فتاویٰ جات

مجالس ذکر۔ اقسام گناہ۔ تکفیر اہلِ قبلہ۔ نرخ مقرر کرنا۔ خلقِ آدم

علیٰ صورتہ۔ اس امید پر سودا کرنا کہ بازار سے لا کر دونگا

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:

1. مجالسِ ذکر:

خصوصی مجالسِ ذکر جو کبھی اہل بدعت کے ہاں لگتی تھیں، دیو بندی اور اہل حدیثوں میں بھی رواج پا رہی ہیں، مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد میں اور پروفیسر مولانا سید ابو بکر غزنوی کے مدرسہ میں ''خاص رنگ'' میں ذکر کی محفل لگتی ہے، کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟

2. اقسام گناہ:

قرآن مجید میں سیئات عصیان، خطا اور ذنوب جیسے الفاظ ملتے ہیں۔ ان سب کے معنی ایک ہیں یا الگ الگ؟

3. تکفیرِ اہلِ قبلہ:

مرزائی کہتے ہیں کہ: بخاری میں حدیث ہے کہ: جو شخص ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کر کے ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اور ہمارا ذبح کیا ہوا کھاتا ہے، وہ مسلمان ہے تو ہمیں کیوں کافر کہتے ہو؟ کیونکہ ہم یہ سبھی کام کرتے ہیں، کیا یہ حدیث ہے اگر ہے تو پھر مرزائیوں کو کیوں کافر کہا جاتا ہے؟

استفتاء نمبر ۲

ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ:

1. ہیر رانجھا کا جو قصہ مشہور ہے اس کی اصلیت کیا ہے اور وارث شاہ نے جو تفصیل دی ہے وہ کس حد تک صحیح ہے؟

2. کیا ہابیل اور قابیل کا حادثہ بھی اسی معاشقہ کا نتیجہ تھا؟

الجواب واللہ أعلم بالصواب استفتاء نمبر ۱

مجالسِ ذکر:

مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد کے بعد جناب مولانا سید ابو بکر غزنوی کی مشہور درسگاہ تقویۃ الاسلام میں ذکر کی جو معروف محفلیں منعقد ہو رہی ہیں مجھے ان میں شرکت کرنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا لیکن بہ تواتر یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ واقعی یہ سلسلہ وہاں جاری ہے۔

غزنوی خاندان علماء اور صلحاء کا مشہور خاندان ہے۔ مجھے صرف حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے صاحبزادے جناب پروفیسر ابو بکر غزنوی کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ ان کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ سال گزرا ہے، ان کے علم کی گہرائی، وسعت، خشیتِ الٰہی اور ذکر مسنون کے جو مناظر راقم الحروف کے سامنے آئے ہیں وہ نہایت جاذب ہیں۔ اگر کبھی وقت اور فرصت نے اجازت دی تو ان شاء اللہ اس سلسلے کی ان مبارک یاد داشتوں کو ضرور قلم بند کروں گا۔ بہرحال 'اتباعِ سنت' میں ان کا مقام بہت اونچا تھا، ذکر و فکر ان کا خاص مشغلہ تھا، لیکن بایں ہمہ انہوں نے خصوصی ذکر کی یہ محفلیں منعقد نہیں فرمائی تھیں۔ حالانکہ جو دواعی اور حالات اب ہیں اس وقت بھی وہی تھے۔

پروفیسر موصوف اہلِ علم ہیں، بالخصوص جدید طبقہ کی اصلاحِ حال کے لئے انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں قابلِ قدر ہیں۔ ان کی تقریر بڑی دلنشین، مؤثر، حکیمانہ اور عالمانہ ہوتی ہے اس اعتراف کے باوجود ان کے اِس ''اسلوب ذکر'' سے اتفاق کرنا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔

جن رہنماؤں نے یہ 'محفلیں' ایجاد فرمائی ہیں، ان کے مغالطے کی دو وجہیں ہیں۔ حدیث میں ذکر اور حلقۂ ذکر کا جو ذکر آیا ہے ان کا مفہوم کیا ہے؟ ذکر کسے کہتے ہیں اور حلقہائے ذکر سے کیا مراد ہے؟ یہ غور طلب امور ہیں۔

ذکر کا مفہوم 'زبانی ورد' سمجھ لیا گیا ہے اور ذکر کے حلقوں سے مراد بھی یہ مصنوعی محفلیں لے لی گئی ہیں۔ حالانکہ یہ ان کا محدود تصوّر ہے۔

ذکر:

خدایابی، خدا جوئی اور تعمیلِ احکامِ الٰہی کے جذبہ سےجو بھی کام کیا جائے، اسے ذِکر ہی کہتے ہیں گو اس کی زبان بھی نہ ہلے اور نہ چلے۔

حضرت امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

الدنیا ملعونة وملعون ما فیھا إلا ذکر اللہ وما والاہ (ذکرِ الٰہی اور اس سے متعلقہ امور کے علاوہ ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے) میں ذکر سے مراد تمام قسم کی طاعات ہیں، سو جو بھی اس کی اطاعت میں ہوتا ہے وہ اس کا ذاکر ہے۔ خواہ اس کی زبان بھی نہ ہلے۔

الدنیا ملعونة وملعون ما فیھا إلا ذکر اللہ وما والاہ فذکرہ جمیع أنواع طاعته، فکل من کان في طاعته فھو ذاکر له وإن لم یتحرك لسانه بالذکر (اغاثۃ اللہفان من مصائد الشیطان ۔ص۵۱)

ذکر سے مراد اصل میں ''استخصار'' ہے (مفردات) یعنی زندگی کے شب و روز میں خدا یاد رہے، بے خدا زندگی کے بجائے ''باخدا'' زندگی گزاری جائے۔

اور جن روایات میں ''حلقِ الذکر'' کا ذکر آتا ہے ان سے مراد بھی یہ مصنوعی مجلسیں نہیں ہیں بلکہ وہ اجتماع ہیں جو محض احقاقِ حق امتثالِ حق اور غلبۂ حق کے لئے وقتاً فوقتاً اور حسبِ ضرورت منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

مصنوعی مجالسِ ذکر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام اجتماعی جدوجہد سے محروم رہتے ہیں اور احقاقِ حق کے لئے میدانِ کار زار جو گرم ہوتے ہیں ان سے عموماً الگ تھلگ رہتے ہیں کیونکہ صرف ان 'لسانی اذکار' سے وہ مطلوب انقلاب برپا نہیں ہوتا جس کو برپا کرنا ان کے ایمانی فرائض میں ہوتا ہے۔ پوری زندگی با خدا گزارنا اصلی ذکر اللہ ہے۔ مگر اب اسے محدود کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ زندگی کے باقی شئون، حالات اور مظاہر میں ''یادِ خدا'' کا الزام عموماً کم باقی رہ جاتا ہے، اس لئے ان اذکار کے بعد ان کی زندگی میں اُدْخُلُوْا فِي الْسِّلْمِ كَآفَّة کا رنگ بھی عموماً پھیکا رہتا ہے مگر انہیں اس کا احساس کم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان مجالسِ ذکر کو نہایت سختی سے دبا دیا تھا (دارمی) اور یہ وہ باتیں ہیں جو سید صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں۔

اس کے یہ معنی نہیں کہ 'لسانی ذکر' کا وجود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ذکر فنی مجالشِ ذکر کا نام نہیں ہے۔ اور یقیناً نہیں ہے۔ شریعت نے عبادت کی جو اجتماعی صورتیں متعین کی ہیں وہ بھی حلق الذکر سے تعلق رکھتی ہیں اور دوسرے وہ دینی کام جو اجتماعی طور پر کرنا پڑتے ہیں وہ بھی حلق الذکر ہیں۔

پروفیسر موصوف دوسرے انداز میں جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے رفع درجات اور مغفرت کے لئے کافی ہیں، اگر وہ ان 'فنی ذکر' کی محفلیں منعقد کرنے کا اہتمام نہ بھی کریں تو بھی ان شاء اللہ ان سے باز پرس نہ ہو گی۔

اس موضوع پر تفصیلی بحث ہو سکتی ہے لیکن فتوے جیسا مقام اس کا متحمل نہیں ہے۔

3. اقسامِ گناہ:

قرآن حکیم نے گناہوں، خطاؤں اور لغزشوں کے سلسلے میں مختلف اصطلاحات استعمال کی ہیں جن کا مفہوم الگ الگ ہے۔ گو بعض ایک دوسرے کے مقام پر بھی استعمال ہو سکتیں ہیں، یعنی بعض پہلوؤں میں۔

سیئہ:

برائی کو کہتے ہیں، یہ دو قسم کی ہے ایک وہ جو شرعاً و عقلاً بری تصور کی جاتی ہے دوسری وہ جس سے طبیعت پر انقباض طاری ہوتا ہے اور وہ شاق اور گراں گزرتی ہے۔

عصیان:

ترکِ اطاعت کو عصیان اور نافرمانی کہتے ہیں۔ ھو ترك الانقیاد (کتاب التعریفات للسید)

خطاء، خطیئہ:

سے مراد وہ فعل ہے جو مطلوب نہیں ہوتا بلکہ کسی اور وجہ سے سر زد ہو جاتا ہے، یہ سبب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک مخطور جیسے نشہ آور شے پی کر کوئی ارتکاب کرنا۔ یہ صورت قابل گرفت ہوتی ہے، دوسرا مباح جیسے شکار کے قصد سے گولی چھوڑی مگر کسی اور کو جا لگی، اس میں گرفت نہیں ہے۔ علامہ اصفہانی فرماتے ہیں کہ اس کی متعدد قسمیں ہیں۔

ایک یہ کہ ایسے کام کا ارادہ کرے جس کا قصد مناسب بھی نہ تھا۔ یہ خطا تام ہے۔ یہ قابلِ مواخذہ ہے۔

دوم یہ کہ قصد کچھ اور ہو مگر ہو دوسرا جائے۔ یہ باب افعال سے آتا ہے یہ قابلِ مواخذہ نہیں ہوتا ہے۔

تیسرا یہ کہ غیر مستحسن کام کا قصد کرے مگر فعل مستحسن سر زد ہو جائے یہ باعث ستائش نہیں ہو گا (مفردات راغب)

میر سید شریف جرجانی فرماتے ہیں یہ وہ فعل ہے جو قصد کے بغیر ہو، یہ حق اللہ کے سقوط کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ اجتہاداً ایسا ہو اور عقوبت شرعی میں شبہ کا باعث بن جاتا ہے۔

اس لئے ایسا انسان مجرم نہیں ہوتا اور نہ ہی حد اور قصاص اس پر جاری ہوتا ہے لیکن یہ عذر حق العباد کے سقوط کا موجب نہیں ہوتا اس لئے ضمان وغیرہ لازم ہو جاتی ہے۔

ھو ما لیس للانسان فیه قصد وھو عذر صالح لسقوط حق اللہ تعالیٰ إذا فصل عن اجتھاد ویصیر شبھة في العقوبة حتی لا یؤثم الخاطي ولأحد ولا قصاص۔ ولم یجعل عذرا في حق العباد حتی وجب علیه ضمان العدوان (التعریفات ص ۶۸)

ہمارے نزدیک یہ تعریف بہت جامع ہے۔

ذنوب:

ذنب ہر اس فعل کو کہتے ہیں، جس کا انجام برا ہو۔ (مفردات)

عیوب کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے (في اللغة الذنوب، العیوب۔ العرف الشذی)

امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں جب یہ مطلق بولا جائے تو اس سے ہر واجب کا ترک اور ہر حرام کا ارتکاب مراد ہوتا ہے۔

وکذلك لفظ الذنوب إذا أطلق دخل فیه ترك کل واجب وفعل کل حرام (اقتضاء الصراط المستقیم)

میر سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ہر وہ فعل ہے جو خدا سے روکے:

ما یحجبك عن اللہ (التعریفات ص ۷۳)

اَللّمَم۔ گناہ کا ارادہ کرنا مگر مرتکب نہ ہونا۔ لَمَم ہے۔ (مفردات)

عریاں بے حیائی سے کم درجہ کے صغیرہ گناہ: اللمم ما دون الفاحشةمن صغار الذنوب (المغرب ص ۱۷۲)

اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ گناہ کے بعد یوں پچھتانا کہ پھر اسے نہ کرنا۔

بمعنی أنه لم یلم به مرة أو مرتین فیتوب عن قریب فلا یجعلھا عادة (کمالین ص ۴۳۷)

قال ابن عباس ھو الرجل یلم بالفاحشةثم یتوب۔۔۔۔ وقال أبو ھریرة اللمة من الزنا ثم یتوب ولا یعود الخ (ابن کثیر ص ۲۵۶/۴) أی ما یأتی به المؤمن ویندم في الحال وھو من اللمم (کبیر)

اثم۔ وہ فعل جو کارِ ثواب سے پیچھے رکھے (مفردات) جس سے شرعاً اور طبعاً پرہیز کرنا ضروری ہو۔

ما یجب التحرز منه شرعا وطبعا (التعریفات ص ۴)

اور جب مطلق مستعمل ہو تو اس وقت ہر گناہ کو اثم کہتے ہیں۔ کذلك لفظ الإثم إذا أطلق دخل فیه کل ذنب (اقتضاء الصراط المستقیم ابن تیمیہ (ص۶۶)

تکفیر اہلِ قبلہ:

مزرائی کا استدلال غلط ہے، حدیث میں 'مسلمانی' کی کچھ ظاہری علامات کا ذکر کیا گیا ہے کہ: اب سمجھ لو کہ ضروریاتِ دین کا وہ قائل ہو گا، اگر داخلی یا خارجی دلائل سے واضح ہو جائے کہ وہ شخص ضروریات دین کا منکر ہے تو وہ لاکھ نمازیں پڑھے، یہاں نہیں کعبہ میں جا کر پڑھے صرف ہمارا ذبیحہ نہیں ہمارا پکا بھی کھائے تو وہ پھر بھی کافر ہی رہے گا۔ کیونکہ وہاں روح غائب ہے۔

عقائد کی جن کتابوں میں اِس موضوع سے بحث کی گئی ہے اس میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ بنیاد اس کی پختہ ہو۔ پھر ان کی تکفیر مناسب نہیں۔ شرح مقاصد میں ہے۔

وھم الذین اعتقدوا بقلبھم دین الإسلام اعتقادا جازماً خالیا عن الشکوك وانطلقوا بالشھادتین فإن من اقتصر علی أحدھما لم یکن من أھل القبلة(شرح مقاصد)

شرح عقائد کی شرح خیالی میں ہے کہ اس سے مراد اجتہادی مسائل میں عدم تکفیر ہے لیکن جو ضروریاتِ دین کا منکر ہو اس کی تکفیر میں کوئی اختلاف نہیں۔

معنی ھذہ القاعدة أنه لا یکفر في المسائل الاجتھادیة، إذ لا نزاع في تکفیر من أنکر شیئاً من ضروریات الدین (حاشیہ خیالی ص ۱۴۹)

استفتاء نمبر ۲

الجواب واللہ اعلم بالصواب۔

1. ہیر رانجھا:

ان مسائل کا تعلق دراصل تاریخ سے ہے اس لئے مناسب تھا کہ اس کے لئے کسی مؤرخ کی طرف رجوع کیا جاتا، ہم نے بھی اگر کبھی کبھار اس سانحہ کا مطالعہ کیا بھی ہے تو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر کیا۔ بطور قصے کے نہیں۔

سب سے پہلے اِسے نواب احمدیار خاں نے شاہجہان کے عہد میں فارسی میں منظوم کیا، جس کا نام 'مثنوی یکتا تھا' پھر صوبھے خاں اور میرن شاہ نے اس قصہ کو ملتانی زبان میں پیش کیا لیکن پنجابی میں وارث شاہ نے جو ہیر پیش کی، وہ سب سے زیادہ مقبول رہی مگر واقعہ غلط ہے۔

ضلع جھنگ میں ہیر کا خاندان موجود ہے، حکومت کے ریکارڈ میں ان کا شجرۂ نسب ملتا ہے۔ اور مراضعات کے واجب العرض میں بھی ہیر کا واقعہ درج ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے پانچ سو برس پہلے جھنگ میں سیال قوم برسراقتدار تھی۔ چوچک نامی رئیس کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی جس کو ہیر کہتے ہیں، وہ جوانی میں ہی علوم مروجہ سے فارغ ہو چکی تھی اور اس قوم میں یہ سب سے پہلی خاتون ہے جو مسلمان ہوئی تھی، یہ بڑی زاہدہ خاتون تھی، چنانچہ سیال کا پورا خاندان بھی اس کی تبلیغ سے ہی مسلمان ہوا، نواب بہلول کو اس سے بڑی عقیدت تھی۔

رانجھا ایک قوم کا نام ہے اور اسی نام پر ایک شخص کا بھی نام پڑ گیا، وہ ہیر کے عقیدت مندوں میں سے تھا اور صالح انسان تھا، بہرحال تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ ہیر رانجھا کا جو قصہ مشہور ہے، وہ دراصل وارث شاہ کی اپنی آپ بیتی ہے، وہ بھاگ بھری پر عاشق تھا، لیکن اس نے یہ زیادتی کی کہ ناحق اپنی بات ہیر اور رانجھا کے روپ میں پیش کر ڈالی۔ حالانکہ جھنگ میں قوم سیال کی تاریخ اور ہیر کے علم و اسلام کی داستان درج ہے۔ مگر لوگ اسے دیکھتے نہیں ہیر وارث شاہ کو پڑھ کر ان کو ناحق متہم کرتے ہیں۔ میں نے بہرحال اس پر کوئی زیادہ ریسرچ نہیں کی، یہ ایک آدھ مقالہ کا حاصل ہے جو ۱۹۴۷ء میں کہیں پڑھا تھا۔ اس دن سے ان کے بارے میں ذہن کچھ صاف سا ہے۔ بہرحال بدگمانی سے یہ حسنِ ظن بہتر تصور کرتا ہوں۔ واللہ اعلم۔

ہابیل اور قابیل:

کا جو قصہ مشہور ہے، اس میں قرآن حکیم نے قابیل کے حسد اور ہابیل کی اسلام پسندی کی تفصیل پیش کی ہے، باقی رہا یہ معاملہ کہ اس میں حسین لڑکی سے قابیل کی دلچسپی کا ذکر ہے تو احادیثِ مرفوعہ میں اس کا کچھ ثبوت نہیں ملتا۔ بعض صحابہ سے ایسی روایات مروی ہیں جو ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہوں، کیونکہ اس کا ان کے ہاں رواج تھا۔ اس کے علاوہ اس کے برعکس بھی ان میں کچھ اور امور کا ذکر ملتا ہے۔ ابن کثیر کا رجحان بھی اسی طرح ہے کہ لڑکی کے نکاح والا واقعہ تسلی بخش نہیں ہے۔ ہو بھی تو اسے معاشقہ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ معاشقہ جانبین کے جنون کا نام ہے جس کا بہرحال لڑکی کے سلسلے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ قابیل کے سلسلے میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسے اس سے دلچسپی تھی اور بس۔ ہمارا رجحان اس طرف ہے، کہ یہاں لڑکی کے نکاح کی بات نہیں تھی، بلکہ ہابیل کی نیک شہرت اس کے لئے فتنہ بنی، وہ سمجھا کہ، خدا بھی اس کی قربانی قبول کرتا ہے اور لوگ بھی سارے اسے ہی اچھا کہتے ہیں تو اس کا قصہ ہی کیوں نہ پاک کر دیا جائے۔ بانس رہے نہ بانسری۔ واللہ اعلم۔

استفتاء نمبر ۳

نرخ مقرر کرنا۔ خلق آدم علی صورتہ۔ اس امید پر بیع کرنا کہ بازار سے لا کر دوں گا۔

ایک تازہ استفتاء آیا ہے کہ:

1. حکومت جو نرخ مقرر کرتی ہے، کیا وہ شرعاً جائز ہے؟

2. سنا ہے، حدیث میں ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

3. اس امید پر بیع (سودا) کرنا کہ بازار سے لا کر دوں گا، کیسا ہے؟ (ملخصاً)

الجواب واللہ اعلم بالصواب۔

نرخ:

یہ جائز نہیں ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک عہد میں گرانی ہوئی تو صحابہ نے کہا کہ کاش آپ کنٹرول ریٹ مقرر کر دیتے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کام،وہی ''مسعّر'' ہے۔ کہیں خدا قیامت میں مجھ سے باز پرس نہ کریں۔

غلا السعر علی عھد رسول اللہ ﷺ فقالوا یا رسول اللہ: لو سَعَّرْتَ فقال إن اللہ ھو القابض الباسط الرزاق المُسَعِّرُو إني لأ رجوأن ألقی اللہ عزوجل ولا یطلبني أحد بمظلمة ظلمتھا أیاہ في دم أو مال (ترمذی وغیرہ عن انس وصححه الترمذي)

حضور کا اس سے گھبرانا بلا وجہ نہیں تھا، ایک تو حق تعالیٰ کے اس ارشاد کے خلاف ہے کہ جانبین کی رضا مندی ضروری ہے۔لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ(پ۵۔ النساء۔ ع۵)

جبر 'تراضی' کی روح کے خلاف ہے۔

دوسرا یہ کہ نرخ مقرر کرنے پر اشیاء میں ملاوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ تیسرا یہ کہ مارکیٹ میں اشیاء غائب ہوجاتی ہیں۔ چوتھا یہ کہ: کنٹرول ریٹ مزید گرانی کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ چوری چھپے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں، پانچواں یہ کہ ہو سکتا ہے کہ فی الواقع بائع کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہو، اور یہ بجائے خود ظلم ہے۔ بعض حالات میں بعض ائمہ نے اس کی اجازت دی ہے مگر یہ بات حدیث کے خلاف ہے۔

2. خدا کی شکل پر انسان:

یہ دراصل حدیث إن الله خلق آدم علی صورته (مسلم) کا مضمون ہے ہم نے اپنی تفسیر ''التفسیر والتعبیر'' (بقرہ ع۴) میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہاں ملاحظہ فرما لیں۔

صورتہ، اصل میں اضافت تشریفی ہے، جیسے بیت اللہ، ناقۃ اللہ۔ اس سے کسی کی تکریم مقصود ہوتی ہے، بہرحال ظاہری معنی مراد نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ: صورت کے معنی صفت کے بھی ہوتے ہیں، اس کے معنی صرف ہاتھ پاؤں اور منہ یا ناک نہیں ہوتے، چونکہ بہت سی باتوں میں بظاہر صفاتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے، جیسے آنکھ، کان، ہاتھ وغیرہ، اس لئے کہا گیا ہے کہ ''بصورت حق'' پیدا کیا گیا ہے۔ گو ان صفات میں اشتراک رسمی ہے، حقیقت میں مماثلت نہیں ہے تاہم شرف و مزیت کے لئے اتنی سی بات بھی انسان کا مرتبہ دوبالا کر گئی ہے۔

3. بازار سے لا کر دوں گا:

حدیث میں یہ بھی ممنوع ہے۔ قال حکیم بن حزام: قلت یا رسول اللہ! یأتیني الرجل فیسئالني عن البیع لیس عندي ما أبیعه ثم أبتاعه من السوق۔ فقال لا تبع ما لیس عندك (ابو داؤد و ترمذی وصححہ) یعنی میں نے عرض کی: حضور! میرے پاس ایک صاحب ایسی چیز کا گاہک آتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، پھر اسے بازار سے خرید کر دیتا ہوں (کیا جائز ہے؟) فرمایا جو شے آپ کے پاس نہیں اس کا سودا نہ کیجئے! اس کے جو مفاسد ہیں وہ بالکل ظاہر ہیں مگر آج کل یہ کاروبار بھی عام۔ بلکہ زبانی کلامی سود اور سودا گھر بیٹھے ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض حضرات اس کے لئے بھی کوئی وجہ جواز ڈھونڈ لائیں۔ لیکن یہ تکلف ہو گا اور غلط کاروں کو سہارے مہیا کرنے والی بات۔ ہاں بیع سلم اس سے مستثنیٰ ہے۔ واللہ أعلم۔