اُولئک لھم عذاب الیم
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (پ4۔آل عمران ع11)
'' ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے باہم تفریق کرلی اور واضح حقائق کے بعد باہم اختلاف کرلیا۔ ان کے لیے آزردہ عذاب ہے۔''
ایک مفہوم تو اس کا یہ ہے کہ جو لوگ واضح آسمانی ہدایات کے برعکس اپنی من مانی کرتے رہے، جدھر جی چاہا رُخ کرلیا اورڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ علیحدہ مسجدیں بنا کر ملی وحدت کو پارہ پارہ کیا، تم بھی انہی کی راہوں پر نہ پڑ جانا۔ یہ وہ صورت ہے جس میں فرقہ پرستوں کو ''حق'' سے وابستگی کا واہمہ ضرور لگ جاتا ہے، لیکن وضوح حق کے باوجود وہ اپنی روش پر نظرثانی کی توفیق سے محروم ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے بینات او رحقائق کے بجاوے اوہام اور ''دین آباء'' میں زیادہ کشش ہوتی ہے اس لیے پوری ملت کے بحر بے کنار سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ فرقہ کی جوئے تنگنائے پر نہ صرف قانع بلکہ اس کار بے خیر کو کار خیر بھی تصور کرنے لگ جاتے ہیں او ران کی وجہ سے پوری ملت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ کر ذلیل و خوار ہوجاتی ہے، مگر اس کا ان کو احساس نہیں ہوتا۔ یہ صورت بدنیتی سےزیادہ ذوق و ہوش کی کمی اور علمی کم مائیگی کے نتیجے میں پیداہوتی ہے۔
دوسری صورت اس کی یہ ہے کہ ان کے تفرقہ اور جماعتی پراگندگی کا محرک دلائل و براہین یا حق کا واہمہ نہیں ہوتا بلکہ نجی مخالفوں کے خلاف رد عمل کانتیجہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کی اسی حماقت یا کمزوری کا یوں ذکر کیا ہے۔
وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ(پ3 ۔بقرہ ع26)
''اور جن لوگوں کوکتاب دی گئی تھی وہی (لوگ) اپنے پاس واضح احکام آنے کے بعد ''آپس کی ضد'' سے لگے باہم اختلاف کرنے۔''
وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ (پ3۔ آلعمران ع2)
''اور اہل کتاب نے جومخالفت کی (حق بات)معلوم ہونے کے بعد (کی اور) آپس کی ضد سے (کی)''
یہ دونوں صورتیں گو ایک ساتھ چلتی آرہی ہیں تاہم مؤخر الذکر صورت نے بالخصوص زیادہ ترقی کی ہے یعنی نام نہاد جمہوری دور سے ''مخالفت برائے مخالفت '' کو نہ صرف آئینی تحفظ اور سرپرستی حاصل ہوگئی ہے بلکہ اس کو اپنا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنےکے لیے وسائل بھی مہیا کردیئےگئے ہیں۔ دوسری اقوام کا اس سے کچھ بگڑا یا نہ، اگر بگڑا تو کتنا؟ یہ تو وہ جانیں لیکن جہاں تک ''قوم مسلم'' کی بات ہے، اس کے بعد اس کے پلے میں کچھ نہیں رہا۔ دین نہ دنیا۔ عزت نہ طاقت، حال نہ مستقبل! کیونکہ اسلام میں تفرقہ کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، وہ تفرقہ مذہبی نوعیت کا ہو یا سیاسی، کاروباری انداز میں ہو یا خانقاہی۔
اسلام میں تفرقہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں: ملت اسلامیہ میں ایک سےزیادہ ایسی اکائیاں جوہرایک بجائے خو د ''امت'' کہلائے، اپنے جداگانہ تشخص کے لیے پہر آئینہ مصر رہے اورعلمی قسم کی چند جزئیات کو اساسی حیثیت دے کر ان کے گرد جمع ہوجائے، تفرقہ بازی او رفرقہ بندی ہے۔ قرآن حکیم نے اس ذہنیت کی سخت تردید کی ہے اور رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی سے بھی آپ کاتعلق نہیں ہوناچاہیے۔
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (پ8۔ الانعام ع20)
''(اے پیغمبرؐ!) جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا او رکئی فرقے بن گئے آپ کا ان سےکوئی تعلق نہیں۔''
إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ(ایضاً)
''ان کا معاملہ بس خدا کے حوالے (کہ وہ خود ان کاحساب لےلےگا) پھر وہ جو کچھ کرتوت کیا کرتے تھے (ان کانیک و بد) ان کو بتا دے گا۔''
پیغمبر خدا اُمت کے رہنما ہوتے ہیں، فریق نہیں ہوتے، وہ تو اس لیےمبعوث ہوتے ہیں کہ دنیا میں ''دین توحید'' کا دائرہ وسیع سےوسیع تر کردیں، توحید ، ایک ہوکر ایک خدا کے گرد جمع ہوجانےکا نام ہے، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ : جب مطلوب ایک خدا ہو تو پھر اس تک پہنچنے کے لیے مختلف راہوں اور مختلف پگڈنڈیوں پرپڑ جانا مضر نہیں ہوتا، کیونکہ جب پہنچنا وہاں ہےتو پھر یہ اختلاف نقصان دہ نہیں رہتا، دراصل انہوں نے یہ باتیں کہہ کر افتراق او رانتشار کی راہیں ہموار کی ہیں، وہ غالباً مختلف پگڈنڈیوں کے خصائص ، جداگانہ سفر کی نفسیات یا نتائج ، آباد او رویران راستوں کے امتیاسات کو نہیں سمجھتے، مطلوب ایک ہونے کے باوجود ضروری نہیں کہ ہر راہ وہاں تک پہنچے بھی یا پہنچتی ہو تو ''بہ سلامت روی و باز آئی'' کےمصداق راہی کا یہ سفر خیر و خوبی سے طے بھی ہوجائے یا وہ بیداغ ہی رہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سینکڑوں قافلے راستوں پر پڑ کر آفات کا شکار ہوکر مٹ گئے اور کچھ راستوں کے پیچ وخم میں یوں کھو گئے کہ پھر ان کاکوئی نشان نہ مل سکا۔ قرآن حکیم نے انہی بدنصیبوں کے لیے ''ضالین'' کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔ بہرحال قرآن حکیم نے ان نادان ہرجائیوں کے اس فلسفہ سے اتفاق نہیں کیابلکہ بزور اور با اصرار فرمایا ہے کہ جو راستہ ہم نے تجویز کیا صرف وہی مجھ تک پہنچتا ہے اور اسی پر چل کر مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرو اور ایک کارواں او راُمت کی طرح ایک ہوکر یہ سفر اختیار کرو۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(پ4۔ آل عمران ع11)
''اور سب مل کر مضبوطی سے اللہ کی رسی کو پکڑے رہو اور ایک دوسرے سے الگ نہ ہوجاؤ۔''
فرمایا: اپناماضی اور اپنی تاریخ تمہارے سامنے ہے، پھر اس پر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر یاد کرو کہ اس افتراق کا انجام کیا رہا، تمہاری مختلف پگڈنڈیوں کانتیجہ کیا نکلا او ران پر پڑ کر تم کہاں سے کہاں پہنچے؟ پھر آخر ہم ہی نے تمہیں یکجا کرکے گلے ملا دیا۔
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا(پ4۔ آل عمران ع11)
''اور اللہ کا وہ کرم یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے ویری اور )دشمن تھے، پھر اللہ نے (ہی) تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی اور تم اس کے فضل (وکرم) سے بھائی(بھائی) ہوگئے۔''
فرمایا: یہ افواہ تو تمہارے کسی دشمن نے اڑائی ہے کہ : سفر حیات کا یہ اختلاف تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہے، دراصل وہ چاہتے یہ ہیں کہ : تمہیں منزل کاسراغ ہی نہ ملے او رٹھوکریں کھا کھا کر تم ان بھول بھلیوں میں دم توڑ دو۔
وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ (پ3۔ آل عمران ع7)
''اور اہل کتاب کاایک گروہ چاہتا ہےکہ تم راستوں میں ہی بھٹک کر رہ جاؤ''
جمہوری افتراق سیاست فراعنہ ہے: افتراق اور انتشار کا یہ فلسفہ ''فراعنہ'' کی ایجاد ہے۔ کیونکہ جن ارباب اقتدار کی زندگیاں ''جاذب اور مبارک اقدار حیات'' سے خالی ہوتی ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ان کو نہ دیکھیں بلکہ ایک دوسرے کی کمزوریوں کی ٹوہ میں پڑے رہیں، ایک دوسرے کو ہی کوستے رہیں اور ایک دوسرے کے خلاف چڑھ دوڑنے کو ہی''جہاد اکبر'' تصور کرتے رہیں، بہرحال فرمایا: فراعنہ نے رعایا کو کمزور رکھنے کے لیے ان کو الگ الگ راستوں پر ڈالا، پھر انہوں نے ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنا لیا اور ان کے بچوں کو بھی ذبح کر ڈالا تو وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ(پ20۔ القصص ع1) ''واقعہ یہ ہے کہ فرعون سرزمین (مصر) میں بہت سرکش اور گردن فراز ہوگیا تھا۔ اس نے وہاں کے لوگوں کو گروہ گرود بنا دیا تھا۔ ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کرنے کے لیے ان کے بیٹوں کو ذبح کروا دیتا او ران کی عورتوں (بیٹیوں)کوزندہ رہنے دیتاتھا۔''
اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ : یہ اسرائیلی اس کے سامنے ''چوں'' بھی نہ کرسکیں، اس کے لیے اس نے جوطریقہ سوچا، اسے فرعون کی اولیات میں شمار کیاجاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ ان کی افرادی قوت پر ضرب لگائی جائے، چنانچہ اس نے ان کے لڑکوں کو ذبح کرنا شروع کیا، اس ایک تیر سے بھی اس نے دو شکار کیے، ایک ان کی عددی قوت ختم کی، دوسرا ان میں خوف و ہراس بھی پھیل گیا، جس کی وجہ سے وہ واقعتہً چوں بھی نہ کرسکے۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ: اب انکو اپنا غلام بنانا آسان ہوگیا، جب کوئی قوم اپنے اندر ''خوئے غلامی'' کے لیے سازگاری پیداکرلیتی ہے تو پھر وہ قوم ''آقاؤں'' کی خاک پاکو بھی اپنے لیے سرمہ سلیمانی تصور کرنےلگ جاتی ہے، ان کی آنکھوں سے دیکھتی ہے، ان کے کانوں سے سنتی ہے، ان کی زبان سے بولتی ہے۔
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
فراعنہ کیاس''بددریافت'' کے بعد دنیا بتدریج اس سٹیج پر پہنچی کہ:ملک او رقوم میں مختلف طبقات او رباہم مخالف گروہ نہ صرف وہ برداشت کرسکتی ہے بلکہ اگر وہ باہم برسرپیکار بھی ہوں تو بھی وہ اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتی، واقعہ یہ ہے کہ اس سے ''سیاسیین سوء'' کی اصل غرض یہ تھی کہ لوگ باہم الجھے رہیں گے اور وہ خود بندر بانٹ کے منصب پر فائز رہیں گے۔ لیکن وہ کچھ زیادہ عرصہ پس پردہ نہ رہ سکے، اس لیے جب اس ''سردخانہ جنگی'' میں قوم نے مفوضہ مگر مکروہ کورس کی تکمیل کرلی تو اب اس کے بیباک ہاتھ حکمرانوں کےگریبانوں کی طرف بھی بڑھنے لگ گئے۔ اس پر ان بدنہاد سیاسیین نے ایک نیا پینترا بدل کر قوم کو زبان اور قلم کی آزادی او رجمہوریت کی نوید سناکر ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
ملّی افتراق سیاسیین سوء کی سیاسی ضرورت ہے: زبان و قلم کی آزادی اور جمہوریت کی باتیں، صرف باتیں ہیں، اس سے ان کی اصل غرض یہ ہے کہ: اقتدار کی ہڈی او رمردار پر کسی طرح یہ سیاسی گدھیں ٹوٹ پڑیں، باہم سرپھٹول ہوں او رایک دوسرے کا گوشت نوچیں تاکہ ان کو اپنی پڑ جائے، اور تہی دامن سیاسی شاطروں کا ان کو ہوش نہ رہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جو لوگ ساری خرابی کے ذمہ دار تھے انہیں ان لوگوں نے اپنی آنکھوں پر بٹھا لیا۔ آپ اقوام و ملل کی اندرونی تخریب، ملی انتشار اور افتراق کا جب مطالعہ کریں گے تو یقیناً اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اس کے پس پردہ سیاسی اغراض کا ہی ہاتھ رہا ہے کیونکہ ملک کے اندر طبقاتی کشمکش ،بداعتمادی اور گروہی چپقلش، انتشار اور افتراق سیاسیین سوء کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر ان کازندہ رہنا محال ہے۔ اب آپ غور فرمائیں کہ جب باڑیں ہی کھیت کو کھانے لگ جائیں تو اس کا کیا حشر ہوگا؟ قرآن حکیم نے مندرجہ ذیل آیت میں اسی قماش کے ''سیاسیین سوء'' (ان کوقرآنی زبان میں ''منافقین'' کا نام دیا گیا ہے) کاذکر فرمایا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (204) وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ(پ2۔ البقرہ ع2)
''اور (اے پیغمبرؐ!)بعض شخص ایسا بھی ہے جس کی باتیں آپ کو بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنے مافی الضمیر پر خدا کو گواہ بھی ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ (آپ کے ) دشمنوں میں (سب سے) زیادہ جھگڑالو ہے۔ جب آپ سے واپس جاتا ہے تو اس تگ و دو میں لگ جاتا ہے کہ (خدا کی )زمین پرفساد برپا کرے اور کھیتی او رنسل کو تلف کرے۔''
اس کا یہ پہلو او ربھی شرمناک ہے کہ اس ذہنیت ، کردار اور قماش کے لوگ یہ مکروہ دھندا تو خود کرتے ہیں لیکن اس کا الزام انبیاء علیہم السلام اور ان کےجانشینوں اور وارثوںکو دیتے ہیں۔
وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ (پ9۔ الاعراف ع15)
''قوم فرعون کے اراکین نے (فرعون سے)کہا کہ کیا تو موسیٰ او راس کی قوم کو اسی طرح چھوڑے رکھے گاکہ وہ ملک میں فساد برپاکرتے پھریں۔''
بندہ مسلم کی تبلیغی مساعی پر چیں بجیں ہونا او ران کو کرسی او راقتدار کا بھوکا قرار دینا تو ان کا عام دستور چلا آرہا ہے اور تا آخر چلتا جائے گا۔
قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَنْ يُخْرِجَاكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى(پ16۔ طہٰ ع3)
''سب نےکہا کہ ہو نہ ہو یہ دونوں (بھائی) جادوگر ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنے جادو (کے زور ) سے تم کو ملک سے نکال باہر کریں او رپھر وہ تمہاری شرف و مزیت کی روایات پر قابض ہوجائیں۔''
اس پر ہم اس قماش کے لوگوں سے اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ:
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ان کی جماعت کے رکن بن کر نکلو: تخریب کاری کی اس سے بڑھ کر بھیانک مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ : اپنی قوم کے بہتر حصے بخرے کرکے، ان کو باہم لڑانے کے سامان کرنے پھر ان کو ذلیل او ررسوا کرنے کے لیےبازاری اور ذلیل ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جائیں؟ یہ بدنہاد لوگ یوں بھی منصوبے بنایا کرتے ہیں کہ بھائی اس پارٹی میں آج شمولیت اختیار کرلو او رکل کانوں پر ہاتھ رکھتے اور شور مچاتے ہوئے یہ کہہ کر نکل آؤ کہ اوفو! یہ تو بہت گھٹیا لوگ ہیں، دیکھنے میں بڑے بھولے بھالے اور بزرگ ہی بزرگ مگر اندر جاکر دیکھاتو گرگ ہی گرگ۔
وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (پ3۔ آل عمران ع8) ''اور اہل کتاب کا ایک گروہ (اپنے لوگوں کو) سمجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کتاب نازل ہوئی ہے، صبح کو اس پر ایمان لے آؤ اور شام کو اس کا انکار کردیا کرو، شاید (اس تدبیر سےوہ مسلمان اپنے دین سے)پھر جائیں۔''
دیانتدارانہ اختلاف کے یہ عنوان نہیں ہوتے، ایسی حرکتیں وہی لوگ کرتے ہیں جومعاملات کی حد تک بدنیت ہوتے ہیں، یہ بازاری انداز کسی ایسے شخص کا نہیں ہوسکتا جوملک کا بہی خواہ اور شریف شہری ہوسکتا ہے۔
یہ اسلوب حیات کفار کا ہوتا ہے کہ بظاہر ایک نظر آئیں اور باطن میں پارہ پارہ ہوں۔
تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى(پ29۔ حشر ع2)
''(ان کےظاہر حال کو دیکھئے تو) ان کو سمجھے کہ سب ایک ہیں حالانکہ (باطن میں) ان کےدل (ایک دوسرے سے) پھٹے ہوئے ہیں۔''
کفر ایمان اورعمل صالح کی اس اساس سے خالی ہوتا ہے جس کے بعد انسان ظاہری رکھ رکھاؤ کا محتاج نہیں رہتا، لیکن اہل ایمان ، بحمدللہ اس خلا اور کمزوری سے پاک ہوتے ہیں اس لیےاس تصنع او رتکلف سے بھی یہ لوگ مبرا ہوتے ہیں جس کے بغیر اہل کفر کے لیے سینہ تان کر چلنا دشوار ہوجاتا ہے چنانچہ بدطینت غیر مسلم ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ تمہیں بھی انہیں راہوں پر ڈال دیں، جن پر چل کر وہ منزل کھو بیٹھے ہیں۔
وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ (پ3۔ آل عمران ع7)
''اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)کا ایک گروہ دل سے یہ چاہتا ہے کہ :کاش! (کسی طرح) وہ تم کو بے راہ کردیں۔''
تمہیں مسجدیں بنا کر دیتے ہیں کہ تمہارا اعتماد حاصل کرکے تمہیں پھاڑ سکیں۔
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ(پ11۔التوبۃ ع13)
''اور (ان میں سے ) وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنا کھڑی کی کہ (مسلمانوں کو)نقصان پہنچائیں او رانکار (و حجود کی راہ ہموار)کریں او رمسلمانوں میں پھوٹ ڈالیں او ران لوگوں کو پناہ دیں جو اللہ او راس کے رسول سے پہلے لڑچکے ہیں او ر(مسجد کی تعمیر کا سبب پوچھا جائے گا تو) قسمیں کھانے لگیں گےکہ ہمارا تو صرف نیک ارادہ ہے (لیکن) اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جھوٹے ہیں۔''
یہ کارخیر نہیں، شیطانی ہتھکنڈے ہیں: اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوآگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسے کام جو ملی وحدت اور خوشگوار تعلقات پر اثر انداز ہوں، وہ بھلے کام نہیں ہوسکتے انہیں شیطانی کارستانیاں تصور کیا کیجئے!
وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ (پ15۔ بنی اسرائیل ع6)
''(اے پیغمبرؐ!) ہمارے بندوں کوسمجھا دو کہ (مخالفین سے بات کہیں بھی تو ) ایسی کہیں کہ (اخلاقی اعتبار سے) بہتر ہو کیونکہ شیطان (نامناسب بات کہلوا کر)آپس میں فساد برپاکرواتا ہے۔''
کیونکہ خدا ہی تو ہے جس نے تمہیں اپس کی بدمزگی اور بداعتماد ی سے نجات دلائی ہے، اب وہ کام خدائی کام کیسے ہوسکتے ہیں جو تمہیں پھر باہم رقیب اور دشمن بنا دیں۔
إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا(پ4۔ ال عمران ع11)
''یاد کرو جب تم ایک دوسرے کےدشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل و کرم سے بھائی( بھائی) ہوگئے۔''
فرمایا اگر شیطان گدگدائے بھی تو اس کے پھیر میں نہ آئیں، اللہ سے اس کی پناہ مانگیں اور حکمت الہٰی کےمطابق پیش آمدہ صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کیا کریں۔
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(پ9۔الاعراف ع24)
''اور اگر شیطان کے گدگدانے سے کوئی گدگدی تمہارے دل میں پیداہو تو خدا سے پناہ مانگ لیا کرو، وہ سب کی سنتا او رجانتا ہے۔''
یہ ایک واقعہ ہے کہ جو پرہیز گار ہیں، جب کبھی شیطان کی طرف کاکوئی خیال ان سے چھو بھی جاتا ہے تو وہ (فوراً )متنبہ ہوجاتے ہیں، پھر وہ اسی دم (راہ صواب) دیکھنے لگ جاتے ہیں۔''
لاتنازعوا فرمایا:آپس کی توتکار اچھی نہیں، اس سے ہوا اکھڑ جاتی ہےاو ربھرم جاتا رہتا ہے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرے بھی تو بے حوصلہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہمت او رحوصلہ سے اس مخمصہ سے نکلنے کی کوشش کریں ،ایسا نہ ہو کہ ایک مخمصہ سے نکلنے کے لیے اور سینکڑوں لاینحل مخمصوں کی داغ بیل ڈال دی جائے بلکہ کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کو حل کیا کرو، چونکہ سب مومن ہو، اس لیے اللہ اور رسولﷺ کے فیصلے کے سامنے جھک جایا کرو، باہمی بدمزگی، افتراق اور تشتت سے نجات پانے کے لیے اس سے زیادہ صائب طریقہ اور کوئی نہیں ہے، آپس کے الجھاؤ سے مسائل الجھتے ہیں، سلجھتے نہیں ہیں۔
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ(پ10۔ انفال ع6)
''اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو (ورنہ) تم ہمت ہار دوگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور برداشت سے کام لو، اللہ تعالیٰ باہمت لوگوں کےساتھ ہے۔''
اسباب کچھ ہوں، سیاسی ہوں یامعاشی ، خانقاہی ہوں یا سماجی بہرحال ملت اسلامیہ کے مابین کشیدگی، تناؤ ، الجھاؤ، دین نہیں ہے، دینی روح، ملّی مزاج حالات اور وقت کے تقاضوں کے بالکل مخالف ہے مگر اس کا کیا کیاجائے کہ : سیاسیات ، مذہب او رکاروبار کے نام پر اب اس کی سب کوکھلی چھٹی مل گئی ہے اور اس سرے سے لے کر اس سرے تک ایک جماعت اٹھتی ہے او ردوسری جماعت او رمکتب کے خلاف طوفان بدتمیزی برپاکرتی اور حکومتیں اس کو ان کاشہری حق تصور کرکے ملّی وحدت کے خلاف ان کی تمام سرگرمیوں کو قانونی تحفظ مہیا کرتی ہیں اور پوری قوم کو ''سرد خانہ جنگی میں مبتلا دیکھتی ہیں تاہم ان چھتروں کی وحدت کش سرگرمیوں کی سرپرستی کے لیے تازہ دم رہتی ہیں۔''
چون کفر از کعبہ برخیز و کجا ماند مسلمانی