قرآن و سنت کا عملی نفاذ

میں نے ایک مضمون میں تجویز پیش کی تھی کہ صرف اس قدر قانون بنا دیا جائے کہ عدالتیں قرآن و سنت کی پابند ہوں گی اور کوئی ایسا قانون نافذ نہ ہوگا جو کتاب وسنت کے منافی ہو تواس طرح کتاب و سنت مکمل طور پر نافذ ہوجائیں گے، اسلامی قانون وضع کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ وضع کرنے کا کسی کو اختیار حاصل ہے۔ عدالتیں خود کتاب و سنت کی بنا پر فیصلہ کریں گے اورمقدمات کے فیصلے کتابوں میں موجود ہیں جوعدالتوں کی امداد کریں گے۔

اس پر محترم مرغوب صدیقی صاحب نے ایک مضمون میں خدشات کا اظہار کیا کہ اس طرح اسلامی نظام کے نافذ ہونے میں دقتیں ہیں۔کیونکہ!

جو موجودہ قانون ہے وہ تو ختم ہوجائےگا او رجب تک اسلامی قانون کی بنا پر فیصلہ کرنےکے لیے فقہا کا اجہتاد موجود نہ ہو تو عدالتیں فیصلہ کیسے کریں گی؟ نیز انہوں نے فرمایا کہ عدالتوں کو اسلامی شریعت کا تجربہ نہیں ہے لہٰذا مزید تربیت کے بغیر وہ درست فیصلہ نہ کرسکیں گی۔ میں اس مضمون میں وضاحت کروں گا کہ صحیح صور ت حال کیا ہے؟

پیشتر اس کے کہ میں صدیقی صاحب کے خدشات پر بحث شرو ع کروں میں باردیگر اسلامی نظام کی حقیقت کو مختصر الفاظ میں بیاں کردوں تو مناسب ہوگا۔

یہ تو مسلمہ امر ہے کہ اسلامی سلطنت کا حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے اور سلطنت کا قانون صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ چودہ سو سال ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا قانون رسول اکرمﷺ کے ذریعے ہم پرنازل فرمایا۔ مسلمہ طور پر یہ قانون ازلی او رابدی ہے۔ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے موجود تھا اور یہ نافذ اس وقت ہوا جب وحی اتری او رجوں جوں وحی کا نزول ہوتا گیا اس کو نافذ ہونے کے لیے کسی مقننہ کی حاجت نہ تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جوأ بند ہے تو قیامت تک کے لیے جوأ اُمت مسلمہ کے لیے بند ہوگیا، یعنی حرام ہوگیا۔ اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ کوئی مقننہ کہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ کرتے ہیں۔ اسلامی سلطنت کا حاکم اعلیٰ جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں خود اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمان حاکم کو جو دراصل اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہے، یہ ہدایت کردی ہوئی ہے کہ جو کچھ اللہ نے حکم دیا ، وہ اس کی تعمیل کرائے گا ۔ یہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتاہے، اسلامی حکومت خود قانون وضع نہیں کرتی، یہ اس ازلی ابدی قانون کی، جو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے، اطاعت کرواتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لیے صرف قواعد و ضوابط بوقت ضرورت بنا سکتی ہے۔ بارہ تیرہ صدیاں کسی مسلمان ملک کو کسی مقننہ کا علم تک نہ تھا۔ لیکن جب ہم یورپین اقوام کے غلام ہوگئے تو انہوں نے ہم پر مقننہ کے ذریعے حکومت کی او رہم نے سمجھا کہ شاید مقننہ ہی کے قوانین کے ذریعے حکومت ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم اب ہر بات میں کسی مقننہ کے قانون کی توقع کرتے ہیں۔ جب تک مقننہ قانون وضع نہیں کرتی ہم کہتے ہیں کہ قانون موجود نہیں۔ یہ مغربی قانون کا خاصہ ہے۔

ہمارا قانون صرف الہامی ہے، اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہوا ہے کہ یہ کتاب مکمل ہدایت ہے اور اس میں پوری تفصیل ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں، یہ ہر سوال کا جواب دیتی ہے او رتمام فیصلے صر ف کتاب و سنت کی بنا پر ہونے چاہیں او رجوکوئی کتاب و سنت کی بنا پر فیصلہ نہ کرے... وہ کافر ہے، فاسق ہے، ظالم ہے۔

جب میں نے کہا کہ عدالتوں کو کتاب و سنت کا پابند کردو تو کتاب و سنت نافذ ہوجائیں گے او رمیں نے ساتھ ہی کہا کہ اسلامی سلطنت میں تو قانون صرف کتاب وسنت ہوتاہے تو صدیقی صاحب نےاس سے تین سوال پیدا کیے کہ:

(1) قرآن و سنت کے کچھ قوانین ایسے ہیں کہ جب تک ان کے لیے ذیلی قوانین نہ بنائے جائیں، ان کانافذ کرنا مشکل ہے۔

(2) ہمارے جج صاحبان اسلامی شریعت میں کافی مہارت نہیں رکھتے۔

(3) اس زمانے میں نئے نئے مسائل پیدا ہوچکے ہیں، بارہویں ، تیرہویں صدی تک جو مسائل پیدا ہوئے ان کے لیے تو کافی تشریح کتابوں میں موجود ہے لیکن جو مسائل او رٹیکنالوجی کی ترقی او رجدید معیشت سے موجودہ صدی میں پیدا ہوئے ان کے حل کے لیے فقہاء کا اجتہاد موجود نہیں، لہٰذا عدالتیں بغیر مزید امداد کے فیصلے نہ کرسکیں گی۔

پیشتر اس کے کہ میں ان سوالات کا جواب دوں مناسب ہے کہ ہندوستان او رپاکستان میں اسلامی شریعت کی تاریخ کا حوالہ دوں تاکہ واضح ہوجائے کہ کس قدر مہارت پاکستان کے جج صاحبان اسلامی شریعت کے معاملہ میں رکھتے ہیں۔

جب انگریز نے ہندوستان پر حکومت شروع کی تو اس وقت ہندوستان میں شریعت اسلامیہ نافذ تھی اور تمام فیصلے قرآن و سنت کی بنیادپر ہوتے تھے۔ انگریز کی پالیسی یہ تھی کہ رعیت کو حتی الوسع اپنے شخصی قانون پر قائم رہنے دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نےمسلمانوں کے ان تمام شخصی قوانین کو قائم رکھا جن کا تعلق مسلمانوں سے ہی تھا۔ جن معاملات کے متعلق اسلامی شریعت نافذ رہی ان کی فہرست میں درج ذیل کرتا ہوں۔

وراثت، وصیت، گذارہ، حقوق الزوجین، حقوق اطفال، ہبہ، ولایت، جائز ولدیت، نابالغی، نکاح،طلاق، خلع، ایلاء، ظہار، تنسیخ نکاح، امانت، وقف، دینی ادارے یا دینی معمولات، یا خیراتی ادارے وغیرہ وغیرہ

مندرجہ بالا کے علاوہ شفع کا قانون بھی ہندوستان کے کچھ صوبوں میں اسلامی شریعت ہی کے مطابق تھا۔ جب سے انگریز نے ہندوستان میں حکومت شروع کی،ہندوستان او رپاکستان کی عدالتیں مندرجہ بالا معاملات میں اسلامی شریعت کےمطابق فیصلے کرتی چلی آئی ہیں۔کسی مقننہ نے ان کو یہ نہ بتایا تھاکہ اسلامی شریعت (مسلم لاء) کیا ہے۔ وہ خود قرآن و حدیث سے پڑھ کر اور فقہاء کی آراء و اجتہاد کی بنا پر جو کتابوں میں موجود تھا، فیصلہ کرتی چلی آئی ہیں۔ ان کو فیصلہ کرنے میں، باوجود اس کے کہ عام طو رپر جج عربی بولنے والا نہ ہوتا تھا۔کبھی دقت نہیں ہوئی۔کیونکہ قرآن پاک کے مستند تراجم اُردو، انگریزی کے بھی موجود ہیں اور حدیث کے بھی اور سابقہ فقہاء کے اجتہادات بھی۔ جو کتابیں انہوں نے اس غرض کے لیے استعمال کیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔اُردو اور انگیرزی دونون زبانوں میں کتابیں موجود ہیں۔

جو کتابیں خود ہندوستان میں او رپھر پاکستان میں اسلامی شریعت پر لکھی گئیں۔ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔نہ صرف مسلمانوں نے لکھیں بلکہ ہندوؤں او رانگریزوں نے بھی لکھیں۔ سید بدر الدین طیب جی، سیدامیر علی، سیدعبدالرحیم، فیضی،عبدالرحمٰن،ڈاکٹر حمیداللہ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری، مولانا حامد الانصاری، ڈنشانردون جی ملا، سکینہ میکناٹن،ہملٹن، بیلی، کملا طیب جی،فدا حسین وغیرہ وغیرہ...... یہ وہ ہیں جنہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں شریعت پر کتابیں لکھیں اور اس کے علاوہ ایک فہرست ان کتابوں کی ہے جو پاکستان میں اسلامی شریعت پر لکھی گئیں۔

علماء نے بھی لکھیں اور قانون دان طبقہ نے بھی مثلاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، کمال فاروقی، قادری، سید انور علی شاہ وغیرہ وغیرہ۔

یورپین مصنفوں کی بھی بہت سی کتابیں اسلامی شریعت کے متعلق ہیں، جن سے ہندوستان او رپاکستان والے استفادہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح شرق اوسط کے مسلم اور غیر مسلم مصنفین کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ جب سے انگریز کی حکومت ہندوستان میں شروع ہوئی تو ہندوستان کی عدالتوں نے شریعت اسلامی پر فیصلے لکھنے شروع کیے،بڑے بڑے مبسوط فیصلے لکھے گئے۔ اسلامی شریعت کے بنیادی اصولوں پر بہت بحثیں ہوئیں اور فیصلے نہ صرف مسلمان ججوں نے لکھے بلکہ ہندو اور عیسائی ججوں نے بھی لکھے۔ ایک بڑی تعداد ان مقدمات کی تھی، جو فل بنچ کے سپرد کیے گئے اور پاکستان بنا تو یہی معاملہ پاکستان کے ججوں کا تھا۔ بڑے مفصل فیصلے شرع کے مسائل کے متعلق کیے گئے۔ خلع کے معاملہ میں جو سپریم کورٹ نے فیصلہ لکھا، قریباً پچاس صفحات پر مشتمل تھا۔

دو صدیوں سے زیادہ عرصہ ہندوستان او رپاکستان کی عدالتوں نے اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کیے او رکبھی کسی عالم دین نے اعتراض نہ کیا کہ ان کو قانون کا صحیح پتہ نہ تھا اور سوائے ایک فیصلہ کے جو جسٹس شیخ محمد شفیع (مرحوم) نےکیا تھا، کبھی کسی فیصلہ پراعتراض نہ کیا گیا۔ اس پر بھی ناقابلیت کا اعتراض نہ تھا بلکہ یہ اعتراض تھاکہ ان کانظریہ درست نہیں۔

بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان او رپاکستان کی عدالتیں قانون شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں اور انہوں نے اسلامی شریعت کی بہت خدمت کی ہے او رجس قدر اضافہ انہوں نے علم کے ذخیرہ میں کیا ہے اس کا دسواں حصہ بھی کسی دوسرے ملک نے نہیں کیا۔ البتہ اہم مسائل میں عدالتوں کے معاون اور مشیر کی حیثیت سے علمائے دین سے مدد لی جاسکتی ہے۔جیسا کہ بعض مسائل میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔

قارئین کرام! اب پوچھیں گے کہ یہ قانون بنانے سے کہ عدالتیں کتاب و سنت کی پابند ہوں گی، کس حد تک موجودہ قانون میں فرق آئے گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک لحاظ سے فرق صرف اتنا ہے کہ اس سے پہلے اگربیس مدات میں شریعت کا نفاذ تھا تو اب پچیس تیس میں ہوجائے گا اور عدالت ہائے پاکستان کو ان معاملات کا فیصلہ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوگی لیکن دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ اب تو جو قانون بھی کتاب و سنت کے منافی ہوگا،غلط ہوجائے گا۔ جب کہ اس سے قبل یہ صورت تھی کہ مقننہ جو قانون بھی بنا دے اس کو کتاب و سنت سے تضاد کی بنا پر رَد نہ کیا جاتا تھا۔ یہ تبدیلی بنیادی ہے۔ دراصل یہ تبدیلی عرصہ سے آچکی ہے او رپاکستان کی سپریم کورٹ 1972ء میں قبول کرچکی ہے کہ یہاں قانون صرف اللہ کا حکم ہے۔ لیکن ایک تضاد پاکستان کے قانون کے اندر اس طرح پیدا ہوگیا ہے کہ ایک طرف تو سپریم کورٹ نےکہا کہ قانون صرف اللہ کا حکم ہے اور دوسری طرف جو حلف عدالتوں سے لیا جاتا تھا وہ پاکستان کے آئین پر تھا تو عدالت عالیہ نے کہا کہ ہم تو آئین کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ عدالت عالیہ اب تک مقننہ کے تمام قانون نافذ کرتی چلی آئی ہے۔ چاہے وہ کتاب و سنت کے خلاف ہی ہوں۔ میں نے جو ترمیم قانون میں پیش کی ہے اس سے دراصل اسی تضاد کا رفع کرنا مقصود ہے، ورنہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تو کتاب و سنت پہلے سے ہی اس ملک کا سب سے اعلیٰ قانون ہیں جن کے خلاف کوئی قانون جائز ہو ہی نہیں سکتا او راللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنا لازم ہے۔ میں یہاں یہ بھی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ عدالت عالیہ جو فیصلے قرآن و سنت سے متضاد اس بنا پر کررہی تھی کہ وہ آئین کی پابند ہے تو وہ صورت اب بدل چکی ہے ، اب ہائی کورٹ کا وہ حلف توموجود ہی نہیں کہ آئین کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اب ان کا حلف مختلف لیکن پرانا سلسلسہ قانون کے نفاذ کا سلسلہ اسی طرح سے جاری ہے ، جیسا کہ پہلے تھا۔

ساتھ ہی میں یہ وضاحت بھی اس مرحلہ پر کردینا چاہتا ہوں کہ جو قانون اس وقت موجود ہے اس کا کیا ہوگا؟ کیا وہ سارا ختم ہوجائے گا؟ یہ خیال کہ اسلامی نظام آتے ہی وہ فوری طور پر سارا ختم ہوجائے گا۔ غلط ہے۔ صرف اتنا ہوگا کہ اس کے بیشتر حصے کی شرعی حیثیت انتظامی احکام کی یا ذیلی قوانین کی ہوجائے گی۔اگرحاکم وقت کوئی حکم جاری کرے تو وہ اگر کتاب و سنت کے مطابق ہو تو درست قرار پائے گا ، جس حد تک مطابق نہ ہو، غلط قرار دیا جاتا رہے گا۔ عدالتیں دیکھتی جائیں گی او رجس حد تک مطابق نہ ہوں گے، ان کورد کرتی جائیں گی۔ گویا صورت وہی ہوگی،جوبنیادی حقوق کے متعلق ہے۔ یعنی کتاب و سنت کو بنیادی حقوق کی بجائے سمجھ لیا جائے گا اور جس حد تک کوئی قانون ان سے ٹکراتا ہوگا، تو غلط قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن میں یہ وضاحت بھی کردوں کہ ہر حکم کے لیے کتاب وسنت سے سند لانا پڑے گی۔ کیونکہ اوامر و نواہی اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں او رکوئی انسان ان میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔

اب میں تینوں سوالوں کو لیتا ہوں جواوپر میں نے درج کیے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیاکچھ شرعی احکام ایسے ہیں کہ جب تک کوئی ذیلی قوانین ان کے متعلق وضع نہ کیے جائیں وہ نافذ نہ ہوسکیں گے؟

عام تاثر یہی ہے کہ جب کتاب و سنت پر عمل کیا جائے گاتو بہت سے نئے معاملات پیدا ہوں گے مثلاً نظام نماز اور نظام زکوٰۃ قائم کرنا، حکومت پر فرض ہے۔ اس کے متعلق قواعد و ضوابط ترتیب دینا ہوں گے۔ ایسا ہی حال امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کے متعلق مساعی کا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ نئے محکمہ جات قائم ہوں گے او رموجودہ محکمہ جات میں بھی ایسی تبدیلیاں کی جائیں گی لیکن ان معاملات میں صرف انتظامیہ کے لیےمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات میں حق و باطل کا سوال پیدا نہیں ہوگا او ربالفرض کوئی ایسا سوال پیدا ہو تو اس کے فیصلہ کے لیےعدلیہ موجود ہے۔ گویا اصل کام انتظامیہ کے کرنے کا ہے۔ یہ جو کہہ دیا جاتا ہے کہ سائنسی ترقی وغیرہ کی وجہ سے لاکھوں مسائل پیدا ہوں گے تو ایسے خیالات کی بنیاد انتظامیہ اور عدلیہ سے متعلق مسائل کو آپس میں خلط ملط کرنے سے بنتی ہے۔بنابریں واضح ہے کہ قانون وضع کرنے سے متعلق کوئی نئے مسائل پیدا نہیں ہوں گے ۔ بلکہ سوال کتاب و سنت کی تعبیر کا ہے او راس کو عدالتیں ہی حل کریں گے یعنی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی دے گی۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان کی عدالتیں اس قد راستعداد رکھتی ہیں کہ قانون شریعت کو سمجھیں تو اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔

تیسرا سوال یہ ہےکہ کیا مزید اجتہاد شریعت کے نفاذ سے قبل لازم ہے ۔ کیونکہ موجودہ زمانے میں نئے نئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ بارہ تیرہ صدیاں اجتہاد تو ہوتا رہا جو عدالتوں کی امداد کے لیےموجود ہے لیکن موجودہ صدی میں جونئے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ان کے متعلق فیصلہ کیسے ہوگا؟ ہم کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اسلامی شریعت پر اجتہاد اس زمانے میں ہواکرتا تھا جونئے مسائل سے بھی تعلق رکھتا تھا۔ بہرصورت اگر مزید اجتہاد کی ضرورت ہے تو کیا ہم شریعت کے نفاذ کے لیے اس کا انتطار کریں او روہ اجتہاد اب کون کرے گا؟ اگر فقہاء نے ابھی کسی نئے مسئلہ کا حل پیش نہیں کیاتو پھر خود عدالتوں کو اس طرف توجہ دینا ہوگی اور اگر ان کو ضرورت محسوس ہوگی تو ان کو کوئی امر مانع نہیں ہے کہ وہ علمائے دین کو بلا کر قرآن و سنت کی زائے دریافت کرالیں۔ ان کوبحث کرنے او روضاحت کرنے کا موقع دیں۔ (اسلامی نظریاتی کونسل اس سلسلہ میں ممدومعاون ہوسکتی ہے) ہر معاملہ کا حتمی فیصلہ تو ہماری سپریم کورٹ کو کرنا ہے او راس میں کچھ شک نہیں کہ ہماری سپریم کورٹ شریعت کے ہر معاملہ کا فیصلہ کرنے کی پوری اہلیت و استعداد رکھتی ہے۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور تدوین کے کام کے مکمل ہونے تک شریعت کے نفاذ کو روک دیاجائے۔

ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو تو موجود رہنا چاہیے تاکہ جب بھی حکومت یاعدلیہ کو کسی رائے اور مشورہ کی ضرورت پڑے تو وہ مشورہ دے اور وہ معاشرے کی اصلاح کے منصوبے بنانے میں ممدومعاون ہوسکتی ہے لیکن!

کونسل کی وجہ سے اگر اللہ کا قانون بجائے نافذ ہونے کے رُک جائے توگویا نظریاتی کونسل اللہ کے قانون کے نفاذ میں ایک رکاوٹ ہے۔

صدیقی صاحب نے لکھا ہے کہ خود کونسل سے تو یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ کوئی اجتہادی امداد دے لیکن جو تحقیقاتی ادارہ ہے، اس کو ایک قابل وکیل کے سپرد کردیا جائے تو یہ بہتر کام کرے گا او راس کی امداد سے کونسل کچھ کچھ اجتہاد کرسکے گی۔ تحقیقی ادارے تو تحقیق ہی کرتے ہیں، وہ اجتہاد کرنے والے ادارے نہیں ہیں۔ اگرہمارے تحقیقی ادارہ نے آج تک کچھ کام نہیں کیاتو ایک قابل وکیل کے وہاں داخل ہونےسے کوئی بڑا فرق نہیں پڑ جائے گا اور اس سے ہم کوئی بڑی امیدیں وابستہ کرنے میں حق بجانب نہ ہوں گے۔

کونسل کےمتعلق اس بات کو بھولنا نہ چاہیے کہ وہ کوئی بااختیار ادارہ نہیں ہے ۔ وہ صرف مشورہ دیتی ہے ، جبکہ اراکین پارلیمنٹ پر کوئی پابندی اس کی سفارشات کی منظور کے ضمن میں نہیں ہے۔

کیا ذیلی قانون بنے گا؟ اس کا فیصلہ تو پارلیمنٹ کےممبران ہی کریں گے جن میں سے بہت کم کتاب و سنت کا علم رکھنے والے ہوتے ہیں او رجو اپنے فیصلوں میں سیاسی مفادات سے متاثر ہوتے ہیں۔ لا دینی سیاست تو اقتداری سیاست ہے اور اس کا ہرعمل اقتدار کے تحفظ کو مدنظر رکھتا ہے، جتنا عرصہ مارشل لاء موجود ہے، نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پوری وقعت دی جائے گی لیکن مارشل لاء کے دور کے بعد کیا اس کی حیثیت سابقہ کونسلوں جیسی نہ ہوگی؟ سوائے اس کے کہ حکومت کانقطہ نظر ہی بدل جائے اور حکومت اسلامی نظام کو فی الواقع قبول کرے۔

مندرجہ بالا بحث کانتیجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کے فوری نفاذ میں دراصل کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور اگر اسی وقت کے حالات سے فائدہ نہ اٹھایاگیا او رکتاب و سنت کے فوری نفاذ کا اعلان نہ کیا گیا تو اس سے ملک کو بہت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

۔۔۔۔۔::::ختم شد:::۔۔۔۔۔