’’نویں آئینی ترمیم‘‘ اور ’’نفاذ شریعت بل‘‘ کا باہمی ربط؟
اندیشے، مسائل اور ان کا حل
13 جولائی 1985ء کو سینیٹ میں ''نفاذ شریعت بل'' پیش ہوا۔ اس وقت سے یہ بل مختلف کمیٹیوں کے سپرد ہوتا ہوا، اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس پہنچا، جہاں سے اس کی رپورٹ آچکی ہے۔ اسی دوران یہ بل عوام،انجمنون اور دینی جماعتوں کے غور کے لیےبھی نشر کیا گیا۔چنانچہ تقریروں، کانفرنسوں اور کنونشنوں میں زیربحث آنے کے بعد اس پر اظہار خیال کے علاوہ ،اخبارات و جرائد میں بھی اس کے حق یا مخالفت میں تبصرے شائع ہوئے اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ 25۔اپریل 1986ء تک سینیٹ کو، جواس بل پر آراء بھیجنے کی آخری تاریخ تھی، 14 لاکھ کے قریب آراء موصول ہوچکی تھیں۔جن میں سے ننانوے فیصد آراء اس کے حق میں تھیں۔ ان تائیدی آراء میں سے ایک کثیرتعداد میں یہ وضاحت بھی کی گئی تھی کہ بل کو جملہ مسلمانوں کے نزدیک متفقہ بنانے کے لیے اس میں ترمیم ضروری ہے۔ یعنی ''بل کی دفعہ 2 شق (الف) کے بعد ''اور وہ کتاب و سنت ہی ہے'' کے الفاظ کے اضافہ سے چونکہ شریعت کی تعریف مکمل ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس دفعہ کی دیگر شقوں ب، ج، د کی کوئی ضرورت نہیں، انہیں بل سے حذف کردینا چاہیے! لیکن اسی شور و غوغا میں ایک بل، جو آئین میں نویں ترمیم ہے، بغیر کسی مناسب بحث کے سینیٹ میں پیش کرکے منظو ر کرالیاگیا۔ جس پر نہ صرف حکومتی حلقوں نے باہم مبارکبادیں بانٹیں، بلکہ وزیراعظم جناب محمد خاں جونیجو اور وزیر انصاف اقبال احمد خاں نے اسی کو شریعت بل قرار دیا۔ تب سے حکمران جماعت کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک ملک و ملت کو نفاذ شریعت کا ''کامیاب مژدہ'' سنا رہے ہیں۔مسلم لیگ کے باوا پیر پگاڑا نے تو نویں ترمیم کی منظوری سے پہلے ہی شریعت بل کی مخالفت کا اعلان فرما دیاتھا، اور تب سے وہ مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے نویں آئینی ترمیم کا ایک جائزہ لیں، تاکہ معلوم ہوسکے کہ نویں ترمیم نے ہمیں کیا دیا ہے؟ بعد ازاں ''نفاذ شریعت بل'' کے ،''نویں آئینی ترمیم '' سے تعلق، اور اس کی اہمیت یامشکلات پر تبصرہ کریں گے۔ ان شاء اللہ!
نویں ترمیم کی اہم ترین شق (2) ہے۔ جس کے بارے میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اس سے ملک کے پورے قانونی نظام پر کتاب و سنت کی بالادستی قائم ہوگئی ہے۔اس دفعہ کے انگریزی متن کااردو میں ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
''دستور کی دفعہ 2 میں ''اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے'' کے بعد نویں ترمیم سے ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے کہ:
''اور اسلام کے احکام، جیسا کہ وہ مقدس قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں، اعلیٰ ترین قانون اور راہنمائی کامنبع ہوں گے تاکہ (وہ احکام)پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وضع کردہ قوانین کے ذریعے نافذ العمل ہوں اور (ان کی روشنی میں) حکومت کی پالیسی طے ہو۔''
گویااس ترمیم میں اسلام اور مقدس قرآن و سنت کے الفاظ تو ضرور موجود ہیں، مگر اصل مقصود بھی واضح ہے کہ شریعت نہیں، بلکہ (زیادہ سے زیادہ) اسلام کے نام پر قرآن و سنت سے مستنبط احکام کی بات ہورہی ہے، پھربالادستی بھی ان مستنبط احکام کی نہیں، بلکہ اُن احکام کی ہوگی جنہیں مقننہ ''اسلامی'' کہے یا مقننہ کی قانون سازی انہیں ''اسلام'' بنا دے۔ نیز قرآن و سنت کے مستنبط احکام، مقننہ کی قانون سازی کے لیے محض ''راہنمائی کا منبع'' ہوں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ قرآن و سنت سے راہنمائی کے نام پر بالادستی، اسلامی احکام اور کتاب و سنت کی بجائے ، مقننہ کی قائم کی گئی ہے جبکہ دعویٰ یہ ہے کہ اس ترمیم سے ملک کے پورے قانونی نظام پرکتاب و سنت کی بالادستی قائم ہوگئی ہے اور اسی بناء پر ملک میں نفاذ شریعت کی نوید بھی سنائی جارہی ہے، حالانکہ نویں ترمیم کا حاصل اسلامی احکام کی صرف راہنما حیثیت ہے، جبکہ نفاذ شریعت سے اصل مطلوب کتاب و سنت کی قانونی حیثیت ہے۔جب تک کتاب و سنت کو سپریم قانون کی آئینی حیثیت دے کر ،سے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر بالا دستی نہ دی جائے، نویں ترمیم، شریعت بل نہیں بن سکتی۔
نویں آئینی ترمیم کی دوسری اہم ترین شق وہ ہے کہ جس کے ذریعے دستور کی دفعہ 203ب کا ایک حصہ حذف کیا گیاہے۔ یہ دفعہ دستور میں وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات سے متعلق ہے، جس کے تحت عدالت مذکور کو قوانین کے بارے میں قرآن و سنت کے تحت جائزہ لینے کا کام سونام گیا تھا، لیکن دستور، مسلم عائلی قوانین، عدالتی طریق کار کے قوانین اور مالی قوانین دس سال کے لیے اس عدالت کے دائرہ کار سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور باقی تین کو وفاقی شرعی کے دائرہ اختیار سماعت میں دے دیا گیا ہے۔ گویا بہ نظر ظاہر وفاقی شرعی عدالت کے اختیارسماعت میں وسعت پیدا کی گئی ہے، لیکن درحقیقت یہ محض ایک تکلف ہے۔کیونکہ اوّلاً نویں ترمیم کی شق 3 الف اور 3 ب کے ذریعہ مالیاتی قوانین کے سلسلہ میں عملاً عدالت کا یہ اختیار ختم کردیا گیاہے کہ ان کے بارے میں عدالت مذکور کو ماہرین کے تعاون سے خاص تجاویز اور متعین مدت کے اندر قانون سازی کی، صرف سفارش کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور طول طویل بحثوں اور لمبی سماعت کے باوجود اسے کسی حکم کا اختیار نہیں، جو لوگ ہماری عدالتوں کے تھکا دینے والے طریق کار سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ عدالت مذکور کی صرف سفارش حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی اتنے لمبے طریق کار سے گزرنے کی جرأت نہ کرسکے گا اور پھر اپیلوں کا چکر اوراسمبلی کےمراحل، ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے۔نویں ترمیم میں شق 3 الف اور ب کے ذریعے اس احتیاط اور تفصیل سےملک کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو تحفظات مہیا کیے گئے ہیں کہ بالفرض اگر کوئی جزوی قانون سازی ہو بھی جائے تو موثر بہ ماضی نہ ہو۔ اور اسی طرح مالی قوانین میں تبدیلی کا ، عمر نوح اور صبر ایوب والاطویل طریقہ، اگر کامیاب ہونےکا خطرہ ہو، تو بھی سب مراحل طے ہونے تک کوئی عدالت مداخلت نہ کرسکے۔یوں مالی قوانین کا عدالت مذکور کے دائرہ اختیار سماعت میں آنا بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے گا۔
اور ثانیاً اس لیےکہ کسی ملک کے اندر دستور ہی اصل قانون اور ذیلی قوانین کی بنیاد ہوتا ہے جب اس دستور کو ہی قرآن و سنت یا بالفاظ دیگر ، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات سے خارج کردیا گیا، تو اللہ کی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی کہاں قائم ہوئی' نتیجہ طاہر ہے کہ قرآن و سنت کا نام ضرور لیا گیا ہے، لیکن حاکمیت پھر بھی غیر اللہ کی قائم رہی۔
یہاں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ ہماری رائے میں اسلام کے ساتھ مطابقت کے لیے وفاقی شرعی عدالت کا قانون سازی میں دخل، قرآن و سنت کی بالا دستی نہیں بلکہ یہ صرف ججوں کے اجتہاد کی برتری ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ وحی سے مقرر ہوتی ہے ، جو صرف کتاب و سنت ہے۔ اجتہادات، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، شوریٰ کے ہوں یاعدلیہ کے، وحی الٰہی نہیں ہوتے بلکہ یہ نبی معصوم پر وحی کی بجائے، غیر معصوم امتی کی ذہنی تگ و تاز کا نتیجہ ہوتے ہیں جو صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ لہٰذا شریعت (کتاب و سنت) اور تشریح و تطبیق (فقہ و اجتہاد) کا فرق کرنا ضروری ہے۔اصطلاح میں اسے شریعت سے الگ فتویٰ یاقضاء کا نام دیا جاتا ہے۔ چونکہ شریعت (کتاب و سنت ) نبی معصوم کی معرفت مقرر ہوتی ہے، اس لیے وہ ایک ہوتی ہے اور متعین بھی۔ جبکہ فقہ و قضا ء غیر معصومین کے اجتہادات کی وجہ سے مختلف ہوسکتی ہیں اور ان کا تعّدد ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری اور جعفری ، متعدد فقہوں کے وجود سے کسی کو مجال انکار نہیں، جبکہ شریعت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) صرف ایک ہے۔ چنانچہ نفاذ شریعت بل میں، شریعت کی تعریف کرتے ہوئے فقہ کو اس میں گڈ مڈ کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے، اس کے ذریعے فرقہ وارانہ اختلافات کو پنپنے کاموقع دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل پاکستان علمائے اہلحدیث کنونشن نے، شریعت بل پر تبصرہ کے سلسلے میں، کتاب و سنت ہی کو شریعت کی مکمل تعریف قرار دے کر انفرادی اور اجتماعی اجتہادات کو شریعت سے الگ کرنےکی تجویز پیش کرتے ہوئے جملہ مسلمانوں کو دعوت اتحاد دی تھی اور اب اسلامی نظریاتی کونسل کے علاوہ جماعت اسلامی وغیرہ بھی اسی بات کی تائید کرہی ہیں۔
اسی سلسلہ کی ایک دیگر وضاحت یہ بھی ضروری ہےکہ جدید دانشوروں کو فقہ سے ویسے ہی چڑ ہے اور وہ شروع سے فرقہ وارانہ اختلافاف کا واویلا کرکے شریعت ہی سے گلو خلاصی چاہتے ہیں جبکہ ہمارا مقصود فقہ کی اہمیت کو کم کرنا نہیں، بلہی شریعت اور فقہ کو الگ الگ کرنا ہے اور یہ ہیں بھی الگ الگ۔اس کے باوجو دہم فقہ کی راہنمائی کی ضرورت کے قائل ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں بے دین طبقہ، چونکہ کتاب و سنت کو صرف راہنمائی والادرجہ یعنی فقہ کا مقام ہی دینا چاہتا ہے۔ یعنی اصل بالادستی تو مقننہ اور عدلیہ کے اجتہادات کی رہے اور کتاب و سنت سے صرف (اور وہ بھی تبرکاً) راہنمائی لی جائے۔ لہٰذا اس کی ہم شدید مخالفت کریں گے۔بالخصوص جبکہ آج کی مقننہ اور عدلیہ کے اجتہادات کو امت کے سابقہ مسلّمہ مجتہدین کے فقہ و فتاویٰ سے کوئی نسبت ہی نہیں، عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ دانشور حضرات، ائمہ مجتہدین کے اجتہادات کو فرقہ وارانہ اختلافات کا سبب قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف سیکولر نظام تعلیم کے پروردہ اراکین اسمبلی اور جج حضرات کے''اجتہادات'' کو شریعت کا اصل منشا ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں نے اجتہاد کا تصور ہی بدل دیا ہے، چنانچہ کتاب و سنت پر اضافہ یا اسلامی احکامات کو سرے سے ہی مسخ کردینا ان کے نزدیک اجتہاد کہلاتا ہے، جو درحقیقت الحاد اور پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ لیکن دعویٰ یہ کہ ان ''اجتہادات'' کے ذریعے وہ فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ دور حاضر کا یہ جدید اجتہاد، امت کے سابقہ چند فرقوں پر، سینکڑوں جدید فرقوں کا شاخسانہ بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اہل علم، دیندار طبقہ اور اسلام پسند عوام شرعیت بل کومنظور کرنےپر زور دے رہے ہیں۔ ان کامقصود یہ ہے کہ شریعت بل کے ذریعہ شریعت کو ، حکومت (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ)پر ، بالادستی حاصل ہوجائے۔ اور یہی تخلیق پاکستان کے نعرہ ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' کا مفہوم ہے۔لہٰذا نفاذ شریعت بل سے انحراف گویا تکمیل پاکستان کےمقاصد سے انحراف ہوگا۔
غالباً نویں آئینی ترمیم سے شریعت بل کا یہی وہ ربط ہے، جس کی بناء پر صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق نے شریعت بل کی منظوری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اسے نویں ترمیم سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیا تھا۔چنانچہ ہمارےرائے میں بھی، سابقہ گزارشات کی روشنی میں، نویں آئینی ترمیم کے ساتھ شریعت بل کو ہم آہنگ کئے بغیرچارہ نہیں کیونکہ شریعت بل میں حکومت پر شریعت کی بالادستی کا تصور اسی وقت کارگر ہوسکتا ہے ، جبکہ حکومت کے دستور و قانون میں کتاب و سنت کی پابندی لازمی قرار دی جائے۔ورنہ اگر شریعت بل سے صرف نظر کرتے ہوئے محض نویں ترمیم ہی کو شریعت بل قرار دیا جائےگا، تو خواہ اس ترمیم میں وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ کار دستور وغیرہ تک بھی وسیع کردیا جائے، ہمیں اس ترمیم سے ماسوائے ایک تکلف کے کچھ حاصل نہ ہوگا، کیونکہ شریعت پر مقننہ اور عدلیہ کے اجتہادات کی بالا دستی بہرحال قائم رہے گی۔ جبکہ شریعت بل کو اس سے مربوط کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہوگا کہ پہلے نویں ترمیم میں مقننہ اور عدلیہ کے اجتہادات پر کتاب و سنت کی بالادستی قائم ہو، تاکہ یہ بنیادی شریعت بل بن جائے، پھر اسی بنیاد پر شریعت بل کی منظوری کو اگلا قدم بنایا جاسکتا ہے اور اس طرح شریعت بل کی بناء پر مزید ترمیمات کےچکر سےبھی بچا جاسکتا ہے۔
نویں ترمیم کے ساتھ نفاذ شریعت بل کو ہم آہنگ کرنےکا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جس طرح نویں آئینی ترمیم جدید اجتہاد کی برتری والی خرابی اور سیکولر نظریات کے خدشات سے پاک ہوجائےگی، اسی طرح نفاذ شریعت بل بھی فرقہ وارانہ کمزوریوں کی درآمد سے پاک ہوجائے گا، یوں نویں ترمیم اور نفاذ شریعت بل دونوں کو جدید و قدیم تھیاکریسی1 کے طعن سے بھی نجات مل جائے گی۔
مندرجہ بالا صورت ملک میں نفاذ شریعت کے لیے مثبت سوچ کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ملک میں ایک منفی ذہن بھی پایا جاتا ہے۔چنانچہ گمراہ دانشوروں اور سامراج نواز لابی کے لیےنفاذ شریعت بل بڑی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ وہ ایک طرف تو اس بل کی، شریعت کی تعریف میں مذکور اجتہاد و اجماع والی، شقوں سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے باعث امت میں اختلافات شدید تر ہوجائیں گے، لیکن دوسری طرف انہیں شریعت کی تعریف سے اجتہاد و اجماع والی ان شقوں کو خارج کرنے سے خود پر یہ مصیبت نازل ہوتی نظر آتی ہے کہ اس کے باعث وہ شریعت میں من مانے اضافے یا تغیر و تبدل کا دروازہ اپنے لیے بند پاتے ہیں۔جس سے ان کا جدید لادینی نظام شدید بحران کا شکار ہوجائے گا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں نفاذ شریعت کے سلسلہ کی اصل رکاوٹ یہی ذہن ہے۔ اگر یہ لوگ شریعت (کتاب و سنت) جو وحی الٰہی ہے پرمطمئن ہوتے تو انہیں یہ بحران پریشان نہ کرتے۔ کیونکہ یہ سب ان کے شریعت سے وہمی خوف کے بحران ہیں۔ اللہ کی شریعت فساد و بحران کے خاتمہ کے لیے ہوتی ہے، اس سے بحران پیدا نہیں ہوا کرتے۔
اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسی بحران کے نام نہااد خدشات کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ بتائیں کہ وہ کس قدر کمزور ہیں:
1۔ کہا جاتا ہے کہ:
نویں آئینی ترمیم اور پھر نفاذ شریعت بل سے شریعت کی قانون سازی اس طرح ہوگی کہ وفاقی شرعی عدالت کو مقننہ پر بالادستی حاصل ہوجائےگی۔ حالانکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں رجم کی مثال دی جارہی ہے کہ پہلے وفاقی شرعی عدالت نے رجم کو قرآن کے خلاف قرار دیا اور پھر اسی عدالت نے اسے کتاب و سنت کے مطابق قرار دے دیا۔
جواباً : اوّل تویہ بات تسلیم شدہ نہ ہے کہ نویں آئینی ترمیم اور شریعت بل میں وفاقی شرعی عدالت کو مقننہ پر بالادستی حاصل ہے۔ ہم ابھی یہ تجزیہ کر آئے ہیں کہ اس ترمیم میں مقننہ کو نہ صرف وفاقی شرعی عدالت بلکہ کتاب و سنت پربھی بالادستی حاصل ہے۔ کیونکہ اس کی رو سے مقننہ ہی کتاب و سنت سے ماخوذ اسلامی احکام کو قانون سازی کرکے متعین کرے گی۔ گویا اسلامی احکام وہی ہون گے جنہیں مقننہ اسلامی کہے گی اور کتاب و سنت کی تعبیر بھی وہی ہوگی جسے مقننہ کتاب و سنت کی تعبیر قرار دے۔ پھر مذکورہ خدشہ کے بےبنیاد ہونے میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے؟ ہاں اس سے تو بجا طور پر حاملین شریعت کو یہ شکوہ لاحق ہے کہ کتاب و سنت پر مقننہ کی بالادستی سے احکام شریعت متاثر ہوں گے۔اسی لیے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ نویں آئینی ترمیم اور نفاذ شریعت بل کو باہم مربوط کیا جائے، تاکہ مقننہ اور عدلیہ پر کتاب و سنت کی بالادستی قائم ہو۔
ثانیاً، دستوری ترامیم اور دستور میں تضاد و اختلاف کا معاملہ مقننہ کے ہاتھ میںہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات سے تو دستور کو اس قدر تحفظ دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف دستور پر غور نہیں کرسکتی، بلکہ بے شمار ذیلی قوانین بھی صرف اس وجہ سے کتاب و سنت کے دائرہ نگرانی میں نہ آسکیں گے کہ اس سے دستوری بنیادوں پر زد پڑے گی۔
بلاشبہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اجتہاد کے زمرے میں آتے ہیں اور ہم یہ بتا چکے ہیں کہ نویں ترمیم کے ساتھ نفاذ شریعت بل کومربوط اور ہم آہنگ کرکے اگر کتاب و سنت کی دائمی اور مستقل حیثیت تسلیم کرلی جائے تو عدالت مذکور کے ان غلط مخلصانہ اجتہادی فیصلوں کا بھی اسی طرح کوئی زیادہ نقصان نہ ہوگا، جس طرح فتاویٰ کے اختلافات اور تغیر و تبدل سے اصل شریعت قائم رہتی ہے اور اس میں نہ صرف کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، بلکہ متعدد آراء شریعت کی وسعتوں کی نشاندہی کرتی اور مسائل کے حل کے لیے بہتر راہنمائی کا کام دیتی ہے۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ فتویٰ اور قضاء (عدالتی فیصلہ ) میں فرق ہے۔فتاویٰ میں اختلافات ہونے پر ان کی پابندی لازمی نہیں ہوتی جبکہ قضاء میں یہ پابندی لازمی ہوتی ہے، تاہم کسی عدالتی فیصلے کا تعلق کسی مخصوص معاملے سے ہونے کی بناء پر غلطی کے اثرات وسیع نہیں ہوتے۔لیکن چونکہ وفاقی شرعی عدالت کا ایک پہلو قضاء کے علاوہ قانون سازی کا بھی ہے ، جو اپنے وسیع اثرات رکھتا ہے ، اس لیے اگر کتاب و سنت کو مستقل قانونی بالادستی دے دی جائے تو وفاقی شرعی عدالت کے ایسے فیصلوں کو، جو قانون سازی یا قانون کی تشریح سے متعلق ہوں ہم دائمی قانون یا تعبیر شریعت قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت مسائل کے ایک ایسے وقتی حل کی ہوگی جو محدود ہونے کی بنا پرنقصان دہ نہیں ہوتا، تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کی قانونی تشریحات کی، وقتی حل ہونے کی بناء پر کوئی اہمیت ہی نہیں، بلکہ ہنگامی مسائل کے حل کے لیے ان کی ایک اہمیت بہرحال موجود ہے۔ اس لیے اس کے فاضل ارکان جج صاحبان اور ان کےمشیروں کی اہلیت معیاری ہونی چاہیے۔تاکہ وہ کتاب و سنت کی مجتہدانہ بصیرت سے فیصلے کرسکیں اور یہ نہ ہو کہ کتاب و سنت سے آزاد اجتہاد کے نام پر وہ شریعت کی تعبیر کرتے ہوئے اسلام کا حلیہ ہی بگاڑ دیں۔
وفاقی شرعی عدالت کو مقننہ پر بالادستی دینے کا سوال اس لیے بھی غلط ہے کہ آج کے جمہوری دور میں اہل افراد کا چناؤ صرف تقرری سے ہی ممکن ہے۔چنانچہ عدلیہ اور بیوروکریسی میں یہی طریق رائج ہے، جبکہ انتخاب صرف مقننہ تک محدود ہے جہاں پیشہ وارانہ مہارت کی بجائے حلقوں کے اعتماد کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس پیشہ وارانہ مہارت ہی کی بناء پر کتاب و سنت کی تعبیر یااجتہاد میں جج حضرات کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اور پھر یہ بات تو جملہ جدید نظاموں میں بھی موجود ہے کہ قانون کی تعبیر میں قانونی عدالتیں ہی بالادستی کی حامل ہوتی ہیں، امریکہ جیسے جمہوری ملک میں متعدد مرتبہ سپریم کورٹ نےکانگرس یا ریاستوں کی قانون ساز مجالس کے قوانین اس بناء پرکالعدم قرار دیئے ہین کہ وہ آئین کی روح اور منشاء کے خلاف تھے۔ عدالتیں جہاں مختلف مقدمات میں حقوق و فرائض اور ظلم وزیادتی کے فیصلے کرتی ہیں وہاں ان عدالتوں کو آئین کی تعبیر و توضیح اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے۔اسی کو عدلیہ کی قانونی بالادستی اور جمہوریت کااستحکام سمجھا جاتا ہے اور اسی بناء پر انتظامیہ بھی من مانے اقدامات کرتے وقت عدلیہ سے خوف کھاتی ہے۔ ان حالات میں مقننہ پر عدالت کی بالادستی کا یہ خدشہ کیا انتہائی لغو نہیں؟ تعجب ہے کہ مغربیت کے ان پجاریوں کو مغربیت بھی نہیں آتی۔
ہماری اس گفتگو سے اس اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ عدلیہ کے چند جج، مقننہ کی معتدبہ تعداد پر کیوں برتری رکھتے ہیں؟ وجہ ظاہر ہے کہ حق و باطل کا فیصلہ اہلیت سے ہوتا ہے، کثر ت سے نہیں اور یہ بات جمہوری نظام کا حصہ بھی ہے۔قطع نظر اس سے کہ اس کی توضیح کچھ یوں کی جاتی ہے کہ قانون سازی میں مقننہ کی بالادستی ہوتی ہے، تعبیر میں عدلیہ کی اور نفاذ میں انتظامیہ کی۔ یوں حکومت کے تینوں شعبوں کو متوازن بنایا جاتا ہے ۔
2۔ کہا جاتا ہے کہ:
نفاذ شریعت سے قانون کا ارتکاء رک جائے جبکہ سماجی حالات میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور معاشرہ ہر دم بدلتا رہتا ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ ع
ثبات فقط ایک تغیرکو ہے زمانے میں!
پھر قانون کا ارتقاء رک جانے سے یہ زمانے کےہر دم بدلتے تقاضوں کا ساتھ کیونکر دے سکے گا؟
دراصل یہ بھی ایک مغالطٰہ ہے ، جس کی بنیادی وجہ شریعت اور وضعی قانون کے فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ یہ درست ہےکہ قانون اور سماجی کا ایک گہرا تعلق ہے کہ سماج ہی قانون کو جنم دیتا ہے اور سماجی کے بدلنے سے قانون کا تغیر بھی لازمی ہے۔ لیکن شریعت کا تصور اس سے یکسر مختلف ہے۔ شریعت وہ طریقہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے حضرت محمدﷺ کو دیاہے۔ جو نہ صرف عالمگیر ہے، بلکہ رہتی دنیا تک حتمی اور آخری بھی ہے۔ فکر و عمل کے اعتبار سے یہ مکمل بھی ہے اور زمانے کے بدلتے تقاضوں کے باوجود غیر متبدل اور ناقابل اضافہ بھی! تاہم جملہ معاشرتی تبدیلیوں اور نت نئے پیش آنے والے مسائل کا حل بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔یہ نہیں کہ معاشرہ کے بدلنےکے ساتھ ساتھ خود بھی بدل جائے۔ پھر اس میں کسی دوسرے ازم اور نظام کی آمیزش بھی نہیں ہوسکتی کہ وہ خود ہی کامل و اکمل نظریہ اور نظام ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس نظام کا مقرر کرنے والا، شارع حقیقی خود اللہ رب العزت ہے۔جس نے نہ صرف انسان کو پیدا کیا، بلکہ وہ اس کے کل تغیرات سے واقف بھی ہے اور جملہ ارتقاء ات کا ضامن بھی۔
﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ ﴿١٤﴾...سورۃ الملک
﴿أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٥٤﴾...سورۃ الاعراف
''(زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات کو) کیا وہی نہ جانےگا جس نے(انسان کو اور جملہ مخلوقات کو بھی)پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ تو بڑا ہی باریک بین خبر رکھنے والا ہے۔'' ''مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا (چلے گا)اللہ رب العالمین کیا ہی برکت والا ہے۔''
سماجی تبدیلیوں کا شریعت میں ایک حل ، جس کا انتظام خود انسانون کے ذریعہ کیا گیاہے، اجتہاد کا حرکی تصور ہے۔ تاہم اجتہاد کے معنی شریعت محمدی میں اضافہ یا تبدیلی کےنہیں، کیونکہ اس کی زد ختم نبوت کے عقیدہ پر پڑتی ہے۔اجتہاد، کتاب و سنت میں موجود جملہ وسعتوں کی تلاش ہے، یا یوں کہئے کہ اس سے مراد پیش آمدہ مسائل کے سلسلے میں کتاب و سنت سے اللہ تعالیٰ کی منشاء معلوم کرنا اور مسائل پراحکام الٰہی کا اطلاق ہے۔ شریعت محمدی محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ یہ زندگی گزارنے کاایک مکمل اور کامیاب طریقہ بھی ہے۔ اس بامقصد طریقےکی، بظاہر واضح احکام نہ ہونےکی صورت میں، تلاش کے لیے ذہنی کوششیں متعدد پہلوؤں سے اسے دیکھتی ہیں تو عام آدمی کویہ اختلاف نظر آتا ہے ۔ حالانکہ یہ ایک ہی چیز کے متنوع پہلوبھی ہوسکتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان انسانی کوششوں کے ناکافی ہونے اور تلاش کی محدود یت کی بناء پر ماہرین کتاب و سنت کے غلط اجتہادات پر رخصت بھی دے دی ہے کہ ایسی مخلصانہ کوشش پر بھی ایک اجر ضرور ملتا ہے۔ ہاں اگریہ اجتہاد درست ہو تو اس کا دوہرا اجر ہے۔ یہ اس لیے کہ اجتہاد میں غلطی کا امکان بھی ہوتا ہے ، اسی بناء پر اس میں اختلاف بھی ممکن ہے( لیکن یہ شریعت کا اختلاف نہیں ہوگا) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اجتہاد کو پیش آمدہ مسائل کی ضرورت تک محدود رکھا ہے، اور شریعت (کتاب و سنت)کی طرح اسے دائمی حیثیت نہیں دی۔
الغرض شریعت محمدی میں وحی کا تحفظ اور اجتہاد کی وسعتیں بیک وقت شریعت کے دوام اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ربط کی ضامن بھی ہیں اور بظاہر یہ ثبات و تغیر کا تضاد بناوٹی قانون کے عشاق کی سمجھ میں نہیں آتا، لیکن یہی قدرت الٰہی، تمام بناوٹی اور وضعی قوانین کے بالمقابل شریعت کے اعجاز کی دلیل ہے، جو انسان کو شریعت کی اتباع کا پابند بنانے کے لیے کافی ہے۔
3۔ کہاجاتا ہے کہ:
قانون اکثریت کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔سعودی عرب اور ایران میں پبلک لاء (لاء آف دی لینڈ) اکثریتی فرقہ کے مسلک کے مطابق ہے۔ یہ تصور بھی غیراسلامی ہے۔کیونکہ اسلام میں قانون ، شریعت الٰہی (محمدی) ہی ہے، جو کتاب و سنت میں محفوظ ہے ۔ فقہ و فتویٰ کو بھی صرف راہنما کا درجہ حاصل ہے، قانون کا نہیں۔ چنانچہ سعودی عرب میں کسی بھی فقہ کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ وہاں اکثریت حنبلی فقہ کے ماہرین کی ہے، تاہم دارالافتاء اور عدلیہ صرف کتاب و سنت کے پابند ہیں۔ مسائل کے حل میں فقہ حنبل کے علاوہ دیگر ائمہ مجتہدین کےفتاویٰ سے بھی بھرپور استفادہ کیا جاتاہے، اسلامی یونیورسٹیوں میں بھی متعدد فقہوں کا تقابلی مطالعہ کرایا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک دستوری حیثیت کا تعلق ہے تو یہ وہاں صرف قرآن مجید کو حاصل ہے جس کی واحد متعین تعبیر سنت رسولؐ ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں بھی اپنا دستور قرآن مجید پیش کررکھا ہے اور ''رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ'' اپنے ایک اہم فیصلے میں اسلامی مملکتوں کے لیے کتاب اللہ ہی کو اسلامی دستور و قانون قرار دے چکا ہے۔لہٰذا سعودی عرب کے بارے میں اکثریتی فقہ کا خیال واقفی ہے۔ سعودی عرب میں اعلیٰ عدالتیں توکجا، جملہ محاکم صغریٰ و کبریٰ بھی کتاب و سنت ہی کی پابند ہیں اور کسی نئے یاپیچیدہ مسئلہ کے حل کیلئے دارالافتاء کی طرف رجوع کرتی ہیں۔یوں کتاب و سنت پر مبنی نظام عرصہ سے کامیاب چل رہا ہے۔
کتاب و سنت کی قانونی اہمیت کے سلسلہ میں سعودی عرب اس قدر حساس ہے کہ جب سے قواعد و ضوابط اور ادارہ جاتی قوانین کی صورت میں ذیلی قوانین بھی وہاں لاگو ہوئے ہیں، اسی وقت سے ان میں روز افزوں اضافہ کے سبب سعودی عرب کا اہل علم طبقہ تشویش کا شکار ہے کہ اس بنا پر کہیں ملک میں قانونی ثنویت نہ پیداہوجائے۔لہٰذا کوشش یہی کی جاتی ہے کہ ادارہ جاتی قوانین شدید ضرورت تک محدود رہیں۔لیکن یہ واضح رہےکہ وہاں ذیلی قوانین کی تشکیل بھی کسی خاص فقہ پر مبنی ہونے کی بجائے مغرب کے قانونی اثرات کی بدولت ہے۔
باقی رہا ایران کا مسئلہ، تو اس سلسلہ میں ابھی تک وہاں انقلابی جوش و جذبہ موجود ہے، جس کے تلے اقلیتی فرقے خوف سے دبے ہوئے ہیں۔ جس طرح ایرانی انقلاب کے بارے میں ابھی یہ حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا طریق کار اسلام یا کمیونزم میں سے کس کے قریب تر ہے، اسی طرح وہاں اکثریتی فقہ کی بالادستی بھی مثالی قرار نہیں دی جاسکتی کہ اس سے سند حاصل کی جائے۔ ورنہ اگر یہی سلسلہ چل نکلا، تو بھارت میں جیسے سکھ اور مسلمان اقلیتوں کوکچلا جارہا ہے، اسی طرح مسلمانوں کے اندر بھی اسی دور کے لوٹ آنے کا خطرہ ہے کہ سقوط بغداد سے قبل حنفی اور شافعی کی باہمی نفرت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ ایک دوسرے کے جائیدادوں اور مکانوں کو نذر آتش کیا جارہا تھا۔
الغرض سیکرلر اسم کے اکثریتی حق کے اصول سے درآمد اکثریتی فقہ کا یہ تصور مسلمانوں کے ہاں پیدا کرکے دراصل شریعت محمدی کے اندر کئی ادیان کی ایجاد ہورہی ہے۔ ؎
دین حق را چار مذہب ساختن
رخنہ در دین نبیؐ اندا ختن!2
قانون کا تعلق حقوق و فرائض کی تقسیم میںمنصفانہ فیصلے اور حق و باطل کے معیار قائم کرنے سے ہے اور جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، یہ بات جمہوری نظام میں بھی تسلیم شدہ ہے کہ حق و انصاف کے معاملے میں اکثریت کا کوئی دخل نہیں۔ ورنہ عدالتوں کے قیام سے قانونی بالادستی کے کوئی معنی ہی نہیں، چنانچہ ہر جگہ فیصلے اکثریت قوت کے صحیح ہوتے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انصاف دلیل کی بنیاد پرملتا ہے اور اس کے سامنے قوت کو بھی سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ اسلامی مملکت کا قانون شریعت ہوتا ہے اور فقہ کا درجہ اس کی تعبیر کا ، نیز تعبیر میں اصل مسئلہ خطاء و صواب یاراجح مرجوح کا ہوتا ہے، اس لیے اصل اہمیت دلیل کی ہوگی نہ کہ اکثریت کی، پس کسی بھی ملک میں اکثریت فقہ کو قانونی درجہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔مسلمانوں کی صدیوں کی تاریخ اس پر شاہد ہے ، دور حاضر میں سعودی عرب میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے اور برصغیر (پاک و ہند) میں بھی برطانوی دور کے سارے عرصہ میں عائلی معاملات کے فیصلے اسی طریق کارکے مطابق ہوتے رہے، حالانکہ پرسنل لاء کے معاملہ میں انسانی طبائع بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔
حاصل یہ کہ قانونی حق و صداقت کے لیے دلیل ہی بنیاد ہوتی ہے اور جو شریعت میں وحی الٰہی یعنی صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ نفاذ شریعت کی کوششوں کی اصل منزل خلافت اسلامیہ کا قیام ہے۔ لیکن اگر اکثریتی فقہ کا فلسفہ تسلیم کرلیا جائے تو عالم اسلام کی ایک خلافت میں متعدد دساتیر بھی ماننے پڑیں گے، جن کا تصور ہی باطل ہے۔
4۔ کہا جاتا ہے کہ:
نفاذ شریعت بل سے ملک کا نظام تہ و بالا ہوجائے کیونکہ مدوّن قانون نہ ہونے کی صورت میں شدید بحران کا اندیشہ ہے۔
یہ اعتراض بھی وزن نہیں ہے۔ کیونکہ تاریخ میں مدوّن عائلی قوانین کا باب بڑا مختصر ہے۔ آج تک خاندانی معاملات مسلمانوں کے ہاں کتاب و سنت کےساتھ فقہ و فتاویٰ کی روشنی میں چلتے رہے ہیں اور غیر مسلموں میں بھی غیر مدوّن رسوم و رواج اس کی بنیاد بنتے رہے۔حتیٰ کہ برطانیہ کا تو سارا دستوری قانون ہی غیرمدوّن ہے۔ اس کے باوجود کہیں کوئی بحران نہیں ہے۔ پھرمسلمانوں کےپاس تو کتاب و سنت کی مخصوص انداز کی تدوین بھی موجود ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے شدید بحران کا خطرہ بالکل موہوم ہے۔(3) اگر گزشتہ چودہ صدیوں تک مسلمانوں کانظام کتاب و سنت اور ان کے فقہی ذخیرہ سے کامیاب چلتا رہا ہے تو اب ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ علاوہ ازیں شریعت بل کا مقصد مروجہ قانون کا یکسر انکار نہیں، بلکہ اس کا مقصود موجودہ قانونی نظام میں شریعت کی اعلیٰ حیثیت قائم کرنا ہے۔ شریعت کی اس بالادستی سے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کو آہستہ آہستہ پابند شریعت تو ہونا پڑے گا جو مطلوب بھی ہے، لیکن موجودہ قانون ڈھانچہ ذیلی قانون کی حیثیت سے موجود رہے گا۔
ہمیں تعجب ہے کہ جو حضرات بحران کا واویلا کرتے ہیں وہ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ دستور میں پہلے ایسی دفعات موجود ہیں ، جن سے قانونی ڈھانچہ اور معاشرہ اسلامی بن سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے بقول وفاقی شرعی عدالت جملہ انگریزی قوانین کو، ماسوائے چند ایک کے، اسلام کے مطابق قرار دے چکی ہے۔پھر اسی سانس میں وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ رائج الوقت قوانین میں بھاری تعداد، بلکہ اکثریت، ایسے قوانین کی ہے جو محض انتظامی نوعیت کے ہیں اور ان سے کوئی حلال و حرام یا جائز و ناجائز کا مسئلہ متعلق نہیں ہے۔ گویا جب ملک کا قانونی ڈھانچہ پہلے ہی سے اسلام کے بنیادی تصورات کے مطابق ہے، اور اس سے کوئی بھی بحران پیدا نہیں ہوا، تواب اسلام کے ساتھ شریعت (کتاب و سنت) کی (محض) بالادستی سے کون سا بحران جنم لے گا؟ مزید حیرت انگیز امر یہ کہ اسلام، شریعت یا کتاب و سنت میںوہ کون سا فرق ہے کہ آج تک اسلام کے نعروں کے باوجود ملک اور نظام رواں دواں ہیں، لیکن کتاب و سنت کی صرف بالادستی ہی شدید بحرانوں کا سبب بن جائے گی؟ اس سے تو دلوں کے ٹیڑھ کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسلام کا نام محض عوام کو دھوکا دینے کے لیے لیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت شریعت کا عملداری کا خوف بری طرح رسوا ہے۔
الغرض، شریعت بل نویں آئینی ترمیم سے ہم آہنگ ہوکر زیادہ سے زیادہ دستور کا ایک حصہ ہی بنے گا، دستور و قانون کو معطل نہ کردے گا۔ لہٰذا شریعت بل سے ڈرنا ایمانی کمزوری ہے جبکہ نفاذ شریعت کے سلسلہ میں نصرت خداوندی بھی ہمارے شامل حال ہوگی او رہم کامیاب و سرخرو ہوں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
حوالہ جات
1. مغرب زدہ دانشور شریعت کی عملداری کو سبوتاژ کرنے کے لیے ''تھیاکریسی'' کا طعن بہت استعمال کرتے ہیں۔حالانکہ عیسائیت میں یہ تصور ایک مخصوص درجے کی ماہرانہ بصیرت کی بجائے، ایک طبقے کی پیشہ وری سے اندھی عقیدت کی بناء پر داخل ہوا، جبکہ اسلام میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کی دائمی محفوظ روشنی کے باوصف یہ ممکن ہوا اور اگر کوئی ایسا خطرہ ہے تو صرف اس وقت جب کسی مخصوص تعبیر دین کو شریعت (کتاب و سنت)کا درجہ دےکر اس کی تقلید کی جائے اور یہ خطرہ جیسا کہ قدیم فقہی مذاہب کی متعصبانہ تقلید سے پیدا ہوتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر یہ خطرہ اجتہاد جدید کے نام پر، دور حاضر کی مقننہ یاعدلیہ کے فیصلوں کو شریعت کا درجہ دے کر قانون سازی کرنے میں ہے، چنانچہ نویں ترمیم سے جہاں موجودہ حالت میں یہی جدید تھیاکریسی اختیار کی گئی ہے، وہاں نفاذ شریعت بل میں شریعت کی تعریف میں فقہ کو داخل کرکے قدیم تھیاکریسی کا خطرہ پیدا کیا گیا ہے۔لہٰذا ضرورت ہےکہ دونون کو باہمی ارتباط کے ذریعے معتدل اور متوازن بناکر، تھیاکریسی کے اس خطرہ سے نجات دلائی جائے ۔
2. ''دین حقہ، اسلام ، کو چار فقہی مذاہب بنانا نبیﷺ کے دین و شریعت میں رخنہ اندازی ہے۔''
3. سرکاری سطح پر نفاذ شریعت سے بحران کے جس اندیشے کاذکر ہورہا ہے، وہ اس لیے بھی بے بنیاد ہے کہ غیرسرکاری سطح پر دیندار لوگ ، زندگی کے جملہ کاروبار میں شریعت یا اپنی اپنی فقہ پر عمل پیرا بھی ہیں اور اپنی مشکلات میں وہ اہل علم سے رجوع کرکے جدید پیش آمدہ الجھنوں کاشرعی حل بھی معلوم کرتے ہیں اور یہ سارا کام بغیر کسی پریشانی اور الجھاؤ کے چل رہا ہے جس میں عقائد ، عبادات اور رسوم و رواج کے علاوہ اجتماعی امور زراعت و تجارت اور انتظام و معیشت بھی شامل ہیں تو پھر سرکاری سطح پر ایسے اہتمام سے کون سا طوفان اٹھ کھڑا ہوگا؟