نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح

جناب ایس۔ایم ۔رضا شاہ (44 راوی بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور) نے ایک طویل خط ادارہ محدث کوارسال کیا ہے۔لکھتے ہیں:
''السلام علیکم! آپ کے مؤقر ماہنامہ محدث (ستمبر، اکتوبر 1986ء) میں ''نکاح و طلاق وغیرہ کے چند مسائل'' کے عنوان کے تحت مولانا سعید مجتبیٰ السعیدی نے ایک سوال کہ ''بلوغت سے قبل جو نکاح کیا جائے، کیا یہ نکاح شرعی طو رپر جائز ہوگا یا نہیں؟'' کے جواب میں فرمایا ہے کہ ''صغر سنی میں بلوغت سے قبل جونکاح کیا جائے، شرعاً واقع ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ لڑکی بلوغت کے بعد اس نکاح پررضامندی کا اظہار کردے۔'' نیزمولانا عبدالرحمان کیلانی نے ''بچپن کی شادی'' کے عنوان کے تحت (شمارہ اگست 1986ء) میں فرمایا ہے کہ:
''(قرآن ہی سے بچپن کی شادی کا جواز یوں ثابت ہوتا ہے)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱلَّـٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْ‌تَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَـٰثَةُ أَشْهُرٍ‌ۢ وَٱلَّـٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُو۟لَـٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ...﴿٤﴾...سورۃ الطلاق
''اور تمہاری مطلقہ عورتیں، جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں، اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا او رحمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔''

اب دیکھئے آیت بالا میں بوڑھی، جوان او ربچی سب طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔ بوڑھی اور بچی کی عدت تین ماہ ہے او رجوان (یعنی بالغ جو قابل اولاد ہو) کی عدت، اگر اسے حمل ہے، تو وضع حمل تک ہے او ریہ تو ظاہر ہے کہ عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی پیدا ہوسکتا ہے او رطلاق کا نکاح کے بعد، گویا نابالغ کانکاح بھی از روئے قرآن جائز ہے۔'' 1

قبل ازیں ایک مشہور عالم بھی (ترجمان القرآن ماہ اکتوبر 1969ء ) میں اس مؤقف کا اظہار کرچکے ہیں کہ ایسی لڑکی جسے ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، اس سے نہ صرف نکاح کردینا جائز ہے، بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔

تو اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ چونکہ محدث بھی بالا مندرجات سے متفق نظر آتا ہے، لہٰذا آپ اس پر روشنی ڈالیں کہ قرآن سے یہ استدلال اس کی معنوی تحریف میں نہیں آتا؟ اوّلاً تویہ دیکھئے کہآیت میں لفظ ''نساء'' کا معنی ''بچی''کیا جاسکتاہے؟ قرآن کریم میں متعدد بار اس لفظ کا استعمال آیا ہے، کیا خود اللہ رب العزت نے اسے ''بچی'' کے معنوں میں استعمال کیا ہے؟ مولانا کیلانی صاحب نے ترجمہ کیاہے: ''اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا'' سوال یہ ہے کہ ''لم یحضن'' کا یہ ترجمہ کس قاعدے کی رو سے کیا گیاہے؟ آپ لفظ''ابھی'' سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اس سےمراد نابالغ ہے۔ حالانکہ ''نساء'' کے لفظ سے یہ ثابت ہے کہ یہ وہ بالغ عورتیں ہیں جن کی عمر تو ایسی ہو کہ انہیں بالعموم حیض آیا کرتا ہے، لیکن کسی عارضہ کے باعث انہیں حیض نہیں آیا۔ تو اس صورت میں عدت کا شمار مہینوں سے ہوگا۔بہرحال اردو میں قرآن کریم کے متعدد ترجموں میں آیت کا ترجمہ کم و بیش انہی الفاظ میں آیا ہے کہ جن عورتوں کو کسی عارضہ کے سبب حیض نہ آیا ہو۔

جناب کیلانی صاحب نے اپنے مخالف کے اس حوالہ پر کہ ''دین کا فیصلہ یہ ہے کہ نکاح کی عمر ہی بلوغت کی عمر ہے'' (سورة النساء آیت6) اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حالانکہ بات تو بالکل صاف ہے کہ یتیموں کے جومال سرپرستوں کے پاس امانت رکھے جاتے ہیں، ان کی واپسی کے سلسلے میں تم یتیموں کو اس وقت تک آزماتے رہو، جب تک کہ وہ نکاح کی عمر کو نہ پہنچ جائیں۔﴿وَٱبْتَلُواٱلْيَتَـٰمَىٰ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغُواٱلنِّكَاحَ'' یہاں سے بالکل واضح ہے کہ قرآن کی رُو سے نکاح کا وقت وہ ہے جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچیں یعنی لڑکے اور لڑکیوں کی یہ عمر نکاح کی عمر نہیں بلکہ عمر کا ایک حصہ ہے، جس سےگزرتے ہوئے وہ نکاح کی عمر کو پہنچتے ہیں۔ سورہ نساء کی آیہ مذکور قابل توجہ ہے۔ جب قرآن کی رُو سےمردوں اور عورتوں کےنکاح کی شرط ان کا بالغ ہونا ہے، تو ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ بچیوں کا نکاح قرآن کے منشاء کے خلاف ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ فریقین میں اگر کوئی فریق نابالغ ہے اور وہ نکاح باندھ جائے تو وہ بندھتا ہی نہیں ہے۔ نکاح کو ﴿مِّيثَـٰقًا غَلِيظًا'' (النساء:21) یعنی ''پختہ معاہدہ'' قرار دیا گیا ہے او رمعاہدہ کے لیے ضروری ہے کہ فریقین بالغ ہوں۔ ایل۔ ایل۔ بی کی تیاری میں ہم نے (Law Contract) کے تحت پڑھا تھا کہ معاہدہ ہوتا ہی بالغ افراد کے درمیان ہے۔نکاح کی تشریح لفظ ''عقدة النکاح'' میں موجود ہے۔ ''عقد''کا معنی ''گرہ'' بھی ہے اور ''وعدہ'' بھی۔ ''عقود'' اس کی جمع ہے۔﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاأَوْفُوابِٱلْعُقُودِ'' کہ ''ایمان والو، وعدے وفا کیا کرو'' ظاہر ہے کہ یہ حکم بالغ مرد وعورت کو دیا جارہا ہے، نابالغ بچی کو نہیں۔ جو نہ عہد نکاح کوسمجھے نہ وفائے عہد سے واقف ہو۔ عقد نکاح وہ وعدہ ہے، جس سے ازدواجی زندگی شروع ہوتی ہے اور فریقین اپنی اپنی ذمہ داریوں کے لیے پابند کئے جاتے ہیں ۔ عورتوں کو ''وَقَرْ‌نَ فِى بُيُوتِكُنَّ'' کی رو سے گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا ہے، جبکہ مرد بروئے آیت ﴿ٱلرِّ‌جَالُ قَوَّ‌ٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ'' عورتوں کی ضروریات زندگی کے کفیل ہیں۔''عقد'' ایک وعدہ ہےجوعرف عام میں ایجاب و قبول کے مصداق ہے۔عورت اپنی تمام نسوانی خدمات پیش کرتی ہے او رمرد قبول کرتا ہے۔اب بتائیے کہ اگر فریقین کی یہ حالت ہے کہ لڑکا نابالغ ہے، نہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ، نہ روزی کمانے کے لائق، تو کس سے وعدہ لیاجائے گا کہ بیوی کی ضروریات زندگی پوری کرے گا؟ اسی طرح اگر لڑکی نابالغ ہے، نہ گھر کا کام کرنےکے قابل ہے، نہ اولاد پیدا کرنےکے قابل، تو کس سے عقد ہوگا؟ کس سے وعدہ لیا جائے کہ گھر کا کام کاج اور اولاد پیدا کرکے اس کی صحیح تربیت او رپرورش کے فرائض سرانجام دے گی؟ عقد نکاح حقیقت پر مبنی ہوتا ہے یہ کوئی ڈرامہ نہیں ہے نہ ہی گڑیوں کاکھیل۔ اگر کسی پانچویں جماعت کے لڑکے کو گورنمنٹ ہاؤس لے جاکر جج کے عہدے کا حلف اس سے اٹھوایا جائے کہ وہ اس فرض کو نہایت دیانتداری سے ادا کرے گا، توجس طرح وہ لڑکا جج نہیں ہوتا، اسی طرح اگرکسی نابالغ لڑکے یا لڑکی سے نکاح کا عہد کرایا گیا تو نہ لڑکا شوہر ہوتا ہے نہ لڑکی بیوی۔ قرآن کی رو سے جب وہ نکاح کو پہنچے ہی نہیں تو نابالغی کا نکاح ، نکاح ہی نہیں۔

پھر ہمارے فقہاء کہتے ہیں کہ نابالغ لرکی، بالغ ہونے پر اگر نکاح کو رد کردے تو فسخ ہوجاتا ہے، تو پھر وہ نکاح کیسا تھا؟ اس کی کیا حیثیت تھی؟ قرآن کریم نے مردوں کومخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''نسآء کم حرث لکم'' کہ ''تمہاری عورتیں تمہاری کھتیاں ہیں۔'' کھیتی چونکہ پیداوار کے لیےہوتی ہے، لہٰذا ثابت ہواکہ لڑکی جب تک بالغ نہ ہو، کھیتی نہیں کہلا سکتی۔ بالغ ہوکر پیداوار کے قابل ہوجائے تو کھیتی ہوگی اور تب اس کے نکاح کا سوال پیدا ہوگا۔ پھر ایک او ربات بھی قابل غور ہے، کہ وہ ایسے مرد کے سپرد کی جائے گی جو اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو، یعنی بالغ ہو، کھیتی کا لفظ عورت کے لیے لایا گیا ہے جوبالغ اور اولاد پیدا کرنےکے قابل ہوتی ہے، نابالغ بچی کے لیے نہیں آیا۔جو پھل ابھی پکا ہی نہیں، اسےآپ توڑ کرکھانے کے لیےکیسےموزوں سمجھیں گے؟

پھر طبی نقطہ نظر سے بھی نابالغ بچی قابل مجامعت نہیں۔اس سے خلوت ضرر انگیز ہے او رکئی جسمانی عوارض کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ آپ کسی ماہر گائنالوجسٹ سےاستفسار کیجئے، امید ہے آپ محدث کے ''ٹائٹیل بیک'' پر تحریر کردہ اعلانات کی روشنی میں کہ ''علوم جدیدہ سے ناواقفیت او رانکار، انسانی ارتقاء کو تسلیم کرنے میں بخل کا درجہ رکھتے ہیں'' اپنے اعلیٰ خیالات سےمستفید فرمائیں گے ۔ بہتر ہوگا اگر میرا عریضہ بھی ساتھ ہی شائع کردیں تاکہ قارئین دونوں نقطہ نظرسے آگاہ ہوسکیں۔ والسلام!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


الجواب بعون الوھاب
1۔ نکاح کی عمر:
احکام و اصول شرعیہ میں یہ حکمت ملحوظ رکھی گئی ہے کہ عام حالات میں ان اصول و احکام کا اطلاق عام مسلمانوں پر ہوسکے۔ تاہم انسانوں کی مختلف استعداد اور مختلف صورت احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ نے مستثنیات کا حل بھی پیش فرما دیا ہے۔ ایسے مستثنیات، محض جواز یا رخصت کے درجہ پر ہوتے ہیں، اصولی احکام کے درجہ پر نہیں۔ یہ مستثنیات کئی طرح کے ہوسکتے ہیں ، مثلاً :
(الف) بعض دفعہ یہ مستثنیات حالات سے مشروط ہوتے ہیں۔جیسے نماز کے لیے اصول طور پر تو پانی سے وضو کرنےکا حکم ہے لیکن اگر پانی نہ مل سکے ، یا پانی تو دستیاب ہو، مگر کسی بیماری کی وجہ سے اس کا استعمال نقصان دہ ہو، یا کوئی دیگر ایسا قوی مانع موجود ہو، جس کی وجہ سے نمازی پانی کے استعمال پر قادر نہ ہوتومٹی سے تیمم کرسکتا ہے۔ ایسے حالات میں تیمم کرنا رخصت یا جواز ہے۔

(ب) اصل حکم یہ ہے کہ ہر بالغ مسلمان رمضان کے روزے رکھے۔ اب پیر فرتوت یا ایسامریض، جس کا مرض لاعلاج شکل اختیار کرچکا ہو، کفارہ دےسکتا ہے۔کفارہ کی ادائیگی رخصت ہے اور جواز کے درجہ پر ہے، کوئی اصل یا حکم نہیں۔

(ج) حالت اضطرار میں محرمات تک بھی حلال ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں مردار کھا لینا رخصت یا اجازت ہی رہے گا ، اصولی حکم نہیں بن سکتا۔

غرض اس طرح بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ہرمعاملہ میں ہمیں یہ تمیز کرلینی چاہیے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈمڈ نہ کرنا چاہیے۔

اب مسئلہ زیربحث یہ ہے کہ اصولی طور پر نکاح کی عمر کیا ہے؟ تو اس کے متعلق ہم واشگاف لفظوں میں یہ کہیں گے کہ نکاح کی اصل عمر بلوغت ہی ہے۔ جو اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس اصول میں کچھ مستثنیات بھی ہیں یا نہیں؟ بالفاظ دیگر یہ سوال یوں ہوگا کہ آیا بلوغت سے قبل بچپن میں بھی نکاح جائز ہے یا نہیں؟

مستثنیات کی تلاش و تحقیق کے لیے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ نکاح کے مقاصد کیا ہیں؟ شاہ صاحب موصوف کے نزدیک نکاح کا مقصد صرف حصول اولاد ہے۔لہٰذا ان کے سارے دلائل کا محور یہی ہونا چاہیے کہ نکاح کی عمر حقیقتاً بلوغت ہی ہے، اس سے پہلے چونکہ یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا، لہٰذا قبل از بلوغت نکاح بھی جائز نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارے نزدیک نکاح کے مقاصد او ربھی ہیں، صرف حصول اولاد نہیں۔نکاح کا اصل مقصد ۔جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیاہے۔ فحاشی، بے حیائی او رزنا سے اجتناب، مرد وعورت دونوں کی عفیف زندگی اور اس طرح پاک و صاف اور ستھرے معاشرے کا قیام ہے۔اسی لیے کتاب و سنت میں والدین کو بلوغت کے فوراً بعد نکاح کردینے کا حکم دیا گیاہے۔رہی حصول اولاد کی بات، تو یہ اصل مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کا ثمرہ ہے او رجو انسان کے اپنے بس کی بات ہے ہی نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بالغ جوڑے کی شادی کردی جائے اور تازیست ان کے ہاں اولاد نہ ہو تو اس پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نکاح بلامقصد ہے۔ اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد 5 فیصد سے زیادہ نہیں تاہم اس سے انکار بھی ممکن نہیں۔

نکاح کا دوسرا مقصد، قریبی رشتہ داروں میں قرابت کے تعلق کو برقرار رکھنا او رموّدت کوبڑھانا ہے۔ تیسرا مقد دینی اخوت کا قیام او راس میں اضافہ ہے۔غرضیکہ نکاح ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ کئی طرح کے دینی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے مقاصد، حصول اولاد سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔ آپ ذرا حضرت رسول اکرمﷺ کی زندگی پر نظر ڈالئے کہ آپؐ نے کتنے نکاح کیے؟ جس عمر میں کیے؟ کس عمر کی عورتوں سےکیے اور کس کس مقصد کے تحت کیے؟ تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔

اب جبکہ نکاح کے مقاصد ہی میں تنوع پیدا ہوگیا تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر بلوغت ، میں بھی استثناء موجود ہو۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ اصولی طور پر نکاح کی عمر بلوغت ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے او رجائز ہونا بھی چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح لڑکے، جوان اور بوڑھے سے جائز ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا نکاح اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت، مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ عورت سے بھی جائز ہے۔

2۔ معنوی تحریف:
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب ''بچی'' کے لیے قرآن میں ''نساء'' کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ، تو پھر جس آیت زیر بحث (النساء:65) میں ''نساء'' کے لفظ سے خطاب ہے، اس میں بچیوں کو کیوں شامل کرکے نابالغ لڑکی کے نکاح کا جواز ثابت کیا جاتا ہے2؟ اور اگر کوئی شخص ''نساء'' میں خواہ مخواہ بچیوں کو شامل کرکے بچی کے نکاح کو درست سمجھتا ہے تو اسے قرآن کی معنوی تحریف کے علاوہ او رکیا کہا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں ہم صرف اسی قدر عرض کریں گے کہ جس طرح عوتوں اور مردوں کے مشترکہ مجمع یا گروہ کے لیے خطاب کے وقت جمع مذکر کے صیغے اور ضمائر ہی استعمال کیے جاتے ہیں، او ریہ خصوصیت صرف عربی زبان کی ہی نہیں، بلکہ ہر ملک میں او رہر زبان میں یہی دستور ہے، بالکل اسی طرح اگر کسی ایسے اجتماع یا گروہ کو خطاب کیا جائےجس میں بچیاں، جوان او ربوڑھی ہر طرح کی عورتیں موجود ہوں تو ان کے لیے ''نساء'' کا لفظ ہی استعمال ہوگا۔ آیت زیر بحث میں چونکہ ہر طرح کی عورتوں کی عدّت کا ذکر ہے، لہٰذا یہاں لفظ ''نساء'' آیا او ریہی آنا چاہیے تھا ۔ ہم شاہ صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اگر انہیں ایسے مجمع کو خطاب کرنا پڑے جس میں بچیاں، جوان او ربوڑھیاں سب اس نسبت سے ہی موجود ہوں جس نسبت سے معاشرہ میں موجود ہیں، تو وہ ایسے مجمع سے خطاب کے لیے کون سا لفظ استعمال کریں گے؟

معنوی تحریف کے سلسلہ میں شاہ صاحب کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ''لم یحضن'' کا ترجمہ ''جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا'' گرامر کے کس قاعدہ کی رُو سے ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب مضارع پر ''لم'' داخل ہو تو دو طرح کے معنوی تغیر کا سبب بنتا ہے۔ ایک تو مضارع کو ماضی میں بدل دیتا ہے۔دوسرے منفی میں تبدیل کردیتا ہے۔اس لحاظ سے جو ترجمہ ہم نے پیش کیا تھا، وہ درست ہے او رہم اپنی تائید میں درج ذیل شواہد بھی پیش کرتے ہیں:
ترجمہ نمبر 1: شاہ رفیع الدین صاحب ۔ ''اور وہ جو نہیں حائض ہوئیں''
ترجمہ نمبر2: فتح الحمید ۔''اور جن کوابھی حیض نہیں آنے لگا۔''
ترجمہ نمبر 3: تفہیم القرآن۔ ''او ریہی حکم ان کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔''
ترجمہ نمبر 4: کنزالایمان (احمد رضا خاں صاحب) ''اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا۔''

ہمارے خیال میں ہمارے ترجمہ کی تائید میں اتنے شواہد کافی ہیں۔تاہم عندالطلب ان میں کافی حد تک اضافہ بھی کیا جاسکتاہے۔

اب جناب شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ:
''اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کی عمر تو ایسی ہو کہ انہیں بالعموم حیض آیا کرتا ہے لیکن کسی عارضہ کے باعث انہیں حیض نہیں آتا، تو اس صورت میں عدت کا شمار مہینوں سے ہوگا۔ بہرحال اردو میں قرآن مجید کے متواتر ترجموں میں اس آیت کا ترجمہ کم و بیش انہی الفاظ میں آیا ہے کہ جن عورتوں کو کسی عارضہ کے سبب حیض نہ آیا ہو۔''

شاہ صاحب کے اس ترجمہ پر ہمیں دو اعتراض ہیں۔پہلا یہ کہ ان کے مؤقف کے مطابق نکاح کی عمر بلوغت ہے او ربلوغت کی عمر کی علامت لڑکے لیے احتلام او رلڑکی کے لیے حیض کا آنا ہے۔ اب اگر کسی لڑکی کو تادیر حیض ہی نہیں آتا۔ خواہ یہ کسی عارضہ کے باعث ہی ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ بالغہ کہلا سکتی ہے او رنہ ہی اس کا نکاح ہوسکتا ہے، لہٰذا اس کی طلاق یا عدت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں کی بھی عدت کا ذکر کردیا ہے (چلئے شاہ صاحب ہی کے بقول کہ ''انہیں کسی عارضہ کے باعث حیض نہیں آیا'' تو کیا ان کا نکاح ناجائز ہوگا؟ حالانکہ قرآن مجید نے اگر ان کی عدت کا ذکر کیا ہے تو یہ عدت طلاق کے بعد، اور طلاق نکاح کے بعد ہی واقع ہوتی ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ حیض آئے بغیر یا حیض آنے سے پہلے بھی عورت کانکاح ہوسکتا ہے۔

او رہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ ان کے متعین کردہ معانی متعدد اردو تراجم میں موجود ہیں۔لیکن ان ''متعدد اردو تراجم' 'میں سے حوالہ کسی ایک کا بھی نہیں دیا، لہٰذا یہ بے دلیل بات ہوئی۔ شاہ صاحب کےاس بیان میں حقیقت صرف اس قدر ہے کہ حیض نہ آنے کی چار مختلف صورتون میں سے ایک صورت یہ بھی ہے ۔ اور وہ چار صورتیں یہ یں:
1۔ کمسنی کی وجہ سے حیض نہ آنا۔
2۔ کسی عارضہ کی وجہ سے کافی عمر تک حیض نہ آنا۔
3۔ ساری عمر ہی حیض نہ آنا۔
4۔ بڑھاپے کی وجہ سے حیض کا بند ہوجانا۔

ان چار صورتوں میں آخری صورت کا تو قرآن نے الگ سےذکر کردیا ہے۔باقی تینوں صورتوں ''لم يحضن''کے حکم میں شامل ہیں یعنی ان تینوں قسم کی عورتوں کا نکاح بھی ہوسکتا ہے او رطلاق بھی۔ اور ان کی عدت تین ماہ ہی ہوگی۔ اس تفسیری عموم کے باوجود چونکہ قرآن کے الفاظ کاترجمہ وہی ہےجو ہم نے پیش کیا ہے۔ لہٰذاش ان تین صورتیں میں سے بھی ترجیحی صورت وہی پہلی متصور ہوگی جس کی رو سے نابالغ بچیوں کانکاح جائز قرار پاتا ہے۔

3۔ عقد ِنکاح او ربلوغت :
آپ فرماتے ہیں کہ عقد نکاح میں ایجاب و قبول شرط لازم ہے، او ریہ ایجاب قبول اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ فریقین میں سے ہر ایک بالغ ہو۔ نیز فرمایا کہ:
''عقدنکاح حقیقت پر مبنی ہوتاہے۔یہ کوئی ڈرامہ یاگڑیوں کا کھیل تو نہیں ہوتا۔اگر کسی پانچویں جماعت کے لڑکے کو گورنمنٹ ہاؤس لے جاکر جج کے عہدے کا حل اٹھوایا جائے کہ وہ اس فرض کونہایت دیانتداری سے ادا کرے گا تو جس طرح وہ لڑکا جج نہیں ہوتا، اسی طرح اگر کسی نابالغ لڑکے یا لڑکی سے نکاح کا عہد کرایاگیا تو نہلرکا شوہر ہوتا ہے نہ لڑکی بیوی۔ قرآن کی رو سے جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچے ہی نہیں تو نابالغی کا نکاح نکاح ہی نہیں۔''

اس اقتباس کے آکری جملے کا جواب تو ہم دے چکے ہین۔ اب آپ کی پیش کردہ مثال کی طرف آئیے، تو یہ مثال قیاس مع الفارق ہے اور کئی وجوہ کی بنا پر غلط ۔ مثلاً:
1۔ مشاہدہ یہ ہے کہ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے بچوں میں سے ایک فیصد بھی ایسےنہیں ہوتے جو بعد میں جج کے عہدہ پرفائز ہوں۔ لیکن بچپن کی شادیاں اکثر کامیاب ہی ثابت ہوتی ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے ایک فیصد ہی شادیاں ہوتی ہیں جو کامیاب نہیںرہتیں ، تو بے جا نہ ہوگا۔ دور نبویؐ پر نظر ڈالیے۔ ان دنوں بچپن کی شادی کا رواج عام تھا۔ لیکن سارےدور نبوی میں عدالت نبویؐ میں صرف ایک مقدمہ ایسا آیا، جس میں لڑکی نے بلوغت کے بعد اپنے ولی کے نکاح پر نارضا مندی کا اظہار کیا تو آپؐ نے اس عورت کو (نکاح کے باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا) اختیار دے دیا۔ اس پراس نے یہ کہا کہ ''میں اپنے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو باقی رکھتی ہوں۔اس سوال سے میرا مقصود صرف یہ تھا کہ عورتوں کوعلم ہوجائے، نکاح کے معاملہ میں (ان کی مرضی کے بغیر ان کے) آباء کو کوئی حق نہیں۔'' 3

2۔ عملی لحاظ سے یہمثال اس لیے غلط ہے کہ بچپن کی شادی کی صورت میں ایجاب یا قبول ، لڑکی یا لڑکا خود نہیں کرتے، نہ ہی ان سے کروایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے والدین یا ولی کیاکرتے ہیں۔ حلف وفاداری کا عمل صرف اصالتاً ہی وقوع پذیر ہوسکتا ہے، جبکہ ایجاب و قبول کی ذمہ داریاں ولایتاً بھی تسلیم کرلی جاتی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک نابالغ بچی کا نکاح ہورہا ہو، تو اسی سے نکاح پر رضا مندی کے لیے صاد کرایا جائے (ایجاب ) یانابالغ بچے سے حق مہر او رنان و نفقہ کی ذمہ داریوں کااقراربھی اس نابالغ سے کروایا جائے (قبول) بلکہ لڑکے کا والد، جو ایسی ذمہ داری قبول کرتا ہے، تووہ اس کو پوری ذمہ داری کے ساتھ نباہتا بھی ہے۔ تاآنکہ لڑکا بالغ او ربرسرروزگار ہوکر اپنی ذمہ داری خو دسنبھالنےکے قابل ہوجاتا، او رپھر اسے سنبھال بھی لیتاہے ۔ یہی صور ت حال لڑکی کے والد یا ولی کی بھی ہوتی ہے۔

اب دیکھنے کی بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ عقود و معاہدات میں ولایت کو قرآن کریم نے تسلیم کیاہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب ہمیں قرآن مجید سے اثبات میں ملتا ہے۔ شاہ صاحب تو معاہدہ کے لیے صرف بلوغت کو شرط قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ معاہدہ کے لیے بالغ ہونےکے علاوہ عاقل ہونا بھی لازمی شرط ہے۔ اب یا تو ایسے نابالغ اور نادان افراد کو ایسے تمام حقوق سے محروم کردیجئے ، جن کی حفاظت معاہدات و عقود کے ذریعہ ہی ممکن ہے یا پھر معاہدات میں ولایت کو تسلیم کرلیجئے۔لین دین کے معاہدات میں جہاں کتابت کا حکم دیا گیاہے وہاں ایسی صورتوں کا حل بھی اللہ تعالیٰ نےبتلادیاہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن كَانَ ٱلَّذِى عَلَيْهِ ٱلْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُۥ بِٱلْعَدْلِ...﴿٢٨٢﴾...سورۃ البقرۃ
''پھر اگر قرض لینے والا بے عقل ہو یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کروا دے۔''(البقرہ :282)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین صورتوں میں ولی کو معاہدہ کے فریق کا مختار بنا دیاہے۔

1۔ نادان ہو۔
2۔ ضعیف ہو (یاد رہے کہ قرآن میں ''ضعیف'' کا لفظ ''چھوٹے بچے'' کے لیے بھی آیا ہے، جیسے فرمایا:
﴿وَلَهُۥ ذُرِّ‌يَّةٌ ضُعَفَآءُ...﴿٢٦٦﴾...سورۃ البقرۃ
یعنی ''اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں۔'' اور :
3۔ املاء کروانےکی اہلیت نہ رکھتا ہو۔


او رنابالغ میں یہ تینوں باتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔چہ جائیکہ بروئے قرآن صرف ایک پربھی ولی کو حق ولایت تفویض کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر نابالغ کی طرف سے لین دین کےمعاملات میں اس کا ولی مختار ہوسکتا ہے تو معاہدہ نکاح میں کیوں نہیں ہوسکتا نادان، نابالغ او راملاء نہ کرا سکنے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاہدات و عقود اور دیگر ایسے اہم معاملات میں ولی مقرر کرے، او رولی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کرے۔ گویا ان تین صورتوں میں سے صرف ایک صورت موجود ہونےکی بناء پربھی ولی مقرر کرنے کا حق قرآن مجید نے دیاہے، تو نابالغ ، جس میں یہ تینوں صورتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں، یعنی ناپختہ عقل، کم سنی او راملاء نہ کراسکنا، تو اسے معاہدہ نکاح میں ولی مقرر کرنے کا یہ حق کیوں حاصل نہیں ہوسکتا؟ چنانچہ ولی اس کے ہمہ پہلو مفادات کا نگران ہوتا ہے۔ پھر نابالغ ہونے کی بناء پر نکاح ناجائز کیوں ہوا؟

معاہدات و عقود کے سلسلے میں شاہ صاحب نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ :
''اگر لڑکی نابالغ ہے، نہ گھر کا کام کام کرنے کے قابل ہے نہ اولاد پیدا کرنے کے قابل تو کس سے عقد ہوگا؟''

تو یہ دلیل اس لیے انتہائی کمزور ہے کہ اگر ایک بالغ عورت گھر کا کام کاج کرنے یااولاد پیدا کرنےکے قابل نہ ہو تو کیا اس کا نکاح بھی ناجائز و باطل ہوجائے گا؟

4۔ بچپن کے نکاح کی حیثیت:
شاہ صاحب نے بچپن کے نکاح کے ابطال پر یہ دلیل پیش فرمائی ہے کہ:
''ہمارے فقہاء کہتے ہیں کہ نابالغ لڑکی، بالغ ہونے پر اگر نکاح کو ردّ کردے تو وہ فسخ ہوجاتا ہے4۔۔ تو پھر وہ نکاح کیسا تھا؟ اس کی حیثیت کیاتھا؟''

اس اعتراض کا جواب دراصل شاہ صاحب کی اپنی عبارت ہی میں موجود ہے۔ اگر بچپن کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا تولڑکی ردّ کس چیز کو کرتی ہے؟ پھر اگرنکاح ہوا ہی نہیں تو فسخ کیا چیز ہوتی ہے؟ ردّ اور فسخ دونوں الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ فقہاء یہ کہتے ہیں کہ بچپن کا نکاح بالکل درست طور پر اور ٹھیک ٹھاک منعقد ہوجاتا ہے۔پھر یہ ردّ کرنا بھی ایسا نہیں ہے کہ لڑکی جوان ہوئی تو اس نے زبان سے کہہ دیا کہ ''مجھے یہ نکاح پسند نہیں یا میں ا س نکاح کوردّ کرتی ہوں۔'' تو فوراً آپ سے آپ نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔بلکہ اس کے لیے عورت کو باقاعدہ عدالتی چارہ جوئی کرنا پڑتی ہے او رعدالت ہی اس بات کی مجاز ہوتی ہے کہ وہ ایسا نکاح فسخ قرار دے۔

بچپن کے نکاح کے ابطال پرشاہ صاحب موصوف نےایک دلیل یہ بھی پیش فرمائی ہے کہ قرآن میں ہے: ''نسآء کم حرث لکم'' اس سے بھی آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک لڑکی بالغ نہ ہو وہ کھیتی بن ہی نہیں سکتی۔جو پھل ابھی پکا ہی نہیں اسے آپ توڑ کر کھانے کے لیے کیسے موزون سمجھیں گے؟

یہاں بھی شاہ صاحب نے ایک دفعہ پھر اپنا مؤقف دہرایا ہے، جس کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ نکاح کا مقصد حصول اولاد کے سوا اور کچھ نہیں۔ جبکہ ہم بدلائل یہ ثابت کرچکے ہیں کہ نکاح کے مقاصد حصول اولاد کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں او رہوسکتے ہیں۔لہٰذا مقاصد کے تنوع کی بناء پر شریعت نےاس اصول میں لچک اور وسعت رکھی ہے۔

5۔ کم سنی کے نکاح کےجواز پر قرآن مجید سے دوسری دلیل:
اگرچہ دور نبوی میں بچپن کے نکاح کا رواج عام تھا، تاہم رخصتی اسی وقت ہوتی تھی جب عورت بالغ ہوجاتی تھی۔ پھر بعض دفعہ یوں بھی ہوتا کہ رخصتی یا بالفاظ دیگر مجامعت سے قبل ہی طلاق کی بھی نوبت آجاتی ۔ ایسی ہی صورت سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَ‌ضْتُمْ لَهُنَّ فَرِ‌يضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَ‌ضْتُمْ...﴿٢٣٧﴾...سورۃ البقرۃ
''اور اگر تم اپنی ایسی بیبیوں کو طلاق دو، جن سے تم نے صحبت نہ کی ہو او رحق مہر مقرر کرچکے ہو، تو مقررہ رقم کا نصف دینا ہوگا۔''

اب سوچئے کہ اگر جوان مرد او رجوان عورت کا نکاح اور ساتھ ہی ساتھ رخصتی بھی کردی جائے تو کیا ایسی صورت پیش آسکتی ہے کہ شب زفاف کی مجامعت سے پہلے ہی طلاق واقع ہوجائے؟ لیکن اس کے باوجود مجامعت سے پیشتر طلاق کا وقوع پذیر ہونا ایک ایسی حقیقت ہے، جسے قرآن نے بطور حقیقت تسلیم کرکے ایسی صورت میں حق مہر کی ادائیگی کے متعلق فیصلہ بھی دے دیا ہے۔ ایسی طلاق کی صورت ہمارے خیال میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ نکاح تو بچپن میں ہوچکا ہو لیکن رخصتی کو بلوغت تک کے لیےروک دیا گیا ہو۔ اس وقفہ کے دوران خاندانی رقابتوں یا دوسرے تنازعات کی بناء پر لڑکے کو طلاق دینے کےلیے مجبور کیا جائے یا وہ از خود اسی وجہ سے سے یا ناپسندیدگی کی بناء پرطلاق دے دے ۔ گویا ہمارے نزدیک قرآن کا مجامعت سے پہلے طلاق کی حقیقت کو تسلیم کرلینا ہی بچپن کےنکاح کے جواز کی دوسری دلیل ہے اور اگر شاہ صاحب یہ کہیں کہ بالغ مرد و عورت کے نکاح میں بھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے کہ مجامعت سے قبل طلاق واقع ہوجائے، تو یہی صورت نابالغ بچی کے نکاح میں بالاولیٰ داخل ہے اور قرآنی حکم کا عموم اس صورت کو مانع نہیں۔

6۔ مجامعت قبل از بلوغت :
ہم ایک دفعہ پھر شاہ صاحب کے یہ الفاظ سامنے لاتے ہیں کہ ''جو پھل ابھی پکا ہی نہیں، اسے آپ توڑ کر کھانے کے لیے کیسےموزوں سمجھیں گے؟'' اس کے جواب میں ہم یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ رواج یہ تھا کہ بچپن میں نکاح تو کردیا جاتا تھا۔ لیکن رخصتی عموماً بلوغت کے بعد ہی ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں عربوں کے ایسے نکاح کا مقام منگنی نے لے لیا او ررخصتی کا مقام شادی (نکاح+ رخصتی) نے۔ گویا جس طرح ہمارے ہاں بعض دفعہ منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ ان کے ہاں طلاق کے ذریعہ ایسے قصے ختم کئے جاتے تھے۔ اندریں صورت حال نابالغ بچی سے مجامعت کا سوال کم ہی پیداہوتا ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی لاحاصل ہے کہ نابالغ بچی سے مجامعت اس کی صحت پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے، ہمیں کسی گائنالوجسٹ سے پوچھنے کی ضرورت تو تب ہی ہوسکتی ہے، جب کسی کو اس کے نقصانات سے انکار یا اختلاف ہو۔ ان سب باتوں کے باوجود اگرکبھی ایسا اتفاق ہوجائے کہ کوئی شوہر اپنی کمسن زوجہ سے مجامعت کر بیٹھے تو اس کے اس فعل کو زیادہ سے زیادہ ناپسندیدہ ہی کہا جاسکتا ہے، اسے گنہگار نہیں کہہ سکتے۔کیونکہ اس کی بیوی کانقصان اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔بیوی کی صحت خراب ہوگی تو اس کے علاج معالجہ کے اخراجات بھی اسے ہی برداشت کرنا پڑیں گے او رتیمار داری کی ڈیوٹی بھی سرانجام دیناہوگی۔ گویا نقصان دونوں کا ہوگا اگرچہ اس کی نوعیت الگ الگ ہوگی۔

پھر بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت ہوتی تو بالغ یا جوان ہے، مگر صحت کی خرابی یا کمزوری کی وجہ سے اس سے مجامعت کرنا اس کی بیماری میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔ اب اگر یہ بیمار بیوی، سوکن کو برداشت کرنےسے یہی بہتر سمجھےکہ شوہر اس سے مجامعت کرے، یا مرد، عورت سے وفاداری، یا معاشی تنگی کی بناء پر دوسری عورت گھر میں لانے پر آمادہ نہ ہو تو ایسی صورت میں آپ کیا علاج تجویز فرمائیں گے؟ یہ مسئلہ دراصل ایسا لاینحل بن جاتا ہے کہ میاں بیوی باہمی رضا مندی یا مشاورت سے ہی اس کا کوئی حل سوچ سکتے ہیں او روہی حل سب سے بہتر ہوتا ہے۔اگر بیمار بیوی، اور اسی طرح کمسن بیوی، اپنے شوہر کو مجامعت کی اجازت دیتی یا اس پر رضا مند ہوجاتی ہے تو اس پر دوسروں کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ پھر یہ بھی مشاہدہ کی بات ہے کہ ایسے خاوند اپنی بیویوں کا پوری ہمدردی سے علاج کرانے کے علاوہ ان پر اپنی جان بھی چھڑکتے ہیں۔ گویا اگر عورت شوہر کی محبت کی خاطر اپنی صحت کی قربانی دیتی ہے تو مرد بھی ایسی وفا شعار بیوی کے ممکن حد تک قدردان ہوتے ہیں۔لہٰذا میاں بیوی کے معاملات جیسے بھی ہوں۔ کو وہ خود ہی باہمی رضا مندی او رمشاورت سے بہتر طور پر حل کرسکتے ہیں۔ اور ایسا ہی حل بہتر ہوتا ہے، اگرچہ وہ دوسرے لوگوں کو کسی ایک فریق کے حق میں ضرر انگیز معلوم ہوتا ہے، بہرحال جس طرح مجامعت قبل از بلوغت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح بعد از بلوغت بھی اس کا ضرر رساں ہونا ناممکنات میں سے نہیں۔لہٰذا یہ بات بھی نابالغی کے نکاح کے ناجائز ہونےکی دلیل نہیں بن سکتی۔

7۔ کم سنی کے نکاح کی مخالفت کی اصل وجہ:
ہم پہلے بتلا چکے ہیں کہ نکاح کے حکم اور ترغیب کا سب سے اہم مقصد فحاشی و بے حیائی سے پاک ایک پاکیزہ معاشرہ کا قیام ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے تمام بے شوہر عورتوں خواہ وہ کنواری ہوں یا مطلقہ ہوں یابیوہ ہوں، کے نکاح کا حکم دیا ہے۔اسی طرح ہر بے زن مرد کے لیے بھی نکاح کرنے او رمعاشرہ کوایسے نکاح کا اہتمام کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لحاظ سے اگرہم کمسنی کے نکاح پرغور کریں، تو یہ حصول مقصد کے سلسلہ میں ضرررساں ہونے کی بہ نسبت مفید ہی نظر آتا ہے۔ اسی لیے شرعی نقطہ نظر سے کمسنی کا نکاح جائز قرار پاتا ہے۔

ہمارےجو دوست نکاح کی عمر' بلوغت' پر زور دیتے ہیں او راس سے پہلے کمسنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کامقصد معاشرہ کا عفاف ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ وہ دراصل یورپی تہذیب سے متاثر ہوکر ایسا پرچار کرتے ہیں۔ انگلستان کے مشہور معیشت دان ''مالتمس'' نے ملک کی خوشحالی کے لیےآبادی کی روک تھام کو لازمی قرار دیا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ مردوں اور عورتوں کی شادیاں دیر سے کی جائیں، تاکہ بچے کم پیداہوں۔اسی نظریے سے متاثر ہوکر ہمارے پڑھے لکھے گھرانوں میں پچیس پچیس، تیس تیس سال تک شادی نہیں ہوتی، حالانکہ اس سے معاشرہ میں کافی خرابیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔بایں ہمہ یہ لوگ بلوغت کی عمر کے بعد بھی دس بارہ سال شادینہ ہونے پر اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ یہ تاخیر ان کے نظریہ ''چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ'' کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے اور اسی لیے یہ بچپن کی شادی کی مخالفت بھی کرتے ہیں، اور سہارا قرآن کا لیتے ہیں۔ورنہ اگر یہ لوگ قرآن مجید سے مخلص ہوتے تو پھر جو لوگ بلوغت کے بعد بھی تادیر شادی نہیں کرتے، ان کے خلاف بھی ضرور آواز اٹھاتے، کہ قرآن مجید صاف ستھرے اور پاکیزہ معاشرے کے قیام کا حکم تودیتا ہے''چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ'' کا پرچار نہیں کرتا۔

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب


حوالہ جات
1. محدث شمارہ اگست 1986ء، ص52۔ 53
2. سورہ نسا ء کی پہلی آیت میں ہے کہ اللہ نے سب انسانوں کوایک جان سے پیدا کیا (آدمؑ) پھراس سے اس کا جوڑا پیدا کیا (حواؑ) پھر اس جوڑے سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائے (وَبَثَّ مِنْهُمَا رِ‌جَالًا كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً) ''رجالا ''اور ''نسآء'' کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔اگر شاہ صاحب کے نزدیک ''نساء'' میں ''بچی '' کو شامل کرنا جائز نہیں توکیا نابالغ بچے بچیاں''رجالا'' اور ''نسآء'' میں شامل نہ ہوکر اولاد آدم و حوّا نہیں؟ واضح رہے یہ آیت نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے۔ ادارہ)
3. سنن ابن ماجہ مع مفتاح الحاجة ص136
4. یہ بات تو دراصل رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی۔معلوم نہیں کہ شاہ صاحب نے رسول اللہ ﷺ یاسنت رسولؐ کے حوالہ سے بات کرنے میں پرہیز میں کیا مصلحت سمجھی ہے۔