مُساواتِ مَرد و زن

5۔ عورت کی شہادت :
قرآن کریم میں سورة البقرة کی آیت 282 میں ایک مرد کےبجائے دو عورتوں کی شہادت کو قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی چونکہ عورتوں کے حقوق سے تعلق رکھتی ہے۔لہٰذا پرویز صاحب طاہرہ بیٹی کو دلاسہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی شہادت عورتوں کےناقابل اعتماد یا ناقص العقل ہونے کی دلیل نہیں۔ بلکہ (ڈاکٹر ہارڈنگ کی تحقیق کے مطابق) اگر ایک دائرے (یعنی جزئیات کی کماحقہ تبیین) میں عورتیں مردوں سے پیچھے ہیں۔ تو دوسرے دائرہ (یعنی انسانی تعلقات کے مسائل کے باب ) ہیں۔ مرد عورتوں سے پیچھے ہیں۔ ایک کے دائرے میں ایک کی کمی ہے تو دوسرے دائرے میں دوسرے کی (فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ) معاشرہ میں ایک د وسرے کی کمی باہمی تعاون سے پوری ہوسکتی ہےس۔'' 1

اس اقتباس میں جہاں تک ڈاکٹر ہارڈنگ کی تحقیق کا تعلق ہے، یہ نہ ہمارے لیے حجت ہے نہ ہی اس کا جواب دینا ہم ضروری سمجھتے ہیں، البتہ اس تحقیق پر پرویز صاحب نے جو خود ساختہ آیت ۔ ''فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ'' فٹ فرمائی ہے اور نتیجہ یہ پیش کیا ہے کہ ''بعض امور میں عورت افضل ہے اور بعض میں مرد'' تو اس کا جواب ہمیں قرآن کریم ہی سے مل جاتا ہے، اور وہ آیات درج ذیل ہیں:
''ٱلرِّ‌جَالُ قَوَّ‌ٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ...﴿٣٤﴾...سورۃ النساء'' 2
''مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔''

او ریہ تمام بحث اوپر گزر چکی ہے۔

وَلِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ...﴿٢٢٨﴾...سورۃ البقرۃ
''اور مردوں کو عورتوں پر درجہ حاصل ہے۔''

نِسَآؤُكُمْ حَرْ‌ثٌ لَّكُمْ...﴿٢٢٣﴾...سورۃ البقرۃ
''عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔''

........... وغیرہ ! تفصیل آخر میں دی گئی ہے۔

لہٰذا ''فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ'' کا مطلب یہی ہے کہ مردوں کو عورتوں پر بالادستی حاصل ہے۔ اب اس ''بعض علیٰ بعض'' سے یہ نتیجہ حاصل کرنا کہ ''کہیں مرد برتر ہیں تو کئی پہلو میں عورت'' ڈاکٹر ہارڈنگ کی تحقیق پر پرویزی نظر یہ تو کہلا سکتا ہے مگر قرآنی تصریحات اس کا ساتھ نہیں دیتیں۔

دوسرا نکتہ آپ نے یہ پیش فرمایا کہ:
''قرآن نے دو عورتوں کے سلسلہ میں یہ نہیں کہا کہ ان دونوں کی شہادت یکے بعد دیگرے لی جائے تاکہ وہ دو شہادتیں مل کر ایک مرد کی شہادت کے برابر ہوجائیں۔ کہا یہ ہے کہ اگر ایک کو گھبراہٹ کی وجہ سے کہیں الجھاؤ پیدا ہوجائے (''تضل'' کا مفہوم بیان ہورہا ہے۔ مؤلف) تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یعنی اگر شہادت دینے والی عورت کو گھبراہٹ لاحق نہ ہو تو دوسری عورت کی دخل اندازی کا موقعہ ہی نہ آئے گا او راس اکیلی کی شہادت کافی قرار پائے گی۔'' 3

اس اقتباس کی رو سے پرویز صاحب نے ایک مرد کے عوض دو عورتوں کے عدالت میں حاضر ہونے تک کی بات کو درست تسلیم کرلیا ہے۔ اب حقوق کی بحث تو یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ پھر یہ عورت کے حق کا دفاع کیا ہوا؟

رہی یہ بات کہ اگر ایک عورت گھبراتی نہیں تو دوسری کی شہادت کا موقعہ ہی نہ آئے گا او رپہلی کی شہادت مکمل سمجھی جائے گی۔ یہ بات بھی آپ کے اپنے بیان کے خلاف ہے او روہ بیان یہ ہے کہ عورت کسی معاملہ کی جزئیات کو سمجھنے او ربیان کرنے میں قاصر ہوتی ہے۔ لہٰذا دونوں کا بیان عدالت میں ضروری ہوا کہ اگر ایک عورت کچھ جزئیات بتلانا بھول جائے تو دوسری کے بیانات سے یہ کمی پوری ہوجائے۔ پھر جو نصاب شہادت قرآن نے مقرر کردیا ہے اس میں سے ایک عورت کو خارج کردینا کیا قرآن کی تحریف نہیں ہے؟ اب اس کی تحریف کی مزید وضاحت بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں:
''لڑکیوں کی پرورش زیورات میں کی جائے تو وہ غیر مبین رہیں گی او راگر زیور تعلیم سے آراستہ کردیا جائے تو وہ غیر مبین نہیں رہیں گی۔ اس صورت میں دوسری عورت کو ساتھ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ قرآن کے اس قسم کے احکام بعض شرائط کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں۔ جب وہ شرائط باقی نہ رہیں تو وہ احکام بھی نافذ العمل نہیں رہتے۔ جیسے جب پانی مل جائے تو تیمم کا حکم ساقط العمل ہوجاتا ہے۔'' 4

دیکھا آپ نے قیاس مع الفارق کی کیسی بدترین مثال پیش کی گئی ہے۔ تیمم کا حکم اس طرح ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو تیمم کیا جاسکتا ہے۔ اصل حکم پانی سے وضو کرنا ہے نہ کہ تیمم کرنا۔ تیمم رخصت ہے حکم نہیں۔ آپ نے اس حکم کو بدل کر یوں فرمایا کہ اگر پانی مل جائے تو تیمم ساقط العمل ہوجاتا ہے۔

دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ وضو کے مسئلہ میں یہ استثناء تو مجبوری کی شکل میں ہے۔ لہٰذا قرآن نے اس کا وضاحت سے ذکر کردیا۔ لیکن شہادت دینے کے معاملہ میں تعلیم یافتہ ن ہہونا کونسی مجبور ہے، جو اس کے لیے استثناء تلاش کیا جائے؟ پھر اگر یہ ایسی ہی مجبوری تھی تو قرآن نے جیسے وضو کے مسئلہ میں پانی نہ ملنے کی صورت میں خود ہی تیمم کی رخصت دی ہے۔ اسی طرح اگر عورت تعلیم کے ذریعہ ایک شہادت سے مستثنیٰ ہوسکتی تھی تو قرآن نے اس کا ذکر کیوں نہ کیا؟

یہ ہے قرآن کے اس ادنیٰ طالب علم کے اجتہاد کی مثال۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مرکز ملت، امت مسلمہ کے لیے شریعت سازی کے فرائض بجا لائے گا او ربزعم خود پرویز صاحب مرکز ملت کی گدی پر براجمان رہے ہیں۔جیسا کہ اس کی تفصیل ''محدث'' کے کئی مقامات پر زیربحث آچکی ہے۔

6۔ مذکر کے صیغے:
طاہرہ بیٹی نے اپنے باپ جناب پرویز صاحب سے سوال کیا کہ:
''قرآن میں جہاں کہیں مردوں اور عورتوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیاہے ( وہاں صیغہ جمع مذکر کا ہی استعمال ہوا ہے) تو اس سے خواہ مخواہ مردوں کی بالادستی کا تصور قائم ہوجاتا ہے؟''

اس کے جواب میں آپ اپنی بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ''گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ صرف قرآن ہی کا معاملہ نہیں بلکہ ہر معاشرہ اور ہر زبان میں یہی دستور چلا آتا ہے ۔ تم دیکھتی نہیں کہ جب کوئی مقرر کسی مجمع کو خطاب کرتا ہے تو پہلے ایک بار یہ کہہ لیتا ہے کہ ''خواتین و حضرات!'' پھرآگے سارے صیغے مذکر کے استعمال کرتا چلا جاتا ہے اس وقت تو تمہیں ایسا کبھی خیال نہیں آیا۔ لیکن قرآن میں ''یٰآیھا الذین اٰمنوا'' دیکھ کر تمہیں ایسا خیال کیوں آنے لگا؟'' 5

7۔ جنتی معاشرہ:
بیٹی کا سوال یہ ہے کہ:
''قرآن کی رو سے جنتی مردوں کو تو اچھی اچھی عورتیں ملیں گی ، لیکن جنتی عورتوں کو کیا مرد بھی ملیں گے؟'' 6

ظاہر ہے کہ یہ سوال بھی اس احساس کمتری کی پیداوار ہے ، جو مردوں کی بالادستی کو اجاگر کررہا ہے او ریہ بھی ظاہر ہے کہ بیٹی کے اس تصور کو سوال کی شکل دینے والے بھی والد صاحب خود ہی ہیں۔ جنہوں نے ''حورعین'' کا ترجمہ اچھی اچھی عورتیں'' کرلیا ہے۔

''حُور'' بمعنی ''ایسی عورتیں جن کی آنکھوں کی پتلی بہت سیاہ اور سفیدی بہت سفید ہو'' اور ''عین'' بمعنی ''ایسی عورتیں جن کی آنکھیں موٹی موٹی ہوں'' او ریہ دونوں باتیں خوبصورتی کی علامت ہیں، او ریہ جنت ہی میں ہوں گی ۔ اب پرویز صاحب نے ان الفاظ کا ترجمہ ''اچھی اچھی عورتیں'' کرکے بیٹی کو یوں مطمئن کیا کہ ''فرض کرو جنت میں حامد کو عائشہ ملتی ہے تو کیا عائشہ کو حامد بطور خاوند نہ ملے گا؟'' 7 گویا عورتوں کوبھی یقیناً ''اچھے اچھے مرد''مل جائیں گے۔

پھر جنت کا مفہوم یہ بیان فرماتے ہیں کہ:
''یہ جنت دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔جنت کی عورتوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ نگاہ نیچی رکھنے والی ہوں گی او ریہاں بھی مومن عورتوں کو یہی حکم ہے۔ جنت کی عورتیں بھی اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں گی۔ یہاں بھی مومن عورتوں کو یہی حکم ہے۔ مزید برآں اصل بات خیالات کی ہم آہنگی ہے اور اسی وجہ سے مشرکوں سےنکاح حرام ہے۔ یہ باتیں حاصل ہوجائیں تو یہی دنیا دراصل جنتی معاشرہ بن جاتا ہے۔جس میں اگر مردوں کو پاکیزہ عورتیں ملتی ہیں تو عورتوں کوبھی پاکیزہ مرد ہی ملتے ہیں۔ اب بتاؤ، طاہرہ! تمہارا وہ اعتراض کہاں باقی رہتا ہے؟''8

اب آپ ہی بتائیں کہ طاہرہ بیٹی کیا بتلائے؟

گویاپرویز صاحب، بعد از مرگ ملنے والی جنت کو اسی دنیا میں کھینچ لائے، اور یوں ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر مردوں کو ''اچھی اچھی عورتیں'' ملیں گی تو عورتوں کو بھی ''اچھے اچھے مرد'' ہی ملیں گے۔ لہٰذا تمہارے حقوق مردون کے برابر ہی ہیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔

8۔ تعّدد ِ ازواج:
تعّدد ازواج کے موضوع پر چونکہ ''طلوع اسلام'' کی طرف سے ''قرآنی فیصلے'' میں علیحدہ بھی مضمون شائع ہوا ہے او رمیں اس کا جواب بھی الگ لکھ چکا ہوں لہٰذا یہاں تکرار کی ضرورت نہیں سمجھتا۔

9۔ حق طلاق مرد کو ہے:
شریعت اسلامیہ میں طلاق ایک مکروہ چیز ہے، اسی لیے اللہ نے زوجین کے اختلاف کی صورت میں زوجین کےلیے ایک ایک ''حکم'' تجویز کرنےکا حکم دیا ہے کہ وہ امکانی حد تک ان کے اختلاف دور کردیں او ران میں صلح صفائی کرا دیں۔ تاہم اگر اختلافات دور نہ ہوسکیں تو آخری حق طلاق مرد کو دیا گیا ہے، لیکن پرویز صاحب فرماتے ہیں:
''لیکن اگر ثالثی بورڈ کی کوششیں ناکام رہیں او روہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان کی باہمی رفاقت ممکن نہیں، تو وہ اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کریں گے (اور اگر انہی کو آخری فیصلہ کا اختیار ہوگا تو خود ہی فیصلہ کردیں گے) اس طرح معاہدہ (نکاح) فسخ ہوگا۔'' 9

دیکھا آپ نے کہ اس مفکر قرآن نے بلا دلیل ، مرد سے حق طلاق چھین کر عدالت کو تفویض کردیا ہے، یا پھر دوسری صورت یہ بتلائی ہے کہ اس حق طلاق میں میاں بیوی دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔

اب دیکھئے ان دونوں باتوں کی تردید کے لیے قرآن کی درج ذیل آیت کافی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُۥ...﴿٢٣٠﴾...سورۃ البقرۃ
''پھر اگر وہ (شوہر) اس (عورت کو تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے، اس (پہلے شوہر پر) حلال نہ ہوگی۔''

دیکھئے اس آیت میں ''طلق'' واحد مذکر غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔لہٰذا طلاق دینے والی اتھارٹی نہ عدالت ہوسکتی ہے نہ معاشرہ او رنہ ہی بیوی کو اس معاملہ میں شریک بنایا جاسکتا ہے۔

یہ عدالت کا شوشہ اس لیےچھوڑا گیا ہے کہ اسلام نے عورت کو بھی خلع کا حق دیا ہے۔ لیکن یہ چونکہ عدالت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے ، لہٰذا مرد و عورت کے حقوق میں یکسانی پیدا کرنے کی خاطر عدالت کواس میں لاگھسیڑا ہے یا پھر مرد و عورت میں، برابر کا حصہ دار قرار دینے سے، اس یکسانی کی کوشش کی جارہی ہے۔

10۔ عدّت صرف عورت کے لیے :
اس مسئلہ میں پرویز صاحب نے چھاتی پر پتھر رکھ کر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ:
''بس یہ ایک حق فائق ہے جو مردوں کو دیا گیا ہے یعنی مرد کے لیے عدت نہیں او رعورت کے لیے عّدت ہے۔ عام اصول تو یہ ہے کہ ''وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ'' 10

جو حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے ہی حقوق عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ لیکن عدت کے ذمانے میں اس کا شوہر اس سے پھر شادی کرسکتا ہے ''وَلِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ'' 11

اب یہ جو مرد کی فضیلت عورت پرایک درجہ زیادہ ہے ۔ اس ایک درجہ کے پرویز صاحب نے پھر دو درجے بنا لیے۔ ایک یہ کہ عورت پر عدت ہے او رمرد پر نہیں اور دوسرے یہ کہ مرد عدت کے دوران اپنی مطلقہ بیوی سے نکاح کرسکتا ہے۔ او رقابل ذکر کام یہ کیا کہ ''لِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ'' کو صرف عدت کے زمانہ کے ساتھ محصور کردیا کہ اس عدت کے زمانہ میں تو مرد کو عورت پر درجہ ہے۔ آگے پیچھے نہیں۔ اب دیکھئے کہ آیت کا تسلسل اس طرح ہے:
﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ...﴿٢٢٨﴾...سورۃ البقرۃ
''اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ عورتوں پر مردوں کو فضیلت ہے۔''

اب یا تو یہ مان لیجئے کہ مرد و عورت کے حقوق کی برابری کا تعلق بھی محض زمانہ عدت سے ہے، زمانہ عدت میں تو ان کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔لیکن آگے پیچھے عام حالات میں برابر نہیں ہوتے۔یا پھر یہ تسلیم کرلیجئے کہ عورتوں پر مردوں کو جو درجہ ہے وہ بھی صرف عدت کے زمانہ کے ساتھ مختص نہیں۔ بلکہ عام حالات میں بھی یہ فضیلت قائم اور استوار ہے او راس بات کے باوجود بھی کہ عورتوں کے حقوق مردوں پر اور مردوں کے حقوق عورتوں پر ایک جیسے ہی ہیں، مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔

11۔ عورت کی فضیلت بواسطہ حق مہر:
پرویز صاحب اپنی بیٹی طاہرہ کو دلاستہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
''اسلام کے نزدیک زندگی کے تمام شعبوں میں مرد اور عورت دوش بدوش چلتے ہیں۔ لیکن نکاح کے معاملہ میں اس نے عورت کی حیثیت مرد سے اونچی رکھی ہے۔ اس نے مرد سے کہا ہے کہ اگر وہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو تنہا اپنے آپ کو عورت کے برابر نہ سمجھ لے اسے اپنے ساتھ کوئی تحفہ بھی دے تاکہ اس طرح اس کا وزن عورت کے برابرہوسکے۔ اس کے پاسنگ کو، جس سے مرد کے وزن کی کمی پوری ہوتی ہے، مہر کہتے ہیں، لہٰذا یہ مساوات یوں بنتی ہے: ''مرد + مہر = عورت''

قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ نکاح کے وقت عورت اپنے ساتھ کچھ لے کر آئے اس نے مرد سے کہا ہے کہ وہ اپنی قیمت کی کمی مہر سے پوری کرے، اگر اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آٹھ دس سال تک بیوی کے باپ کا آجر بن کر رہے۔'' 12

اب دیکھئے، مرد کے ذمہ صرف حق مہر ہی نہیں بلکہ عورت کا نان و نفقہ یعنی قیام و طعام کے پورے اخراجات بھی ہیں او ریہ مہر او رنان و نفقہ کے اخراجات مرد کی فضیلت کے حق میں جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَبِمَآ أَنفَقُوامِنْ أَمْوَ‌ٰلِهِمْ...﴿٣٤﴾...سورۃ النساء


دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ خرچ کرنے والا یا رزق بہم پہنچانے والا ، مرزوق سے ہمیشہ افضل ہوتاہے۔لہٰذا اگر نکاح کی مساوت بنانا ہی ہے تووہ یوں بنتی ہے:
''مرد= عورت + حق مہر+ نان و نفقہ یا قیام و طعام و پوشاک کے اخراجات''

اب اس مساوات میں دیکھ لیجئے کہ کمی کدھر ہے اور فضیلت کدھر؟

رہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ تو یہ شریعت کا قانون یا دستور نہیں، بلکہ اس سے اصل مقصد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت او ران کی طبیعت کی سختی کو بکریوں کے ریوڑ چرانے سے نرم کرنا تھا اوریہ سب باتیں بذریعہ وحی خفی، حسب منشائے الٰہی طے پائیں۔ عام دستور یہی ہے کہ حق مہر کچھ نہ کچھ ہونا ضرور چاہیے خواہ یہ ایک لوہے کا چھلّا ہی کیوں نہ ہو اور خواہ یہ نکاح کے وقت ادا کردیا جائے یا بعد میں۔ حق مہر کی مالیت کا شریعت نے کوئی تعین نہیں کیا او ریہ ہر ایک کی حیثیت کے مطابق ہی ہونا چاہیے ۔ حق مہر کے عوض آجر بن کر رہنے کی کوئی دوسری مثال آپ کو نہ مل سکے گی۔

12۔ بچپن کی شادی:
پرویز صاحب بچپن کی شادی کو از روئے قرآن ناجائز قرار دیتے ہوئے ، فرماتے ہیں:
''دین کا فیصلہ یہ ہے کہ نکاح کی عمر ہی بلوغت کی عمر ہے۔ 4؍6)یعنی بالغ ہونے سے پہلے لڑکی او رلڑکے کی شادی ہو ہی نہیں سکتی اور صرف بلوغت ہی شرط نہیں بلکہ نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں فریقین کی رضا و رغبت نہایت ضروری ہے او ریہ ظاہر ہے کہ جب یہ معاہدہ انتخاب اور رضا مندی سے ہوگا، تو فریقین ایک دوسرے کے مزاج ، افتاد، طبیعت، تعلیم و تربیت، ماحول، عادات و خصائل ہر بات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے ۔ اگر ہماری خود ساختہ شریعت ہمارے لیے سند نہ بنتی تو ارشد اور صغیرہ کی شادی اس بارہ برس کی عمر میں ہو ہی نہیں سکتی۔'' 13

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ خود ساختہ شریعت سے پرویز صاحب کی مراد، احادیث ہیں۔ لہٰذا ہم پرویز صاحب کی منشاء کے مطابق قرآن ہی سے بچپن کی شادی کا جواز پیش کریں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱلَّـٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْ‌تَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَـٰثَةُ أَشْهُرٍ‌ۢ وَٱلَّـٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُو۟لَـٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ...﴿٤﴾...سورۃ الطلاق
''اور تمہاری مطلقہ عورتیں، جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں، اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا۔ او رحمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل تک ہے۔''

اب دیکھئے آیت بالا میں بوڑھی، جوان او ربچی سب طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔ بوڑھی او ربچی کی عدت تین ماہ ہے او رجوان (یعنی بالغ جوقابل اولاد ہو) کی عدت، اگر اسے حمل ہے، تو وضع حمل تک ہے۔ او ریہ تو ظاہر ہے کہ عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی پیدا ہوسکتا ہے او رطلاق کا نکاح کے بعد۔ گویا نابالغ کا نکاح بھی از روئے قرآن جائز ہے۔

13۔ عورت اور ولایت :
اس آیت سے دوسرا نتیجہ حق ولایت کا بھی نکلتا ہے یعنی نابالغ لڑکے یا لڑکی کا والد اس بچے کی طرف سے انتخاب کا حق رکھتا ہے او راس کا نکاح کرسکتا ہے۔لہٰذا ''ارشد اور صغیرہ کی شادی'' قرآن کی رُو سے درست تھی اور ا س میں ''خود ساختہ شریعت'' کا بھی کچھ دخل نہ تھا۔اس کے علی الرغم پرویز صاحب کا فتویٰ یہ ہے کہ:
''چونکہ کم سنی میں نکاح نہیں ہوسکتا۔ ا س لیے نکاح کے لیے ولی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔'' 14

اور تیسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ کم از کم عورت کے لیے ولایت شرط ہے۔ کیونکہ آیت مذکورہ بالا میں بچیوں کے نکاح ، طلاق اور عدت کا ذکر ہے او رکنواری لڑکی کے لیے ، خواہ وہ بالغ ہوچکی ہو، ولایت کی شرط اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ نکاح کے سلسلہ میں اپنی رضا مندی برملا ظاہر کرنے سے اس کی فطری شرم و حیا مانع ہوتی ہے۔

ان تصریحات سے بھی مرد کا عورت پر فوقیت کا پہلو ہی سامنے آتا ہے۔

مرد کی فوقیت کے چند دوسرے پہلو:
اب ہم کچھ ایسے امور کا ذکر کریں گے، جن سے مرد کی فوقیت ثابت ہوتی ہے۔ او ر ان میں سے اکثر قرآن میں مذکور ہیں، مگر پرویز صاحب نے ان سے تعرض نہیں فرمایا، اور وہ یہ ہیں:
1۔ کوئی عورت نبی نہیں ہوئی:
قرآن میں ستائیس انبیاؑء و رسلؑ کے نام مذکور ہیں او ریہ سب مرد ہیں۔ قرآن میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بستی کی طرف ہر زمانہ میں نبی بھیجے۔ جن میں سے بیشتر کا نام قرآن میں مذکور نہین، لیکن قرآن میں کہیں خفیف سا اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ کسی عورت کو بھی نبی بنا کر بھیجا گیا ہو۔

2۔ کوئی عورت حاکم بھی نہیں بن سکتی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاأَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُواٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ...﴿٥٩﴾...سورۃ النساء
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور تم میں سے جو ارباب حکومت ہیں ان کی بھی۔''

ممکن ہے یہ کہہ دیا جائے کہ اولی الامر جمع مذکر کا صیغہ ہے ، جس میں عورتوں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ لیکن یہ امکان بدیں صورت باقی نہیں رہتا کہ دور نبوی بلکہ قرون اولیٰ میں بھی کسی عورت کے حاکم یا افسر ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

3۔ عورتیں مردوں کی کھیتیاں ہیں:
﴿نِسَآؤُكُمْ حَرْ‌ثٌ لَّكُمْ...﴿٢٢٣﴾...سورۃ البقرۃ
''عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔''

اس آیت کی جو توجیہ بھی کی جائے گی، اس سے مرد کی فوقیت ہی ثابت ہوگی۔

4۔ نکاح کے بعد عورت ہی مرد کے گھر آتی ہے:
اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ قیام کی ذمہ داری مرد کے سر ہے، تاہم اس سے بھی مرد کی فوقیت ظاہر ہوتی ہے۔

5۔ اولاد کا وارث مرد ہوتا ہے:
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِ‌زْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ...﴿٢٣٣﴾...سورۃ البقرۃ
''اور ان عورتوں کی خوراک اور پوشاک باپ کے ذمہ ہے۔''

اس آیت میں ''مولود له'' کا لفظ قابل غور ہے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ مولود (لڑکا ہو یا لڑکی) کا وارث باپ ''مولودلہ '' ہوتا ہے نہ کہ ماں۔

6۔ تکمیل شہادت:
کسی بھی قضیہ اور متنازعہ امر کی شہادت، خواہ وہ حدود سے تعلق رکھتا ہو یا تعزیرات سے یا نجی معاملات سے، مکمل نہیں ہوسکتی، جب تک اس میں مردوں کی شمولیت نہ ہو۔ حدود کے قضا یا عور ت کی شہادت مقبول نہیں۔ لین دین کے معاملات میں بصورت مجبوری عورت کی شہادت مقبول ہےوہ بھی اس صورت میں کہ ایک مرد کے عوض دو عورتیں ہوں۔طلاق کا معاملہ جو خاص عورتوں سے متعلق ہے، اس میں بھی دو مردوں کی شہادت مقبول ہے۔ غرض کوئی قضیہ ایسا نہیں جو مرد کی شہادت کے بغیر پایہ ثبوت کو پہنچ سکے جبکہ تمام قضا یا عورت کی شہادت کے بغیر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتے ہیں۔

7۔ اہل کتاب سے نکاح:
مرد تو کتابیہ عور ت سے بوقت ضرورت نکاح کرسکتا ہے، لیکن عورت کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ عندالضرورت کسی اہل کتاب سے نکاح کرے۔

یہاں ہم نے زندگی کے بیس گوشوں کا تذکرہ کیا ہے جبکہ استفسار سے ان میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان تمام گوشوں میں قرآن مجید سے مرد کی برتری ثابت ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی مفکر قرآن ہر ہر بات میں مرد اور عورت میں یکسانی کی کوشش کرنے لگ جائے تو اسے قرآنی آیات کی تاویل میں جتنی ذہنی کاوش کرنی پڑے گی او رجیسی کچھ وہ تاویلات ہوسکتی ہے، وہ ظاہر ہے۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام تر گوشوں میں عورت کا اپنا قصور نہیں۔ کیونکہ ایسے معاملات میں شریعت نے اسے اس کی جسمانی ساخت او رجبلی فطرت کے لحاظ سے مجبور و معذور سمجھا ہے ۔ پھر کچھ امور کا تعلق شرعی مصالح سے بھی ہے۔لہٰذا ان نکات کے باوجود بھی عورت کو کمتر درجہ کی مخلوق قرار نہیں دیا جاسکتا۔بہت سے معاملات میں عورت کو شریعت نے مرد کے برابر بی قرار دیا ہے۔لیکن یہ حقیقت پھر بھی باقی رہ جاتی ہے کہ ایک آدمی ایک کام نہیں کرسکتا او ردوسرا وہ کام کرسکتا ہے او رپھر اسے احسن طریقے سے سرانجام بھی دیتا ہے، تو دوسرے کو پہلے سےبہرحال افضل سمجھا جائے گا۔

عورت کی برتری:
پھر کچھ امور ایسے بھی ہیں جن میں عورت کا درجہ مرد سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس بات کے باوجود کہ باپ اپنی اولاد کا جائز وارث ہے، ا ولاد کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی ماں کی خدمت باپ سے زیادہ کرے۔ بلکہ یہ ماں کی خدمت کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس طرح عورت ہر مرد کے لیے قابل احترام ہستی ہے او راس کا فرض ہے کہ مشکل وقت میں عورتوں کی تکالیف کا لحاظ رکھے۔ لیکن یہ باتیں منکرین حدیث قسم کے لوگوں کے کام کی نہیں ہیں۔ ہم ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری سمجھتے ہین کہ اگر ہم عورت کو بعض امور میں مرد سے فروتر سمجھتے ہیں تو بعض دوسرے امور میں اسے مرد سےبالاتر بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ہماری پوری شریعت نے ہمیں یہی کچھ بتلایا ہے جس میں ہم کسی طرح کی تاویل کے قائل نہیں۔


حوالہ جات
1. ایضاً صفحہ 67
2. ایضاً:34
3. ایضاً صفحہ 28
4. ایضاً ص68
5. ایضاً از صفحہ 71 تا 73 ملخصاً
6. ایضاً ص73
7.ایضاً صفحہ 73

8. ایضاً ص77 ملخصاً
9. ایضاً صفحہ 97
10. 228؍2
11. ایضا ًصفحہ90
12. ایضاً صفحہ 144
13. ایضاً صفحہ 255
14. ایضاً صفحہ 282