا ہے کہ ایک کل وقتی گھریلو خادمہ، ملازمت پیشہ عورتوں کی اکثریت کیلئے دیومالائی خواب ہے۔ بہتر معاوضے والی جزوقتی ملازمتیں ان گھر بار والی عام ملازمت پیشہ عورتوں کے مسئلے کا ایک حد تک حل ہوسکتی ہیں لیکن یہ انتہائی کمیاب ہیں اور ان کا حصول نہایت دشوار ہے۔ سروے کے مطابق 57 فیصد برطانوی کمپنیاں اب تک اپنے ہاں ملازمت کرنے والی عورتوں کو ماں بن جانےکی صورت میں کوئی رعایت اور کوئی الاؤنس نہیں دیتی ہیں خواہ ملازمت جاری نہ رکھ پانے کی وجہ سے کمپنیوں کو ان کے تجربے اور صلاحیتوں سے محروم ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔

سروے میں بتایا گیا ہےکہ گھر اور بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ملازمت کی مشقت عورتوں کی صحت کو بُری طرح متاثر کررہی ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر تازہ دم ہوکر صحت مند رہنے کے لئے کم سے کم ناگزیر وقت بھی ان عورتوں کےپاس نہیں ہوتا۔ ان غریب عورتوں کا طرز زندگی پریشر کُکر جیسا بن کر رہ گیا ہے۔ وہ اپنی مختلف النوع ذمہ داریوں کی بنا پر مسلسل دباؤ میں رہتی ہیں اور اُنہیں ایک کام سے دوسرے کام کی طرف دوڑتے رہنا پڑتا ہے چنانچہ اُن کے رویے میں جارحیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سروے میں ملازمت پیشہ عورتوں کی عمومی صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر مالی مجبوریاں نہ ہوں تو برطانیہ کی 48 فیصد ملازمت پیشہ عورتیں صرف آرام کرنا پسند کریں گی ۔ 32 فیصد گھر داری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گی اور صرف 20 فیصد ملازمت جاری رکھنے کو ترجیح دیں گی۔28

سستی لیبر کے لیے سرمایہ داری کی چال

مغرب میں عورت کا یہ حالِ زار دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی عورت کے خلاف خوفناک سازش کا نتیجہ ہے جسے آزادئ نسواں کا دلکش اور پُرفریب نام دیا گیا۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ آزادئ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کی تحریکوں کے نام پر عورت کو گھر داری اور نئی نسل کی پرورش اور تربیت کے فطری فریضے کی ادائیگی کے لیے فارغ رکھے جانے سے دراصل روکا ہی اس لئے گیا تھا تاکہ اسے گھر سے باہر لاکر سرمایہ داری نظام کی ضرورت کے مطابق کارخانوں اور دفاتر کے لئے سستی لیبر فراہم کی جاسکے اور عشروں سے ان معاشروں میں عورت کا عملی کردار یہی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ فطرت سے بغاوت کے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے چنانچہ مغرب، خاندانی نظام کے تقریباً مکمل خاتمے کی صورت میں آج فطرت کے خلاف کی گئی اس بغاوت کے انجام سے دوچار ہے جس پر چیخ پکار تو سنائی دیتی رہتی ہے مگر اب اس گاڑی کو ریورس گیئر لگانا بہت مشکل ہے۔

عورت کی معاشی جدوجہد، خوشحالی کا ذریعہ؟

ایک عام تصور یہ ہے کہ عورت کو چوکوں اور بازاروں میں کھینچ لانے سے مغرب کا خاندانی نظام اور گھریلو سکون چاہے کتنا ہی برباد ہوگیا ہو مگر کم از کم معاشی طور پر عام آدمی بھی بہت خوشحال ہوگیا ہے، لیکن یہ بھی بس ایک خیال خام ہی ہے ۔ امریکہ کی وَرمونٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ہک گٹ مین(Huck Gutman) امریکہ میں معاشی عدم مساوات کے موضوع پر اپنے ایک مقالے میں جو پاکستان کے ممتاز انگریزی اخبار 'ڈان' میں بھی یکم جولائی 2002ء کو شائع ہوا، لکھتے ہیں:

''اگرچہ لگتا ہے کہ امریکہ کے لوگ ناقابل تصور امارت سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر امریکیوں کو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں ملتا اور ایک قابل لحاظ تعداد بھوکی رہ جاتی ہے۔ '' وہ کہتے ہیں کہ ''گزشتہ صدی کی آخری چوتھائی جس میں امریکی کارپوریشنوں نے پوری دنیا میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ بڑھا کر بھاری منافع کمایا، اس پوری مدت میں امریکی محنت کش کو کوئی اضافی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ امریکی کارکنوں کی اُجرتیں 1978ء سے ایک ہی سطح پر برقرار ہیں یا گھٹ رہی ہیں۔''

اُس کے مقابلے میں اعلیٰ افسران کے معاوضے بڑھتے چلے گئے اور اس تحقیق کے مطابق آج کیفیت یہ ہے کہ ان کی آمدنی ایک عام کارکن سے سات سو گنا تک زیادہ ہے۔ پروفیسر گٹ مین نے اسے زیادہ آسان پیرائے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر آدھے دن میں اتنا کما لیتا ہے جو ایک مزدور سال بھر میں بھی مشکل سے کما پاتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ایک فی صد امیر ترین لوگ ، نیچے کے 95 فی صد لوگوں سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ

''اس بات پر یقین کرنا ان لوگوں کے لیے مشکل ہوگا جو ٹی وی پرو گراموں میں امریکیوں کو اسپورٹس گاڑیاں چلاتے اور سجے سجائے گھروں میں بسا دیکھتے ہیں لیکن معاشی حقیقت یہ ہے کہ امریکی خاندانوں کے معیارِ زندگی میں جو اضافہ بھی ہوا ہے، وہ تقریباً سب کا سب عورتوں کے بڑے پیمانے پر ورک فورس میں شامل ہونے کا نتیجہ ہے، اور گھریلو اخراجات جو پہلے ایک کمانے والے کی آمدنی سے پورے ہوجاتے تھے، اب اُن کے پورے ہونے کا دارومدار دو افراد کی آمدنی پر ہے۔بچوں کی دیکھ بھال، گھر کا انتظام ، کھانا پکانا، یہ چیزیں اب روز مرہ کام کا حصّہ نہیں بلکہ اضافی بوجھ ہیں۔''29

واضح رہے کہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا بے انصافی پر مبنی نظام سرمایہ داری کے سبب گزشتہ کئی برس سے جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس کی وجہ سے عام آدمی کے حالات مزید ابتر ہوئے ہیں اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کے باعث پوری مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ عورت کا استحصال اس نظام کا ایک بنیادی وصف ہے۔ زوجیت، مادریت اور خانہ داری کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مردوں کی طرح معاشی جدوجہد بھی اس کی مجبوری بنا دی گئی ہے جبکہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ اور اسلام نے زندگی کے کسی مرحلہ پر، اور کسی بھی حیثیت سے ، عورت کواپنی مالی کفالت کا ذمہ دار نہیں بنایا، بلکہ یہ فرض اس کے قریبی مردوں کے سپرد کیا ہے، اسلام کے طبقہ نسواں پر اس سے بڑا کیا احسان ہوسکتا ہے!!

اسلامی نظام میں عورت کو گھر کی پناہ گاہ سے باہر آنے پر مجبور کیے بغیر تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اور اس کی مکمل کفالت اور تمام ضروریات کی تکمیل مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مسلم دنیا میں خاندان کا ادارہ اسی بنا پر آج بھی مستحکم ہے اور مسلمان معاشروں میں عورتیں بالعموم ان مسائل سے دوچار نہیں ہیں جن سے مغرب کی عورت کو شب و روز سابقہ درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی عورت اس سپروومن رول ماڈل سے بیزار ہوچکی ہے جس کا جھانسا دے کر اسے اپنے گھر کی جنت سے نکال کر کارگاہوں اور بازاروں کی زینت بنایا گیا ہے اور پانچ ہزار عورتوں سے انٹرویو کے بعد ان کی بھاری اکثریت کی آرا کی روشنی میں ٹاپ سانتے کی ایڈیٹر کو کہنا پڑا ہے کہ

Working women are heartily sick of these do it all role models. It is time for superwoman to be put back in her box.

''ملازمت پیشہ عورتیں ہر چیز کی ذمہ داری والے اس طرزِ زندگی سے شدید طور پربیزار ہوچکی ہیں، وقت آگیا ہے کہ سپروومن اپنے گھر واپسی کی راہ لے۔''30

ان تفصیلات سے واضح ہےکہ خدائی ہدایات سے بےنیاز ہوکر اور فطرت کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے مغربی تہذیب نے عورت کو مرد بنانے کی جو احمقانہ کوشش کی، اس کے نتیجے میں وہ نہ پوری طرح مرد بن سکی، نہ پوری عورت رہ سکی۔ اس بنا پر آج وہ شدید مسائل کا شکار اور اس صورت حال سے چھٹکارے کی آرزو مند ہے۔یہی کیفیت اسلام کی جانب مغربی خواتین کے رجوع کا ایک بنیادی سبب ہے جس کے شواہد آئے روز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔

[IPS، اسلام آباد سے حال ہی میں شائع ہونے والی
کتاب 'عورت،مغرب اور اسلام' کا ایک اہم باب]

حوالہ جات

http://www.guardian.co.uk/society/2009/jun/05/pregnant-women-targeted-redundancy?INTCMP=ILCNETTXT3487

http://www.guardian.co.uk/society/2011/aug/31/cmi-equal-pay-report

http://www.guardian.co.uk/business/2011/oct/13/shocking-lack-women-directors-ft

http://www.guardian.co.uk/society/2007/aug/22/guardiansocietysupplement.crimel

http://www..guardian.co.uk/uk/2011/jul/02/human-trafficking-laws- immigration-control

http://www.whiteribboncampaign.co.uk/Resources/violence_against _women

Walby, S.&Allen.J.(2004) Docestic violence, sexual assault and stalking: Findings from the British Crime Survey. Home Office. London.

HM Government(2007) Cross-government Action Plan on Sexual Violence and Abuse. Home Office. London.

Walby, S. & Allen, J. (2004) Domestic violence, sexual assault and stalking: Findings from the British Crime Survey. Home Office. London.

Amnesty UK (2005) Sexual Assault Research. Amnesty.

Provey, D. (2005) Crime in England and Wales 2003/2004: Supplementary Volume 1:Homicide and Gun Crime. Home Office Statistical Bulletin No.02/05. Home Office. London: Department of Health(2005) Responding to Domestic Abuse. DH. London. (from Statisics on Domestic Violence: www.womensaid.org.uk)

Dodd, T. et al (2004) Crime in England and Wales 2003-2004. Home Office. London (from 'Statistics on Domestic Violence' www.womensaid.org.uk

Forced Marriage: A Wrong not a Right, Home Office and Foreign & Commonwealth Office,2005

S Walby, The Cost of Domestic Violence

http://news. Bbc.co.uk/2/hi/uk_news/2752567.stm

http://zcommunications. org/violence-against-women-by-ian-sinclair

Gill Hague and Ellen Malos, Domestic violence. Action for change (New Clarion Press, Cheltenham, 2005) . P.6.

http://www.guardian.co.uk/uk/2007/july/21/ukerime.immigrationpolicy

Joanna Bourke. Rape: a history from 1860 to present Virago Press Ltd. London, 2007

http://www.guardian.co.uk/society/2007/jul/03/crime.penal

http://www.now.org/news/blogs/index/php/sayit/2010/02/11.working-conditions-for-women-inu-s-lag-behing-europe

http://now.org/press/04-11/04-12.html

http://www.ohchr.org/en/NewsEvents/pages/DisplayNews.aspx? News ID=11479&LangID=E

http://www.ohchr.org/English/bodies/hrcouncil/docs/17session/A.HRC. 17.26. Add.5_AEV.pdf

http://nowfoundation.org/issues/violence/Oct2011SRVAW webinar.html.

http://edition.cnn.com/2008/US/07/31/military.sexabuse/index.html?cref=rss_topstoris

http://extras.denverpost.com/justice/tdp_betrayat.pdf

http://www.dailymail.co.uk/news/article-123003/Sick-Superwoman.html

http://www.commondreams.org/views02/0701-05.htm

http://www.dailymail.co.uk/news/article-123003/Sick-Superwoman.html