بشر پھنس جائے گا محشر میں خود اپنی شہادت سے

مثال مردہ پہلو میں پڑا ہے ایک مدت سے
دل خوابیدہ، اٹھ بیدار ہوجا خواب غفلت سے

مال زندگی دیکھا ہے جس کی چشم عبرت نے
وہ کب مانوس ہوتاہے جہاں کے عیش و عشرت سے

رہاہوگا وکالت سے نہ چھوٹے گا ضمانت پر
بشر پھنس جائے گا محشر میں خود اپنی شہادت سے

ہزاروں کشتہ غم ہیں مال عیش و عشرت پر
تجھے فرصت نہیں لیکن خیال عیش و عشرت سے

کبھی کوشش بھی کی ہے موت کے معنی سمجھنے کی
کبھی سوچا بھی ہے مقصد ہےکیا تیری ولادت سے؟

اگر ایماں ہے تیرا گرمئ روز قیامت پر
پگھلتا کیوں نہیں پھر دل تر ذکر قیامت سے؟

جما جن کے نہ دل پر نقش دنیا کی محبت کی
وہ اب دنیا سے رخصت ہورہے ہیں کس مسرت سے

ہوئی اصلاح گر تجھ سے نہ اپنے دل کی اے عاجز
تو ناممکن ہے بچنا سختئ روز قیامت سے