سورۃ البقرہ

(قسط 12)

﴿قالوا أَتَجعَلُ فيها مَن يُفسِدُ فيها وَيَسفِكُ الدِّماءَ وَنَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ...٣٠﴾...سورة البقرة
(تو فرشتے) بولے کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو (خلیفہ) بناتے ہیں جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور (بناتے ہیں تو ہم کو بنائیں کہ) ہم تیری حمد و (ثناء) کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔

أَتَجعَلُ (کیا آپ بناتے ہیں، کیا بنانے لگے ہیں) جَعَلَ چار معنوں میں مستعمل ہے (۱) بمعنی طَفِیْ (شروع کرنے لگے ہین) (۲) اَوْجد (پیدا کیا)یہاں پر یہ دونوں معنی صحیح ہیں (۳) ایک چیز کو دوسری شے سے بنانا (۴) تصییر (کسی شے کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا)

اللہ نے فرشتوں سے بات کی تی کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں، فرشتوں سے مشورہ نہیں تھا، بلکہ روئے زمین پر انقلابِ قیادت کا ایک شاہی اعلان تھا۔ نیابت کے اس تصوّر کے معنی ؎ ''بعد از خدا بزرگ توئی'' کے تھے ، ظاہر ہے یہ وہ مقامِ قرب ہے، جس پر پہلے ملائکہ فائز تھے، اس لئے اگر اس پر ملائکہ کو حیرت ہوئی یا رشک؟ تو یہ ایک قدرتی بات تھی، ملائکہ معصوم عن الخطاء تو ضرور ہیں لیکن پتھرنہیں ہیں کہ ان کے اپنے کچھ احساسات نہ ہوں، ان کو اس اعلان پر جو تشویش ہوئی، وہ ہونی چاہئے تھی۔ اور بالکل یوں جیسے اپنے حبیب کے سلسلے میں ایک دیوانہ کو ہو سکتی ہے، گو وہ چاہتا ہے کہ سب ہی اسے چاہیں لیکن حبیب تک پہنچنے کا واسطہ بھی وہی رہیں؟ ظاہر ہے ہزار عالی ظرفی کے باوجود ایک دیوانہ کے لئے یہ ایثار گوارا نہیں ہوتا۔ ہاں اگر اسے حبیب کا اشارہ ہو جائے کہ ہمیں یہی پسند ہے تو پھر اسے اس پر بھی ''معراج وصال'' محسوس ہونے لگ جاتی ہے (فسجدوا) بس اس قصے میں بھی یہی معنوی اقدار کار فرما ہیں۔ ملائکہ کا خدا سے ''ابنِ آدم'' کی سرشت اور اپنی فطرت کا موازنہ پیش کرنا، دراصل اپنے قدرتی استحقاق اور مقامِ قرب و وصال کے سلسلے میں اپنی حسرت کا اظہار تھا۔ ہمارے نزدیک یہ بے چینی ''خطاء'' نہیں، عین عبادت ہے۔ کیونکہ یہ سبھی کچھ اسے ہی چاہنے کے لئے تو ہے۔ ان کو فکر ہے تو یہ کہ محبوبِ برحق کے پاس پہلے ہم تھے اب وہ ہوں گے۔ بہرحال یہ فکر اور احساس مطلوب بھی اور محمود بھی۔ اس لئے یہ بھی ایک گونہ عبادت کہلائی۔

ملائکہ نے اللہ تعالیٰ سے بطور استعجاب کے کہا کہ: جسے نیابت پر فائز کیا جا رہا ہے، وہ تو بہت ہی خود غرض ہو گا، اس لئے فساد فی الارض اور خونریزی بھی ہو گی، دراصل فرشتے یہ اعتراض نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے جذبات کا اظہار فرما رہے ہیں کہ تیرے مقامِ قدس میں ان کی یہ شوخی سوء ادبی محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ ملائکہ پر ہر معصیت سے انقلابی کیفیت طاری ہوتی ہے، یہاں بھی ہوئی۔

دراصل یہ بات ان کی صالح فطرت اور پاکیزہ سرشت کی غماز ہے۔ بغض باطن کی بات نہیں۔ بغض اور انقباض کی بھی جو کیفیت ہے وہ بھی الحب للہ والبغض للہ کی آئینہ دار ہے، اغراض سیئہ کی پیداوار نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نفسیات مبارک ہوتی ہیں اور ترقیٔ درجات کی موجب بھی۔

ملائکہ کا کہنا ہے کہ تیری پاک جناب میں پاک بندوں کی حاضری سجتی ہے، یہ بات بالکل بجا ہے اور عشاقِ برحق کے احساسات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے حبیب کے سلسلے میں انہی آداب کا التزام رکھیں اور انہیں کیفیات کے متمنّی رہیں۔ اس لئے انہوں نے خدا سے درخواست کی کہ الٰہی! انہی آداب کے ساتھ تو صرف ہم ہی آپ کے حضور حاضر ہرتے ہیں ان کو ہمارے بجائے آخر کس لئے برداشت کیا جا رہا ہے؟ الٰہی! تیرے حضور وہ یونہی رہیں؟ ہم با ادب خدام سے یہ بات نہیں دیکھی جا سکتی، خدایا! تیرے لئے، اور صرف تیری ہی خاطر ہماری جان پر بن جاتی ہے۔

حق تعالیٰ نے فرشتوں کے اندیشوں کو رد نہیں کیا، لیکن اس پر جو بات انہوں نے متفرع کی یا اس پر جو نتیجہ مرتب کیا اس کے متعلق وضاحت فرمائی کہ، اس کے باوجود اس کی تخلیق میں جو حکمت ملحوظ ہے، وہ آپ کے سامنے نہیں ہے (إني أعلم ما لا تعلمون)

یعنی ارض و سما میں پہلے جو نظام قائم تھا، وہ سرتاپا 'تکوینی' تھا، تشریعی نہیں تھا، پھول تھے، کانٹے نہیں تھے، سفر تھا اختتام نہیں تھا، کام تھا، انجام نہیں تھا، عرفان تھا، امتحان نہیں تھا، قدرت تھی، اختیار نہیں تھا۔ اتباع تھی، تخلیق نہیں تھی۔ کسی کی سوچ پر زندگی رقصاں تھی، اپنی سوچ کا دخل نہیں تھا، سوچ کی صلاحیت تھی تو خود مختار نہیں تھی، عبدیت تھی، حریتِ فکر سے آراستہ نہیں تھی، عقدے تھے، عقدہ کشائی کا جنون نہیں تھا، تقلید تھی، نفوذ سے نگاہ خالی تھی، سراپا تسلیم خو کی دنیا آباد تھی، لیکن احساس و جذبات کی زبان سے بے خبر تھی، خاکے تھے، ان میں رنگ بھرنے والا کوئی نہیں تھا، بوئے دلآویز کی لپیٹیں موجود تھیں، قوت شامہ مفقود تھی، نگہ نواز رنگ سے دنیا بستی تھی، پر نگاہ ہی سرے سے معدوم تھی، نجد کی وادی تو تھی، کوئی دیوانہ نہ تھا، محمل تو تھا، لیلیٰ نہیں تھی، باغ تھا پر مالی نہیں تھا، دِل تو تھا مگر ولولہ نہیں تھا، دماغ تھا مگر پرواز نہ تھی۔ الغرض

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

پھول تھا زیبِ چمن ، پر نہ پریشاں تھی شمیم

کا سماں طاری تھا۔ ان حالات میں خدا نے چاہا کہ ابنِ آدم کو پیدا کر کے کار زارِ حیات کو گرما دیا جائے، باقی رہا یہ کہ ان میں عباد الرحمٰن کے ساتھ ساتھ، نفس و طاغوت کے غلام بھی ہوں گے، تو ہوتے رہیں، کسی کے بنائے جو خدا بنا ہواسے تو فکر ہو سکتی ہے کہ، بے وفاؤں کی کثرت ہو گئی تو تختِ اقتدار کا کیا بنے گا، لیکن جو ذاتِ کریم اپنی سب حیثیتوں میں ان سب سے بے پروا اور بے نیاز ہے، اس کو ان بے وفاؤں کی کیا فکر؟ اپوزیشن کی آواز سے وہ ڈرتا اور دیتا ہے جو کوئی 'غرض' رکھتا ہے یا جس کی ہستی کا مدار کسی کے مٹانے اور بنانے پر موقوف ہوتا ہے۔ خدا تو ان سے بالاتر ہے۔ بہرحال انسان کے بغیر زمین اور کسی کے مصرف کی چیز نہیں تھی، اور فرشتوں کے تمام اندیشوں کے باوجود اسے لا بسایا اور آکر وہ بس گئے اور یوں بسے کہ اب اگر انہیں کوئی وہاں سے دھکیلے یا اس کا ان کو اندیشہ لاحق ہو جائے تو گلے پڑ جاتے ہیں۔ دفاع کی حد تک تو مزاحمت مبارک ہے جس کا نہایت معصومانہ طریقے سے فرشتوں نے بھی مظاہرہ کیا۔ اس لئے اگر یہ بات ''عدم استحقاق'' کی بات ٹھہرتی تو بات خود فرشتوں کے لئے بھی حسبِ منشا نہ رہتی۔

یہاں پر خدا کی نگاہ کم کے بجائے کیف پر ہے۔ بے روح محض عددی کثرت کا خدا کے ہاں کوئی وزن نہیں، اس کی نگاہ اس دل پر رہتی ہے جو ''خدا شناس' ہوتا ہے۔ نمردوں سے بھرے بابل میں اگر ایک ہی 'حنیف' نمودار ہو گیا ہے تو تخلیقِ آدم میں جو حکمت ملحوظ تھی، خدا کے نزدیک اب اس کا بھی حق ادا ہو گیا۔ خدا کے ہاں گننے کی بات نہیں، تولنے کی ہے۔ بھاری بھر کم پہاڑوں کی تہوں میں جو ایک لعل نہاں ہے، وہ سارے پہاڑ پر بھاری ہے۔ اس لئے خیر و شر کی اس رزمگاہ میں تحریص و ترغیب کے پہاڑوں کو پھینک کر جو شخص صرف خدا یابی کے لئے کوہ کنی کرتا ہے، خدا کے ہاں وہ فرہاد جو راہِ حق میں کوہ کنی میں مصروف ہے ان معصوم فرشتوں سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی خارجی یا داخلی مزاحمت کے بغیر تکوینی طور پر اس کے حضور اس کے غلام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا چاہتے ہیں کہ یہ زمین آباد رہے، سو وہ نیک ہوں یا بد، بہرحال اپنی ضرورت کو اسے تو وہ ہر حال میں آباد رکھیں گے ہی۔ باقی رہی تعمیر کے ساتھ ساتھ 'تخریب'؟ تو تعمیر کا یہ قدرتی داعیہ ہوتا ہے جو حکمت کے منافی امر نہیں ہے بشرطیکہ تخریب سے کسی کی تخریب منظور نہ ہو بلکہ تخریب میں تعمیر ملحوظ ہو، اگر اس کے بجائے کسی کی تخریب کا جذبہ ہی کروٹ لے اور وہ پھر اسے خدا کی رضا کے لئے چھوڑ دے تو یہ بجائے خود نیکی بن جاتی ہے۔

مفسرین عظام رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس پر خاصی روشنی ڈالی ہے، کہ فرشتوں کو یہ کیسے محسوس ہوا کہ یہ انسان فساد فی الارض کا مرتکب ہو گا؟ ہمارے نزدیک صحیح تو یہ ہے کہ، ملائکہ صاحبِ اجتہاد بھی ہیں، گو حکم کے تابع ہیں مگر مشینی پرزے والی کیفیت نہیں ہے کہ ان کو اس کا شعور بھی نہ ہو۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ بات کیا تھی، جس پر انہوں نے غور کر کے نتیجہ نکالا؟ ہم کہتے ہیں یہ بھی خدا جانے، کیونکہ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جو باتیں بیان کی جاتی ہیں، وہ بزرگوں کے قیاس ہیں، جن سے پرہیز اولیٰ ہے، ورنہ غیر مختتم سوالات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

نُسَبِّحُ (تسبیح کرتے ہیں) وَنُقَدِّسُ (ہم تقدیس کرتے ہیں) دونوں میں فرق ہے، تسبیح یہ ہے کہ عیوب اور نقائص سے منزہ اور پاک قرار دیا جائے، زبان سے بھی اور دل سے بھی۔ تقدیس یہ ہے کہ اسے تمام محاسن اور خوبیوں کی جامع ذات والا صفات تصوّر کیا جائے۔

ملائکہ کے لئے تو یہ عین ممکن ہے کیونکہ ان کو قرب حضور حاصل ہے، وہ ان تمام حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں، جس کے بعد بے ساختہ زبان سے صدا بلند ہوتی ہے کہ الٰہی! تو ہر عیب اور نقص سے پاک اور تمام خوبیوں کا مالک ہے۔ ملائکہ حقائق کے بڑے جوہری ہیں، اس لئے ان مشاہدات کے بعد سبحان الملک القدوس (مثلاً) کی زبان میں جو داد دیتے ہیں، قابلِ غور ہوتی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کی اس 'عبدیت اور تحسین' کے دعوے کو غلط نہیں کیا بلکہ تسلیم کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی اونچے مقام پر فائز ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑے جوہری ہیں اور اس باب میں اس کو درجۂ استناد حاصل ہے لیکن خدا کے ہاں قرب و وصال کے لئے یہ سب سے آخری درجہ نہیں ہے بلکہ اس وقت یہ ثانوی درجہ رہ جاتا ہے جب کوئی شخص عالم ملکوت کی سیر اور انوار و تجلیات کے مشاہدہ کے بغیر محض ''ماحضر'' (اس کارخانۂ ہستی میں جو کچھ ان کے سامنے ہے) کے مشاہدہ اور اپنی ذات کے مطالعہ سے زبان اور دل سے خدا کی تسبیح و تدیس کے راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہاں عدم رسائی کے علاوہ مخالف تحریص و ترغیب کے دواعی کی مزاحمت بھی موجود ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہ وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں مشاہدہ کے بعد اور پھر کسی مزاحمت کے بغیر ملائکہ کرام پہنچ پاتے ہیں۔

قلب و نگاہ کے اذعان، طمانیت اور ہمنوائی کے بغیر تسبیح و تقدیس کے زمزمے ہو سکتا ہے کہ ایک صالح مشق اور مبارک ریہرسل ثابت ہوں اور آگے چل کر وہ واقعۃً تسبیح خواں بھی بن جائے۔ بہرحال بہ حالات موجودہ وہ ''بے روح'' ہی تصور کیے جائیں گے، اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ''مومن حقیقت پسند اور باذوق'' ہستی کا نام ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں ہے تو وہ کامل مومن نہیں ہے۔

ہمارے نزدیک دورِ جدید کے ثقافتی وار ادیب جو مہم ہے ہیں وہ ''بندۂ مومن' کے اِسی مبارک ذوق کو فنا کرنے کے لئے ایک سازش ہے۔ یہ لوگ اس ذوق کی آبیاری میں مصروف ہیں جو بہیمیت اور نفس و طاغوت کے لئے عیش کے دستر خوان بچھاتا ہے لیکن اس ذوق کی راہ مارتے ہیں جو انفس و آفاق کے مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد انسان کو خدا جوئی کے لئے یکسر گرم اور حنیف بنا سکتا ہے۔

تسبیح و تقدیس دراصل اسلامی ادب اور ثقافت کا منتہاء ہے، جس سے خدایابی کے لئے پاس تیز تر ہوتی ہے اور رعنائیوں کے مشاہدہ سے سفلی جذبات میں تحریک پیدا ہونے کے بجائے حسن و خوبیوں، دلآویزیوں اور تمام رعنائیوں کے خالق کی طرف دل لپکنے لگتا ہے اور زبان سے اس کی تسبیح و تقدیس کے بے ساختہ زمزمے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

کاش! عالمِ اسلام اس نظامِ ثقافت پر نظر ثانی کر سکے جو فنونِ لطیفہ اور ثقافت کے نام پر ان کے ہاں پروان چڑھ رہا ہے اور ان کی فتنہ سامانی اور سنگینی کا ابھی سے احساس کرے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ کل رنگ و بو نواز تو مل جائیں لیکن خدا شناس نگاہ کا قحط پڑ جائے گا جیسا کہ حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ تسبیح خواں جوہری اُٹھتے جا رہے ہیں اور لذتیت پر جان چھڑکنے والے جانور بڑھتے جا رہے ہیں۔ بہرحال کل خدا کے ہاں اس کی باز پرس اس 'قیادت' سے بھی ہو گی جو عالمِ اسلام میں اب برپا ہے اور ان فتنوں کی فتنہ سامانیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے یا ان کی سنگینی کے احساس سے محروم اور غافل ہے۔