فَسَاد فیِ سبَیلِ الجَمہُوریۃ

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں

عن أبي هریرةرضي اللہ تعالیٰ عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : وإياکم وسوء ذات البین فإنھا الحالقة (رواہ الترمذي) ''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور بداعتمادی پیدا کرنے سے پرہیز کرو! کیونکہ یہ (بات دین ایمان کو) مونڈ کر صفا چٹ کردیتی ہے۔''

ایک اور روایت میں ہے:

رب إلیکم دآء الأمم من قبلکم الحسدوا لبغضآء ھي الحالقة ، ولا أقول تحلق الشعر ولکن تحلق الدین (رواہ الترمذي)

''پہلی قوموں کامرض آہستہ آہستہ تمہاری طرف سرکتا آرہا ہے یعنی(1)حسد (2) اور ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی او رکینہ، وہ مرض مونڈنے والا ہے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ بالوں کو مونڈتا ہے بلکہ دین کو صفا چٹ کردیتا ہے۔''

کم سواد سیاسی نادان: باہم بداعتمادی، ایک دوسرے سے خلق خدا کو متنفر کرنا، مکروہ ہتھکنڈوں کے ذریعے کسی جماعت او رملکی طبقہ کے خلاف فضا میں برہمی پیدا کرنا، اپنی قوم کو افتراق اور انتشار میں مبتلا کرکے اپنی دکان چمکانا، دین نہیں، دین کش پالیسی ہے۔جو لوگ اس چسکے میں پڑے ہوئے ہیں، ان کو یہ چسکا حددرجہ مہنگا پڑے گا۔ خاص کر دور حاضر کے سیاستدانوں کو اس ''کار بےخیر'' کا جتنا اور جیسا کچھ حساب دینا پڑے گا، اس کا وہ اب اندازہ نہیں کرسکتے، بلکہ انہیں جب اپنی ایک تقریر، ایک دورہ اور اپنی مشاورتی کونسل کے صرف ایک اجلاس کی کارروائی کے حساب کتاب کے لیے بلایا جائے گا تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ ان کی عمر بھر کی ساری کمائی صرف ایک ہی کھاتہ کی نذر ہوگئی ہے کیونکہ ''ملت اسلامیہ'' میں تفریق کے سامان کرنا، شرک کے بعد سب سے بڑی معصیت ہے، ملّی شیرازہ کا خون، بھرے مجمع میں مسلم بھائیوں کی غیبت، ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی، اپنے ہی معاشرہ میں کشیدگی کا اتمام، غلط انکشافات، جھوٹے الزامات اور شکوک و شبہات کے ریل پیل، ان کی ہر تقریر کا تانا بانا، ان کی ہر نشست کا طول و عرض او ران کی ہر گشت کا حاصل بنتا ہے۔ باقی رہی ان کی خیر کی کچھ باتیں ؟ تو وہ عموماً اخلاص پر مبنی کم ہوتی ہیں بلکہ صرف عوام کا استحصال کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ ایک آدھ جماعت کے سوا یا کچھ افراد سے قطع نظر عام طور پر اس حمام میں باقی سب ہی ننگے ہیں۔

مذہبی جنونی: ان ''سیاسیین سوء'' کے بعد دوسرے نمبر پر جن کا نام آتا ہے وہ مذہبی او رروحانی پیشواؤں کا گروہ ہے، لیکن ان میں اکثریت ان رہنماؤں کی ہوتی ہے جو گو وہ ''مذہبی جنونی'' ہوتے ہیں تاہم عموماً نیک نیت ہوتے ہیں، لیکن وہ یہ ضرور بھول جاتے ہیں کہ اس کے باوجود ''تفریق بین المسلمین'' کے مجاز ہیں اور ان کو اس امر کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ یہ حق نہیں رکھتے کہ بعض مسئلوں کے نام پر وہ ملّی وحدت پر بوجھ بنیں یا وہ اس کا خون کریں۔

تیسرا طبقہ پریس کے نمائندوں اور صحافیوں کا ہے جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کو کامیاب صحافت تصور کرتے ہیں، جب یہ مریں گے اس وقت ان کومعلوم ہوتا کہ قلم کے ہل چلا کر کیا بویا او رکیا کاٹا؟

بہرحال یہ وہ گروہ ہیں ، جوملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کا اعزاز بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اسی کے بخیے بھی ادھیڑ سکتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بدقسمتی سے جمہوری دور نے ان تینوں کو اس کی کھلی چھٹی بھی دے رکھی ہے کہ: چاہیں تو وہ سارے عالم اسلام کو باہم متحد اور مربوط بناڈالیں، چاہیں تو ایک گھر کے چار افراد کو بھی ایک پیالہ میں پانی پینے کے قابل نہ رہنے دیں۔ جمہوریت کے پرستاروں کے ہاں اسی کا نام تحریراور تقریر کی آزادی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اس کا نام آزادی ہے تو دنیامیں ''تخریب'' کا وجو داور کہاں ہے اور اس کی کیا شکل ہوتی ہے۔؟

صحیح، بجا او رحق بات کہنے او رکہہ سکنے کی آزادی کا نام ''حریت فکر'' ہے۔ الابلا اور اٹاپ شٹاپ بکنے اور بک سکنےکا نام نہیں ہے، بلکہ صرف حسب حال، حسب داعیہ، برمحل، اصلاح حال کی غرض سے ''اظہار خیال '' کی اجازت ہے، بشرطیکہ ملت اسلامیہ کی جمعیت ،اتحاد اور خوشگوار فضااس سے غلط متاثر نہ ہو، اس لیے حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ : بولنا ہے تو خیر کاکلمہ بولیے ورنہ چپ ہی رہیے ۔

ومن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أولیسکت (رواہ البخاري و مسلم)

تبلیغ اور مخلصانہ تنقید و تبصرے بھی ''بال نوچنے اور فتنوں کو ہوا دینے ''کانام نہیں ہے بلکہ ''اراءۃ الطریق'' کی یہ ایک مبارک شکل ہے جس سے غرض، صورت حال کو کنٹرول کرنا او رپیش آمدہ معاملے کے سلسلے میں صرف صحیح رہنمائی مہیا کرنا ہوتی ہے۔

صحافت ایک عظیم سلسلہ روایت اور جرح و تعدیل کی ایک باضمیر اور دیانتدارانہ ذمہ داری کا نام ہے مگر اسے یار دوستوں نے کاروبار یا گروہی تعصبات کانقیب بنا ڈالا ہے، جتنی یہ عظیم اکسیر ہے، اتنی احتیاط اگر وہ ملحوظ رکھتے تو دنیا آج اوجِ ثریا پرفائز ہوتی، لیکن افسوس! دوستوں نے اپنے مقام ، شرف و مزیت اور ذمہ داریوں کا صحیح احساس نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتے تو اس سلسلے میں محدثین کی روایات اور تعامل کو زندہ رکھ سکتے تھے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ''قلم'' کوئی دھندا نہیں ہے، ایک روایت ہے، ایک دعویٰ ہے ، ایک شہادت ہے، دل ہے، دماغ ہے، نگاہ ہے، جرح و تعدیل کا ایک دینی فریضہ ہے۔ جذبات او راحساسات کی زبان ہے، ضمیر اور دیانت کی بیباک آواز ہے، آخرت کی جوابدہی کا ایک احساس اور شعور ہے۔محدثین کی دنیا اوران کی روایات کا احیاء ہے۔ خدا کاواسطہ دے کر ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہماری صحافت کی یہی زمین ، یہی کائنات اور یہی آسمان ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر سوچ لیجئے! جب آپ خدا کے حضور پیش ہوں گے تو آپ کے پاس اس کا کیاجواب ہوگا؟ یہی نا! کہ دنیا کسی کی بنی آخرت ہم بیچتے رہے اور ''ثمناً قلیلاً'' کے عوض؟ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

ہمارے نزدیک تفریق بین المسلمین کے سامان ''سیاسیین سوء'' کریں یا''نادان علماء'' صحافی کریں یامشائخ، وہ نیک نیتی سے کریں یا بدنیتی سے، بہرحال شرعاً حرام ہے او ریہ بات بھی ہم برملا کہتے ہیں کہ : موجودہ سیاسی دور نے وحدت ملت کی حرمت کو اپنے لیے حلال کرلیا ہے، وہ اسکاخون پیتے ہیں، اسکاگوشت تناول کرتے ہیں، اس کی ہڈیاں چباتے ہیں، او راس کا نام بیچتے ہیں۔ اس سرے سے لےکر اسرے تک ایک دوسرے کے خلاف آگ بھڑکاتے او رلگاتے ہیں، اپنے ماسوا ہر دوسرے کو غدار، ملک کا باغی اور اسلام کادشمن بتاتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کا ایک عظیم طبقہ باہم الجھ کرملک و ملت کی تعمیر اور ترقی کی راہ میں سنگ گراں بن کر کھڑا ہوجاتا ہے اور غیر شعوری طور پر ملک پر ''کشیدگی'' کی ایک غیر مختتم فضا طاری ہوجاتی ہے۔

اسلام تنقید کا حق دیتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ معاشرہ میں محاذ آرائی پیدا ہوجائے اور ملّی وحدت مختلف طبقات اور اکائیوں میں بٹ کر رہ جائے۔ تنقید سے غرض، اصلاح حال ہوتی ہے، مزیدبگاڑ نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پرجو دنگل پیدا ہوگئے ہیں او راس میں جماعتی کبڈی کے جو جو نمونے دیکھنے میں آرہے ہیں، وہ ایک معقول اور شریف فرد سے بھی متوقع نہیں ہوسکتے۔ چہ جائیکہ ان حماقتوں اور ذلیل ہتھکنڈوں کو قومی سطح پر قومی کردار کا جزو بنا دیاجاوے، بہرحال موجودہ جمہوریت دنیا کے اندر ایک ایسا میخانہ ہے جہاں شریفوں اور عظیم انسانوں تک کی پگڑی اچھلتی اور اچھالی جاتی ہے۔ اس جمہوریت کے ڈھونگ نے فساد فی سبیل الجمہوریہ کو مقدس بنا کر جس طرح اس کا چلن عام کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، منافرت، محاذ آرائی، تخریب کاری، غیر مختتم کشیدگی،بدزبانی، استحصال پر مبنی فضا ، ناقدری اور ناہنجاروں کی درآمد، اس جمہوریت کی سوغاتیں ہیں اور شرمناک سوغاتیں ہیں۔ جو قوم اس سے جتنی جلدی پیچھا چھڑائے گئی، اتنی ہی وہ شرافت، شریفانہ قداوت ، پُرامن فضا، یکجہتی اور اطمینان سے ہمکنار ہوگی۔

عن عبدالرحمٰن بن غنم و أسمآء بنت یزید أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال.... و شرار عباداللہ المشاؤون بالنمیمة المفرقون بین الأحبة الباغون البراء العنت (رواہ احمد)

بدترین لوگ: ''حضور ﷺنے فرمایا کہ..... اللہ کے بندوں میں بدترین بندے وہ ہیں کہ لگائی بجھائی جن کا شیوہ ہے اور جو دوستوں میں پھوٹ ڈالتے اور پاک دامنوں پر تہمتیں لگاتے ہیں۔''

غور فرمائیے! پیغمبر خداﷺ کی نگاہ میں جو بدترین خلائق ہیں ، وہ جمہوری سیاست میں، قوم کے سیاسی رہنما ہیں جو کردار اسلام میں ذلیل ترین پیشہ ہے وہ پارلیمانی نظام حکومت کی نگاہ میں عظیم سیاسی حکمت عملی ہے۔ إناللہ وإنا إلیه راجعون۔

النمیمہ: لگائی بجھائی او رجوڑ توڑ وہ مکروہ ہتھکنڈے ہیں، جب ان کے چہرے سے پردہ اٹھتا ہے تو اپنے اوپر پرائے سبھی لوگ ان پرپھٹکار کرتے ہیں۔ لیکن جب اسے کوئی سیاستدان اپناتا ہے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے او راسے اس کی داد دیتے ہیں کہ اس کے کیا ہی کہنے، یہ تو بلاکا سیاستدان نکلا ہے۔

المفرقون: افتراق اور انتشار کا فریضہ انتہائی شرمناک او رگھناؤنا فعل ہے لیکن اگر کوئی سیاسی شاطر اس سلسلے میں اپنے شاطرانہ جوہر دکھاتا ہے تو ''واہ وا '' ہونے لگ جاتی ہے۔

الباغون: الزام تراشی اگر باپ بھی کرے تو دنیا اسے گردن زدنی تصور کرتی ہے، لیکن اگر کوئی سیاسی احمق یہ فریضہ انجام دیتا ہے تو اسے داد دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ :کیا خوب! یہ تو بہت ہی نباض،ہوشیار اور زیرک انسان ہے۔

ان تمام سیئات کے اتمام کے لیے جمہوری حکومتوں نے ان کی جوسر پرستی کی ہے یا جس طرح اس کی حوصلہ افزائی کا فریضہ انجام دیا ہے او راس کے لیے ان سیاسی تخریب کاروں کو وہ جتنے اور جیسے کچھ وسائل مہیا کررہی ہیں وہ تنہا ان کی نااہلی او ربے برکتی کے ثبوت کے لیےکافی ہیں۔ ان نام نہاد جمہوری اداروں نے قوم کو بدزبان او راپنے ہی بھائیوں کا بدخواہ بنا کررکھ دیا ہے، جو برسراقتدار آجاتا ہے وہ آخر اس کہرام کو اور دو آتشہ کردیتا ہے۔ بہرحال ''انتخابات اور الیکشن'' کے سلسلے کی مہموں ، دوروں، تقریروں ، بیانوں ، جلوسوں، مظاہروں او ربے قابو نعروں کی وجہ سے پورا ملک ''محشر کامیدان'' بن جاتا ہے ،زمین و آسمان زیرو زبر ہوتے دکھائی دیتے ہیں، نفسی نفسی کا عالم طاری ہوجاتا ہے ، باپ بیٹے کا، بھائی بھائی کا، ماں بیٹی کی دشمن بن جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس انداز کی مشقیں، آدم خور مشقیں ہیں، جو افراد یا حکومتیں اس کی پشت پناہی کرتی ہیں وہ دراصل اتحاد و اتفاق کی جانی دشمن ہوتی ہیں، وہ سب قابل تعزیر اور لائق سزا لوگ ہیں۔

عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنهما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أفضل الصدقة إصلاح ذات البین (رواہ الطبرانی والبزار)

''حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ دو دلوں کی باہمی کدورتوں کی اصلاح کرنا سب سے افضل اور بہتر صدقہ ہے۔''

یعنی معاشرہ میں ''صلح ، آشتی او رالفت'' کی کھیربانٹنا، سب صدقات اور خیرات سے برتر خیرات اور صدقہ ہے۔ اگر اس کے برعکس کوئی شخص معاشرہ میں منافرت اور بداعتمادی کے بیج بوتا ہے تو وہ قوم سے سخت بے انصافی کرتا ہے۔ لیکن افسوس! ابن الوقت سیاستدانوں کی یہ بات قطعاً سمجھ میں نہیں آتا، جب اٹھتے ہیں پگڑی اچھالتے ہیں، لوگوں میں منافرت پیدا کرکے ان کا استحصال کرتے ہیں۔

عن أنس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، إذ امدح الفاسق غضب الرب واھتزله العرش (شعب الإیمان)

حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جب فاسق (بازاری) شخص کی تعریف کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اور اسکی وجہ سے عرش (الہٰی)لرز جاتا ہے۔

دھکے سیاست کی وجہ سے یہ دن بھی دنیاکو دیکھنے پڑ گئے ہیں کہ جن بازاری اور فساق لوگوں کوجیل میں ہونا چاہیے تھا، ان کے اب قصیدے پڑھے جاتے ہیں، قوم کا ان کو رہنما بنایا جاتا ہے، اور ان کی غلط کاریوں پر نہ صرف پردے ڈالے جاتے ہیں بلکہ ان کو ان کی داد بھی دی جاتی ہے، اور ان کےسلسلے میں ان کو ہدیہ تبریک بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:یہ وہ وقت ہوگا جب تم امام وقت کو تہ تیغ کرکے کمینوں کے لیے جگہ خالی کرو گے۔

عن حذیفةرضي اللہ تعالیٰ عنه : أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لا تقوم الساعة حتی تقتلوا إما مکم و تجلد و ابأسیا فکم ویرث دنیاکم شرارکم (ترمذی)

''قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ تم اپنے امام کو قتل کرو گے او راپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کو مارو گے او ریہاں تک کہ تمہاری حکومت کےوارث تمہارے بدکار او ربازاری لوگ ہوں گے۔''

یہ بھی فرمایا کہ: سب سے زیادہ اچھا ستارے والا وہی کہلائے گا، جو خاندان بازاری شخص ہوگا، بس پھر قیامت قریب سمجھو۔

لاتقوم الساعة حتی یکون أسعد الناس بالدنیا  لکع ابن لکع (ترمذی)

''یعنی قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ دنیا میں سب لوگوں سے اچھے ستارے والا، پشتینی احمق او ربازاری شخص کو سمجھا جانے لگے گا۔''

دراصل یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ: اکثریت بازاری اور اسلام ناآشنا لوگوں کی ہے، اگر بھلے آدمیوں کی کثرت ہوتی تو یقیناً کسی بھلے آدمی کے ہی گرد جمع ہوتے، اس لیے جیسی روح ویسے فرشتے، بہرحال رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ فاسق فاجر لوگوں کے دعا گوؤں کو قیامت میں شفاعت نصیب ہوگی نہ وہ میرے حوص کوثر کےنزدیک پھٹکیں گے۔

عن کعب بن عجرةرضی اللہ تعالیٰ عنه قال قال لي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن دخل علیهم فصدقھم بکذبھم و أعانھم علی ظلمھم فلیسوا مني ولست منھم ولن تردوا علي الحوض (ترمذي)

''جو ان کے پاس آنا جانا رکھیں گے، ان کے جھوٹ کو سچ کہیں گے او ران کی بے انصافیوں میں ان کی تائید کریں گے، وہ ہمارے ، نہ میں ان کا، اور نہ وہ میرے پاس حوض کوثر پر آسکیں گے۔''

من شر الناس منزلةیوم القیامةعبد أذھب آخرته بدنیا غیرہ (ابن ماجہ)

''قیامت میں سب سے بدتر منزل میں وہ شخص ہوگا جس نے دوسرے کی دنیا کے بدلے اپنی آخرت بیچ دی۔''

اگر عوام کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ ان سیاسی جواریوں کی ممبری ، اقتدار اور کرسی کے لیے اپنے ایمان، ضمیر،آخرت اور غیرت کا خون کرنا قیامت میں حد درجہ کی رسوائی اور دردناک عذاب کا موجب ہوگا تو ان جواریوں کو اپنے گاؤں سے ہی نکال باہر کریں۔

10۔ عن عقبة بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: أعجزتم إذا بعثت رجلا فلم یمض لأ مري أن تجعلوا مکانه من یمضي لأ مري (ابوداد) ''فرمایا: میں جب ایک شخص کو روانہ کروں اور وہ میرے حکم کانفاذ نہ کرے کیا تم اس امر سے عاجز ہو کہ اس کی جگہ کسی ایسے شخص کو مقرر کرو جو میرے حکم کانفاذ کرے۔''

نئے انتخابات کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے، جب پہلا شخص کتاب و سنت کے نفاذ میں فیل ہوجاتا ہے او رناکام رہتا ہے،اور اب اس انتخاب کا محرک بھی یہ ارادہ اور جذبہ ہوگا ہے کہ: ایسا آدمی آگے لایا جائے جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور قرآن حکیم کے احکام کی لاج اور شرم رکھ سکے۔ اس انتخاب کی کیفیت بھی یہ بیان کی گئی ہے کہ: اپنے سے بہتر شخص کو دیکھ کر میدان خالی کردیا جائے۔ اس کامقابلہ کیا جائے نہ اس کے مقابلے میں کسی کولایا جائے! فرمایا: وعلی أن لا ننازع الأمر أھله(بخاری و مسلم) یعنی یہ کہ: اہل شخص سے الجھا نہ جائے، ہاں اگر وہ کفر صریح کا مرتکب ہو تو پھر اور بات ہے۔ إلا أن تروا کفرا بواحا (بخاری)

یہ بات بھی ''حشر بردوش'' انتخاب کی بات نہیں ہے، کیونکہ یہاں'' مقابلے'' کی بات خارج از امکان قرار دی گئی ہے: أن لاننازع الأمر أھله(بخاری) بلکہ یہ سفارش ان لوگوں سے کی جارہی ہے جو (1) دیندار (2) سیاسی لحاظ سے سمجھدار (3) اپنی قوم میں معروف اور بااثر لوگ ہیں کہ: وہسر جوڑ کربیٹھیں اور اس کے لیے ایک مبارک شخص کا نام تجویز کریں جو انتظامی صلاحیترکھتا ہو، جس کی آنکھوں میں خدا اور رسول کی شرم ہو اور وہ خوف خدا رکھتا ہو۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ ایسے شخص کی تشخیص سڑکوں ، چوراہوں او ربازاروں میں نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے درخواستیں طلب کی جائیں گی بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، فوجی سربراہ اور چیف سیکرٹری کی موجودگی میں او ران کے مشورہ کے ساتھ ملک کے صالح،معروف ، مقبول ، غیر جانبدار اور اہل حضرات جمع ہوکر اس نشست میں ایک فارمولا بنائیں گے جو فرقہ وارانہ او رطبقاتی نقطہ نظر سے بالاتر اقدار پر مبنی ہوگا، پھر اس کی روشنی میں ''شرکاء مجلس''اپنی اپنی معلومات کے مطابق اس کے لیےکچھ باصلاحیت او رباخدا حضرات کا نام پیش کریں گے، اس پر مناسب بحث و تمحیث کے بعد ''چیف جسٹس'' اس کا اعلان کردیں گے، جس پرسب سے پہلے فوجی سربراہ کے دستخط ہوں گے اس کے بعد چیف سیکرٹری اور دوسرے ارکان شورائیہ دستخط کریں گے۔ جب یہ کام اتمام کو پہنچ جائے گا، اس کے بعد اگر کوئی شخص اپنی چودھراہٹ کے لیے بے چین ہوگا تو اس کو ''حوالہ زنداں'' کیا جائے گا،کیونکہ اقتدار ملت کی طرف سےعطا ہوتا ہے، اسے مانگ کر حاصل نہیں کیا جاتا اور نہ وہ جنس بازار ہے۔

من أتاکم و أمرکم جمیع علی رجل واحد یرید أن یسق عصاکم أو یفرق جماعتکم فاقتلوہ (رواہ مسلم)

''جب آپ ایک شخص پرجمع ہوجائیں، اس کے بعد کوئی آکر اگر اس کے بالمقابل اڈہ جماتا ہے تو اسےٹھکانے لگا دو!''

یعنی اب اسے کام کرنے دیا جائے،علانیہ یا زیر زمین ایسی تحریک نہ چلائی جائے کہ وہ کام کرنے کے بجائے ان کے دفاع میں ہی لگا رہے، لیکن نام نہاد جمہوری دور میں، ایک شخص کے انتخاب کے بعد بالکل اگلے دن اس کے خلاف جلسے ، جلوس،تقریریں، محاذ آرائیاں اور خدا جانے کیا کیا حرکتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ او ریہ ''لے'' اتنی بڑھتی ہے کہ اس سلسلے کی ہر تخریب کار جہاد کہلانے لگتی ہے او راس کے خلاف ہر سازش ''دعوت حق'' بن جاتی ہے۔نہ کھیلیں گےنہ کھیلنے دیں گے، کا ایک سماں طاری ہوجاتا ہے کہ الامان والحفیظ،بہرحال جمہوریت کے نام پر جو جو شرارتیں روا رکھی جاتی ہیں اور ''فساد فی سبیل الجمہوریہ'' کوجس طرح سیاسی عبادت کا درجہ دے دیا گیا ہے ، ممکن ہے،دوسری اقوام کے ہاں اس کا کوئی مقام و مرتبہ ہو، بہرحال دین اسلام کی رو سے یہ ایک ایسی شیطنت ہے، جس کو قبول کرلینے کے بعد ایمان ، سنجیدگی او رمعقولیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ مغرب جمہوریت کے اس فتنے نے''کتاب جمہوریت'' کو ''نوشتہ خدا'' ''ایمان ،نبی، حیا او رحق'' کا درجہ دے کر دین نبی کی راہ میں سخت مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اس لیے ہم اس بدنظام پر لعنت بھیجتے ہیں او ران تمام اقدار کے خلاف جہاد کرنے کو شرعی جہاد اور فرض عین تصور کرتے ہیں۔ جن کی بنیاد پرجمہوری شیطان'' کا پھریرا لہراتا ہے۔ یہ کس قد راحمقانہ بد اور بدکردار افراد کو قیادت کے لیے آگے آنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے، جو اجتماعی اور انفاردی امور کے ہردائرہ کار کے لیےتو کچھ شرائط اور کچھ حدود رکھتا ہے لیکن ملک و ملت کی عظیم قیادت کے لیےاس کے ہاں کوئی قیدنہیں ہے،کوئی شرط نہیں ہے، بلکہ وہ ہر نتھو پھتو یا ہربے حیا اوربے وقوف آدمی کو قیادت کے حصول کا حق بھی دیتا ہے، جس کی قیادت شیطان خیز، حیا سوز اور تخریب ساز، جس کے دن قدم سے بدعملی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو، جن بدنصیبوں کے دل و دماغ کے خانے ملک و ملت کی تعمیر کے تصور سے خالی ہوں ، جونہیں جانتے قوم کی امامت کیا ہے۔ جو نظام جمہوریت ایسےنا ہنجاروں کو بھی قیادت کا حق دیتا ہے اس سے بڑھ کر بے غیرت، احمقانہ او رانسان دشمن نظام اورکیا ہوسکتا ہے؟ اور جو لوگ ایسے نظام سیاست پر نہ صرف جان چھڑکتے ہیں بلکہ اس کو ''عین اسلام'' بھی تصور کرتے ہیں، ان سے بڑھ کر نادان اور کون ہوسکتا ہے۔

ع۔ بریں عقل و دانش ببایدگریست