ایک مجلس میں تین طلاقیں

(1) ایک فاضل دوست نے پوچھا ہے کہ:

امریکہ میں نو مسلم میاں بیوی میں اتفاقاً ناچاقی ہوگئی، شوہر نے غصے میں آکر ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دےڈالیں، جب غصہ فرو ہوا تو پچھتایا، علماء کی طرف رجوع کیاتو انہوں نے جواب دیا کہ : اب تمہارے لیے رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔ الا یہ کہ پہلے حلالہ ہو! بہرحال وہ ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں، اس لیے نہیں کہ یہ فتویٰ ان کے مفاد کے خلاف ہے، بلکہ صرف اس لیے کہ اس میں معقولیت اور حکمت کی بات نہیں ہے۔ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ قرآن و حدیث کی رو سے صحیح کیا ہے؟ ( محمد ابرار۔منصورہ، لاہور)

الجواب:

صحیح یہ ہے کہ مندرجہ بالا صورت میں جدیدنکاح کے بغیر عدت کے اندر رجوع کیا جاسکتا ہے اور عدت کے بعد کسی حلالہ کے بغیر وہ جدیدنکاح کرکے اپنا گھر مکرر آباد کرسکتے ہیں۔

ایک ہی مجلس او رایک ہی ٹائم میں ''تین طلاقوں'' کومؤثر قرار دینا عُسر ''تنگی'' ہے، یسر کا بھی کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔ اگر ایک ہی زبان ، ایک ہی مجلس او رایک ہی ٹائم میں''تین طلاقیں'' مؤثر قرار دی جاسکتی ہیں توپھر ''تین'' کا نصاب مقرر کرنے کے بجائے ایک ہی طلاق کی چھری سے نکاح کی یہ طنابیں بھی آسانی سے کاٹی جاسکتی تھیں۔ آخر اس کے لیے''تین'' کانصاب کیوں مقرر کیا گیا ہے؟ لا محالہ یہی کہنا پڑے گا کہ اس عدد میں کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے اور وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ : فریقین کو سوچنے کے لیے مزید مہلت مل جائے۔ ظاہر ہے کہ ایک ہی دفعہ تین طلاقوں کو مؤثر قرار دینے کےبعد یہ مہلت غارت ہوجاتی ہے۔

قرآن حکیم : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

(پ2۔بقرہ ع29)

''طلاق دو بار ہے، پھر اچھی طرح سے اسے رکھنا یاچھوڑنا ہے۔''

یہاں '' دو بار'' (مرتان) کے معنی، ایک ہی زبان میں '' دو بار'' کہنا نہیں ہیں بلکہ علیحدہ علیحدہ وقتوں میں ایک ایک بار طلاق دینا، مرتان ہے۔چنانچہ فرمایا، ان دو مرحلوں کے بعد اب ٹھنڈے دل سے غور کرلینا چاہیے کہ یہ سلسلسہ ہمیشہ کے لیےختم کردینا چاہیے یارجوع کرکے حق رفاقت کو نباہ دینا مناسب ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (1) فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ (پ28۔ الطلاق ع1)

''جب تم اپنی اپنی بیویوں کوطلاق دینی چاہو تو ان کوعدت (کے وقت) پر طلاق دو اور عدت کوگنتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے اور ان کو گھروں سےنہ نکالو اور نہ وہ خود گھر سےنکلیں الا یہ کہ وہ علانیہ بے حیائی (کا ارتکاب )کریں اور یہ اللہ کی حدیں ہیں او رجس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو اس نے اپنا ہی بُرا کیا تم نہیں جاتنے ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ (طلاق کے بعد ملاپ کی) کوئی صورت پیدا کردے۔ پھر جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے پر آئیں تو سیدھی طرح انکو (اپنی زوجیت میں) رکھے رہو یا سیدھی طرح انکو رخصت کرو اور (جو کچھ بھی کرو) اپنے میں دو معتبر گواہ بنا لو۔''

اگر طلاق دو بار یا تین بار ایک ہی مجلس میں ہوگئی تو کس نے گھر میں اسے رہنے دیا او رکون گھر میں رہی؟ اور آیت نے رجعت کے جس مکان کا ذکر کیا ، وہ کب او رکہاں باقی رہا؟ آپ فرمائیں گے کہ اگر کوئی ان امور کی پرواہ نہ کرے تو پھر؟ پھر یہی ہوگا کہ وہ نجی حیثیت میں چاہے کہے لیکن سرکاری طور پر وہ ایک ہی شمار ہوں گی۔بہرحال قرآن نے جن قرآنی حکمتوں کو ملحوظ رکھنے کی آپ سے سفارش کی ہے خود اس کی خلاف ورزی کے لیے راہیں بھی کھلی رہنے دے، محال ہے۔

ہاں ''دو بار'' ایک مبہم سا لفظ ضرور ہے جس سے ان مختلف اوقات کی تشخیص نہیں ہوتی جو حکمت قرآنیہ کے سامنے ہے۔ اس کے لیے ہم رسول کریمﷺ کی حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں، کیونکہ خدائی منشا او رقرآنی اجمال کی تبعین اور تشریح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منصبی فریضہ ہے۔

عن سالم أن عبداللہ بن عمر أخبرہ أنه طلق امراته وھي حائض فذکر عمر لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتغیظ فیه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم قال لیراجعھا ثم یمسکھا حتی تطھرثم تحیض فتطھر فإن بداله أن یطلقھا فلیطلقھا طاھر ا قبل أن یمسھا فتلك العدة کما أمرہ اللہ (بخاري کتاب التفسیر سورۃ الطلاق:2؍729 و 2؍790 و صحیح مسلم: 1؍475)

''حضرت ابن عمرؓ نے بتایا کہ انہوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالی تو حضرت عمرؓ نے حضورﷺ سے اس کاذکر کردیا، آپؐ غصے ہوئے، پھر فرمایا اسے رجوع کرلینا چاہیے، پھر اسے پنے پاس رکھے، یہاں تک کہ جب وہ پاک ہوجائے، پھر اسے ایام آجائیں او رپھروہ پاک ہوجائے، اب اگر وہ اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اسے طلاق ہی دے ڈالے تو اپنے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے ڈالے، یہ وہ عدت (طلقوھن لعدتھن) ہے جس کا اللہ نےحکم دیا ہے۔''

یعنی حیض کے دنوں میں طلاق نہیں دینا چاہیے تاکہ اسباب کراہت منتفی ہوں۔ پھر پاکی کے دنوں میں اسے ایک طلاق دے ڈالے، اسی طرح پھر اگلے طہر میں کرے۔ اس کے بعد چاہے کہ ٹھنڈے دل سے آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اب مزید سوچ لے، اگر اب بھی اسی نتیجہ پر پہنچا ہے کہ خلاصی ہونی چاہیے تو پھر طلاق دے ڈالے۔

دوبار (مرتان) کامفہوم واضح ہوگیا کہ یہ دوبار، دو ماہ ہیں یعنی ہرطہر میں ایک طلاق دے اور اسے گھر میں ہی رکھے، اسےبھی گھر ہی میں رہنا چاہیے تاکہ ہوسکتا ہے کہ پھر ملاپ کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ دراصل اسلام جوڑے کے فاق اور مستقل جدائی کے حق میں نہیں ہے۔ جب تمام جتن او راصلاح حال کے سارے امکانات ختم ہوجائیں تو پھر آخری چارہ کار کے طو رپر اسلام اس کو اس فیصلے کا حق دے دیتا ہے۔

مسند احمد میں ایک روایت ہےکہ حضرت رکانہ نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالی تھیں، مگر دے کر پچھتانے لگے گئے تھے، حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ طلاق کس طرح دی تھی؟ کہا کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالی ہیں حضورﷺ ! آپؐ نے فرمایا تو پھر یہ ایک طلاق ہے۔اگر جی چاہے تو رجوع کرسکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے پھر رجوع کرلیا تھا۔

قال أحمد، حدثنا سعد بن إبراہیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق قال حدثني داد بن الحصین عن عکرمة مولی بن عباس عن عباس قال:

طلق رکانة بن عبد یزید، أخوالمطلب، امرائته ثلثا في مجلس واحد فحذن علیھا حزنا شدید افسأله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیف طلقتھا؟ قال طلقتھا ثلثا، قال في مجلس واحد؟ قال نعم، قال: فإنما تلك واحدة فارجعھا إن شئت قال فراجعھا قال: وکان ابن عباس یری أن الطلاق عند کل طھر (مسنداحمد)

اس اصول کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فیصلے ہوتے رہے پھر حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت میں بھی یہی قانون جاری رہا، حضرت عمرؓ کے ابتدائی دو سالوں (بعض کی رو سے تین سالوں) میں بھی اسی پر عمل ہوتا رہا لیکن لوگوں نے اسے شغل بنا لیا تھا، غالباً عورتوں کا استحصال کرنے کے لیے وہ تین طلاقیں دے کرعورتوں کو ہراساں کرتے۔ پھر اپنی منواتے تھے، حضرت عمرؓ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو مصلحتاً اسے مؤثر قرار دے کراسے نافذ کردیااو رایک مجلس میں تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عهد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأبي بکر وسنتین من خلافة عمر طلاق الثلث واحدة فقال عمرؓ بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیه أناة فلوأ مضیناہ علیهم فأمضاہ علیهم ( مسلم :478 جلد1)

یہ طاؤس تابعی کی روایت ہے، ان کی طرح ابوالصہباء سے بھی روایت آئی ہے کہ انہوں نے بھی حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا کہ : کیا حضورﷺ کے مبارک عہد میں، حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے دور میں او رحضرت عمرؓ کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقیں ایک شمار نہیں ہوتی تھیں؟ انہوں نے کہا ہاں:

إن الصھباء قال لابن عباس أتعلم إنما کانت الثلاث تجعل واحدة علی عهد النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و أبي بکر و ثلثا من إمارة عمر فقال ابن عباس نعم۔(مسلم:ص 478ج1)

حضرت عمرؓ کا یہ کہنا کہ لوگوں نے بڑی جلدی آسانی او رمہلت گنوائی ہے ، کاش! تین ہی مؤثر کردیتے، اس امر پر دال ہے کہ انہوں نے''مسئلہ'' کی نوعیت نہیں بدلی بلکہ تعزیراًایسا کیا ہےکہ لوگ رُک جائیں۔ چنانچہ بعد میں وہ اپنے اس اقدام پر پچھتائے بھی۔

قال أبوبکر الإسماعیل في مسند عمر:أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبی مالك عن أبیه قال، قال عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ماند مت علی شيء  ندامتی علی ثلث أن لا أکون حرمت الطلاق ،الحدیث (إغاثة اللھفان: ص336 ج1)

ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے بھی حضرت عمرؓ کے اس اقدام کی توثیق کی تھی۔ کیونکہ بعض اوقات اسلامی حکومت کی عارضی حکمت عملی سے حکمۃ ًاو رمصلحتاً تعاون کرنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اس کی حیثیت دائمی قانون کی نہیں ہوتی۔ اس لیےبعض لوگوں کو بعض صحابہ کی ایسی روایات سے حیرت نہیں ہونی چاہیے، جن میں حضرت عمرؓ کے عمل سے موافقت کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان حالات میں ایسی صورت ممکن ہوتی ہے۔ لیکن اس سے یہ رائے قائم کرنا کہ وہ اسے دائمی قانون کی حیثیت سے تسلیم کرتے تھے، محل نظر ہے۔ اگر بعض آثار واقعۃً ایسے مل بھی جائیں تو بھی مرفوع احادیث نے جوعقدہ کشائی کی ہے اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ الأحادیث یفسر بعضھا بعضاً۔

اس سلسلے کی دوسر علمی گفتگو؟ سو وہ بھی کی جاسکتی ہے ، اور لوگوں نے کی بھی ہے اور اس موضوع پر بعض دوستوں نے خاص طبع آزمائی بھی کی ہے مگر ان کی حیثیت ''تصریح'' کے مقابلے میں''تاویل اور تکلف'' کی ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ:

جن احادیث میں،ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق بیان کیا گیا ہے۔ وہ قرآن حکیم کی بیان کردہ حکمت عملی کے بھی عین مطابق ہے اور نوع انسان کی غیر متوازن کیفیت او رحالات کی رو سے بھی یہی حکمت عملی قرین قیاس ہے اور اس کا وہ ایک متوازن حل بھی ہے جس طرف دوسرے دوست دعوت دےرہے ہیں، گو وہ کتنی ہی نیک نیتی پر مبنی ہو، بہرحال اس سے ان مشکلات او ربے چینیوں میں اضافہ تو ممکن ہے،افاقہ نہیں۔

ہمارے ایک فاضل دوست نے ان روایات کے مشاہدہ کے بعد جوبات کہی ہے اس نے ہمارے مؤقف کی اصابت اور ضرورت کو او رزیادہ واصح کیا ہے، انہوں نے فرمایا ہےکہ :

اہل حدیث مکتب فکر کے اس مؤقف کی اصابت نے ہمارے بہت سے مسلمانوں کو عیسائی ہونے سے بچا لیا ہے، ورنہ ہوتا یہ تھا کہ: جب ایسے متاثرہ لوگ علمائے کرام کی طرف رجوع کرتے ہیں تو جوبزرگ ''ایک مجلس میں تین طلاقوں'' کو تین طلاق ہی قرار دیتے ہیں ان کی باتیں سن کو رہ عموماً عارضی طور پر یا مستقل طور پر عیسائی بن کر اس مخمصہ سے نکلنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب ہمارانقطہ نظر یہ ہے کہ :

جس طرح بعض مصالح کی بنا پر تین طلاقوں کو حضرت عمرؓ نے مؤثر قرار دیا تھا، اسی طرح حالات کا تقاضا ہے کہ اب ہماری حکومتیں بھی اس مفسدہ کے سد باب کے لیے یکجا تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دینے کا اعلان کریں تاکہ دنیا پریشانی سے نجات پاسکے۔ یہ احادیث قرآن کی روح کے بھی عین مطابق ہیں او رحالات کی نزاکت اور وقت کے تقاضوں کی روح سےبھی بالکل ہم آہنگ ہیں۔ طبیعت کو اگر اس انقباض سے صاف کرلیا جائے جو مخصوص وساطت اور خاص ڈگر سے وابستگی کی پیداوار ہوتاہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حکیمانہ تلقینات اور تعلیمات سے قدرتی ہم آہنگی اور مناسبت کے لیے شرح صدر جیسی دولت ضرور حاصل ہوسکتی ہے۔ جس کے بعد او رکسی چاشنی کی تمنا باقی نہیں رہتی۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد

(2) ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ:

1۔ فرض نمازاور سنتوں کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔

2۔ نیز یہ کہ جہاں فرض پڑھے جائیں، سنتیں وہاں سے ہٹ کر پڑھی جائیں۔مسنون کیا ہے؟

3۔ ایک او رمولوی صاحب کہتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ فرضوں کے بعد دعا مانگنے کے قائل نہیں ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

قرآن وحدیث کی رُ و سے صحیح کیا ہے؟

الجواب:

فرضوں کے بعد سنتوں میں تاخیر: احناف کا خیال ہے کہ: تاخیرنہیں ہونی چاہیے! یہ مکروہ تنزیہی ہے، یعنی تاخیر خلاف اولیٰ ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص تاخیرکرکے سنتیں پڑھتا ہے تو وہ سنتیں ہی ہوں گی مگر غیر مسنون وقت میں۔

ویکرہ تأخیر السنة إلا بقدر اللھم أنت السلام الخ (درمختار)فتحمل الکراھة .... علی التنزیهیة لعدم دلیل التحریمیة حتی لو صلاھابعد الأورادتقع سنة مؤداة لکن لا في وقتھا المسنون (رد المختار)

قال ابن الھمام: إن السنة في الصلوٰة التي بعدھا أن لایجلس بعد السلام لا قدر اللھم أنت السلام و منك السلام (فتح القدیر)

بقدر اللهم أنت السلام و منك السلام کامطلب اندازاً اور تقریباً ہے۔ تحدیداً (حدبندی) نہیں ہے۔

لأن المقدار المذکور من حیث التقریب و التحدید.... وکون التقریب في التخمین دون التحدید والتحقیق (عنیةالمستملي في شرح منیة المصلي)

کہتے ہیں احادیث میں جس نمازکےبعد اذکار او ردعاؤں کا ذکر آیا ہے ، اس سے ساری نماز مراد ہے، کیونکہ سنتیں فرضوں کا ضمیمہ ہوتی ہیں۔

وأما ما روي من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلوٰة فلا دلالة فیھا علی الإتیان بھا عقیب الفرض قبل السنة بل یحمل علی الإتیان بھا بعد السنة ولا یخرجھا تغلل السنة بینھاو بین الفریضة عن کونھا بعدھا وعقیبھا لأن السنة من الواحق الفریضة و توابعھا و مکملاتھا فلم تکن أجنبیة منھا فما یفعل بعدھا یطلق علیه أنه فعل بعد الفریضة و عقیبھا (غنیة المستملی)

لیکن یہ تاویل، تاویل سے زیادہ ایک تکلف ہے، جب حقیقت متعذر نہیں ہے پھر تاویل کا کیا فائدہ؟

یہ تاویل بتاویل مجاز ہے۔ لیکن یہاں حقیقت متعذر نہیں ہے، خاص کر ''دبر الصلوٰة المکتوبةکے الفاظ ان کی تاویل کو رد کرتے ہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ تاخیر اوراد مسنونہ کے سوا ہوتو مناسب نہیں ہوگی، اس لیے فقہا احناف نے بھی فرضوں کے بعد ان اور اد اور اذکار کے پڑھنے کو بھی مستحب کہا ہے جن کے پڑھنے کا حدیث میں ذکر آیا ہے۔

ویستحب أن یستغفر ثلثا و یقرأ آیة الکرسي والمعوذات و یسبح ویحمد و یکبر ثلاثا و ثلثین و یھلل تمام المائة ویدعو و یختم لبسبحان ربك (درمختار)

جو حضرات فرضوں کے بعد سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر مناسب نہیں سمجھتے ان کے دلائل یہ ہیں:

حضرت عائشہ کا ارشاد: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ سلام پھیر کر صرف بقدر اللھم أنت السلام و منك السلام.. الخ بیٹھتے تھے۔

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إذا سلم لم یقعد إلامقدارا یقول اللھم أنت السلام و منك السلام تبارکت یا ذالجلال والإکرام (مسلم)

لیکن محدثین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ : نماز کی حالت میں قبلہ رخ بیٹھنے کی جو حالت تھی، سلام کے بعد تقریباً اتنے ہی وقفہ پربدل جاتی تھی: علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں:

الظاھرأن المراد لم یقعد علی ھیئته إلاھذا المقدار ثم ینصرف عن جھة القبلةو إلافقد جاء أنه کان یقعد بعد صلوٰة الفجر إلی أن تطلع الشمس وغیر ذلك فلا دلالة في ھذا الحدیث علی أن المصلي لا یشتغل بالأوراد الواردة بعد الصلوٰةبل یشتغل بالسنن الرواتب ثم یأتي بالأوراد کما قال بعض العلماء (حاشیةابن ماجہ باب ما یقال بعد التسلیم)

حضرت سمرہؓ بن جندب کی روایت سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ پھر آپؐ مقتدیوں کی طرف رخ فرما لیتے تھے۔

کان النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إذا صلی صلوٰة قبل علینا بوجھه(بخاري باب یستقبل الإمام الناس إذا سلم) حضرت انسؓ سے بھی یہی ثابت ہے۔ (بخاری)

انسؓ بن مالک : وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او رحضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی وہ سلام پھیرتے ہی اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔

قالت صلیت وراء النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وکان ساعة یسلم یقوم، ثم صلیت وراء أبي بکر فکان إذا سلم وثب فکأنما یقوم عن رضفة (رواہ عبدالرزاق وفیه ابن جریج وقال حدثت وفي الطبراني الکبیر: ابن فروخ عن ابن جریج عن عطا عن أنس)

وفي روایة (ثم) انفتل ساعتئذ کأنما کان جالسا علی رضف (عبدالرزاق باب مکث الإمام بعد مایسلم)

اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کسی موقع پر آپؐ نے ایسا بھی کیا تھا ، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ انہوں نے وقفہ جائز نہیں سمجھا تھا۔ محل نظر ہے۔جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے کہ آپؐ سلام پھیر کر ذکر اذکار بھی کرتے رہتے تھے، یا یہ کہ صبح کی نماز پڑھ کر طلوع آفتاب تک آپؐ کبھی بیٹھے بھی رہے تھے، بہرحال یہ سب امور مندرجہ بال روایت کے خلاف جاتے ہیں۔ جو تاخیر کو مکروہ قرار دیتے ہیں یہ امو ران کو دعوت مطالعہ دیتے ہیں۔

ابوداد کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ فرض اور سنتوں کے درمیان وقفہ نہ کرنا یہود و نصاریٰ کا دستور تھا۔ روایت میں ہے کہ جب سلام پھیرا تو ایک شخص دوگانہ پڑھنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ حضرت عمرؓ نے اسے پکڑا اور کہا کہ یہ اہل کتاب کا مہلک دستور تھا ، حضورﷺ نے اس پر آپ کو شاباش کہی۔

ثم انفتل کانفتال أبي رمثة یعني نفسه فقام الرجل الذي أدرك معه التکبیرة الأولیٰ یشفع فوثب عمر فأخذ بمنکبیه فھذہ ثم قال اجلس فإنه لم یھلك أھل الکتب إلا إنھم لم یکن بین صلوتھم فصل فرفع النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بصرہ فقال أصاب اللہ بك یابن الخطاب (ابوداود باب في الرجل یتطوع في مکانه الذي فیه المکتوبة)

قال صاحب أعلام أھل العصر : والظاھرأن عمر لم یرد بالفصل فصلا بالتقدم لأنه قال له اجلس ولم یقل تقدم أو تأخیر فتعین الفصل بالزمان (عون المعبود)

وقال الطیبي : ویحتمل أن یراد بعدم الفصل ترك الذکر بعد السلام (عون)

فرضوں کے بعد بعض سورتوں او راذکار کی تلقین کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبی کی توجیہ معقول ہے، اس لیے صحیح یہ ہے کہ فرضوں کے بعد جن کے ورد کی رسول کریم ﷺ نے سفارش کی ہے۔ فرضوں کے بعد اتنی دیر اور تاخیر مکروہ نہیں، مسنون ہے، باقی رہا کوئی اور شغل؟ سو اس کی وجہ سے تاخیر کوئی مستحسن امر نہیں۔

اس سلسلے میں حضرت امام شوکانی کی بے اطمینانی بے محل معلوم ہوتی ہے او ربالکل غیر قدرتی۔ ہمارے نزدیک وہ اس سلسلے کی روایات کے بھی خلاف ہے۔

وہ اذکار، درود و ظائف اور دعائیں جو فرائض کے بعد رسول کریم ﷺ سے ثابت ہیں خاصی تعداد میں ہیں،اگر وہ سب یا چند ایک ملا کر کوئی نمازی پڑھنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ فرضوں اور سنتوں کے درمیان وقفہ اور بڑھ سکتا ہے جومطلقاً تاخیر کو مکروہ تصور فرما رہے ہیں ان کے لیے یہ بات مشکل بن جاتی ہے، چنانچہ اب انہوں نے یہ قید بھی بڑھا دی ہے کہ حضورﷺ سے جو ثابت ہیں ان سب کو جمع نہ کرے، کوئی ایک ہی شے پڑھ لے۔

والأدعیة بعد الفریضتة قبل السنن ثبتت کثیرة ولکنه لایجمعھا بل یأتی بأیتھا شاء (فتح القدیر)

لیکن اس کی دلیل انہوں نے ذکر نہیں فرمائی کہ کیوں؟ ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ : مسنون وقت کے اندر اندر جتنے وظائف اس سے پڑھے جاسکتے ہیں پڑھ سکتا ہے ۔لیکن احادیث میں یہ تحدید نہیں آئی کہ مسنون اور اد میں سے صرف ایک آدھ پڑھے، بہرحال جمہور کا مذہب یہی ہے کہ سنتوں سے پہلے مسنون اذکار پڑھ سکتا ہے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

ویؤخذ من مجموع الأدلة أن الإمام أحوالا لأن الصلوٰةإما أن تکون مما یتطوع بعدھا أولاد یتطوع؟ الأول اختلف فیه ھل یتشاغل قبل التطوع بالذکر المأثور ثم یتطوع وھذا الذي علیه عمل الأکثر وعند الحنفية یبدأبالتطوع وجعة الجمهور حدیث معاویة (فتح الباري باب مکث الإمام في الصلوٰة بعد السلام)

حافظ ابن حجر نے جو حدیث معاویہ ذکر کی ہے وہ مسلم میں ہے:

قال السائب بن یزید أنه صلی مع معاویة الجمعة فتنفل بعدھا فقال له معاویة إذا صلیت الجمعة فلا تصلھا حتی تتکلم أو تخرج فإن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أمرنا بذالك (فتح)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: اس پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد جگہ کی تبدیلی ہوسکتی ہے، ذکر مسنون نہیں۔

ویمکن أن یقال لا یتعین الفصل بین الفریضة والنافلة بالذکر بل إذا تنحی من مکانه کفی (فتح)

لیکن فرماتے ہیں ، دوسری جن روایات میں فرضوں کے بعد اذکار کا ذکر آیا ہے۔ اس سے ''ذکر ماثور'' کی ترجیح ثابت ہوجاتی ہے۔

ویترجح تقدیم الذکر المأثور بتقییدہ في الأخبار الصحیحة بدبر الصلوٰة (فتح) اور یہی حق ہے۔کمامر!

جگہ کی تبدیلی: یہ مسنون امر ہے او رمطلوب ہے۔ امام اور مقتدی کے لیے یکساں ہے مگر کچھ بزرگوں نے اسے صرف ''امام'' کے لیے مخصوص کرنے کی کوشش فرمائی ہے او راس سلسلے میں بعض صحابہ اور تابعین کے آثار بھی ملتے ہیں (مصنف عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ) تاہم ان سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی نمازی فرض پڑھ کر جگہ تبدیل کیےبغیر وہاں ہی سنتیں پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں او راس میں اختلاف بھی نہیں ہے۔کیونکہ جو حضرات جگہ تبدیل کرنے کو کہتے ہیں، وہ اولیٰ کہہ کر کہتے ہیں، بہرحال جو حضرات جگہ تبدیل کرنے کے حق میں ہیں ، ان کی دلیل یہ ہے۔

حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ امام کو چاہیے کہ اپنی جگہ تبدیل کرلے۔

لا یصل الإمام في الموضع الذي صلی فیه حتی یتحول (رواہ أبوداود وقال : عطاء الخراساني لم یدرك المغیرة بن شعبة ) یعنی یہ روایت منقطع ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ کیا تم سے یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ فرض پڑھ کر ادھر ادھر جگہ تبدیل کرلیا کرو۔

أیعجزأحدکم.... أن یتقدم أویتأخراأوعن یمینه أو عن شماله زاد في حدیث حماد في الصلوٰة أن في السبعة رواہ أبودا ودقال البخاري ویذکر عن أبي ھریرة دفعه لا یتطوع الإمام في مکانه لم یصح وقال الحافظ : وذلك نصف إسنادہ واضطرابه تفرد به لیث بن أبي سلیم وھو ضعیف وقال: وقد ذکر البخاري الاختلاف فیه فی تاریخه وقال لم یثبت ھذا الحدیث)

حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ :بات کرلیں یا جگہ تبدیلی کرلیں پھر سنتیں پڑھیں۔ حضورﷺ نے ایسا ہمیں حکم دیا ہے، یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اگرکوئی کہے کہ اس سلسلے میں حدیث ثابت نہیں ہے تو ہم کہیں گے ثابت ہے۔

فإن قیل لم یثبت الحدیث في التنحي قلنا قد ثبت في حدیث معاویة حتی تخرج (فتح)

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ امام جگہ تبدیل کرکے کھڑے ہوں۔

من السنة أن لایتطوع الإمام حتی یتحول من مکانه(رواہ ابن أبي شیبة وقال الحافظ : روی ابن أبي شیبة بإسناد حسن (فتح)

امام بخاری حضرت عمرؓ کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ جہاں فرض پڑھتے وہاں سنتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔

عن نافع کان ابن عمر یصل في مکانه الذي صلی فیه الفریضة(بخاری)

عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ:

وکان إذا صلی المکتوبة سبح مکانه (عبدالرزاق)

ان کا قول بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔

ان ابن عمر کان لا یری به بأسا (ابن ابی شیبۃ)

دوسری روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ جگہ تبدیل کرنے کے حق میں تھے۔

عن عطا أن ابن عباس و ابن الزبیر و أبا سعید و ابن عمر کانوا یقولون لا یتطوع حتی یتحول من مکانه الذي صلی فیه الفریضة (ابن ابی شیبۃ)

بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کا یہ قول صرف امام کے متعلق ہے۔

فقال ابن المسیب: إنما کرہ ذلك للإمام (عبدالرزاق) قال الشعبي أنه کرہ إذا صلی الإمام أن یتطوع في مکانه ولم یردبه لغیر الإمام بأسا(ابن بی شیبة)

یہ ان کا استنباط معلوم ہوتا ہے دراصل وہ اسے جواز اور عدم جواز کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے اس لیے وہ دونوں طرح کہتے او رکرتے تھے اس سے ایک نے سمجھا کہ یہ کراہت ''امام'' تک محدود ہے دوسرے نے کہا کہ و ہ سب کے لیے یہی تصور کرتے تھے۔

ایک شخص فرض پڑھ کر اسی جگہ سنتیں پڑھنے لگا تو حضرت ابن عمرؓ نے اسے دھکا دیا اور بتایا کہ تو نے فاصلہ نہیں کیا۔

من أجل ذلك أنك لم تتکلم منذانصرفت من المکتوبة (عبدالرزاق)

بہرحال مرفوع احادیث سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جگہ تبدیل ہوجائے تو بہتر ہے۔ اگر تبدیل نہ کرسکے تو کم از کم کلام ہی کسی سے کرلے، باقی رہی حکمت؟ تو کوئی کہتا ہے کہ جگہ گواہی دے گی یہ بھی گواہ رہے اور وہ ٹکڑا بھی ، کوئی کہتا ہے کہ : فرض اور نوافل میں امتیاز ہوجائے۔ بعض کہتے ہیں کہ امام ضرور بدلے تاکہ اس پر قیامت کا نشہ طاری نہ رہے، سوشلسٹ سے پوچھو گے تو وہ کہے گا کہ : میاں جی اسے کہیں اپنی ملکیت نہ بنالے، لیکن صحیح یہ ہے کہ :چونکہ ہمارے نبیؐ اسے پسند کرتے ہیں۔ ہمیں بھی پسند ہے۔

رشتہ در گرد نم افگندہ دوست

می کشد ہرجا کہ خاطر خواہ اوست

اس سے بڑھ کر ہمارے لیے او رکوئی حکمت او رفلسفہ نہیں۔ لتعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ۔

ابن تیمیہ اور دعا: امام ابن تیمیہ فرض نمازوں کے بعد ذکر اذکار کے تو قائل ہیں لیکن دعا کے متعلق ان کانظریہ ہے کہ وہ نماز میں سلام سے پہلے کی جاسکتی ہے جب ان سےکہا گیا کہ دعا کے لیےدبر الصلوٰۃ المکتوبۃ کے الفاظ آئے ہیں، جس کے معنی فرضوں کے بعد کے ہیں؟ تو فرمایا ''دُبر'' شے کا جزء ہوتاہے، تووہ سلام سے پہلے ممکن ہے، سلام کے بعد جز نہیں رہتا۔

وأما لفظ ''دبر الصلوٰة'' فقد یراد به آخر جزء منه وقد یراد به ما یلی آخرجزء منه کما فیدبر الإنسان خانه آخر جزء عنه و مثله لفظ العقب وقد برادبه الجزء المؤخر من الشيء کعقب الإنسان وقد یراد به ما یلي ذلک فالدعاء المذکور في دبر الصلوٰةإما ان یراد به آخرجزء منھا لیوافق بقیة الأحادیث أویرادبه مایلي آخرھا ویکون ذلك ما بعد التشھد (فتاویٰ ابن تیمیۃ جلد22 ص499)

لیکن علماء نے ان کی یہ دریافت قبول نہیں فرمائی، کیونکہ تسبیحات مسنونہ کے لیےبھی ''دُبر الصلوٰة'' کے الفاظ آئے ہیں، تو کیا یہ بھی سلام سے پہلے ہونی چاہیئیں(1) ؟ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔

وزعم بعض الحنابلة أن المراد بدبر الصلوٰة ما قبل السلام وتعقب بحدیث ذھب أھل الدثور فإن فیه تسبحون دبر کل صلوٰة و بعد السلام جزما فکذلك ما شابھه(فتح الباري باب مکث الإمام في مصلاہ بعد السلام) (عزیز زبیدی)

.................................

فٹ نوٹ(1)..... دراصل نماز کے بعد دعا کے مسئلہ کا تعلق امام کے السلام علیکم ورحمۃاللہ کہنے کے بعد دعا کےلیے دوبارہ اجتماع یا اس دعا کے لیے سب کے مشترکہ ہاتھ اٹھانے کی کیفیت سے ہے جو حدیث سے ثابت نہیں۔ جہاں تک اذکار مسنونہ کا تعلق ہے وہ جماعت کے ختم ہونے کے بعد جماعتی صورت میں نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص انفرادی طور پر کرتا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ نماز کی ابتداء تکبیر سے ہوتی ہے اور انتہا تسلیم سے۔ لہٰذا زیر غور نکتہ یہ ہےکہ اگر تسلیم کے بعد دعا کے لیے وہی اجتماعی کیفیت بنائی جائے تو یہ جماعت بندی ہوکر نماز کا حصہ بن جائے گی۔ حالانکہ نماز باجماعت ختم ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ ایسی دعا کے بغیر نماس کو ناقص سمجھتے ہیں۔اس پس منظر میں امام ابن تیمیہ  کا مسنون دعاؤں کو دبر الصلوٰۃ میں شامل کرکے تسلیم سے قبل رکھنا او ربعد از نماز اجتماعی کیفیت کو دبر الصلوٰۃ کے مفہوم سے خارج قرار دینے کی توجیہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ فافہم و تدبر! (مدیر)