اُمّتِ مسلمہ میں وجودِ شرک پر شبہات کا ازالہ

شرک سب سے بڑا گناہ ہے، اور انبیا کی دعوت کا مرکزی اور اساسی نکتہ توحید رہا ہے، جیساکہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے پتہ چلتا ہے۔ پاکستان بھر بالخصوص پنجاب کے بڑے شہروں میں شرک وبدعت کے اندھیرے مزید گہرے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ منبرومحراب پر بعض شخصیات نے چند سالوں سے شرک کے خاتمہ کی جدوجہد کی بجائے، نت نئے بہانوں سے اسے تحفظ دینے اور اس کے لئے عوامی جلسے منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ عقیدہ توحید کے نام سے جاری ان سیمینارز میں شرک کے مصداقات کو حیلے بہانے سے محدود ترکرنے، تعریفوں کے چکر میں عوام کو مبتلا کرکے ان کو جہالت میں ہی غرق رکھنے اور اس حوالے سے آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویؐہ کے مفہوم میں مغالطے پیش کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ان کے استدلال کا بہت بڑا محور یہ ہے کہ اُمتِ مسلمہ میں فی زمانہ شرک کا وجود ہی ناممکن ہے، اس لئے اس بارے میں حساس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں اور جوموحدین شرک کے خاتمہ کی کوششوں میں مصروف ہیں، اُن کے زعم باطل میں وہ ایک لاحاصل جدوجہد کررہے ہیں۔اس طبقہ کو علم دین سے غافل اور جاہل میڈیا کے ذمہ داران کی ہمدردیاں حاصل ہونے کی بنا پر اخبارات اور ٹی وی سکرین کے ذریعے بھی اس غلط فکر کو لگاتار عام کیا جارہا ہے۔

توحید کےسورج کو گہنانے کی ان مذموم کوششوں کے علمی جواب کے لئے ماہنامہ 'محدث' میں دوتین سال کے عرصے میں کئی ایک تفصیلی اورتحقیقی مضامین شائع کئے گئے ہیں، جن میں اکتوبر 2010ء میں 'اُمتِ مسلمہ میں شرک کا وجود؟، جون 2011ء میں 'روایتِ شداد بن اوس اور شرکِ اکبر کاوجود، جولائی 2012ء میں'اُمّتِ محمدیہ میں شرک اور جہالت کے اندھیرے' کے بعد زیر نظر تحقیقی مضمون شمارہ ہذا میں شائع کیا جارہا ہے۔ چونکہ یہ مضامین ایک مخصوص طبقے کے پیش کردہ شبہات کی وضاحت کے لئے لکھے گئے ہیں، اس لئے ان میں جزوی مماثلت بھی پائی جاتی ہے، تاہم ہر ایک مضمون اپنی جگہ جداگانہ موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ مشترکہ عنوانات کی نشاندہی حاشیہ میں بھی کردی گئی ہے اور تکرار سے بچنے کے لئے بعض دلائل کو حذف بھی کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد آئندہ بھی عقیدہ توحید کے حوالے سے جاری گمراہ کن، مشرکانہ کوششوں کے علمی محاسبہ اور وضاحت کے لئے بھی مزید مضامین شائع کئے جاتے رہیں گے۔ان شاء اللہ، اگر قارئین کے ذہنوں میں اس کے متعلق سوالات ہوں تو وہ ادارہ محدث کو ارسال کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُمّتِ اسلامیہ میں شرک کا خاتمہ ہو اور توحید وسنت کا پرچم ہرسو لہرائے۔ ح م

قرآن و سنت کے مجموعی دلائل کو سامنے رکھیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اُمتِ مسلمہ میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گےجو حق پر قائم رہ کر توحید کی نعمت کو سینوں سے لگائے رکھیں گے اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو راہِ راست سےبھٹک کر شرک و خرافات کی ظلمت میں صراطِ مستقیم کوکھو دیں گے۔ماضی میں لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو بھی یہی حقیقت کھلتی ہے ۔علما و ائمہ دین نے اپنے اپنے زمانوں میں اس صورتِ حال کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کو آشکار کیا اور اس کے سدباب کے لئے کوششیں بھی کیں اور عصر حاضر میں بھی حالات یہی گواہی دے رہے ہیں بلکہ اب تو زہر ہلاہل کو قند کے نام سے پیش کرکے یہ دعویٰ بھی کیا جانے لگا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں شرک پایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان اس میں مبتلا ہوسکتا ہے اور نہ ہمارے اس دور میں اس کا کوئی خوف ہے لیکن جب مدمقابل کے جوابات اور دلائل کے سامنے اُنہیں اپنی بے بسی صاف نظر آتی ہے تو مختلف پینترے بدلتے ہوئے موجود دور میں اس ا ُمّت کے اندر شرک ِخفی پائے جانے کا اقرار کرتے ہوئے شرک اکبر کو قربِ قیامت کے سا تھ خاص قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی مجبور ہوکر ہمارے اس دور میں بھی شرک اکبر کے پائے جانے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر کہیں شرک اکبر ہو ا بھی توقلیل مقدار میں ہوگا یعنی نہ ہونے کے برابر،اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس دور میں یہ امت مسلمہ کا (اہم) مسئلہ ہو۔اور پھر جاہل عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے بعض احادیث کامفہوم و مطلب بگاڑ کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں یہی تو خالص توحید ہے لیکن حقیقت میں یہ ایسی شیطانی چال ہے کہ لوگوں کے سامنے بَدی بھی نیکی کے رنگ میں اس طرح پیش کی جائے کہ دلوں سے احساسِ گناہ ہی جاتا رہے۔

نبی اکرم ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق اس اُمت میں سے بھی لوگ پہلی اُمتوں کے نقش قدم پرچل کر شرک و بدعات کی گمراہی میں مبتلا ہوگئے، اس کا مشاہدہ مزارات، آستانوں اور درگاہوں پر بخوبی کیا جاسکتا ہے اور اس کو سندِ جواز بخشنے بلکہ صراطِ مستقیم قرار دینے کے لئے اس کے دل دادہ حضرات جو عذرِ گناہ تراش رہے ہیں، یہ بھی اہل علم و نظر پر مخفی نہیں ہے۔ سردست بعض حضرا ت کی طرف سے اپنے اس دعویٰ کے اثبات کے لئے جو بعض شبہات پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے ،وہ تجزیہ سمیت ہدیہ قارئین1 ہیں:

مغالطہ نمبر1

عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ احادیث میں جو یہ خبر دی گئی ہے کہ ''اس امّت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو پہلی اُمّتوں کے نقش قدم پر ایسے چلیں گے جیسے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔''2 تو اس سے مراد دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ شرک کے علاوہ باقی چیزوں میں تو یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلیں گے، البتہ شرک میں ایسا نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کا کوئی خوف ہےلیکن حقائق ان کے اس دعویٰ کو رد کردیتے ہیں:

1. آپﷺ اپنی بیماری کی حالت اور زندگی کے آخری ایام میں پہلی قوموں کے اپنے انبیا و صلحا کی قبروں کوسجدہ گاہ بنانے کا تذکرہ کرتے اور ان پر لعنت کرتے ہیں اور اپنی اُمت کو ایسا کرنے سے ڈراتے اور منع فرماتے ہیں اور اسی خوف کی وجہ سے آپﷺ کی قبر کو کھلا نہیں چھوڑا گیا۔3

2. مزید برآں درج ذیل حدیث میں بھی بنی اسرائیل کے شرک کا تذکرہ کرنے کے بعد اس اُمت کےلوگوں کی اس میں ان کی پیروی کرنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے:

عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا عَنْ مَكَّةَ مَعَ رَسُولِ الله ﷺ إِلَى حُنَيْنٍ قَالَ: «وَكَانَ لِلْكُفَّارِ سِدْرَةٌ يَعْكُفُونَ عِنْدَهَا وَيُعَلِّقُونَ بِهَا أَسْلِحَتَهُمْ يُقَالُ لَهَا ذَاتُ أَنْوَاطٍ قَالَ: فَمَرَرْنَا بِسِدْرَةٍ خَضْرَاءَ عَظِيمَةٍ قَالَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ الله! اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ: قُلْتُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةً قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ، إِنَّهَا لَسُنَنٌ لَتَرْكَبُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ سُنَّةً سُنَّةً»4

اور یہی حدیث معجم کبیر میں : "ونحن حدیثو بکفر وکانوا أسلموا یوم الفتح" 5کے الفاظ سے مروی ہے:

''ابوواقد لیثی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نئے مسلمان ہونے والے لوگ (بھی) آپﷺ کے ساتھ مکہ سے (جنگِ) حنین کی طرف نکلے اور کفار کے لئے بیری کا درخت تھا جسے 'ذات انواط' کہا جاتا تھا ،جس کے پاس وہ عبادت کےلئے ٹھہرتے اور اس پر اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، پس ہم بھی ایک بہت بڑی سرسبز وشاداب بیری کے پاس سے گزرے تو کہا: اے اللہ کے رسولﷺ آپ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر کردیں تو رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم نے ایسی بات کہی ہے جیسی کہ موسی ٰ کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لئے ایک الٰہ مقرر کردے جیسا کہ ان کے لئے الٰہ ہیں تو موسیٰ نے کہا: یقیناً تم جاہل قوم ہو۔''

(پھر آپﷺ نے فرمایا:) یادرکھو تم لوگ ضرور بالضرور پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے اور ان کا ایک ایک طریقہ (یعنی ہر ایک طریقہ) اختیار کرکے رہو گے۔

وَثن کی عبادت: اور انہی احوال و خطرات کے پیش نظر آپﷺ دعا کیا کرتے تھے:

3. «اللَّهُمَّ لَاتَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا لَعَنَ الله قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَأَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»6

شیخ عبدالحق حنفی دہلوی حدیث کا ترجمہ یوں لکھتے ہیں:

فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ»7

''اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کو پوجنے لگیں۔ پھر فرمایا: اس قوم پر خدا کا غصہ نازل ہوا جس نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔''8

اور غلام رسول سعیدی بریلوی اس كا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

''اور فرمایا: ''اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا جس کی عبادت کی جائے۔''9

علامہ طیبی اور ان سے ملا علی قاری حنفی اسی حدیث کے تحت راقم ہیں:

أی لاتجعل قبري مثل الوثن المعبود في تعظیم الناس وعودهم للزیارة إلیه بعد بدئهم واستقبالهم نحوه في السجود کما نسمع ونشاهد الآن في بعض المزارات والمشاهد10

''اے اللہ ! میری قبر کو بت کی طرح نہ بنا دینا کہ جس طرح لوگ بتوں کی تعظیم کرتے ، بار بار اُن کی زیارت کرتے اور سجدوں میں ان کی طرف توجہ کرتے ہیں، جیسا کہ بعض مزارات و مشاہد کے بارے میں ہم سنتے اور دیکھتے ہیں۔

4. حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لاتتخذوا قبري وثنًا»11

''(میری اُمّت کے لوگو!) میری قبر کو بت نہ بنانا۔''

یاد رہے کہ احمد رضا خان بریلوی الزواجر عن اقتراف الکبائر(جلد اول،كتاب الصلوة) کے حوالے سے لکھتے ہیں:

قوله ﷺ: «لا تتخذو اقبري و ثنا یعبد بعدي» أي لا تعظموه تعظیم غیرکم لأوثانهم بالسجود له أو نحوه فإن ذلك کبیرة بل کفر بشرطه

''رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے مزارِ اقدس کو پرستش کا بت نہ بنانا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی تعظیم سجدہ یا اس کے مثل نہ کرنا جیسے تمہارے اغیار بتوں کے لئے کرتے ہیں کہ سجدہ ضرور کبیرہ ہے بلکہ نیت عبادت ہو تو کفر ہے۔ والعیاذ بالله12

5. اورفرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاجتَنِبُوا الرِّ‌جسَ مِنَ الأَوثـٰنِ وَاجتَنِبوا قَولَ الزّورِ‌ ٣٠ ﴾... سورة الحج

''تو دور ہو بتوں کی پالیدگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔''

وَثن کامفہوم: امام ابن عبدالبرراقم ہیں:

''وثن بت ہے ،خواہ سونے چاندی کی مورتی ہو یا کسی اور چیز کامجسمہ۔ اللہ کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جائے ،وہ وثن ہے خواہ وہ بت ہو یا کوئی اور چیز۔عرب لوگ بتوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے اور ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ ﷺ اپنی اُمت پر خوف زدہ تھے کہ یہ بھی (ان چیزوں میں) گذشتہ اُمتوں کےنقش قدم پر نہ چل پڑیں جب ان میں کوئی نبی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر کے گردا گرد عبادت کے لئے جم کر بیٹھ جاتے جیسا کہ بت کے ساتھ کیا جاتا ہے تو نبیﷺ نے دعا کی، اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ جس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جائے، سجدہ کیا جائے اور عبادت بجا لائی جائے، ان لوگوں پر اللہ کا شدید غضب نازل ہوا جنہوں نے ایسا کیا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ اور ساری اُمت کو گزشتہ امتوں کے اس فعل سے ڈرا رہے تھے جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور ان کو قبلہ و مسجد بنا لیا جیسا کہ بت پرست لوگوں نے بتوں کے ساتھ کیا، وہ ان کو سجدہ کرتے، اُن کی تعظیم بجا لاتے تھے ، اور یہ شرکِ اکبر ہے، اور نبیﷺ اس کام میں موجود اللہ کی ناراضگی اور غضب کی (اپنی امت کو)خبر دیتے ہیں اور اس بات کی بھی کہ آپﷺ ان کاموں کو پسند نہیں کرتے اور آپﷺ اپنی اُمت کے بارے میں فکر مند بھی تھے کہ یہ بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی میں ان طریقوں کو نہ اپنا لیں اور آپﷺ اہل کتاب اور کفار کی مخالفت کو پسند کرتے تھے اور آپ کو اپنی اُمت پر ان کی اتباع کاخوف بھی تھا۔کیا تم لوگ آپﷺ کے اس فرمان کو نہیں دیکھتے جو عار دلانے اور ملامت کرنے کے انداز میں ہے:''تم ضرور پہلے لوگوں کےطریقوں پر چلو گے جیسا کہ جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے حتیٰ کے ان میں سے کوئی سانڈے کے بِل میں داخل ہوا تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے۔''13

غلوّ: اورپہلی اُمتوں کی پیروی میں شرک و خرافات میں مبتلا کردینے والی اس ناحق غلو آمیز تعظیم میں اُمت کے مبتلا ہوجانے کے خوف کی وجہ سے ہی آپﷺ نے فرمایا تھا:

6. «لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ الله وَرَسُولُهُ»14

''مجھے حد سے مت بڑھانا جیسا کہ عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریمؑ کو حد سے بڑھا دیا تھا، میں تو صرف اس کا ایک بندہ ہوں بس تم یہی کہا کرو کہ (محمدﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔''

اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لا تَغلوا فى دينِكُم غَيرَ‌ الحَقِّ وَلا تَتَّبِعوا أَهواءَ قَومٍ قَد ضَلّوا مِن قَبلُ وَأَضَلّوا كَثيرً‌ا وَضَلّوا عَن سَواءِ السَّبيلِ ٧٧ ﴾... سورة المائدة

''اے محمدﷺ! آپﷺ ان سے کہہ دیں کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو مت کرو اور ایسی قوم کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوچکی ہے۔ اُنہوں نے بہت زیادہ لوگوں کو گمراہ کیا اور وہ خود بھی راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔''

ا ور یہ ناحق غلو ہی تو تھا کہ انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، اُن پر عمارتیں بنائیں، عبادت خانے تعمیر کئے۔یہ لوگ وہاں دعائیں کرتے، منتیں مانتے، نذرونیاز پیش کرتے، چڑھاوے چڑھاتے اور حج کی طرح عرس و میلے لگاتے ، ان بزرگوں اور ہستیوں کو فوق الفطرت اختیارات و صفات کا مالک سمجھتے تھے ۔اور عرب کے لوگ بھی زمانہ جاہلیت میں ایسے ہی کیا کرتے تھے اور پھر ذاتی نہیں بلکہ عطائی اختیارات و صفات ہی سمجھتے تھے اور بعض نے تو خدا ہی کہہ ڈالا، اور یہی چیزیں پہلی قوموں کی اتباع میں آج بھی لوگو ں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

7. اسی طرح سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں،رسول اللہ ‌ﷺنے فرمایا:

«لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ»15

اس حدیث کا ترجمہ شیخ عبدالحق حنفی دہلوی یوں کرتے ہیں:

''اپنے گھروں کو قبروں کی مانند نہ بناؤ اور میری قبر پر عید اور خوشی نہ کرو البتہ مجھ پر درود بھیجو اس لئے کہ تمہارا درود میرے پاس پہنچتا ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔''16

اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:

هٰذا إشارة اليٰ سدّ مدخل التحریف کما فعل الیهود والنصاری بقبور أنبیائهم و جعلوها عیدًا و موسمًا بمنزلة الحج17

''اس حدیث میں تحریف کے اس دروازے کو بند کرنے کی (کوشش) کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنےنبیوں کی قبروں کے ساتھ سلوک کیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے انہیں حج کی طرح موسم اور عید بنا ڈالا تھا۔''

علامہ آلوسی حنفی لکھتے ہیں:

ثم إجماعًا فإن أعظم المحرمات وأسباب الشرك الصلوٰة عندها واتخاذها مساجدا وبناؤها علیه18

''اس پر اجماع ہے کہ سب سے بُری، حرام اور شرک کے اسباب میں سے مزارات کےپاس نماز پڑھنا اور ان پر مسجدیں اور عمارتیں بنانا ہے۔''

چنانچہ احمد رضا خان صاحب بریلوی 'طواف' کے متعلق راقم ہیں:

'' وہ بھی مثل نماز عبادت ہے۔''19

آستانوں اور درگاہوں پر ہونے والے عرس و میلہ جات جس طرح حج کی مانند موسم اور عید کا منظر پیش کرتے ہیں اور پھر وہاں پر ہونے والے شرکیہ افعال و عبادات بنی اسرائیل کی طرح اس اُمّت کے لوگوں میں بھی خرافات و شرکیات در آنے پر روزِ روشن کی طرح واضح ثبوت ہیں۔چنانچہ سلطان باہو کے مزار پر طواف بلکہ گنتی کرکے سات چکر پورے کیے جاتے ہیں اور پھر مزار پر نذر پوری کرنے، نیاز دینے، منت مانگنے اور دعا کرنے کے بعد ساتھ ہی احاطہ میں موجود بیری کے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بےاولاد اور اولادِ نرینہ سے محروم حضرات اپنے دامن پھیلائے گھنٹوں اس اُمید پر بیٹھے رہتے ہیں کہ جس کے دامن میں بیر کا پھل گرے گا ، بابا جی اسے بیٹے سے نوازیں گے اور اگر پتہ گرے گا تو بیٹی ملے گی، عرس کے دنوں میں تو چوبیس گھنٹے یہی صورتِ حال ہوتی ہے اور راقم اس کا عینی شاہد ہے۔

اور شہباز قلندر کے مزار پر تو باقاعدہ حج کیا جاتا اور اسی نیت سے اس کی طرف سفر بھی کیا جاتا ہے اور 'حج فقیر بر آستانہ پیر' کے نام سے تو کتابیں بھی موجود ہیں اور لاہور میں گھوڑے شاہ کے مزار پر تو گھوڑوں کے بت رکھے ہوئے ہیں جن کی پوجا پاٹ ہوتی ہے ،بالخصوص عورتیں پیش پیش نظر آتی ہیں اور پاکپتن میں تو بہشتی دروازہ گزر کر لوگ جنت میں بھی چلے جاتے ہیں۔

دوسرا مغالطہ

اور پھر اُمّت مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کو ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرا نبی مبعوث ہوتا تھا۔ اب اگر مسلمانوں میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے تو پھرنبوت کا دروازہ بندنہ کیا جاتا اورخصوصًا آپﷺ کی بعثت ہمارے اس دور میں ہونی چاہیے تھی۔ جبکہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں تو اُمّت میں شرک بھی نہیں پایا جاسکتا ۔

محترم قارئین! شرک کے لئے بہانے تلاش کرنے والے حضرات کی اس نرالی منطق پر آپ تعجب کیے بغیر نہ رہ سکیں گے کیونکہ شرک کی طرح ارتداد، قتل ناحق، زنا، چوری وغیرہ دیگر جرائم سے منع کرنا اور لوگوں کی اصلاح بھی انبیاے کرام﷩ کے فرائض بعثت میں شامل ہوتا تھا۔ قوم کو خاص طور پر ناپ تول میں کمی و بیشی سے منع کرنا حضرت شعیب﷤18 کی اور اسی طرح قوم کو لواطت سے منع کرنا حضرت لوط19 کی بعثت کے اہم مقاصد میں شامل تھا تو کیا ان مفکرین مغالطہ بازی کی جانب سے اُمتِ محمدیہ میں شرک کی طرح اُمّت کے لوگوں میں پائے جانے والے دیگر جرائم کے وجود سےبھی انکار کردیا جائے گا یا پھر ان کی اصلاح کے لئے کسی دوسرے نبی کی آمد کاانتظار کیا جائے؟ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا اور شرک سمیت دیگر جرائم بھی اس اُمّت کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں اور کوئی بھی صاحبِ علم و بصیرت اس کا انکار نہیں کرسکتا اور آپﷺ کے بعد دین اسلام قرآن وسنت کی صورت میں محفوظ و موجود ہے اور اس کی راہنمائی میں دین کی تبلیغ و اشاعت، کافروں کو دعوتِ اسلام اور شرک سمیت تمام خرافات اور بُرائیوں سے اُمّت کی تطہیر و اصلاح کی ذمہ داری انبیا کے حقیقی وارث علماے ربانی کے کندھوں پر ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ ''اب دوسرا نبی نہیں تو اس اُمّت میں شرک بھی نہیں پایا جاسکتا...''علم و دانش سےبھی خالی اور سراسر دھوکہ ہے اور لوگوں کے حالات و عقائد بھی اس کی نفی کرتے ہیں۔

تیسرا مغالطہ

اُمت مسلمہ میں شرک کے پائے جانے کا انکار کرنے والوں کی جانب سے عقبہ بن عامرؓ سے مروی اس حدیث کو... جس میں آپﷺ نےفرمایا:

«وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَتنَافَسُوا فِيهَا»20

''اور اللہ کی قسم! بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن مجھے تم پر یہ خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔''21

پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ اُمّت مسلمہ کے لوگوں میں شرک نہیں پایا جاسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی خوف ہے لیکن یہ حدیث ان حضرات کے مفاد پر ہرگز دلالت نہیں کرتی کیونکہ دوسرےدلائل 22اور اُمّت کےحالات کو سامنے رکھیں تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُمّت مسلمہ مجموعی طو رپر مشرک نہیں ہوگی، البتہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو شرک کے مرتکب ہوں گے۔

فقہا وعلما کا موقف

(الف) علامہ عینی حنفی اس حدیث کے بارے میں راقم ہیں:

قوله «ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدي» معناه علىٰ مجموعکم لأن ذلك قد وقع من البعض والعیاذ بالله تعالىٰ23

(ب) ملاعلی القاری حنفی راقم ہیں :

«وإني لست أخشى علیکم» أی علىٰ مجموعکم «أن تشرکوا بعد» لأن ذلك قد وقع من بعض24

(ج) علامہ ابوالعباس احمدبن محمد قسطلانی فرماتے ہیں:

أی ما أخاف على جمیعکم الاشراك بل على مجموعکم لأن ذلك قد وقع من البعض25

(د) حافظ ابن حجر عسقلانی رقم طراز ہیں:

"قوله «ما أخاف علیکم أن تشرکوا» أی على مجموعکم لأن ذلك قد وقع البعض أعاذنا الله تعالىٰ26

(ھ) ان تمام عبارات کا ترجمہ ایک جیسا ہی ہے جو کہ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب بریلوی کی درج ذيل عبارت میں آجاتا ہے:

''آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہوجاؤ گے،اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے،العیاذ بالله27

حدیثِ عمر وبن عوف کے تناظر میں

محترم قارئین! عقبہ بن عامرؓ سے مروی اس مذکورہ بالا حدیث کو عمرو بن عوف انصاریؓ سے مروی درج ذیل حدیث کے تناظر میں بھی دیکھیں اور ان دونوں حدیثوں کا اُسلوب بھی بالکل ایک جیسا ہی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«فَوَ اللهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشٰى عَلَيْكُمْ وَلَكِنْ أَخَشٰى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا»28

''اللہ کی قسم! مجھے تم پر یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم فقیر بن جاؤ گے لیکن مجھے تم پر یہ خطرہ ہے کہ تم پر دنیا فراخ کردی جائے گی۔''

تو کیا کوئی صاحبِ علم و بصیرت اس حدیث کی بنا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں فقر و تنگ دستی نابود ہے، کوئی مسلمان فقیر و تنگ دست نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا خطرہ اور اندیشہ ہے؟ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے : ''مجھے تم پر تنگ دستی کا خوف نہیں ہے ۔''لیکن کوئی بھی عقل مند ایسی بات نہیں کہہ سکتا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُمت کے اندر فقر و فاقہ اور اس میں مبتلا فقیر لوگ موجود ہیں بلکہ ذلّت آمیز غربت اور ہلاکت خیز تنگ دستی بھی موجود ہے حتیٰ کہ اس وجہ سے خود کشی کے واقعات بھی بکثر ت ہوچکے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں ۔ تو کیا یہ مفکرین مغالطہ بازی اُمت مسلمہ میں فقر و تنگ دستی اور غریب لوگوں کےوجود کا بھی انکار کردیں گے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں تو اُمّت کے مجموعی طور پر فقر و تنگ دستی میں مبتلا نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مسلمان مالدار بھی ہوں گے اور فقیر و تنگ دست بھی البتہ ایسے نہیں ہوسکتا کہ ساری اُمت ہی فقیر وتنگ دست ہوجائے۔

اسی طرح شرک کے معاملے میں بھی ساری کی ساری اُمّت مسلمہ کے مجموعی طور پر مشرک نہ بننے کے بارے میں عدم خوف کا اظہار کیا گیا ہے کہ اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو شرک میں مبتلا ہوجائیں گے اور ایسے بھی کہ جو توحید پر قائم رہیں گے، جیسا کہ علامہ عینی حنفی، ملا علی قاری حنفی، علامہ قسطلانی، حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ اور غلام رسول سعیدی بریلوی کی تصریحات بیان ہوچکی ہیں۔29 بلکہ آخر الذکر غلام رسول صاحب سعیدی بریلوی نے (دوسرے دلائل کے تناظر میں ) حدیث کا ترجمہ ہی یوں کیا ہے:

''اور اللہ کی قسم بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم [سب] مشرک ہوجاؤگے۔''30

اور ان سب نے یہ گواہی بھی دی ہے کہ اس اُمت کےلوگوں میں بھی شرک واقع ہوچکا ہے۔اور اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :

«لَايَقْبَلُ الله مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا حَتَّى يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ»31

''اللہ تعالیٰ مشرک سے جو اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرے، کوئی عمل قبول نہیں فرماتے، یہاں تک کہ وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ نہ مل جائے۔''

یہ حدیث بھی مسلمان لوگوں کے شرک میں مبتلا ہوجانے کے بارے میں نص صریح ہے اور ''اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرے'' اس بات پر واضح دلیل ہے کہ ''یہاں تک کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں کےساتھ مل جانے'' سے مراد یہ ہے کہ شرکیہ عقائد و اعمال اور طور طریقے چھوڑ کر اسلامی عقائد و اعمال کو اپنا لے، اور ''اسلام لانے کے بعد شرک کرنے والے کے کسی عمل کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے'' اس بارے میں واضح ہے کہ یہاں شرکِ اکبر اور اس کے مرتکب لوگوں کی با ت ہورہی ہے کیونکہ شرکِ اکبر پر موت کی صورت میں انسان کے باقی تمام اعمال بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔32

جبکہ شرکِ اصغر کی صورت میں وہی عمل ضائع ہوگا جس میں اس کی آمیزش ہوگی نہ کہ باقی بھی تمام اعمال۔ اور مسلمان لوگوں کے شرک میں مبتلا ہونے کے بارے میں درج ذیل آیتِ کریمہ بھی نص صریح ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

﴿وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ١٠٦﴾... سورة يوسف

''اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔''33

چوتھا مغالطہ

اُمتِ مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کےاپنے من چاہے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے عبدالرحمن بن غنم سے مروی ایک طویل روایت بھی بیان کی جاتی ہےجس میں وہ عبادہ بن صامت اور ابودرداء سے اور یہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ

''شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔''34

اوراسی طرح حضرت جابر سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ اَیسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ»35

اور یہ حدیث مسند احمد(3؍384) میں "المسلمون" کےلفظ سے بھی مروی ہے۔ لیکن یہ حدیث بھی ان حضرات کے اس دعویٰ باطلہ کی تائید کرنے سے قاصر ہے۔ نمازی اور مسلمان کے الفاظ سے ان حضرات کا یہ استدلال ہے کہ ''شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں ہوئی بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ہے ۔''

لیکن یہ دعویٰ سراسر کم علمی اور مغالطہ آرائی ہے کیونکہ اُصولِ فقہ کامعروف اُصول ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتاہے اور اس حدیث میں جزیرہ عرب حتی کہ مکہ مکرمہ کی بھی قید موجود ہے اور پھر شیطان کی اس مایوسی کا بھی ایک خاص پس منظر ہے ۔ یہ اور اس معنیٰ کی احادیث مختلف قیود کے ساتھ ہی ذکر ہوئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

(الف) جزیرہ عرب

سیدنا جابر سے مروی یہی حدیث صحیح مسلم میں 'جزیرہ عرب' کی قید کے ساتھ مروی ہے، جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ»36

''یقیناً شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرۂ عرب میں نمازی اس کی عبادت کریں، لیکن وہ تمہارے درمیان شرانگیزی کرے گا۔''

اور 'حلیۃ الاولیا' (8؍282، رقم 12208) میں یہی حدیث بأرضکم هذه کے الفاظ سے بھی مروی ہے اور ابوہریرہ سے بھی بأرضکم هٰذهکے الفاظ کی قید کے ساتھ مروی ہے۔37

(ب) حجۃ الواداع

اور پھرمزید یہ بھی کہ یہ حدیث حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں آپﷺ کے خطبے کا ایک حصہ ہے۔حضرت ابوحرہ رقاشی اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:

كُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ الله ﷺ فِي أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْريقِ أَذُودُ عَنْهُ النَّاسَ فَقَالَ:...»

''میں ایام تشریق کے درمیانی دن (یعنی 12 ذوالحجہ کو) رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے، لوگوں کو آپﷺ سے دور ہٹا رہا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا: (پھر خطبہ بیان فرماتے ہیں جس میں یہ الفاظ بھی ہیں) «ألا إن الشيطان قد أيس أن يعبده المصلّون»38

اورسیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب میں فرمایا:

"قد یئس الشیطان أن یعبد بأرضکم ولکن رضی أن یُطاع فیما سوٰى ذلك مما تحاقرون من أعمالکم"39

''شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ تمہاری اس سرزمین میں ا س کی عبادت کی جائے، تاہم اسے خوشی ہے کہ تم اپنی دانست میں چھوٹے اعمال میں اس کے پیروی کروگے۔''

(ج) شہر مکہ

عمرو بن احوصؓ فرماتے ہیں: سمعت النبي ﷺ یقول في حجة الوداع

''میں نے نبیﷺ کو سنا، آپﷺ حجۃ الوداع کےموقع پر فرما رہے تھے( پھر اس موقع پر دیا جانے والا خطبہ بیان فرماتے ہیں جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) «ألا إنّ الشیطان قد أیس أن یعبد في بلدکم هذا أبدا»39

اور ملا علی قاری حنفی راقم ہیں:

«في بلدکم هذا» أی مکة «أبدًا» أي علانیة40

قارئین کرام! جزیرہ عرب میں کفرکا زور ٹوٹ چکا تھا، اللہ کا قانون عملاً نافذ اور توحید کا غلبہ تھا، آستانے اُجڑ گئے، شرک کے اڈّے برباد ہوگئے اور ان کے نشانات کو خاک میں ملا دیا گیا تو نبی کریمﷺ کی زیر قیادت مکہ میں حجۃ الوداع کےموقع پر توحید سے لبریز اور ایمان میں مضبوط صحابہ کرام کا عظیم الشان اجتماع اسلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھا اور دوسری طرف ابلیس لعین کی ناکامی اور بے بسی تھی اور ان پاکباز ہستیوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسا کر زمانہ جاہلیت کی طرح اس علاقے میں پھر سے کفر و شرک کا غلبہ و تسلط قائم كرنے اور اُمت محمدیہ کو مجموعی طور پر شرک میں مبتلا کردینے كى ابلیس لعین کو کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی اور اس کی سوچ پر مایوسی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے تو اس موقع پر آپﷺ نے شیطان کی اس وقت کی اسی ذہنی کیفیت و مایوسی کو بیان کیا ہے کہ اس وقت اس کی حالت یہ ہے، چنانچہ حافظ ابن رجب ﷫ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

إنه يئس أن يجتمعوا كلهم علي الكفر الأكبر41

''شیطان اس بات سے مایوس ہوا ہے کہ(اس اُمت کے ) سب (لوگ)کفر اکبر پر جمع ہوجائیں۔''

تطبیق احادیث

شیخ محمد بن صالح العثیمین  ''قبیلہ دوس کی عورتوں کے ذی الخلصۃ کا طواف کرنے ''اور ''شیطان کے جزیرہ عرب میں اپنی عبادت سے مایوسی'' ان دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

إن یأس الشیطان أن یعبد في جزیرة العرب لا یقتضی عدم الوقوع لأنه لا یعلم الغیب، فالشیطان لما رأی تخلیص الجزیرة من الشرك وتوطید دعائم التوحید ظن أن لا شرك في الجزیرة بعد هذا ولکن النبي ﷺ الذي ینطق بالوحی من الله تعالىٰ أخبر أنه سیکون ذلك. نیز راقم ہیں:

یأس الشیطان أن یعبد في جزیرة العرب لا یدل علىٰ عدم الوقوع لأنه لما حصلت الفتوحات و قوي الإسلام و دخل الناس في دین أفواجًا أیس أن یعبد سوٰی الله في هذه الجز یرة فالحدیث خبرعما وقع في نفس الشیطان ذلك الوقت ولکنه لا یدل على انتفائه في الواقع42

''شیطان کی اپنی عبادت سے مایوسی اس کے عدم وقوع پر دلالت اور اس کا تقاضا نہیں کرتی کیونکہ جب فتوحات (عام ) ہوئیں، اسلام مضبوط ہوگیا ، لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے اور شیطان نے جزیرہ عرب کوشرک سے پاک اور (اس میں) توحید کے ستونوں کو مضبوط دیکھا تو (ان احوال کے پیش نظر اس نے) یہ گمان کیا کہ اس کے بعد جزیرہ عرب میں شرک نہیں ہوگا اور اللہ کے سوا اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا تو اس حدیث میں شیطان کے دل میں واقع ہونے والی اس مایوسی کی خبر دی گئی ہے لیکن یہ حقیقت میں شرک کی نفی پر دلالت نہیں کرتی اور نہ ہی وہ غیب جانتا تھا، لیکن نبی ﷺ جو وحی کے مطابق بولتے ہیں،آپ ﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ عنقریب شرک واقع ہوجائے گا۔''

جزیرہ عرب میں شرک

ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ وَذُو الْخَلَصَةِ طَاغِيَةُ دَوْسٍ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَها فِي الْجَاهِلِيَّةِ»43

'' قیامت قائم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ دوس قبیلے کی عورتوں کے سرین ذوالخلصۃ پر حرکت کریں گے، ذوالخلصۃ دوس قبیلے کا طاغوت (بت) تھا جس کی وہ زمانۂجاہلیت میں عبادت کرتے تھے۔''

سرین ہلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بت کا طواف اور اس کی بندگی کریں گی۔

ذوالخلصۃ کا تعین اور محل وقوع: زمانہ جاہلیت میں ذوالخلصۃ نام سے دو بت معروف اور پوجے جاتے تھے۔ ایک تو یمن میں قبیلہ خثعم وغیرہ کا معبود تھا جسے کعب یمانیہ اور کعب شامیہ بھی کہا جاتا تھا اور اسے جریر بن عبداللہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے توڑ کر جلا ڈالا تھا۔44

دوسرا دوس وغیرہ کا بت تھا۔ ابوہریرہؓ سے مروی مندرجہ بالا حدیث میں یہی مراد ہے، دوس ابوہریرہؓ کا قبیلہ تھا اور یہ دوس بن عدثان بن عبداللہ بن زہران کی طرف منسوب تھے اور ان کا نسب اَزد تک پہنچتا ہے۔اس بت کو عمرو بن لحی نے مکہ کے نشیبی علاقے میں نصب کیا تھا: وکانوا یلبسونه القلائد ویجعلون علیه بیض النعام ویذبحون عنده''اور یہ لوگ اس کو قلادے پہناتے ، شتر مرغ کے انڈے چڑھاوے چڑھاتے اور اس کے پاس جانور ذبح کیا کرتے تھے۔''45

شیخ یوسف بن عبداللہ بن یوسف الوابل لکھتے ہیں:

فأما صنم دوس فهو المراد في هذا الحدیث ولا یزال مکان هذا الصنم معروفًا إلى الآن في بلاد زهران (جنوب الطائف) في مکان یقال له (ژوق) من بلاد دوس و یقع ذوالخلصة قریبًا من قریة تسمی رمس وکان ذوالخلصة یقع فوق تل صخري مرتفع يحده من الشرق شعب ذی الخلصة ومن الغرب تهامة46

''اس حدیث میں مراد قبیلہ دوس والا بت ہی ہےاور اس بت کا مقام آج بھی معروف ہے جو طائف کے جنوب میں زہران کے علاقے میں ژوق نامی بستی میں ہے جہاں قبیلہ دوس کی آبادی تھی ، ذوالخلصۃ اس گاؤں کے قریب ہے جس کا نام رمس ہے۔ اور یہ ذوالخلصۃ ایک بلند چٹانی ٹیلے پر واقع تھا جس کے مشرق میں ذی الخلصۃ کی گھاٹیاں اور مغرب میں تہامہ ہے۔''

نیز رقم طراز ہیں:

وقد وقع ما أخبر به النبي ﷺ في هذا الحدیث، فإن قبیلة دوس وماحولها من العرب قد افتتنوا بذی الخلصة عند ما عاد الجهل إلى تلك البلاد، فأعادوا سیرتها الأولىٰ، و عبَدوها من دون الله، حتی قام الشیخ محمد بن عبد الوهاب رحمه الله بالدعوة إلى التوحید، وجدّد ما اندرس من الدین وعاد الإسلام إلى جزیرة العرب فقام الإمام عبد العزیز بن محمد بن سعود رحمه الله، و بعث جماعة من الدعاة إلىٰ ذی الخلصة فخربوها وهدموا بعض بنائها ولما انتهي حکم آل سعود على الحجاز في تلك الفترة، عاد الجهال إلى عبادتها مرة أخری، ثم لما استوليٰ الملك عبد العزیز بن محمد بن عبد الرحمٰن آل سعود رحمه الله على الحجاز أمر عامله علیها فأرسل جماعة من جیشه فهدموها وأزالوا أثرها، ولله الحمد والمنة47

'' نبی کریم ﷺ نے ابو ہریرہ سے مروی اس حدیث میں جس بات کی خبر دی تھی وہ واقع ہوچکی ہے ۔چنانچہ جب ان بلاد میں دوبارہ جہالت لوٹ آئی۔ توقبیلہ دوس اور اس کے ارد گرد بسنے والے عرب ذی الخلصۃ کے فتنے میں دوبارہ مبتلا ہوگئے۔ اس وقت یہ لوگ اپنی پرانی روش پر گامزن ہو گئے اور اللہ کے سوا اس کی عبادت شروع کر دی تھی یہاں تک کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب توحید کی دعوت لے کر اُٹھے اور انہوں نے مٹے ہوئے دینی شعائر کی تجدید فرمائی اور اسلام جزیرہ عرب میں دوبارہ لوٹ آیا۔ پس عبدالعزیز بن محمد بن سعود کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے ذی الخلصۃ کی جانب داعیوں کی ایک جماعت روانہ فرمائی جنہوں نے اسے تاراج کردیا اور اس کی بعض عمارتوں کو ڈھا ڈالا پھر جب اس مدت میں جس میں حجاز کی باگ ڈور آل سعود کے ہاتھ سے نکل گئی تو جاہلوں نے دوبارہ اس کی عبادت شروع کردی اور پھر اس کے بعد جب عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آلِ سعود کا حجاز پر قبضہ ہوا تو اُنہوں نے وہاں کے گورنر کو حکم دیا اور اپنی فوج کی ایک جماعت بھی روانہ فرمائی جس نے اسے ڈھا دیا اور اس کے نشانات کو مٹاڈالا۔''

مذکورہ بالا احادیث کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ ملت اسلامیہ میں شرک کے ناممکن ہونے کا دعویٰ درست نہیں ۔ ان تمام احادیث میں جزیرہ عرب، حجۃ الوداع اور شہر مکہ وغیرہ کی قیود موجو دہیں، حتی کہ زمانہ قریب کے علما کی شہادتوں سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ جزیرہ عرب میں وقتاً فوقتاً شرک واقع ہوتا رہتا ہے ،لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ اس کا خاتمہ فرما دیتے ہیں۔

پانچواں مغالطہ

اسی طرح ان حضرات کی طرف سے سیدنا حذیفہ ؓ سے مروی درج ذیل حدیث بھی بیان کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إن ما أتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی إذا رئیت بهجته علیه وکان ردئا للإسلام غیره إلىٰ ما شاء الله فانسلخ منه ونبذه وراء ظهره وسعی على جاره بالسیف ورماه بالشرك، قال: قلت یا نبی الله! أیهما أولى بالشرك: المرمي أم الرامي؟ قال: بل الرامي»48

''بلا شبہ میں تم پر ایسے آدمی سے خوف زدہ ہوں جس نے قرآن پڑھا، یہاں تک کہ جب اس پر اس کی رونق نظر آنے لگی اور وہ اسلام کا مددگار تھا تو اللہ تعالیٰ نے جس طرف چاہا اس کوپھیر دیا، پس وہ اس سے نکل گیا اور اس نے اُس کو پس پشت پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار سے حملہ کردیا اور اس پر شرک کی تہمت لگا دی، تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ!ان دونوں میں سے شرک کے زیادہ لائق کون ہے جس پر تہمت لگائی گئی یا کہ تہمت لگانے والا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: بلکہ تہمت لگانے والا۔''

محترم قارئین! اس حدیث کو بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ اس میں کہیں بھی اس بات کی طرف اشارہ تک نہیں ہے کہ اس اُمت میں شرک نہیں پایا جاسکتا۔ البتہ یہاں تو ایسے بےگناہ انسان جو شرک میں مبتلا نہیں ہے، پر شرک کی تہمت لگانے اور اس بنا پر اس پر حملہ کرنے والے کی مذمت ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بے گناہ پر تہمت لگانا اور بہتان بازی غلط ہے اور اس کے حق میں کوئی بھی نہیں ہے بلکہ تہمت لگانے والا خود مجرم ہے لیکن یہاں یہ کہاں سے نکلا کہ اس اُمت میں شرک پایا ہی نہیں جاسکتااورجس میں واقعتاً شرک پایا جاتا ہو، وہ بھی مشرک نہیں ہے۔ بلکہ ان حضرات کے دعویٰ کے برخلاف یہ حدیث تولوگوں میں شرک کے پائے جانے اور ایسے لوگوں کے مشرک ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق تو جس پر تہمت لگائی گئی یا پھر تہمت لگانے والا،ان دونوں میں سے ایک مشرک ہے لہٰذا ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ اس امت کے لوگوں میں شرک نہیں پایا جاسکتا ان کی اپنی اس پیش کردہ دلیل سے ہی باطل ٹھہرا۔

اور پھر سیدنا حذیفہؓ سے مروی یہ حدیث حافظ قوام السنۃ ابوالقاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل تیمی اصبہانی (المتوفی 535ھ) کی کتاب الحجة في بیان المحجة وشرح عقیدة أهل السنة49 میں بھی موجود ہے اور اس میں شرک کے بجائے کفر کے الفاظ ہیں: «رمیٰ جاره بالکفر وخرج علیه بالسیف» ''اس نے اپنے پڑوسی پر کفر کی تہمت لگائی اور اس پر تلوار کے ساتھ حملہ کردیا۔'' تو میں نے پوچھا:اللہ کے رسولﷺ! "أیهما أولىٰ بالکفر: الرامي أو المرمي؟" ان دونوں میں سے کفر کے زیادہ لائق کون ہے تہمت لگانے والا یا جس پر تہمت لگا ئی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا:«بل الرامي» بلکہ تہمت لگانے والا (کفر کے زیادہ لائق ہے)۔

اور اس مضمون کی اور بھی احادیث مروی ہیں، ایک میں عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ»50

''جو شخص اپنے (مسلمان ) بھائی کو کافر کہے، تو ان دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا ۔اگر وہ واقعتاً ایسا ہےتو (کفر اسی پر رہےگا) ورنہ یہ کافرکہنے والے پر لوٹ آئے گا۔''

برصغیر کے اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مسلمانوں پر تعین کرکے کفر کی تہمت لگانے والے اور حملے کرنے والے کون ہیں، فتاویٰ رضویہ، حسام الحرمین، تمہید الایمان، ملفوظات اور احکامِ شریعت و غیرہ کتب اس پر واضح ثبوت ہیں کہ رامي کون ہیں۔

چھٹا مغالطہ

اور پھر مختلف پینترے بدلتے ہوئے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ '' اس اُمّت میں شرک ہوا بھی تو وہ قرب قیامت ہوگا۔ البتہ ہمارےاس زمانے میں نہیں ہوسکتا اورنہ ابھی ایسے حالات آئے ہیں کہ اس اُمّت کے لوگ شرک میں مبتلا ہوجائیں اور یہ کہ وہ تمام نصوص جن میں اس اُمت کے لوگوں میں بھی شرک کے پائے جانے کی پیش گوئی اور دلالت ہے، صرف قرب ِقیامت سے تعلق رکھتی ہیں کہ ''جس وقت جہالت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی اور مسلمان لا إله إلا الله کے سوا دین کی کوئی بھی بات نہ جانتے ہوں گے اور یہ کہیں گے کہ یہ کلمہ بھی ہم نے اپنے بڑوں سے کبھی سنا تھا۔''51

قارئین! ریت کی دیوار سے بھی زیادہ کمزور یہ دعویٰ بھی حقائق کی دنیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی اپنے اندر سکت نہیں رکھتا۔ قربِ قیامت کے لوگوں میں جہالت اور شرک کے پائے جانے اور اس کے دلائل کے بارے میں تو دو رائے ہیں ہی نہیں، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے اس اُمّت کے لوگوں میں شرک نہیں پایا جا سکتا اور یہ کہ اس دور میں شرک اس امّت کے لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے اور اگر کہیں ہوا بھی تو اتنا قلیل کہ نہ ہونے کے برابر ۔

دراصل یہ دعویٰ فرمان نبوی کے اسالیب کو نہ سمجھنے کی بنا پر کیا جاتا 52ہے۔ آپﷺ کے فرمان''اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوس قبیلے کی عورتیں ذو الخلصۃ کے گرد طواف کریں گی۔53 '' کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ آپﷺ کے اس فرمان کے بعد اور قیامت سے پہلے اس کام کا واقع ہونا ناگزیر ہے اور اس کے واقع ہونے سے پہلے قیامت قائم نہیں ہوسکتی، البتہ اپنے اپنے اس مقررہ وقت پر وہ تمام چیزیں ظاہر ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوتیں رہیں گی جو وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئےطے ہے اور اس کی وضاحت ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ وَحَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ الله»54

''قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ (مسلمانوں کی) دو عظیم جماعتوں کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ بھی ایک ہی ہوگا اور یہاں تک کہ تیس دجال وکذاب ہوں گے ان میں سے ہرایک یہی گمان کرے گا کہ وہ اللہ کارسول ہے ۔''

اس حدیث میں جنگِ صفین کے بارے میں خبر دی گئی ہے اور یہ جنگ آپﷺ کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت علی اور معاویہ کے مابین واقع بھی ہو چکی ہے تو کیا اُمّتِ مسلمہ میں شرک کو صرف قرب ِقیامت کےساتھ خاص قررا دینے والے یہ حضرات صدر اوّل میں جنگِ صفین کے واقع ہونے کا انکار کر کے اس حدیث کو بھی قربِ قیامت کے آخری لمحات کے ساتھ ہی خاص کر ڈالیں گے؟ اور کیا مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، مختار ثقفی اور مرزا قادیانی جیسے کذابوں، دجالوں کا وجود وظہور اور اُن کے فتنوں کا پھیل جانا بھی ان حضرات کے نزدیک ابھی تک نہیں ہوا ہو گا؟ کیونکہ منصب نبوت و رسالت کے جھوٹے دعوؤں اور عوام کے ان سے متاثر ہو کر ان فتنوں میں مبتلا ہونے کے لیے جو جہالت درکار ہے، شاید یہ بھی ان حضرات کے نزدیک ابھی تک ممکن نہ ہوئی ہو؟ قارئین کرام جب باقی چیزوں کا انکار نہیں اور نہ ہی اُنہیں قرب قیامت کے ساتھ خاص قرار دیا دجاتا ہے تو پھر اس امت میں شرک کے پائے جانے کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ا ور نہ اسے قرب قیامت کے ساتھ خاص کیا جا سکتا ہے۔ اور ثوبان سے مروی درج ذیل حدیث میں تو کذابوں ،دجالوں کے ساتھ ساتھ اُمت کے لوگوں کے شرک میں مبتلا ہو جانے کی پیشین گوئی بھی موجود ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«وإنما أخاف على أمتي الأئمة المضلمين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنها إلىٰ يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى يعبدوا الأوثان وانه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم انه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من أمتي على الحق»55

''مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑی تو قیامت تک اُٹھائی نہیں جائے گی، اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری اُمت میں سے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ وہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔''

اور یہی حدیث درج الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے جن میں آپﷺ نے فرمایا:

«وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِيْ أُمَّتِيْ لَمْ يُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّ مِمَّا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي أَئِمَّةً مُضِلِّينَ وَسَتَعْبُدُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ وَسَتَلْحَقُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَإِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ دَجَّالِينَ كَذَّابِينَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَلَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ الله عَزَّ وَجَلَّ»56

''اور جب میری امت میں تلوار چل پڑی تو پھر قیامت تک اُٹھائی نہیں جائے گی (یعنی ہمیشہ چلتی رہے گی) اور بلا شبہ مجھے اپنی اُمت کے بارے میں (سب سے زیادہ)گمراہ کن لیڈروں کاخوف ہے اور عنقریب میری اُمّت میں سے قبائل بتوں کی پوجا کریں گے اور عنقریب میری اُمت میں سے قبائل مشرکین کے ساتھ مل جائیں گے اور بلاشبہ قیامت سے پہلے تقریباً تیس دجال و کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ اور میری اُمّت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، ان کی مدد کی جائے گی۔''

آپﷺ اپنی اُمت پر گمراہ کن ائمہ سے خوف زدہ ہیں اور ساتھ ہی اُمت میں سے قبائل کے شرک میں مبتلا ہوجانے کی پیشین گوئی بھی موجود ہے اور قبائل کا شرکیہ عقائد و اعمال اپنانا اور اَوثان کی پوجا و عبادت کرنا لوگوں میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ہے جس میں لوگوں کےمبتلا ہوجانے کا آپﷺ کو خوف تھا۔ کیا ان اصحاب کے نزدیک شرک گمراہی نہیں یا پھر گمراہی کا نام صراطِ مستقیم رکھ لینے سے اور عقیدہ توحید کے نام پر شرک کی پشت پناہی سے گمراہی اور شرک اُمت سے نابود ہوجاتے یا قربِ قیامت کےساتھ خاص ہوجاتے ہیں؟ کہ اس دور میں جو دل چاہے کرتے ہیں خالص توحید ہی توحید ہے اور شرک کا تو خوف ہی نہیں؟

ساتواں مغالطہ

عوام کو شبہات میں ڈالتے ہوئے یہ مغالطہ بھی دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سنتا، دیکھتا، قدرت رکھتا اور مدد کرتا ہیں وغیرہ۔ جبکہ مخلوق بھی یہ کام کرتی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ حفیظ، علیم، روؤف اور رحیم وغیرہ صفاتی ناموں سے متصف ہیں اور انسانوں کے لئے بھی یہ نام استعمال ہوتے ہیں جب یہ شرک نہیں ہے تو پھر مخلوق کے لئے داتا گنج بخش، غوث اعظم، دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا وغیرہ ناموں سے پکارنا اور ان صفات و اختیارات کا مالک سمجھنا بھی شرک نہیں ہے۔

لیکن ان حضرات کی یہ باتیں بھی دھوکہ دہی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، مخلوق کی صفات و اختیارات ، تحت الاسباب ، وسائل و ذرائع کی محتاج اور محدود ہیں۔ مخلوق کے دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ایک خاص مسافت تک ہے۔ پردے اور دیوار کے پیچھے اور اپنی طاقت سے زیادہ مخلوق نہ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی سننے کی طاقت ہے۔ انسان اسباب کے محتاج ہیں، اس سے بڑھ کر کسی کی مدد تو درکنار اپنا فائدہ بھی نہیں کرسکتے۔ الغرض تمام صفات میں مخلوق کی یہی کیفیت ہے جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تمام صفات و اختیارات میں نہ تو اسباب کے محتاج ہیں اور نہ ہی کسی مخصوص فاصلے تک محدود کہ اس سے آگے اللہ تعالیٰ دیکھ اور سن نہ سکتے ہوں یا مدد نہ کرسکتے ہوں جبکہ ان حضرات کی طرف سے مخلوق کو ان صفات میں فوق الاسباب اختیارات کا مالک سمجھ کر ہی پکارا جاتا اور اللہ کا شریک ٹھہرایاجاتا ہے، اگرچہ 'عطائی' کا حیلہ کرکے دل کو بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دور و نزدیک سے ہر ایک کو دیکھتے اور سنتے ہیں ، ہر زبان میں ، ہر وقت اور ہر کسی کی سنتے ہیں ، مدد کرتے ہیں اور یہ حضرات جن ہستیوں کو داتا ، مشکل کشا، غوث اعظم اور دستگیر مانتے ہیں، ان میں خدا کی طرح ہی ان صفات کو فوق الاسباب اور غیر محدود مانتے ہیں اور اُنہیں دور ونزدیک ہر جگہ، ہر وقت اور ہر کسی کو دیکھنے، سننے والا اور مدد کرنے والے سمجھ کر ہی مشکل کشائی، حاجت روائی اور دستگیری کے لیے اُنہیں فوق الاسباب طاقتوں کے مالک سمجھ کر اُن سے فریاد کرتے ہیں اور اِن کے نزدیک تو موت کے بعد عام لوگوں حتیٰ کہ کفار کے سننے ،دیکھنے اور ادراک کی قوتیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔57 وگرنہ ان حضرات کو فہرست شائع کرنی چاہیے کہ جس میں بزرگوں کے اختیارات وحدود، سننے کے اوقات، مدد کرنے کی نوعیت اور علاقائی حدود کا تعین ہو اور جن جن ہستیوں کے لئے ایسی فوق الاسباب اور لا محدود صفات واختیارات اور اسما والقابات کا دعوی کیا جاتا ہے تو کیا دلیل ہے کہ یہ ان کو عطا ہوئے ہیں؟ اگر یہ بھی ان غیر محدود اور فوق الاسباب صفات واختیارات کے مالک ہیں تو پھر ان میں اور اللہ تعالیٰ میں فرق کیا ہے؟ کیا صرف عطائی کے حیلے سے شرک سے نکل کر توحید کے علمبردار بنا جا سکتا ہے ؟ مکہ والے بھی تو اپنے معبودوں کو عطائی ہی مانتے تھے۔58 جبکہ حضرت علی ہجویری جنہیں یہ لوگ داتا اور گنج بخش کے نام سے یاد کرتے اور حاجت روا پکارتے ہیں، فرماتے ہیں:

''اے علی! مخلوق تجھے داتا اور گنج بخش کے نام سے یاد کرتی ہے حالانکہ تو اپنےپاس کچھ بھی نہیں رکھتا۔اس بات کو اپنے دل میں جگہ مت دے کیونکہ یہ پندار و غرور کی بات ہے۔ گنج بخش اور رنج بخش ذات حق ہی ہے جو کہ بے چون و بے چگوں ہے اور بے شبہ و بے تمون ہے۔ شرک مت کر جب تک کہ تو زندگی بسر کرے۔ وہ ذاتِ حق ہر طرح یکتا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔''59

قارئین کرام ! اس اقتباس کو باربار بہ غور ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ حضرت علی ہجویری تو داتا ،گنج بخش اور رنج بخش جیسے القاب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی قرار دیتے ہیں کہ ایسے کام کرنا اور ان اختیارات کا مالک ہونا صرف ا للہ تعالیٰ کی ہی صفت ہے اور وہ اس میں یکتا و تنہا ہے، اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے کہ جو یہ کام کرسکے اور ان القاب سے نوازا اور پکارا جائے ،پھر وہ اُمت کے لوگوں میں شرک کے پائے جانے کا نہ تو انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اُسے قربِ قیامت کے ساتھ خاص قراردیتے ہیں بلکہ جب اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ جاہل لوگ اُنہیں بھی ایسے ناموں سے یاد کرنےلگے ہیں تو اس سے اعلانِ برا ت کرتے ہیں، منع فرماتے ہیں ، اوراپنے آپ کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ زندگی بھر کبھی ایسا خیال بھی دل میں نہ لانا اور پھر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنے یا کسی دوسرے کے لئے ان ناموں کا استعمال کسی قسم کے عطائی وغیرہ حیلے تراشے بغیر علیٰ الاطلاق، شرک قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا قرا ر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''گنج بخش اور رنج بخش ذات حق ہی ہے... شرک مت کر... وہ ذاتِ حق ہر طرح یکتا ہے، اس کا کوئی بھی شریک نہیں۔''


حاشیہ و حوالہ جات

ان حضرات کی جانب سے بیان کی جانے والی شرک کی تعریف اور اس کا ردّ ،نیز اُمّتِ مسلمہ میں شرک کے وجود کے حوالے سے مزید دلائل کے لیے ماہنامہ 'محدث' اکتوبر 2010ء اور انٹرنیٹ پر 'محدث فورم' میں سرچ کریں: 'امّتِ مسلمہ میں شرک کا وجود'

صحیح بخاری:7320؛ صحیح مسلم :2669

صحیح بخاری:435، 1390؛ صحیح مسلم : 529، 531، 532

جامع ترمذی: 2180؛ سنن کبریٰ از امام نسائی: 1185؛ مسند حمیدی: 448، مصنف عبد الرزاق: 11؍ 369؛ مسند احمد: 5؍218، واللفظ له وقال شعیب الأرنؤوط: إسناده صحیح علىٰ شرط الشیخین، مسنداحمدبتحقیقه: 36؍226 ،طبع ثانی مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت

المعجم الکبیر للطبرانی:3218

مصنف عبدالرزاق:8؍464؛مسنداحمد:2؍246؛ مسندحمیدی:1025؛ التمہید از ابن عبدالبر:2؍327، وقال محققہ عبدالرزاق المہدی :اسنادہ لابأس بہ

التمہید ازابن عبدالبر:2؍326 ،عن عطاء ابن يسار عن ابی سعيد الخدری موصولا وقال المہدی: اسنادہ حسن، وفی الموطاللامام مالك،باب جامع الصلاة،السفر،رقم الحديث570عن عطاء مرسلا

مشکوٰۃ شریف مترجم :1؍163، از شیخ عبدالحق حنفی دہلوی، طبع محمد سعید اینڈ سنز مطبع سعیدی ، کراچی

نعمۃ الباری:2؍190

شرح الطیبی:3؍960؛ مرقاۃ:2؍425، دوسرا نسخہ:2؍228

التمہید لابن عبد البر: 2؍327، وقال المہدی: حديث صحيح

فتاویٰ رضویہ:22؍476، رضا فاؤنڈیشن لاہور

سورۃ الحج: 30

التمہید:2؍327، دوسرا نسخہ :5؍45

صحيح بخاری:3445

سورة المائدۃ: 77

سنن ابوداؤد:2042؛ مسنداحمد:2؍367

مشکوٰۃ مترجم:1؍240، طبع محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی

حجۃ اللہ البالغۃ:2؍77

روح المعانی:15؍238

ملفوظات : ص77

سورۃ الشعراء :161 تا 175

سورۃ الشعراء : 176 تا 190

صحیح بخاری:1344؛ صحیح مسلم:2296؛ مسنداحمد:4؍149

ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، نعمۃ الباری:3؍510، طبع اوّل

ان دلائل کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ماہ نامہ محدث اکتوبر2010ء اور انٹرنیٹ پر محدث فورم میں'اُمّتِ مسلمہ میں شرک کا وجود'

عمدۃ القاری:6؍216، دارالفکر بیروت

مرقاۃ :11؍104 ، دوسرانسخہ:11؍237

ارشاد الساری:2؍440، طبع 1988ء بیروت

فتح الباری:2؍271

نعمۃ الباری:3؍514، طبع اوّل

صحیح بخاری:3158؛ صحیح مسلم:2961

یہی مفہوم ومطلب سنن ابن ماجہ (4205) وغیرہ میں مروی شداد بن اوس کی طرف منسوب اس روایت کا ہے جس میں مسلمانوں کے سورج، چاند اور بت کی پوجا نہ کرنے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بھی یاد رہے کہ سند کے لحاظ سے اس روایت کی شداد کی طرف نسبت بھی ثابت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: ماہنامہ 'محدث' جون 2011ء میں 'روایت شداد بن اوس اور شرک اکبر کا وجود' از راقم اور محدث فورم پر سرچ کریں :'ملتِ اسلامیہ میں شرکِ اکبر کا وجود اور روایت شداد بن اوسؓ'

نعمۃ الباری:3؍510،طبع اوّل

سنن ابن ماجہ:2536

الانعام:88، الزمر:65

سورة یوسف :106

ترجمہ ازمولانا غلام رسول سعیدی ،تبیان القرآن:5؍875 ، طبع رابع، ستمبر 2005ء

مسند احمد :4؍126؛ حلیۃ الاولیاء:1؍269؛سیر اعلام النبلاء:2؍461،مؤسسۃ الرسالۃ وقال محققہ شعیب الارنؤوط:اسنادہ ضعیف لضعف شہر ابن حوشب

سنن ترمذی:1937؛ مسنداحمد:3؍313، 354، 366

صحیح مسلم :2812

مسند احمد:2؍368؛ حلیۃ الاولیا:7؍91، الرقم9758؛ شعب الایمان للبیہقی:5؍456 الرقم 6878

مسند احمد:5؍73

مستدرک حاکم ، رقم 321 ،دوسرا نسخہ 1؍93

سنن ابن ماجہ:3055؛ سنن کبریٰ از امام نسائی :11213؛ سنن ترمذی:2159

مرقاۃ:5؍574، دوسرا نسخہ:5؍373

مجموعۃ الرسائل والمسائل النجديۃ :4؍482،487

مجموع فتاویٰ و رسائل ابن عثیمین:2؍204، 205، طبع 1413ھ دارالوطن، دارالثریا

صحیح بخاری:7116؛ صحیح مسلم:2906؛ مسنداحمد:2؍271

صحیح بخاری، المغازی، باب غزوۃ ذي الخلصۃ:2؍624

فتح الباری:8؍89

اشراط الساعۃ:ص161 طبع محرم 1423ھ ،دار ابن الجوزی ،السعودیۃ

أشراط الساعۃ للوابل، ص 162 طبع محرم 1423ھ ،دار ابن الجوزی ،السعودیۃ

الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان:1؍248 رقم 81؛ مسندبزار رقم 175؛ مجمع الزوائد :1؍446 رقم 890 دوسرا نسخہ 1؍188؛ تفسیر ابن کثیر سورۃ الاعراف تحت الایۃ 176

2؍432، دوسرا نسخہ:2؍435، طبع ثانی 1999ء، دار الرایۃ، الریاض

صحیح مسلم :60

سنن ابن ماجہ:4049، مستدرک حاکم :5؍666 رقم 8505

اسی نکتہ کی مزید وضاحت کے لئے محدث میں شائع شدہ مضمون 'پندرھویں صدی اور شرک وجہالت کے اندھیرے' از حافظ عطاء الرحمن علوی شائع شدہ شمارہ 356، جولائی 2012کا صفحہ نمبر 64 تا67 ملاحظہ کریں۔

صحیح بخاری: 7116؛ صحیح مسلم :2906

صحیح بخاری:7121،3609

سنن ابی داؤد: 4252؛ مسند احمد: 5؍ 278

سنن ابن ماجہ:3952

ملفوظات ازاحمد رضاخان صاحب بریلوی :ص82،276

صحیح مسلم: 1185

کشف الاسرار ، ص28، طبع 1999ء ... مکتبہ نقشبندیہ، فاروق آباد، شیخوپورہ