اپریل 1975ء

غلام یحییٰ بہاری

مظہر جان جاناں کے ایک مرید

مظہر جانجاناں کے حلقۂ ارادت میں دو شخصیات ایسی تھیں جو علم و فضل کے اعتبار سے اپنے دور میں یگانہ تھیں۔ ایک تو ''تفسیر مظہری'' کے مؤلّف مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م ) تھے اور دوسرے عظیم منطقی مولوی غلام یحیٰ بہاری۔

مولوی غلام یحییٰ ضلع پٹنہ کے ایک گاؤں اکیڑ میں پیدا ہوئے۔ موضع اکیڑ بہار سے آٹھ کوس کے فاصلہ پر پٹنہ اور بہار کے درمیان واقع ہے۔ ان کے والد کا نام نجم الدین تھا۔

تحصیلِ علم کی غرض سے سندیلہ (ضلع ہردوئی) گئے۔ مدرسہ منصوریہ میں مولوی باب اللہ جونپوری (م ) کے سامنے زانوے تلمّذ کیا ۔ مولوی باب اللہ کی مجلسِ علم میں انہیں کئی دوسرے اہلِ علم سے ملنے اور استفادہ کرنے کا موقع ملا۔

تعلیم وتدریس کے بعد تصوف کی چاٹ لگی تو شیخ بدر عالم کے مرید ہو گئے۔ بعد ازاں دہلی گئے اور مظہر جانجاں کے حلقۂ ارادت سے منسلک ہو گئے۔ مولوی محمد حسین آزاد لکھتے ہیں۔

''مولوی غلام یحییٰ فاضلِ جلیل۔ بہ ہدایت غیبی مرزا صاحب کے مرید ہونے کو دلی میں آئے۔ ان کی داڑھی بہت بڑی اور گھنی تھی۔ جمعہ کے دن جامع مسجد میں ملے اور ارادہ ظاہر کیا۔ مرزا نے ان کی صورت کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اگر مجھ سے آپ بیعت کیا چاہتے ہیں تو پہلے داڑھی ترشوا کر صورت بھلے آدمیوں کی بنائیے پھر تشریف لائیے۔ ''اللہ جمیلٌ ویحب الجمال'' بھلا یہ ریچھ کی صورت مجھ کو اچھی معلوم نہیں ہوتی تو خدا کو کب پسند آئے گی۔ مُلّا متشرع آدمی تھے۔ گھر میں بیٹھ رہے۔ تین دن تک برابر خواب میں دیکھا کہ بغیر مرزا کے تمہارا عقدۂ دل نہ کھلے ا۔ آخر بے چارے نے داڑھی حجام کے سپرد کی اور جیسا خشخاشی خط مرزا صاحب کا تھا ویسا ہی رکھ کر مریدوں میں داخل ہو گئے۔ ''

محمد حسین آزاد نے اُردو شعراء کا تذکرہ ''آبِ حیات'' لکھتے ہوئے تحریری مواد کے علاوہ سنی سنائی باتوں سے رنگ و روغن فراہم کیا ہے۔ ''آب حیات'' میں ایسی بے شمار سنی سنائی باتیں موجود ہیں جس میں سے ایک یہ ہے۔

پانچ سال دہلی میں قیام کیا پھر لکھنؤ تشریف لے گئے اور مرتے وقت تک وہیں رہے۔

وفات:

مولوی رحمان علی مؤلف تذکرہ علمائے ہند نے سن وفات ۱۱۲۸؁ھ / ۱۶-۱۷۱۷؁ء لکھی ہے۔ ''نزہت الخواطر'' میں ماہ ذی قعدہ ۱۱۸۰؁ھ / ۱۷۶۶-۶۷؁ء بتائی گئی ہے ۔ مگر یہ دونوں روایت غلط ہیں۔

مولوی غلام یحییٰ، مرزا مظہر جانجاناں کے مرید تھے۔ مظہر جانجاناں ۱؁ میں پیدا ہوئے۔

۱۱۲۸؁ھ مولوی غلام یحیٰ کی سنِ وفات نہیں ہو سکتی کہ سترہ سال کی عمر میں مظہر جانجاناں ایسے بلند و مرتبہ مرشد نہیں ہو سکتے تھے۔ انہوں نے مولوی موصوف کے ایک رسالہ پر تقریظ بھی لکھی ہے جو سترہ سال یا اس سے کم عمر میں ممکن نہیں۔

مظہر جانجاناں نے ان کا سانحۂ ارتحال لکھا ہے اور سالِ وفات ۱۱۸۶؁ھ بتایا ہے ۔

تالیفات:

مولوی غلام یحییٰ سے مندرجہ ذیل کتابیں یاد گار ہیں۔

1. حاشیہ رسالہ میر زاہد۔ کتاب کا نام ''لواء الھدیٰ فی اللیل والدجٰی'' ہے۔

2. حاشیہ شرح مسلم۔

3. کلمۃ الحق۔

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے بیان کے مطابق مولوی موصوف نے یہ رسالہ مظہر جانجاناں کے ایما پر شاہ ولی اللہ (م ۱۱۷۶؁ھ) کی تردید میں لکھا تھا۔ جس کا جواب شاہ رفیع الدین (م ۱۲۳۳؁ھ) نے ''دمخ الباطل'' کے نام سے لکھا ہے ۔

مزار:

''تذکرہ'' کے بیان کے مطابق بہار میں شیخ شرف الدین کے احاطۂ درگاہ میں مدفون ہیں۔ مگر ''نزہت الخواطر'' کے اندراج کی رُو سے لکھنؤ میں احاطہ شیخ پیر محمد میں مدفون ہیں۔ آخر الذکربیان درست ہے۔

تذکرہ علمائے ہند ص ۳۷۱

تذکرہ ص ۳۷۱

نزہت الخواطر ص ۲۱۶ ج ۶

کلمات طیبات ص ۷۰ بحوالہ حیاتِ شبلی ص ۲۲ مقدمہ

حضرت مجدد کا نظریۂ توحید ص ۱۲۸