مُنکرینِ حدیث کی عربی زبان سےناواقفی

ہفت روزہ ''اہلحدیث'' میں چھپنے والے درود ''صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' پر رسالہ ''طلوع اسلام''کو بڑی دیرسے اس لیےاعتراض ہے کہ اس دورد میں ایک نحوی قاعدے کی مخالفت کی جارہی ہے۔کیونکہ اس میں حرف جر ''علیٰ'' کو دہرائے(1) بغیر اسم ظاہرکاضمیر مجرور پر عطف ڈالنافحش غلطی ہے۔ ''اہلحدیث'' نے لکھا بھی کہ دراصل بات آپ نہیں سمجھے، اس لیے جس درود کو آپ نےغلط بتایاہےوہ درست ہے۔لیکن طلوع اسلام نے بعنوان ''اہل حدیث علماء کا مبلغ علم'' یہ اصرار کیا کہ ہم نے آپ کی غلطی کی اصلاح کردی ہے، اس لیےہماراشکریہ ادا کیجئے۔ ساتھ ہی اس سلسلہ میں امام سیبویہ کی ایک عبارت کا حوالہ بھی دیا اور ''اہلحدیث'' کو لتاڑا کہ اس نے امام مذکور کا صرف ایک شعر نقل کردیا، لیکن اصل بحث پر پردہ ڈال کر دیانتداری کا خون کیاہے۔

ہم نے اب تک اس نحوی قاعدے پر خامہ فرسائی کی ضرورت اس لیےمحسوس نہ کی کہ یہ قاعدہ علمائے کرام کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے۔چنانچہ تمام کوفی نحاة کے علاوہ کئی بصری نحوی ایسے بھی ہیں جو کہ ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کے عطف کو ، حرف جر دہرائے بغیر جائز قرار دیتے ہیں ۔ او راسی قول کو قرآن کریم کی متعدد آیات کی تائید بھی حاصل ہے، اگرچہ اکثر بصری نحویوں کے ہاں یہ عطف، شعری ضرورت کے بغیرجائز نہیں ہے۔

مگر چونکہ ''طلوع اسلام'' نے عطف کے اس مسئلہ کو بہت اچھال رکھا ہے اور مذکورہ درود میں ''آلہ'' کے لفظ کے اضافہ کی بناء پراس نے ''اہلحدیث'' کو اہل سنت کے درود کی بجائے اہل تشیع کا درود استعمال کرنے کاطعنہ دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تمام''اہلحدیث علماء کے مبلغ علم'' کو چیلنج بھی کیا ہے۔ اس لیے ہم نےضروری سمجھا کہ اس نحوی قاعدہ میں نہ صرف اختلاف کو حل کیا جائے اور اس بارے میں دلائل کے اعتبار سے صحیح مذہب کو منظر عام پر لایاجائے بلکہ اس سلسلہ میں ''طلوع اسلام'' کی جہالت کے چند نمونے بھی قارئین کی خدمت میں پیش کردیں تاکہ خود ''طلوع اسلام'' بھی اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ سکے۔

مارچ 1986ء کے ''طلوع اسلام'' کے علاوہ جولائی 1985ء کے شمارہ 7 جلد 38 میں بھی اس نے یہ بحث چھیڑی ہے۔ چنانچہ ''احکام القرآن'' کے مصنف چوہدری نذر محمد پر تنقید کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے :
''مصنف عربی زبان ، جو کہ قرآن مجید کی زبان ہے، سے قطعاً نابلد معلوم ہوا۔ اس لیے نبی صلعم پر درود کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عربی گرائمر کےمطابق غلط ہیں ، وہ درود ان الفاظ میں لکھتے ہیں : صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

عربی زبان کا مشہور قاعدہ ہے کہ حرف جار کا عطف صرف اسم ظاہر پر ہوتا ہے۔ یعنی ''علیہ'' کی ضمیر ''ہ'' کی بجائے اگر ''محمد'' کالفظ ہوتا تو پھر تو یہ درود، عربی زبان کےمطابق ٹھیک قرار پاتا، لیکن یہاں اسم ظاہر ''محمد'' کی بجائے ضمیر ''ہ'' ہے اس لیے قاعدے کے مطابق جاردوبارہ لانا پڑتا ہے جیسے : صلی اللہ علیہ وعلیٰ الہ وسلم'' 2

قارئین کرام اگر خط کشیدہ الفاظ پرمعمولی سا غور فرمائیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ادارہ طلوع اسلام اس نحوی قاعدہ کو سمجھنے سے ہی قاصر رہا ہے۔ چاہیے تھا کہ اس قاعدے کی تعبیر یوں ہوتی: ''ضمیرمجرور پراسم ظاہر کا عطف صرف حرف جار کے اعادہ کے ساتھ ہوتا ہے۔''

کیونکہ اس عطف میں حرف جر کا اعادہ ہی تو زیر بحث ہے۔ ورنہ جن الفاظ سے اس قاعدے کی ترجمانی کی گئی ہے، اس سے تو خود انہی نے اس چیز کی نفی کردی جسے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے کہ کلمہ حصر ''صرف'' کے ساتھ اس قاعدہ کو ذکر کرتے ہوئے یہ سنا کہ ''حرف جار کا عطف صرف اسم ظاہر پر ہوتا ہے'' اس حصر سے تو یہ مترشح ہورہا ہے کہ حرف جار کے ساتھ عطف ضمیر مجرور پر نہیں ہوسکتا، صرف اسم ظاہر پر ہی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ مذکورہ درود کےالفاظ میں جب آپ معطوف پرحرف جار ''علیٰ'' لاکر کہیں گے ''صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم'' تو یہ صحیح ہوگا باوجودیکہ اس میں عطف اسم ظاہر پر نہیں ہے بلکہ ضمیر مجرور پر ہے، لیکن کلمہ حصر ''صرف'' کے تحت جو آپ کو گوارا نہیں ہے۔ پھر ''صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم'' آپ کے نزدیک صحیح کیونکر ہوگیا؟ چنانچہ آپ کی تعبیر کے مطابق ''صلی اللہ علیٰ محمد وعلیٰ اٰله وسلم'' تو صحیح ہوگا، لیکن''صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم'' صحیح نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ اس میں حرف جار کے ساتھ عطف اسم ظاہر پر نہیں ہے۔ اگر بات اب بھی سمجھ میں نہ آئی ہوتوہم دوبارہ عرض کئے دیتے ہیں کہ ایک طرف تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ ''حرف جار کا عطف صرف اسم ظاہر پر ہوتا ہے '' اور دوسری طرف آپ ''صلی اللہ علیہ وعلیٰ اٰلہ وسلم'' کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔ حالانکہ اس میں عطف اسم ظاہر پر نہیں ہے بلکہ ضمیر مجرور پر ہے۔تو پھر ''صلی اللہ عليه وعلیٰ اٰله وسلم'' صحیح کیسے ہوگیا؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر آپ کا وہ کلمہ حصر ''صرف'' کہاں گیا؟.....آہ!

لیس کلما یتمنی المرء یدرکه
تجري الریاح بما لا تشتھي السفن


کیااسی برتے پر آپ''اہلحدیث'' سے داد وصول کرنے نکلے ہیں او راسی زعم میں آپ ان کے ''مبلغ علم'' کو چیلنج فرمایا کرتے ہیں ۔ سبحان اللہ، آپ کی اس قواعد دانی سے تو امام سیبویہ کی روح بھی تڑپ کر رہ گئی ہوگی کہ وہ شخص ، جس کے سہارے پر یہ سارا غل غپاڑہ مچایاجارہاہے، وہ ایسی جاہلانہ تعبیر سے ہی اظہار برأت کردے گا۔ پھر اس قاعدے کو آپ مشہور بھی کہتے ہیں کہ ''عربی زبان کامشہور قاعدہ ہے'' جی ہاں قاعدہ تو مشہور ہے لیکن آپ لوگوں کےساتھ مصیبت یہ سوار ہے کہ مشہورات تک عدم رسائی ہی میں تو آپ لوگ مشہور ہیں ۔

چونکہ اب یہ حضرات کئی مراحل سے گزر چکے ہیں اورکئی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہ مشہور قاعدہ اب ان کی سمجھ میں آگیا ہے، جیسا کہ اس شمارہ کے بعد والی اشاعت سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے اب ہم اس قاعدہ کے بارے میں صحیح مذہب کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

''ضمیر مجرور پراسم ظاہر کا عطف ، حرف جر دہرائے بغیر جائز ہے یا نہیں ؟''

چونکہ یہ قاعدہ علم نحو (عربی گرامر) سے متعلق ہے،اس لیے ہم بعض ان نحاة کے اقوال ذکر کرتے ہیں جن کے ہاں عطف مذکور مطلقاً جائز ہے۔

چنانچہ علم نحو کےمشہور و معروف عالم ابن ہشام مصری ضمیر مجرور پرعطف کے وقت حرف جر کے اعادے کے عدم وجوب کا فیصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
''ولا یجب ذٰلك خلافا لأکثر البصریین'' 3

یعنی عطف مذکور میں حرف جر کا دوبارہ لانا ، جس کے بصری قائل ہیں ، کوئی ضروری نہیں ۔

اور شرح جامی میں ہے:
''وھٰذا الذي ذکرناہ۔ أعني لزوم إعادة الجار في حال السعة والاختیار۔۔ مذھب البصریین، ویجوز ترکھا اضطرارا و أجاز الکوفیون ترك الإعادة في حال السعة'' 4

یعنی حرف جر کا دوبارہ لانا بصریوں کے نزدیک ضروری ہے۔ اگرچہ وہ بھی ضرورت کے وقت اسے لازم نہیں سمجھتے او راس کے ترک کی اجازت دیتے ہیں ۔ان کے برعکس سب کوفی نحاة کے ہاں ، ضمیر مجرور پر عطف کے وقت حرف جر کا دوبارہ لانا کسی صورت میں بھی ضروری نہیں ہے۔

کوفی نحاة نے اپنے مؤقف پر اشعار کے علاوہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے بھی استدلال کیا ہے۔ بلکہ بعض بصری علماء نے بصریوں کے نظریہ کو خیر باد کہہ کر کوفی نحاة کا ساتھ دیا ہے۔ جیسا کہ عنقریب ذکر ہوگا۔

اس سے پہلے ابن مالک، جن کی عربی قواعد میں مایہ ناز کتاب الفیہ (جو عربی نظم میں ہے) سے سنئے: ؎

وعود خافض لدٰی عطف علیٰ
ضمیر خفض لازما قد جعلا
ولیس عندي لازما إذ قد أتیٰ
في النثر و النظم الصحیح مثبتا5


یعنی ضمیر مجرور پر عطف کے وقت حرف جر کا اعادہ خواہ مخواہ بصری نحاة کی طرف سے ضروری بنا دیا گیا ہے، مگر میں (ابن مالک)اس کو تسلیم کرنےکے لیے تیار نہیں ، کیونکہ یہ عطف حرف جر دہرائے بغیر صحیح و ثابت عربی کلام میں مستعمل ہے۔

متن متین صفحہ 185 پر ہے:
''ھل یجوز علی المخفوض سعة، الکوفیة نعم، و تبعھم ابن مالك، والبصریة لا، إلا بإعادة الخافض''

جبکہ المساعد میں ہے
''والصحیح الجواز مطلقا'' 6

یعنی صحیح بات یہ ہے کہ یہ عطف بہرصورت جائز ہے۔ خواہ حرف جر دوبارہ لایا جائے یا نہ لایا جائے۔

ہم نے حرف جر کے اعادہ سے متعلق نحاة کے دونوں فریق کے اقوال نقل کیے ہیں ، اس کے برعکس ''طلوع اسلام'' کا صرف ایک قول کو ظاہر کرنا، او راکثریت کی رائے کو گول کرجانا، اگر یہی دیانتداری ہے، جس کا ڈھنڈورا وہ پیٹ رہا ہے، تو نہ جانے بددیانتی کسے کہتے ہیں ؟ طوالت کے خوف سے ہم نے ان تمام نحاة کے سبھی اقوال نقل نہیں کئے، جن کے ہاں عطف مذکور میں حرف جر کادہرانا ضروری نہیں ، مذکورہ چند علماء کے اقوال نقل کرنے سے ادارہ طلوع اسلام کی خیانت سے پردہ کشائی مقصود ہے ، جس کا وہ ان لفظوں میں غلط پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ:
''اس کے علاوہ انہوں (اہلحدیث)نے دو آیات کا حوالہ دیا ہے ۔ جس کا کمزور سہارا شیعہ حضرات لیتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں اسم ظاہر کی بجائے ''من'' اسم موصول ہے اور امت مسلمہ کے جمہور اور قراء نے اسے بھی غلط قرار دیا ہے۔'' 7

ان کا ''جمہور علماء'' کا دعویٰ تو ٹھکانے لگا، اب چونکہ انہوں نے قراء کرام کے اعتماد کا بھی سہارا لیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہےکہ ان لوگوں کے ہاں قراء کی قراء ات کو بھی پذیرائی حاصل ہے، لہٰذا اس دعویٰ کی حقیقت کا پول بھی ہم کھولے دیتے ہیں :
بعض قراء کرام کی متواتر قراء ات سے بھی اسبات کی تائید ہوتی ہے کہ ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف، حرف جر دہرائے بغیر جائز ہے، چنانچہ سورة النساء کی آیت کریمہ ﴿وَٱتَّقُواٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْ‌حَامَ...﴿١﴾...سورۃ النساء'' میں ''الأرحام'' کو جس طرح بعض قراء نے نصب کےساتھ پڑھاہے، اسی طرح ان قراء میں سے حمزہ قاری نے اسے جر کے ساتھ رسول کریم ﷺ سے تواتر کےساتھ نقل کیا ہے۔

بلکہ تفسیر روح المعانی میں ہے:
''ومع ھٰذا لم یقرأ بذٰلك وحدہ بل قرأبه جماعة من غیر السبعة کابن مسعود و ابن عباس و إبراھیم النخعي والحسن البصري وقتادة و مجاھد و غیرھم'' 8
یعنی ''حمزہ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابراہیم نخعی حسن بصری، قتادہ او رمجاہد وغیرہ نے بھی اس آیت میں ''الأرحام'' کا عطف ضمیر مجرور پرحرف جر دہرائے بغیر ڈال کرزیر کے ساتھ ہی پڑھا ہے۔''

قراء کرام کی قراءات کا موضوع الگ مستقل حیثیت کا حامل ہے۔مگر یہاں یہ بات ذہن نشین ہوجانی چاہیے کہ قراء کی قراء ات کا دارو مدار نحوی قواعد یا فقہی مسائل کی طرف اجتہاد او رقیاس و استنباط پر نہیں ہوتا، بلکہ قراءات قرآن صرف رسول اکرم ﷺ سے سماع پرموقوف ہیں ۔لہٰذا امام قرطبی، قشیری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''القراءات التي قرأ بها أئمة القراء ثبتت عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تواترا یعرفه أھل الصنعة وإذا ثبت شيء عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فمن ردّ ذٰلك فقد ردّ علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واستقبح ماقرأ به'' 9
یعنی قرآن کریم کے قاریوں کی قراء ات نبی کریم ﷺ .................. تواتر کےساتھ ثابت ہوتی ہیں ، جسے فن قراء ت کے علماء بخوبی جانتے ہیں ..................... کسی قراء ت کو نبی کریم ﷺ سے صحت کےساتھ ثابت ہوجانے کےبعد رد کرنے والا، نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام پراعتراض کا مرتکب ہوتاہے، اور اس چیز کو فحش غلطی سے تعبیر کرتا ہے جس کو رسول کریمﷺ نے شرف قراء ت بخشا ہے۔

مزید فرمایا ہے:
''وھٰذا مقام محذورولا یقلد فيه أئمة اللغة والنحو، فإن العربیة تتلقیٰ من النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولا یشك أحد في فصاحته'' 10

یعنی قراء کی قراء ات کا مقام بڑا نازک ہے، جس میں اہل لغت اور نحویوں کی تقلید کی گنجائش نہیں ، کیونکہ رسول کریم علیہ الصلوٰة والسلام، عربی زبان کے معلم بھی ہیں ، اور آپؐ کی فصاحت و بلاغت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیاجاسکتا۔

مگر بایں ہمہ کچھ لوگ بعص مسلّمات کو اپنی بے جا تنقید کا نشانہ بنا لیتے ہیں ۔ حتیٰ کہ قرآن کریم جیسی آسمانی کتاب کےمقدس کلمات کوبھی، رسول اکرم ﷺ کی حدیث چھوڑ کر اپنی ذہنی غلاظت سے ملوث کرنےکی ناپاک جسارت کرتے ہیں ، اسی طرح قاری حمزہ بن حبیب کی''الارحام'' میں میم کی جر کے ساتھ قراءت کو بھی موردطعن و تشنیع بنا لیا گیا ، لیکن حق بات کوموہوم اعتراضات کے ذریعے سے کمزور نہیں بنایا جاسکتا، لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ علماء کرام اور مفسرین عظام کے اقوال کے تعاون سے حمزہ کی اس قراء ت پر کئے گئے اعتراضات کو زائل کردیاجائے، تاکہ ضمیر مجرور پر ، حرف جر دہرائے بغیر عطف ڈالنا درست ثابت ہوسکے۔

قراء کرام میں سے حمزہ قاری وغیرہ کے ''الارحام'' کو جر کے ساتھ قراء ت کرنے سےمتعلق جواشکالات وارد کئے گئے ہین، ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
(1) کہا گیا ہے کہ یہ قراء ت عربی گرامر کے خلاف ہے، کیونکہ ''الارحام'' کو جر کے ساتھ پڑھاجائے تو اس کا عطف ''بہ'' کی ضمیر مجرور پر ہوگا اور اسم ظاہرکا عطف جب ضمیر مجرور پر ہوتو حرف جر کا اعادہ ہونا چاہیے، اوریہاں چونکہ حرف جر دوبارہ نہیں لایا گیا، اس لیے''الارحام'' کو جر کے ساتھ پڑھنا عربی قاعدے کے خلاف ہے۔
(2) دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حمزہ بن حبیب کی قراءت اُن شرعی دلائل کے خلاف ہے، جن میں غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے روکا گیا ہے۔

جہاں تک اوّل الذکر اعتراض کا تعلق ہے، تو اس کی تردید ان نحاة کے اقوال کے اندراج کے وقت ہوچکی ہے۔جوحرف جر دہرائے بغیر اس عطف کے جواز کے قائل ہیں ، لہٰذا اس قراء ت کا عربی گرامر کےساتھ مخالفت کا دعویٰ باطل ہے، کیونکہ حمزہ وغیرہ نے اس کونبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام سے صحت کےساتھ نقل کیا ہے اور نبی کریم علیہ السلام نے اسے اللہ تعالیٰ کے اخذ فرمایاہے، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بیان کردہ کلمات میں شک و شبہ کرنے والے سخت غلطی پر ہیں ۔

مفسر ابوحیان نے ضمیر مجرور پر، حرف جر دہرائے بغیر عطف کو جائز قرار دیا ہے ، کیونکہ تمام کوفی علماء کے علاوہ یونس، اخفش اور ابُو علی بھی اس کے قائل ہیں ۔

پھر حمزہ جیسے ثقہ عالم سے اس قراء ت کا ثابت ہوجانا ہی اس کی صحت کے لیےکافی ہے اوراگر بصری نحاة اس عطف کی ممانعت کے قائل ہیں تو یہ ان کی کمزوری ہے، سید محمد رشید رضا فرماتے ہیں :
'' وإن المنکرین علیٰ حمزة جاھلون بالقراء ات و روایاتھا متعصبون لمذھب البصریین من النحاة والکوفیون یرون مثل ھٰذا العطف مقیسا و رجح مذھبھم ھٰذا بعض أئمة البصریین وأطال بعض العلمآء في الانتصار له'' 11

یعنی جو لوگ حمزہ کی ''الارحام'' میں جر کی قراء ت کواپنے انکار کا نشانہ بناتے ہیں ، وہ فن قراء ت سے ناواقف ہیں اور بصری نحاة کی حمایت کی بنا پر ایسے فن میں دخل اندازی کرتے ہیں جو کہ ان کے تخصص سے خارج ہے، حالانکہ سب کوفی نحاة اس عطف کو قیاس کےموافق کہتے ہیں ، حتیٰ کہ بعض بصری علماء کی انہیں تائیدبھی حاصل ہے۔

ناانصافی ہوگی، اگر ہم تفسیر کی اس کتاب کا فیصلہ نقل نہ کریں جس کو ان لوگوں کی طرف سے بھی ماضی قریب میں سب تفسیر کی کتابوں سے زیادہ معتبر ہونے کی سند فراہم ہوچکی ہے۔ تاکہ معلوم ہوسکے کہ اسے یہ سند دل کی گہرائیوں سے دی گئی ہے یا کہ صرف اپنا مقصد نکالنے کے لئے؟ چنانچہ عقلیات کے امام رازی قراء ت حمزہ پرکئے جانے والے اعتراضات کو بیت العنکبوت سے بھی کمزور بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں :
''واعلم أن ھٰذا الوجوہ لیست وجوھا قویة فیدفع الروایات الواردة في اللغات، وذٰلك لأ ن حمزة أحد القرآء السبعة، والظاھر أنه لم یأت بھٰذا القرآء من عند نفسه، بل رواھا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ذٰلك یوجب القطع بصحة ھٰذہ اللغة، والقیاس یتضاءل عند السماع لاسیما بمثل ھٰذہ الأقیسة التي ھي أوھن من بیت العنکبوت'' 12

یعنی اس قسم کے اعتراضات، جو کہ امام حمزہ کی اس قراء ت پرکئے گئے ہیں ، یہ صحیح اسانید سے ثابت شدہ چیز کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے، حالانکہ امام حمزہ ، قراءات قرآن کے ساتھ قراء میں سے ایک ہیں ، او ران کے پیش نظر اس قراء ات کو اپنی طرف سے گھڑ لینے میں کوئی ذاتی مفاد بھی نہیں ، بلکہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت فرمایا ہے ۔لہٰذا اس کی صحت پر یقین رکھنا واجب ہے اور عقلی اشکالات ، نقلی دلائل کے مقابلہ میں ناپائیدار ہیں ۔ خصوصاً ایسےاعتراضات جو بیت عنکبوت سے بھی زیادہ بودے او رکمزور ہیں ۔

مزید فرماتے ہیں کہ حیرت ہے ان لوگوں پر جوسلف میں سے حمزہ او رمجاہد جیسے علم قرآن کے ماہروں کو چھوڑ کر لغت عربی کے مسائل میں ان کے خلاف نحاة سے استدلال کرتے ہیں ۔

یاد رہے یہ وہ حمزہ بن حبیب قاری ہیں ، جو 80ھ میں پیداہوئے اور بعض صحابہ کرامؓ کا زمانہ بھی انہوں نےپایا ہے، امام ابوحنیفہ ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ''حمزہ قراء ات اور وراثت کےعلم میں دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں ''

قراء ت حمزہ کو زیربحث لانے سے مقصود یہ ہے کہ ضمیر مجرور پر اسم طاہر کا عطف ، حرف جر دہرائے بغیر جائز ہے، کیونکہ حمزہ اور اس کے ساتھی علماف کی ''الأرحام'' میں جر کے ساتھ قراء ت کی صورت میں اس کا عطف لامحالہ''بہ'' میں ضمیر مجرور پر ہے او رحرف جر دوبارہ نہیں لایا گیا۔

ہاں ''الأرحام'' کو نصب کے ساتھ پڑھنا بھی دیگر قراء کرام کی قراء ت ہے، اس صورت میں اس کے معطوف علیہ کے تعین میں دو قول ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا عطف نصب کی حالت میں ''واتقوا اللہ'' میں لفظ جلالت پر ہے، لہٰذا اس صورت میں تقدیر عبارت یوں ہوگی۔ یعنی ''اتقوا قطع الأرحام'' یا '' اتقوا قطع مودة الأرحام'' ورنہ اس صورت میں معنیٰ درست نہیں ہوسکے گا۔

اور دوسرا قول یہ ہے کہ نصب کی صورت میں اس کاعطف ''بہ'' کی ضمیر مجرور پر محلاً ہے۔یعنی ''الارحام'' میں جر کی حالت میں اس کا عطف ''بہ'' میں ضمیر مجرور پر لفظاً ہے، او رنصب کی حالت میں اس کا عطف اسی ضمیر پرمحلاً ہے، چونکہ یہ ضمیر محلاً منصوب ہے، اس لیے ''الارحام'' بھی منسوب ہوگا ۔جیسا کہ بعض مفسرین نے اس کی وضاحت کی ہے۔

ان دونوں اقوال میں سے دوسرا قول ہمارے نزدیک راجح اور مقدم ہے۔کیونکہ لفظ جلالت پر عطف کی صورت میں محذوف ماننے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ''بہ'' کی ضمیر مجرور پر محلاً عطف ڈالنا، اس تقدیر کا محتاج نہیں ہے اور تقدیر عبارت سےعدم تقدیر افضل ہے۔خصوصاً قرآن کریم جیسی اعلیٰ کتاب میں اس عدم تقدیر کی صورت کو ہی اختیار کرنا چاہیے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ''الاحارم'' خواہ منصوب ہو یا مجرور، دونوں صورتوں میں اس اسمظاہر کا''بہ'' پر حرف جر دہرائے بغیر عطف ہے۔ مگر جر کی صورت میں ضمیر مجرور پر عطف لفظاً اور نصب کی حالت میں اس کے محل پر ہے جس سے ثابت ہواکہ اسم ظاہر کے ضمیر مجرور پر عطف کے وقت، حرف جر کا دوبارہ لانا کوئی ضروری نہیں ہے۔

اور قرآن کریم کی دیگر متعددآیات سے اس کی تائید موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ''وَكُفْرٌ‌ۢ بِهِۦ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَ‌امِ'' میں ہے اور﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَـٰيِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُۥ بِرَ‌ٰ‌زِقِينَ ﴿٢٠﴾...سورة الحجر'' میں ''من'' اسم موصول کا''لکم'' کی ضمیر مجرور پر عطف ہے ، اور اسی طرح''قُلِ ٱللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ'' میں ''ما'' موصول کا ''فیھن'' کی ضمیر مجرور پر حرف جر دوبارہ لائے بغیر عطف ہے۔

''طلوع اسلام'' کا اس مقام پر اس طرح بات کو ٹال دینا کافی نہیں کہ ان میں اسم ظاہر کی بجائے ''من'' اسم موصول ہے، کیونکہ اسم موصول دوسرے اسماء کے ساتھ عطف میں مساوی ہے، جیسا کہ وہ باقی اسماء کی طرح فاعل و مفعول ، مبتداء ، خبر اور مضاف الیہ واقع ہوتا ہے، ہمارے خیال میں ان کے اس مغالطہ کیوجہ یہ ہے کہ نحاة نے اسماء موصولات کو مبہمات سے تعبیر کیا ہے اور ان کے مبہمات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسماء موصولات ہر چیز کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں ، حتیٰ کہ جمادات کے لیے بھی۔ اس لیے انہیں مبہمات کہہ دیا جاتا ہے، وگرنہ یہ اسماءظاہرہ سے خارج نہیں ہیں ۔

مذکورہ آیات میں بھی سورة النساء کیآیت کی طرح تفصیلی گفتگو کی گنجائش ہے، مگر ہم اس سے فی الحال صرف نظر کرتے ہیں ، لیکن اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ اگر بعض علماء نے انآیات میں ضمیر مجرور پر عطف کا قول غلط ہے۔ بلکہ یہ قول بھی اپنے مقام پر صحیح ہے، کیونکہ دونوں کے نقل کرنے والے علماء او رقراء ہی ہیں ۔ لہٰذا ان میں سے ایک قول کو اختیار کرکے دوسرے کا سرے سے انکار کردینا، اور اس کے قائلین کو طعن و تشنیع کرنے پر اُترآنا علمی خیانت کےمترادف ہے، یا جہالت کی غمازی کرتا ہے۔ (جاری ہے)


حوالہ جات
1. یعنی ان کے نزدیک ''صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم'' تو درست ہوگا لیکن حرف جر ''علیٰ'' کو دہرائے بغیر''صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' لکھناغلط ہے۔
2. شمارہ مذکور صفحہ 10
3. شرح شذور الذہب صفحہ 449
4. صفحہ 196
5. صفحہ 89
6. 2؍470
7. طلوع اسلام ، مارچ 1986ء
8. 4؍184
9. الجامع الاحکام القرآن جلدسوم صفحہ 4، 15
10. مرجع سابق
11. تفسیر ''المنار'' 4؍333
12. تفسیرکبیر:9؍163