ترے آگے کسی کی فردِ عصیاں کون دیکھے گا
جگر شق، زرد چہرہ، چاک داماں کون د یکھے گا پریشاں ہوں مرا حالِ پریشاں کون دیکھے گا
جہاں پڑتی نہیں نظریں کسی کی آتشِ گُل پر وہاں اے دل ترا یہ سوز پنہاں کون دیکھے گا
اگر وہ نور برساتے ہوئے محفل میں آجائیں تری صورت پھر اے شمعِ فروزاں کون دیکھے گا
کلی افسردہ، غنچے دم بخود اور پھول یژ مردہ یہ صورت ہے تو پھر شکلِ گلستاں کون دیکھے گا
تمہاری تیغ کے کُشتے تڑپتے ہیں مزاروں میں یہ نظارہِ سرِ گورِ غریباں کون دیکھے گا
غنیمت ہیں یہ دو دن زندگی کے آؤ مل بیٹھیں بچھڑنے پر یہ پھر رنگ بہاراں کوئی دیکھے گا
اگر جاں جارہی ہے شوق سے سو مرتبہ جائے ترا جانا مگر اے جانِ جاناں کون دیکھے گا
قیامت پر مرا ایمان مگر اے داورِ محشر ترے آگے کسی کی فردِ عصیاں کون دیکھے گا
تو اس دار العمل سے گر تہی دامن چلا عاجزؔ
تری جانب پھر اے بے ساز و ساماں کون دیکھے گا