فساد فی الارض ''نوع انسانی'' کی سب سے بڑی بد نصیبی بلکہ کائنات کی ہر چیز کی سیاہ بختی کی بات ہے، کیونکہ تخریب اور تخریب کاری انسان کی سیاہ کاری کا نتیجہ ہوتی ہے اور بطور سزا اور قہرِ الٰہی کے پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہے۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ(پارہ۲۱۔ الروم۔ ع۵)
گو خدا کی زمین میں یہ بگاڑ اور خرابی ایک سزا اور قہرِ الٰہی ہے، لیکن اس سے غرض بندوں کی مکمل تباہی نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ مزہ چکھ کر شاید لوٹ آئیں اور سیدھی راہ پر پڑ جائیں۔
لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (پ۲۱۔ الروم۔ ع۵)
تخریب کاری اور فساد فی الارض ایک ایسا الزام ہے جسے کوئی بھی شخص قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، جو واقعۃً مفسد لوگ ہیں، وہ بھی اپنا الزام دوسرے کے سر دھرتے ہیں، خود اپنی کوتاہی کا اعتراف نہیںکرتے، بلکہ وہ اپنے آپ کو ریفارمر اور مصلح بھی کہتے ہیں۔
وَاِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (پ۱۔ البقرہ۔ ع۲)
بلکہ ملک و ملت میں جو لوگ صحیح معنی میں مصلحین اور صالحین ہوتے ہیں، الٹا ان کو بدنام کرنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ان اہلِ فساد کی طرف سے ہٹ جائے۔
وَقَالَ الْمَلأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَه لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ (الاعراف۔ ع۱۵)
یہ ''الملأ'' قوم کا اونچا طبقہ تھا، جو فرعون کی خصوصی کابینہ سے تعلق رکھتا تھا یعنی بائیں بازو کے لوگ تھے اور تہمتِ فساد اللہ کے نبی پر لگا رہے تھے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اُف
ہم چاہتے ہیں کہ کسی پر اپنی طرف سے فساد اور تخریب کاری کا الزام عائد کرنے کے بجائے، خدا کے قرآن سے ایک ایسا آئینہ آپ کو مہیا کیا جائے، جس میں ہر وہ شخص اپنا چہرہ دیکھ سکے جو اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
جو لوگ اپنے اختیارات میں اسراف کرتے ہیں اور محض اپنی 'انا اور باطنی طاغوت' کی عیاشی کے لئے اختیارات کا لٹھ گھماتے ہیں وہ فسادی ہیں اس لئے حکم ہوتا ہے کہ ان کا کہا نہ مانا کرو۔
وَلَا تُطِيعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِينَ. اَلَّذِينَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۔ (پ۱۹۔ الشعراء۔ ع۷)
جو اہلِ فساد، اقتدار و اختیار کے چلو بھر پانی میں گز بھر، ابھر کر چلنے میں مصروف ہیں، دنیا میں چام کے دام جتنے چلانا چاہیں، چلا لیں۔ آخرت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا (پ ۲۰۔ القصص۔ ع۹)
''وہ آخرت کا گھر ہم صرف ان لوگوں کو دیں گے جو (خدا کی) زمین میں برتری (کے خبط میں) نہیں پڑے ہوئے اور نہ فساد اور تخریب ان کے پیش نظر ہے۔''
ضروری نہیں کہ صرف آخرت ضائع ہو بلکہ ہو سکتا ہے دنیا میں بھی ان کو جوتے پڑیں، جیسا کہ فرعون کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔
وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ (10) الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ (11) فَأَكثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (12) فَصَبَّ عَلَيهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (پ۳۰۔ الفجر۔ ع۱)
(کیا آپ نے نہ دیکھا کہ) میخوں والے فرعون کے ساتھ (کیا معاملہ کیا) یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے ملکوں میں سر اُٹھایا پھر ان میں تخریب کاری کی حد کر دی، تو ان پر آپ کے رب نے عذاب کا کوڑا ڈالا۔
اس کی تفسیر میں علماء لکھتے ہیں کہ:
ان قوموں نے عیش و دولت اور زور و قوت کے نشہ میں مست ہو کر ملکوں میں خوب اودھم مچایا، بڑی بڑی شرارتیں کیں اور ایسا سر اُٹھایا، گویا کہ ان کے سروں پر کوئی حاکم ہی نہیں اور ہمیشہ اسی حال میں ہی رہنا ہے، کبھی اس ظلم و شرارت کا خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا۔ آخر جب ان کے کفر و تکبر اور جو رد ستم کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مہلت و درگزر کا کوئی موقع باقی نہ رہا، دفعۃً خداوند قہار نے ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برسا دیا، ان کی سب قوت اور بڑائی خاک میں مل گئی۔ اور وہ ساز و سامان کچھ کام نہ آیا۔ پاکستانیو! سنتے ہو؟
قرآن حکیم نے فرعون کی کچھ شرارتوں اور تخریب کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنی برتری کے خبط میں مبتلا تھا۔ ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کے اصول کے مطابق عوام کو تفرقہ بازی کا خوگر بنا دیا تھا، اپنی راہ میں جسے سنگِ گراں تصور کرتا، اس کو ہٹانے کے لئے پوری قوم کے گلے پر چھری پھیرنے سے دریغ نہیں کیا کرتا تھا۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَة مِنْهُمْ يَذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدينَ (پ۲۰۔ القصص۔ ع۱)
یقین کیجئے! فرعون (خدا کی) زمین پر سرکش ہو گیا اور ملک کے باشندوں کو تتر بتر کر رکھا تھا۔ جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ) ان میں سے ایک گروہ کو کمزور رکھے، ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا، یہ واقعہ ہے کہ وہ اہلِ فساد میں سے تھا۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون کے کان میں یہ بات پڑ گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے ایک جوان کے ہاتھوں اس کی تباہی ہو کر رہے گی، چنانچہ اپنی اصلاحِ حال کے بجائے اس نے یہ طے کر لیا کہ، اب اس قوم کے کسی فرزند کو زندہ نہ رہنے دیا جائے۔
جو لوگ اپنے اقتدار کی عمر کی درازی کے لئے اس قسم کے پاپڑ بیلنے میں مصروف رہتے ہیں، عموماً ان کا انجام اور حشر نہایت ہی عبرتناک نکلا ہے۔ مگر افسوس! اس کے باوجود جو بھی آتا ہے، وہ اندھا ہو جاتا ہے، اور وہ ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ اس لئے ان پر جو مصیبت آتی ہے، اچانک آتی ہے اور اسے اُٹھا کر یوں پھینک دیتی ہے جیسے روڑوں کا کوئی کوڑا ہو۔
قرآن حکیم اربابِ اقتدار کے اس اندھے پن اور تخریب کاری کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ایسے نابکار اور مفسدین کو حکومت مل جائے تو فساد اور ہنگامے ہی برپا رکھیں۔
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ(پ ۲۶۔ محمد۔ ع۳)
پھر تم سے بھی یہ توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو فساد فی الارض برپا کرو گے اور اپنی قرابتیں (بھی) قطع کرو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے، پھر ان کو بہرہ اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔
دنیا کی فراوانی بھی 'فساد فی الارض' کی موجب ہوتی ہے کیونکہ اپنی بے قابو خواہشات کی تکمیل کے لئے ان کو تمام اَن ہونے کام کرنے پڑ جاتے ہیں۔ سرمایہ اور مسلمانی رنگ؟ بہت کم جمع ہوتے ہیں سرمایہ دار عموماً قارونی خدوخال لے کر آتا ہے، خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ، اللہ نے جو دیا ہے کھاؤ پیو، لیکن خلقِ خدا کے لئے وبال نہ بنو بلکہ اسے آخرت کے لئے زینہ بناؤ۔
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (پ۲۰۔ قصص۔ ع۸)
جو کچھ تمہیں اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کما لے اور دنیا سے اچھا حصہ نہ بھول اور (لوگوں کے ساتھ) اچھا معاملہ کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ کیا ہے اور ملک میں خرابی (فساد) نہ ڈال، اللہ تعالیٰ تخریب کاروں کو پسند نہیں کرتا۔
اہلِ ثروت عموماً اربابِ اختیار کے خوشامدی نکلتے ہیں۔ اس لئے تخریب کار اربابِ اختیار کے ساتھ سرمایہ دار بھی مل جاتے ہیں، پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ملک اور قوم دونوں کے لئے آزار دہ ہوتا ہے۔ سماج دشمن عناصر کی سرپرستی کے لئے یہ سرمایہ دار لوگ ہی برے حکمرانوں کو سرمایہ مہیا کیا کرتے ہیں۔ حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم میں، نو سرغنے تھے جن کا کام فساد برپا کرنا تھا۔ یہ نو سردار حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دینی تحریک کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (48) قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ(پ۱۶۔ النمل۔ ع۴)
شہر میں نو شخص تھے جن کا کام اصلاح نہیں فساد فی الارض تھا، بولے کہ آپس میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاؤ کہ رات کو ہم ان پر اور ان کے گھر میں ضرور جا پڑیں گے اور پھر جو اس کی طرف سے مدعی ہو گا ان سے کہہ دیں گے کہ ہم نے ان کے گھر کی تباہی کا مشاہدہ نہیں کیا اور یقین کیجئے! ہم سچے ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ خود حضور کے زمانے میں حضور کے خلاف سازش کرنے والے بھی نو سردار ہی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ سرداری اور اقتدار اللہ کا فضل ہے بشرطیکہ خدا کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ہو، ورنہ یقین کیجئے! اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی فتنہ نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں یا کم از کم ان میں سے ایک کا انجام تو ضرور ہی عبرت آموز ثابت ہوتا ہے۔
دینی تحریک کے خلاف سازشیں کرنا بھی فساد فی الارض ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلے میں جادوگروں کو لاکھڑا کرنا فرعون کی ایک چال تھی اور جو لوگ اس ڈھب سے چھا جانے کے منصوبے رکھتے ہیں حق تعالیٰ ان سے 'عمل صحیح' کی توفیق بھی چھین لیتا ہے۔ اس لئے اس کے آخر میں فرمایا:
اِنَّ الله لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۸)
'اللہ تعالیٰ مفسدین کے عملوں کو نہیں سنوارتا۔'
اصل میں 'حق' کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ایک ایسا 'نظامِ تخریب' ہے۔ جس میں آسمان و زمین اور مافیہا کی خرابی اور بگاڑ مضمر ہے۔
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيهنَّ (پ۱۸۔ المومنون۔ ع۴)
اگر حق (یعنی حق تعالیٰ) ان کی خوشی اور منشاء کے تابع ہو جائے تو آسمان و زمین اور مافیہا خراب ہوجائیں۔
یہ تو یوں ہوا جیسے دو خدا، اور اس کا جو انجام ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے یعنی زمین و آسمان کی مکمل تباہی اور بگاڑ۔
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (پ۱۷۔ الانبیاء۔ ع۲)
ارباب اقتدار کا یہ دستور رہا ہے کہ عوام کو مذہب کے نام پر بھڑکاتے ہیں کہ فلاں شخص تمہارے مذہب کی روح کوکچلنا چاہتا ہے۔ پھر امنِ عامہ کے نام پر ان کے خلاف چکر چلاتے ہیں اور صلحاء اور اتقیاء کو قتل کی دھمکیاں تک دے ڈالتے ہیں۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (پ۲۴۔ المومن ع۳)
اور فرعون بولا: ہٹ جاؤ! مجھے اسے قتل کرنے دو اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے (کہ وہ اسے مجھ سے بچا لے) مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی فساد نہ برپا کر ڈالے۔
ناپ تول میں کمی بیشی کرنا، راہ مارنا، حق سے روکنا اور ٹیڑھی راہوں پر لوگوں کو ڈالنا بھی فساد فی الارض ہے۔
وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (پ۸۔ الاعراف۔ ع۱۱)
حق کو نہ ماننا اور وحی پر ایمان نہ لانا بھی ''فساد'' ہے۔
وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۴)
ان میں سے کچھ تو قرآن کا یقین کریں گے اور بعض ان میں سے اس کا یقین نہیں کریں گے۔ اور آپ کا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
وحی قرآنی پر ایمان نہ لانے کے معنی ہیں کہ وہ اپنی خواہشات، ملکی آئین، جمہوری رائے اور دوسروں کے خیالات کا اتباع کریں گے، ظاہر ہے کہ فساد کی جڑ بھی یہی بے یقینی، کمزوری اور چار سورُخ کر کے دوڑنا۔
مفسدین کا اتباع بھی ''فساد في الأرض'' کے مترادف ہے، کیونکہ اہلِ فساد جو ہنگامے، بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرتے ہیں، وہ اپنے حلقہ بگوشوں کے بل بوتے پر ہی تو کرتے ہیں اس لئے فرمایا ان کا اتباع نہ کیا کریں۔
وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (پ۹۔ اعراف۔ ع۱۷)
(حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون سے فرمایا) اور مفسدوں کی راہ پر مت چلنا۔
منکرینِ حق کی دوستی بھی فساد فی الارض کا ایک عنوان ہے۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ(پ۱۰۔ التوبۃ ع۱۰)
جو منکرین حق ہیں، وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اگر تم یوں نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ پھیلے گااور بڑی خرابی ہو گی۔ اور اس کے نتیجے میں عذاب پر عذاب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ (پ۱۴۔ النحل۔ ع۱۲)
جو اہل فساد ہیں وہ صالحین کی طرح نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دونوں کے ساتھ خدا تعالیٰ ایک جیسا معاملہ کرے گا۔
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ كالْمُفْسِدِينَ فِي الْاَرْضِ (پ۲۲۔ ص ع۲)
ظہور نتائج کے وقت منت سماجت کچھ کام نہیں آتی۔
آلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۹)
اب (کہتا ہے کہ میں مان گیا) حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں رہا۔
فساد فی الارض کے بد نتائج سے بچنے کا یہ طریقہ ہے کہ اس سے توبہ کی جائے اور فساد فی الارض کی راہ چھوڑ دی جائے۔
لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًاط اِنَّ رَحْمَةَ الله قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (پ۸۔ الاعراف۔ ع۷)
اصلاح کے بعد فساد فی الارض سے باز آجائیں اور اس کو امید و بیم میں پکارتے جائیں۔ نیکو کاروں سے اللہ کی رحمت قریب ہے۔
اس کی راہ میں جہاد کیا جائے کیونکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ روئے زمین کا بگاڑ اسی طرح دور کیا کرتا ہے۔
وَلَوْ لَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (پ۲۔ بقرہ۔ ع۳۳)
اگر ایک کو دوسرے سے دفع کرا دینا اللہ کا دستور نہ ہوتا تو زمین خراب ہو جاتی۔
امر بالمعروف کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ فساد اور مفسدوں نے جو خرابیاں پیدا کر دی ہیں اس کے ذریعے ان کو دور کیا جائے۔
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ (پ۱۲۔ ھود۔ ع۱۰)
سو کیوں نہ ہوئے، ان جماعتوں میں، جو تم سے پہلے تھیں ایسے لوگ جن میں خیر کا اثر رہا ہو کہ منع کرتے رہتے فساد فی الارض سے مگر تھوڑے کہ جن کو ان میں سے ہم نے بچا لیا۔
قاتل کا سر قلم کر دیا گیا۔ اسلامی قانون کی برکات
شاہ فیصل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قاتل کا سر قلم کر دیا گیا۔ یہ شہزادہ ایک عام مجرم کی طرح لایا گیا اور باقاعدہ اس کی تشہیر کی گئی۔ چنانچہ ہزاروں نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھا۔ یہ مخمصہ سعودی حکومت کے لئے ایک آزمائش بن گیا تھا اور اسلامی قانونِ عدل کے سلسلے میں ایک کسوٹی، جو بحمد اللہ خیر و خوبی سے گزر گیا۔
قاتل دراصل اسلام کی راہ روکنا چاہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شاہ فیصل کے بعد سعودی عرب میں شاید اسلام کا چراغ بجھ جائے گا۔ لیکن جاتے ہوئے اس نے دیکھ لیا کہ سعودی عرب میں اسلام اب بھی ایک غالب طاقت کی حیثیت میں ہے۔ اس سے بڑھ کر ورزنی ثبوت اس کا اور کیا ہو سکتا ہے کہ: مملکت کے اسلامی قانون نے ایوانِ شاہی میں بھی پہنچ کر اپنی حکمرانی کا اٹل ثبوت مہیا کر دیا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس کا سر کیسے قلم ہوتا؟
ایسے ہزاروں قاتل شاہ فیصل کے المیہ پر قربان کر دیئے جائیں، تو بھی شاہ فیصل کے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکے گی۔ شاہِ فیصل، صرف عالمِ عرب کی جان نہیں تھے پورے عالمِ اسلام کی روح اور جان تھے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
جب شاہ فیصل شہید کئے گئے اور پولیس کی تفتیش کا سلسلہ دراز ہو گیا تو چہ میگوئیاں ہونا شروع ہو گئی تھیں کہ گھر کی بات ہے اور گھر کا مجرم ہے۔ اس لئے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے ہیں، اسے پھانسی دینا مشکل ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب اس کا سر قلم ہوا تو دنیا ششدر رہ گئی کہ، سعودی عرب میں اسلامی قانون کی حکمرانی ابھی قائم ہے۔
شاہ فیصل تو ایک عظیم انسان تھے، اسلام ا قانونِ عدل تو کتے کے پینے والے پیالے کے نقصان تک کا تاوان بھی دلواتا ہے۔ حضرت خالد کو قبیلہ بنی جذیمہ میں تبلیغ کے لئے تعینات کیا گیا تو ان سے کچھ لغزشیں ہو گئیں۔ حجور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تلافی کے لئے ضرت علی کو بھیجا اور فرمایا کہ جا کر ان کا نقصان پورا کرو۔ چنانچہ انہوں نے سب کا خونبہا ادا کیا یہاں تک کہ کتے کے پینے والے پیالے کا بھی تاوان ادا کیا۔ حتّٰی میلغۃ الکلاب (سیرت جلببہ ص ۲۲۳ /ج۳) آپ اپنی جان تک لوگوں کے پیش کیا کرتے تھے کہ یہاں بدلہ لے لو۔ جس اسلام میں یہ احتیاط اور جان آفرینی ہو، اس کی برکات سے کسبِ فیض نہ کرنا بڑی محرومی ہے۔
متحدہ جمہوری محاذ کا ملک گیر کنونشن
متحدہ جمہوری محاذ کے زیرِ اہتمام کل پاکستان قومی کنونشن ۱۴؍ اور ۱۵؍ جون کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اس کنونشن میں چاروں صوبوں کے ہزاروں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔ اس میں متعدد پروگرام مرتب کئے گئے اور کئی ایک قرار دادیں پاس ہوئیں! مختلف جماعتوں اور مختلف صوبوں سے آئے ہوئے سیاسی رہنماؤں نے جو تقریریں کیں، ان میں خدشات، شکایات اور اربابِ اقتدار کی کجروی کا اظہار تھا اور قومی کنونشن سے واضح اور ٹھوس لائحہ عمل کے مطالبے تھے۔
کشمیر کے سلسلے میں بالخصوص معنی خیز تبصرے اور انکشاف کئے گئے اور سردار عبد القیوم کی جبری علیحدگی پر خاص طور پر حکومت کی نکتہ چینی کی گئی۔
اس کنونشن میں ایک مقرر نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ لوگ پوچھتے ہیں، بھٹو کے بعد کون؟ اس لئے کنونشن کو عبوری کابینہ کا اعلان بھی کرنا چاہئے، اس سے عوام میں اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور یہ بھی بتایا جا سکے گا کہ متحدہ محاذ کے پاس متبادل قیادت موجود ہے۔ الغرض ہر مقرر نے دل کھول کر اپنا ما فی الضمیر پیش کیا۔
اس کنونشن میں خاص جوش اور گرمی تھی اور انتہائی اعتماد پایا جاتا تھا۔ اس کنونشن کا یہ پہلو بالخصوص جاذب تھا کہ، مختلف نظریات و افکار کی حامل جماعتیں اور افراد یکجا جمع تھے۔ اور اس یک جہتی کی چاشنی سے سب شاد کام نظر آتے تھے۔ ہمارے نزدیک اپوزیشن کی کامیابی کے لئے اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے اور یہ ایک نیک شگون ہے۔ بہتر ہے کہ یہ جماعتیں اسی سیاسی مفاہمت کو ملی وحدت میں تبدیل کر دیں کیونکہ سب کے سامنے ملک و ملت اور دین کی خدمت ہے۔
متحدہ جمہوری محاذ کو اس قومی کنونشن کے کامیاب انعقاد پر ہم ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و ملت اور دین برحق کی صحیح خدمت کر پائیں۔