وقت کی پکار .......... نفاذِ شریعت !

مار دھاڑ، قتل و غارت، خون آشامی اور دہشت پسندی، لسانی، قومی علاقائی بنیادوں پر فسادات، علیحدگی کی تحریکیں اور ''ملک توڑ دو'' کے نعرے ، چوریاں، ڈاکے، آتشزنی، لوٹ مار، فائرنگ اور دھماکے، مطالبات، ہڑتالیں ، جلسے جلوس، لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں اور رہائیاں، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ، غبن، جھوٹ، منافقت اور ریا کاری، عریانی ، فحاشی، بے پردگی، بے حیائی، او راس کے نتیجے میں اغوا، زنا بالجبر اور آبروریزی، شراب نوشی، منشیات، سمگلنگ، قماربازی اور غنڈہ گردی، جاہ طلبی، سیاست بازی، جوڑ توڑ، عدم اعتماد کی تحریکیں، استعفٰے اور حلف ، دھڑے بندیاں، حزب اختلاف و حزب اقتدار کی باہمی چپلقش اور سر پھٹول۔ علاوہ ازیں انسان دشمنی، وطن دشمنی او رملک دشمنی کے نت نئے مظاہر۔ یہ سب موجودہ ملکی حالات کے وہ منہ بولتے عنوانات ہیں کہ جن کی تفصیلات سے روزانہ اخبارات کے کالم اور صفحات اٹے پڑے ہیں۔ ادھر سرحدوں پرنگاہ دوڑایئے تو یہ ہر طرف سے آگ اور دھوئیں کے خونی بادلوں کی زد میں ہیں۔ گویا قرآن مجید کی زبان میں صورت حال بالکل وہی ہےکہ:
﴿قُلْ هُوَ ٱلْقَادِرُ‌ عَلَىٰٓ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْ‌جُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ ٱنظُرْ‌ كَيْفَ نُصَرِّ‌فُ ٱلْءَايَـٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ ﴿٦٥...سورۃ الانعام
''(اے نبیؐ)آپ فرما دیجئے، وہ (رب تعالیٰ) اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب تمہارے اوپر کی طرف سے نازل کرے، یا عذاب تمہارے پاؤں کے نیچے سے بھیجے یاایک کو دوسرے 0(ے لڑاکر آپس) کی لڑائی کا مزا چکھا دے۔ دیکھئے ، ہم اپنی آیات کو کسکس طرح سے بیان فرماتے ہیں تاکہ (کسی طرح تو) یہ لوگ سمجھ پائیں۔''

وطن عزیز میں وقت کے یہ وہ سلگتے ہوئے مسائل ہیں، جن کی بناء پر بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتاہے کہ اللہ کی زمین جہاں ظلم و فساد سے بھر دی گئی ہے، وہاں انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے قوانین ، دکھی انسانیت کو ظلم و ستم سے تحفظ اور فلاح و بہبود مہیا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نباضان ملک و قوم، قوم کے اس جسد بیمار کے گونا گوں امراض کی تشخیص کرکے اس کے درد کا درماں فراہم کرتے، لیکن جب کوئی قوم اپنی اجتماعی غلطیوں کی پاداش میں عذاب خداوندی کو دعوت دیتی ہے تو اس کی عقل و فکر کی قوتیں بھی اس سے چھن جاتی ہیں، چنانچہ یہ معالجین، مرض کی تشخیص کے لیے جہاں نبض کی اہمیت ہی سے انکاری ہیں، وہاں علاج کےمعاملہ میں بھی ''نیم حکیم خطرہ جان'' کے مصداق۔ملک کے اندرونی خلفشار کو ختم کرنے کے لیے اگر کرفیو لگائے جارہے ہیں، امن کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں، مقتولین و مجروحین سے ہمدردی کے بیانات داغے جارہے اور ان کے لیےمعاوضوں کے اعلان ہورہے ہیں، تو بیرونی جارحیت پر قابو پانے، سرحدی کشیدگی دور کرنے، امن قائم کرنے، باہمی روابط استوار کرنے اور خیرسگالی کے جذبات کے اظہار کے لیے ''گیند بلّا'' کے پل تعمیرکئے جارہے ہیں۔ ادھر بدپرہیزی کا یہ عالم ہے کہ ، مغربی جمہوریت، جوامّ الخبائث و ام الامراض ہے، اور اسی کے چاؤ چونچلوں میںملک عزیز اس حال کو پہنچا ہے ، اسی سے مسیحائی کی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ حالانکہ ملّت اسلامیہ کا اصل روگ، جمہوری اقدار کی پامالی نہیں، احکام خداوندی سے بغاوت اور آسمانی تعلیمات سے انکار ہے۔ اصل پرہیز، جمہوریت کومضبوط بنیادوں پر استوار کرکےمارشل لاء کے دوبارہ نفاذ سے بچنا نہیں، مغرب کی نقالی سے احتراز او رطاغوت کی بندگی سے کنارہ کش ہونا ہے۔ اصل علاج، کرفیو، امن کمیٹیون کا قیام اور مجروحین و مقتولین کے لیے معاوضوں کے اعلان نہیں، نور ایمان سے اپنے سینوں کومنور کرکےکتاب و سنت کے چشمہ صافی سے آب زلال پینا ہے۔ ورنہ وہ کون سی بُرائی تھی جو قبل از بعثت رسولؐ، اسلام کے مخاطبین اوّلین میں نہ پائی جاتی تھی اور وہ کون سی خوبی تھی کہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے کے بعد وہ اس سے ہمکنار نہیں ہوئے؟ دشمن انہیں میدان جنگ میں نیچا دکھا سکا نہ میدان صلح و امن میں، نہ معیشت میں نہ معاشرت میں، نہ سیاست میں نہ امارت میں، نہ صداقت و دیانت میں نہ امانت میں، نہ حکومت و جہانبانی میں نہ عدالت میں، نہ علم و ہنر میں نہ تہذیب و تمدن میں، نہ حریّت میں نہ مساوات میں، نہ محبت میں اور نہ اخوت میں۔یہ وہی تو تھے کہ دشمن کی کھوپڑیوں میں شراب پیتے تھے اور جام پہ جام لنڈھاتے چلے جاتے تھے، لیکن پھر یہ وہی تھے کہ قرآن کریم نے گواہی دی:
﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا(آل عمران:103)
''اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو، جب تم (ایک دوسرے کے بدترین) دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں باہمی الفت ڈال دی۔ چنانچہ اللہ کی اس نعمت کے سبب تم بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پرتھے تو اُس (اللہ) نے (اپنے کمال فضل و مہربانی سے) تمہیں اس سے بچا لیا۔''

یہ اسلام ہی کی برکت تو تھی کہ جس نے ان کے جذبہ اخوت و محبت کو دنیا والون کی نظر میں قابل رشک بنا دیا تھا او رجس کے سامنے تمام حقیقی، خونی رشتے اور تعلقات ہیچ اوربے حقیقت ہوکر رہ گئے تھے۔ لیکن آج اگر مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہے او رہر ممکن ظلم و ستم ایک دوسرے پر روا رکھا جارہا ہے تو تسلیم کرنا ہوگا کہ آج بھی ہمیں صرف اور صرف اسی نظام شریعت کی ضرورت ہے، جونوع انسانی کے ہر فرد کو اس کا صحیح مقام دیتا، افراد ملت کو ایک خاندان میں تبدیل کرکے انہیں دشمن کے مقابلہ میں سیسہ پلائی دیوار بنا دیتا او رملت اسلامیہ کو ﴿أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَآءُ بَيْنَهُمْ'' ۔ یعنی : ؎

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن


کی حقیقی تصویرعطا کرتا ہے۔ یہ وہی نظام شریعت ہے کہ جس میں عصبیت کے تمام تر محرکات، بے حیائی کی ساری قسمیں، فساد کے جملہ ترغیبات۔ ممنوع اور خلاف قانون قرار پاتے ہیں او رجس کی آمد آمد سے بداخلاقی ، قانون شکنی، نفس پرستی، جاہ طلبی، عشرت پسندی، ناانصافی اور ظلم و جور کے تمام تر رجحانات شکست و ریخت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم سے بے اعتنائی ہی نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ ورنہ اگر قرآن میں تھوڑا سا غور کرلیا جاتا تو یہاں ، اسلامیان پاکستان کا اصل مرض، اس کی تشخیص، پرہیز اور علاج سبھی یکجا مل جاتے۔ قرآن کریم کے یہ الفاظ کس قدر واضح ہیں کہ :
﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَ‌ىٰٓ ءَامَنُواوَٱتَّقَوْالَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَ‌كَـٰتٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْ‌ضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوافَأَخَذْنَـٰهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦...سورۃ الاعراف
''اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ (کی راہ) اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین و آسمان کی برکتوں (کے دروازے )کھول دیتے، مگر انہوں نے تکذیب کی، تو ان کے اعمال کی پاداش میں ہم نے انہیں پکڑ لیا۔''

چنانچہ احکام خداوندی کی اطاعت کے سبب اگر ظلم و فساد سے آلودہ سرزمین پاکستان آن کی آن میں جنت کا گہوارہ بن سکتی ہے، تو ان احکامات سے بغاوت و سرکشی کی صورت میں نہ صرف اصلاح احوال کی تمام تر کوششیں اور تدابیر بھی محض تحصیل حاصل ہوں گی، بلکہ عجب نہیں کہ یہ سرزمین اور اس کے باسی (العیاذ باللہ) زمانہ ما بعد کے لوگوں کے لیے فسانہ عبرت بن کر رہ جائیں۔ کیونکہ یہ قانون قدرت ہے:
وَمَنْ أَعْرَ‌ضَ عَن ذِكْرِ‌ى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُ‌هُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَ‌بِّ لِمَ حَشَرْ‌تَنِىٓ أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرً‌ا ﴿١٢٥﴾قَالَ كَذَ‌ٰلِكَ أَتَتْكَ ءَايَـٰتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَ‌ٰلِكَ ٱلْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦...سورۃ طہ
کہ ''جس نے بھی ہماری نصیحت سے اعراض کیا، تو ہم اس کا جینا دو بھر کردیں گے، او ر (اسی پر بس نہیں) روز قیامت بھی ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ تب وہ کہے گا کہ ''پروردگار، تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا، میں تو بینا تھا؟'' (اللہ رب العزت) فرمائیں گے، (یہ اسی چیز کا بدلہ ہے کہ دنیا میں) تیرے پاس ہماری آیات آئی تھیں تو تُو نے انہیں بھلا دیا، بالکل اسی طرح آج تو بھی فراموش کردیاجائے گا۔''

پاکستان میں زندگی تو واقعی اجیرن ہوچکی، لیکن اس کا سبب بھی بالکل واضح ہے کہ ہم نے اللہ کی یاد کو دلوں سے محو کردیا او راس کے احکام سے روگردانی اختیار کرلی ہے۔ او راس جرم میں تقریباً سبھی شریک ہیں (الا ماشاء اللہ) قیام پاکستان کو چالیس سال کا عرصہ گزر گیا، ''اسلام اسلام'' کانعرہ تو ہر دور حکومت میں لگا، لیکن سب فریب تھا، ڈرامہ تھا، سراب ثابت ہوا۔ گزشتہ نو دس سالہ دور حکومت ایسا ہے کہ اسلام پر، اسلام ہی کے نام سے، سب سے زیادہ ستم اسی دور حکومت میں ڈھائے گئے۔حتیٰ کہ شریعت اور احکام شریعت کے خلاف جلسے جلوس، مظاہرے او راحتجاج ، اسی دور کا طرہ امتیاز، ہیں۔ لیکن کسی نے کسی سے یہ نہ پوچھا کہ ''تمہارے منہ میں کے دانت ہیں؟'' ملحد اور جاہل دانشوروں نے تو انتہاء کردی۔ قانون شہادت، قانون قصاص و دیت، قاضی کورٹس، اسلامی نظام عفت و عصمت او راسلامی معاشرہ میں خواتین کے حقوق او ران کا مقام، ایسے موضوعات پر وہ وہ مشق ناز فرمائی گئی کہ گویا یہ اور ان سے متعلق تمام قوانین اسلام اور خدائی ضابطے اب نفاذ کے قابل ہی نہیں رہے۔ نتیجتاً آج مسلمان کو پھر سے یہ بتانے کی ضرورت پیش آرہی ہے کہ اسلام ہی ہمارا دین ہے ، یہی ہمارے مسائل کا حل ہے، اللہ اور رسولؐ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، قرآن مجید واقعی اللہ کا کلام ہے، یہی وہ ضابطہ حیات ہے کہ جو چودہ سو سال قبل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پرامت مسلمہ کی راہنمائی کی خاطر نازل کیا گیا تھا۔ سنت رسولؐ کی بھی کچھ حیثیت ہے، کتاب و سنت ہی شریعت ہیں، شریعت خداوندی ہی ہماری راہنما ہے۔یہ دنیا واقعی چند روزہ ہے، مرنے کے بعد ہمیں جی اٹھنا ہے اور قیامت واقعتاً آنے والی ہے کہ اس روز ہم سے ہمارے اعمال کے بارے باز پرس ہوگی۔

آہ! آج کلمہ گو مسلمان کے درمیان دین کی اجنبیت کا یہ عالم ہے کہ اہل علم کی محفلوں کو چھوڑ کر، عوامی اجتماعات میں کسی مسئلہ کے بارے قرآن مجید سے استدلال، سننے والوں کو اچنبھا نظر آتا ہے۔ وہ کتاب ہدیٰ، کہ ایک حقیقی مسلمان کے نزدیک جس کا ایک ایک حرف ، حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے، متنازعہ فیہ مسائل میں اب اس کے حتمی فیصلہ کو سن کر تنقیدی نگاہیں حاضرین مجلس کے چہروں کا یوں طواف کرنے لگتی ہیں، گویا کوئی مذاق کی بات کہہ دی گئی ہو، اور گویا زبان حال سے کہہ رہی ہوں کہ ایسا بھی ممکن ہے؟ یہ بھی کوئی دلیل ہے او راس کی بھی کوئی حیثیت ہے؟

اور جیسے کہ ہم نے عرض کیا، قرآن مجید سے بے اعتنائی او ردین کی اجنبیت کے اس جرم کے مرتکبین اکیلے ملحدثین نہیں ہیں، بلکہ اس فہرست میں اصحاب اقتدار کے علاوہ اکثر اصحاب جبہ و دستار کے نام بھی آتے ہیں، جو سب مل کر قرآنی عدالت کے سامنے، مجرمین کے کٹہرے میں قطار باندھے، عربی کے اس شعر کی عملی تصویر بنے، سرجھکائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ؎

فھل أفسد الدین إلا الملوك
وأحبار سوء ورھبا نھا


چنانچہ اپنے اپنے مکتب فکر کی حمایت اور گروہ بندیوں کو پالنے کے لیے آیات قرآنی سے غلط استدلال کرنے والے اگر دین کے نادان دوست ہیں، تو لادینیت کو فروغ دینے کے لیے ان آیات کی سرے سے ہی پروانہ کرنے والے او راپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ان سے کھیلنے والے دین کے ایسے دانا دشمن ہیں کہ جنہیں اس کا حوصلہ، ان نادان دوستوں ہی نے بخشا ہے۔ یہ داستان جس قدر طویل ہے، اسی قدر دلخراش بھی، کہ جس کو سننے سنانے کا حوصلہ ہے نہ یارا۔ تاہم وقت کی پکار کی مناسبت سے اس کا ہلکا سا نقشہ، اس سےملتی جلتی ایک مثال، نفاذ شریعت کے لیے، نفاذ شریعت بل ہے۔ اس کے خلاف کیا کیا کچھ نہیں لکھا گیا؟ لیکن اس مخالفت میں جہاں لا دین عناصر اس لیے سرگرم عمل ہیں کہ نفاذ شریعت انہیں گوارا نہیں اور اصحاب اقتدار اس لیے پیش پیش ہیں کہ اس کے نتیجے میں اسلامی حدود و قیود کا انہیں پابند ہونا پڑے گا، وہاں بعض ''علمائے کرام'' اس کی مخالفت میں محض اس لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں کہ شریعت بل کی سب سے پہلے انہیں کیوں نہ سوجھی ، وہ خود اس کے اوّلین محّرک کیوں نہیں بنے او راسے پیش کرنےکا سہرا دوسروں کے سر کیوں بندھا؟ جی ہاں ، ہم نے یہ ایک راز کی بات کہہ دی ہے، او راس پر جس قدر غور کیا جائے گا، اسی قدر اس کی حقیقت واضح ہوتی چلی جائے گی۔ ورنہ جہاں تک مخالفت میں ان کے دلائل کا تعلق ہے، تو یہ بات تو بار بار پڑھنے میں آئی ہے کہ ''ہم نے بادلائل یہ ثابت کردیا ہے کہ شریعت بل ملک و ملت کے لیےنقصان کا باعث ہوگا'' (وغیرہ وغیرہ) لیکن افسوس کہ آج تک یہ دلائل ہی نظر سے نہیں گزرے۔

علاّم الغیوب تو اللہ رب العزت کی ذات ہے، لیکن آثار یہ بتلاتے ہیں کہ شریعت بل اس ملک میں نفاذ شریعت کے لیے شاید آخری کوشش ہوگی، اور اگر اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا تو شاید ہی پھر کوئی موقع ہاتھ آئے۔ ملک کی موجودہ صورت حال اب نفاذ شریعت کے سلسلہ میں مزید تاخیر یاٹال مٹول کی ہرگز متحمل نہیں ہوسکتی اور ہمیں اپنی دینی او راخروی سلامتی کے لیے جلد از جلد اسلام کے مضبوط ترین حصار میں پناہ لینا ہوگی۔لہٰذا جہاں متحدہ شریعت محاذ کو ''اب، ورنہ پھر کبھی نہیں'' کی نزاکت کوملحوط رکھتے ہوئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہوگا، وہاں مخالفین کو بھی اپنی انانیت کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ شریعت بل میں اگر انہیں کوئی سقم نظر آتا بھی ہے تو اس کا حل مثبت اور متبادل تجاویز پیش کرنےکے لیے مل بیٹھنا ہے، مخالفانہ نعروں سے اصحاب اقتدار او رلا دین عناصر کو عدم نفاذ شریعت کا بہانہ مہیا کرنا نہیں۔ ورنہ یاد رہے کہ شریعت سے بغاوت کا یہ جرم ان کا انفرادی جرم نہ ہوگا بلکہ لیڈر ہونے کے ناطے دوسروں کا وبال بھی ان کی گردن پر ہوگا اور یہ وبال ، وبال جان بھی بن سکتا ہے۔ وما علینا الاالبلٰغ۔