حضرت مولانا ابوسعید عبدالعزیز سعیدی مرحوم
منکیرہ میں رہائش :
حج سے واپس آکر کچھ عرصہ چک نمبر 157 نزد صادق آباد قیام رکھا، وہاں سے تحصیل بھکر ضلع میانوالی کے مشہور شہر منکیرہ (حال تحصیل منکیرہ ضلع بھکر) میں رہائش پذیر کرلی او راپنی زندگی کے بقیہ دن یہیں پورے کئے۔
مختلف تحریکوں میں آپ کا کردار:
آپ ابتداء ہی سے متحرک قسم کے آدمی تھے۔ دہلی میں زمانہ تعلیم کے دوران آپ نے ایک انجمن بنا م''انجمن طلبائے اہل حدیث صوبہ پنجاب مدارس عربیہ دہلی'' قائم کی تھی۔ بہت کم احباب جماعت کومعلوم ہوگا کہ 1953ء میں ختم نبوت کی تحریک کے موقعہ پر جب ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا او رلاتعداد علماء و راہنمایان قوم کو جیلوں میں حق گوئی کی پاداش میں ٹھونس دیا گیا تو دیگر دین پسند جماعتوں کی طرح جمتیہ اہلحدیث نے بھی سرگرمی سے اس میدان میں حصہ لیا۔ چنانچہ اہل حدیث علماء کی ایک کثیر تعداد بھی گورنمنٹ کی مہمان بنی، جن میں قابل ذکر ہستی مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی آف گوجرانوالہ کی تھی، جو ان دنوں جمعیت اہل حدیث کے مرکزی ناظم اعلیٰ تھے اور مولانا سید داؤد غزنوی جمعیت کے امیر۔
مولانا سلفی کے جیل جانے کی وجہ سے مرکزی دفتر خالی ہوگیا تو امیر جمعیت اور دیگر اعیان جماعت نے بالاتفاق ملک بھر کی نظامت کا منصب مولانا سعیدی مرحوم کے سپرد کردیا۔یکم ستمبر سے آپ نے چارج سنبھالا۔لیکن یہ سلسلہ دسمبر تک چلا۔ اس کے بعد آپ از خود مستعفی ہوکر وطن چلے آئے۔
مئی 1955ء میں آپ نے اپنا تعارف اخبار ''الاعتصام'' لاہو رمیں شائع کرایا او رمنکیرہ میں رہائش کی اطلاع دی۔ ضلع میانوالی کے احباب جماعت کو بڑی خوشی ہوئی اور ضلع کی نظامت کا منصب آپ کے سپرد ہوا مگر بُعد مسافت کی وجہ سے آپ یہ ذمہ داری نہ نبھا سکے اور استعفٰی دے دیا۔
1973ء میں تحریک ختم نبوت چلی تو علاقہ کی مجلس عمل کی قیادت آپ کے سپرد کی گئی۔ آپ نے یہ ذمہ داری باحسن طریق انجام دی، مختلف جلسوں میں اہل سنت کی قیادت کی اور مرزائی عقائد کی علمی و تحقیقی جائزہ لے کر ان کا کذب واضح کیا۔
علاقہ میں مسلک اہلحدیث کے حامل آپ اگرچہ اکیلے تھے، تاہم علمی شخصیت ہونے کی بناء پر لوگ آپ کی قدر کرتے تھے۔چنانچہ 1977ء کی ''تحریک نظام مصطفیٰ میں بھی آپ نے قوم کی قیادت کی اور قومی اتحاد کے صدر منتخب ہوئے۔
اس کے علاوہ بھی ہر ہر موقعہ پر عوام کی خدمت کےلیے حاضر رہتے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
بھکر شہر میں تبلیغ کا آغاز:
1963ء کا زمانہ تھا، بھکر شہر میں چند اہل حدیث گھرانے آباد تھے اور چند ایک سرکاری ملازم تھے۔ انہوں نے ''جمعیة اہل حدیث'' کے نام سے تنظیم قائم کرکے کام شروع کیا۔ انہوں نے آپ سے تعاون اور راہنمائی طلب کی اور آپ سے گزارش کی کہ جمعہ آکر پڑھایا کریں۔چنانچہ 24 مارچ 1963 ء کا پہلا جمعہ آپ نے ایک جفت ساز کی دکان میں پڑھایا جس میں صرف سات آدمی شریک ہوئے۔ تین جمعے وہیں ادا کئے گئے اس کے بعد ایک صاحب دل نے ایک چھپر کا انتظام کردیا لیکن ساتھ ہی ساتھ مستقل مسجد کی ضرورت کی بناء پر جگہ کی تلاش جاری رہی۔
انہی دنوں بھکر، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا گیا، تو آپ نے محسوس کیا کہ مستقبل قریب میں بھکر کی آبادی اور سیاسی اہمیت میں کافی اضافے کا امکان ہے۔ آپ نے 14 جون کو ایک طویل تحریر مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی کے نام لکھی، جو اس وقت جمعیة کے ناظم اعلیٰ تھے۔ اس تحریر میں علاقہ کے حالات ، محل وقوع او رقحط الرجال کاذکر کیا، نیز علم و عمل اور توحید و سنت کی آواز کے فقدان کا احساس دلاتے ہوئے مرکز کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اس علاقہ میں کام کرنے کے مواقع موجود ہیں لیکن چونکہ یہاں جماعت نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا دو کنال زمین پرپانچ ہزار روپے کے اخراجات کے لیےمالی تعاون کی راہ نکالی جائے۔ اس پر مولانا سلفی نے اس معاملہ میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ایک صاحب خیر کو تیار کرلیا اور اس نے یہ رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا۔چنانچہ زمین کی خرید کا فیصلہ کرلیا گیا۔ مولانا سلفی خود پانچ ہزار روپے کا چیک لےکر بھکر تشریف لائے۔ 8 جولائی 1963ء کو زمین خرید لی گئی اور 1964ء میں تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔مسجد کے تعاون کے لیے آپ خود کئی بار کراچی تشریف لے گئے۔آپ خود نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے باقاعدہ ہر جمعہ کو دکان بند کرکے تیس میل کا سفر کرکے بھکر جاتے اور خطبہ دیتے رہے۔یہ سلسلہ تقریباً 78ء تک جاری رہا۔
منکیرہ میں مسجد اہل حدیث کی بنیاد:
منکیرہ میں آپ کا ذاتی ایک وسیع و عریض رہائشی پلاٹ تھا۔مسجد کی ضرورت کے پیش نظر آپ نے اس میں سے نصف کو مسجد کے لیے وقف فرمایا۔چونکہ یہاں بھی جماعت نہ تھی۔ آپ کے ساتھ صر ف ایک آدمی مل سکا اور اسباب و وساول کی کمی مسجدکی تعمیر میں آڑے آئی۔ قریباً دو سال سے زائد عرصہ تک گھر پر نماز جمعہ کا انتظام کرتے رہے، بعد میں توکلا علی اللہ مسجدکا کام شروع کردیا جو کہ ابھی تعمیر کے مراحل میں ہے۔
بھکر میں مسجد کی تعمیر کے بعد وہاں ''مدرسہ تدریس القرآن'' کی بنیاد رکھی گئی۔ جہاں مقامی و بیرونی طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح بھکر کے نواح چک نمبر 6 کے۔ ایم مہوٹارکھ خانسر میں ایک مدرسہ آپ کی نگرانی میں قائم ہوا۔ جہاں آج کل ایک گمنام مبلغ حافظ محمد اسماعیل صاحب تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اسی طرح قاسم آباد ضلع مظفرگڑھ میں بھی آپ نے ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ ضلع میانوالی اور مظفر گڑھ میں ہونے والے جماعتی اجتماعات میں آپ ضرور شرکت فرماتے۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی سے خاص تعلق:
جماعت کے تمام اکابر علما کے ساتھ آپکا رابطہ تھا۔ خصوصاً مولانا سلفی سے آپکو خصو صی تعلق تھا، مولانا سلفی بھی مولانا سعیدی کا بڑا احترام فرماتے۔
دیگر مکاتب فکر کے علماء کی نظر میں آپ کا مقام:
آپ کو جو علمی مقام حاصل تھا، اس کی وجہ سے صرف اہل حدیث ہی نہیں، دیگر علماء بھی آپ کو قدر و منزلت سے دیکھتے، آپ کی عزت کرتے اور بوقت ضرورت تحقیقی مسائل میں آپ کی طرف مراجعت کرتے اور مستفید ہوتے۔
نکاح اور اولاد :
یکے بعد دیگر آپ نے چار نکاح کیے ۔ چوتھی بیوی سے اللہ نے آپ کو اولاد نرینہ سے نوازا۔ اس نکاح سے آپ کے چار لڑکے ہیں۔ عمر فاروق سعیدی، عبدالرؤف سعیدی، سعید مجتبٰی سعیدی، صبغة اللہ سعیدی۔
آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔ آپ ان کو اس قحط الرجال کے دور میں کتاب و سنت کے حامل، عامل اور مبلغ دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ، اولاد کو دینی تعلیم کے لیے فارغ کرکے خو دان کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوشش کو ثمر بار کیا او ردو لڑکے علم دین کے لیے وقف ہوئے۔ مولانا عمر فاروق سعیدی اور سعید مجتبٰی سعیدی (راقم الحروف) دونوں نے پاکستان کے مختلف دینی مدارس میں مروجہ نصاب تعلیم مکمل کرکے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا۔مولانا عمرفاروق صاحب نے 1401ھ مطابق 1981ء میں جامعہ کے کلیة الحدیث الشریف سے سند فراغب حاصل او ر اب جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ راقم الحروف (سعید مجتبٰی سعیدی) نے 1403ھ مطابق 1983ء میں کلیة الحدیث الشریف سے تعلیمی کورس مکمل کیا۔عبدالرؤف سعیدی اپنی سروس کے سلسلہ میں جدہ میں مقیم ہیں، جبکہ صبغة اللہ عاصم سعیدی والد صاحب مرحوم کا مطب سنبھالے ہوئے ہین اور ساتھ ہی زرعی رقبہ کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
اخلاق و عادات:
آپ بڑے خوش اخلاق او رملنسار تھے۔ہر ایک سے اس انداز سے پیش آتے کہ وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔ ہمسایوں اور تعلق داروں کی خدمت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خود مشقت کرلیتے، نقصان اٹھا لیتے مگر کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دیتے۔ آپ صحیح طور پر اس حدیث کا مصداق تھے:
''المسلم من سلم المسلمون من لسانه و یدہ''
یعنی ''صحیح مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔''
اولاد کی تربیت :
آپ نے جس انداز پراولاد کی تربیت کی وہ انتہائی انوکھا او رنرالا ہے، آپ فرمایاکرتے تھے کہ میں خطابت، تدریس اور سیاست وغیرہ میں بہت آگے بڑھ سکتا تھا مگر اولاد کو آگے لانے کے لیے خود کو گمنامی میں رکھا ہے۔
فرماتے تھے کہ میری تربیت میرے والد صاحب نے کی۔ جو عالم نہ ہونے کے باوجود مبلغ، مجاہد، نہایت مخلص اور محنتی تھے۔اکثر و بیشتر ان کی مخلصانہ دعاؤں کے سبب، مجھے یہ زندگی نصیب ہوئی ورنہ میں اس لائق کہاں تھا؟ والد مرحوم کی حسن تربیت کا ثمر ہے کہ میرے اندر بھی دینی جذبات زندہ اور موجود ہیں اور میں نے اپنی اولاد کو بھی دینی راستہ پر لگا رکھا ہے۔ ہم جب مدارس میں ہوتے تو ہمارےاساتذہ اور مدرسہ کی انتظامیہ کو خط لکھ لکھ کر ہمارے متعلق خفیہ رپورٹیں حاصل کرتے رہتے تاکہ ہمارے علمی، عملی اور تعلیمی مشاغل سے واقفیت حاصل کرکے مناسب راہنماوی کرسکیں۔ اولاد کی ضروریات کا خاص خیال رکھتے اور غربت کے باوجود انہیں کسی چیز کی کمی کا احساس نہ ہونے دیتے، بلکہ ہر چیز وقت سے پہلے مہیا فرماتے اور انہیں کبھی بھی کوئی چیز طلب کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
سفر آخرت :
آپ کو ضعف جگر کا شکایت تھی، جس کی وجہ سے پورا جسم متورم ہوچکا تھا۔ باقاعدہ علاج معالجہ کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوا۔مارچ 1980ء میں اپنے برادران نسبتی کے پاس صادق آباد ضلع رحیم یار خاں تشریف لے گئے۔ انتہائی ضعف و علالت کے باوجود وفات سے چند روز قبل چک کا قبرستان دیکھنے گئے۔ بالآخر علاقہ تھل کی اس صاحب علم و فضل شخصیت نے 10 رجب المرجب 1401ھ مطابق 15 مئی 1981ء بروز جمعہ ، جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔ إنا للہ وإنا إليه راجعون۔
ان کی وفات پورے علاقہ تھل کے لیے علمی طور پر ناقابل برداشت حادثہ ہے۔ قحط الرجال کے اس دور میں مرحوم ایک نابغہ روز گار ہستی تھے، جن کے انتقال سے پورے علاقہ او رجماعت اہل حدیث میں ایک عظیم علمی خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللھم أجرنا في مصیبتنا وأخلف لنا خیرا منه ۔ آمین!