مسلمان کی نامسلمانی

مطلب کا دین۔۔۔۔ مطلب کا عمل

بایں کجروی، خوش فہمی کا روگ الگ


دینِ اسلام جزوقتی حاضری کا نام نہیں نہ نیم عملی لائحۂ عمل کا یہ کوئی چارٹر ہے بلکہ یہ ایک ہمہ وقتی ذہنی کیفیت اور یک رنگ عملی اسلوبِ حیات کا نام ہے۔

﴿وَقالَ إِنّى ذاهِبٌ إِلىٰ رَ‌بّى سَيَهدينِ ٩٩﴾... سورة الصافات

کا سماں مومن پر ہر آن اور ہر مکان میں طاری رہتا ہے۔ قرآن نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے۔

﴿وَمَن أَحسَنُ دينًا مِمَّن أَسلَمَ وَجهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبرٰ‌هيمَ حَنيفًا...١٢٥﴾...سورة النساء
اس شخص سے کس کا دین بہتر ہو سکتا ہے جس نے پورا پورا اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کر دیا اور پورے حضورِ قلب کے ساتھ ایسا کرتا ہے اور وہ حضرات ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرتا ہے کہ وہ سب سے منہ موڑ کر صرف ایک (خدا) کے ہو رہے تھے۔

﴿وَاذكُرِ‌ اسمَ رَ‌بِّكَ وَتَبَتَّل إِلَيهِ تَبتيلًا ﴿٨﴾...سورة المزمل
اور اپنے رب کا نام لیتے رہو اور سب طرف سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔

حدیث شریف میں اس کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے اور پھر خود ہی بتایا کہ احسان کسے کہتے ہیں؟

اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ فَاِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّه يَرَاكَ (بخاری و مسلم)

خدا کی غلامی اور عبادت یوں کیجئے جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہیں (یعنی پورے حضورِ قلب کے ساتھ) اگر یہ کیفیت آپ کے لئے ممکن نہ ہو تو یوں تصوّر کیجئے کہ وہ تو آپ کو دیکھ رہا ہے۔

حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ رب کی معیت کا احساس قائم اور غالب رہے اور یہ استخصار کسی بھی وقت دل سے غائب نہ ہونے پائے۔ ؎

نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سے

تیرے ذکر سے تیری فکر سے، تیری یاد سے تیرے نام سے

جب خدا کی معیت اور اپنی عبدیت کا احساس قلب و نگاہ پر یوں چھا جاتا ہے، اس وقت مصافِ زندگی میں جنودِ ابلیس تو کجا اگر خود ابلیس بھی آجائے تو منہ کی کھاتا ہے:

﴿إِنَّهُ لَيسَ لَهُ سُلطـٰنٌ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَلىٰ رَ‌بِّهِم يَتَوَكَّلونَ ﴿٩٩﴾...سورة النحل
جو مومن ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، ان پر شیطان کا کچھ قابو نہیں (چلتا)۔

کیونکہ اس کا شکار تو صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ یارانہ رکھتے ہیں اور خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔
﴿إانَّما سُلطـٰنُهُ عَلَى الَّذينَ يَتَوَلَّونَهُ وَالَّذينَ هُم بِهِ مُشرِ‌كونَ ﴿١٠٠﴾...سورة النحل
یہ ان لوگوں کی بات نہیں جو بشری کمزوری کی بناء پر پھسل پڑتے ہیں اور پھر ہوش آتے ہی خدا کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ بلکہ یہ ان نادان دلیروں کا قصہ ہے جو جانتے ہیں کہ رخ غلط سمت کو ہو گیا ہے جو بہرحال انہیں منزل سے کہیں دُور لے جا کر پھینکے گا مگر اس احساس اور شعور کے باوجود وہ اِسی غلط رخ پر سفر جاری رکھتے ہیں۔ یہ روش اور اندازِ حیات ایک غیر مسلم اور حق کے منکروں کے سلسلے میں بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ اسلوبِ زندگی صرف انہی بد نصیبوں کی بات تھی کیونکہ جو مسلم تھا وہ اس سے بالکل پاک تھا، دُور تھا اور محفوظ تھا۔ مگر آہ! وہی مسلم آج انہیں منکرینِ حق کی طرح دو کشتیوں پر سوار نظر آتا ہے اور زندگی کے اس بحرِ بے کنار میں کوشاں ہے کہ اس دو عملی کے ذریعے کسی طرح اسے ساحلِ مراد ہاتھ آجائے۔ اور گردابِ حیات سے یوں نکل جاؤں کہ خدا بھی راضی رہے اور شیطان بھی ناراض نہ جائے۔

دراصل یہ دین، دینِ محمدی نہیں، مطلب کا دین اور مطلب کی مسلمانی ہے، دنیا کے جن پہلوؤں میں اپنا مادی بھلا محسوس کرتا ہے اس میں تو وہ کسی طرح پیچھے نہیں رہتا، لیکن جہاں ''وعدۂ فردا'' یا محض رضائے الٰہی کی بات ہوتی ہے تو وہاں وہ کترا کر کھسک جاتا ہے۔

حق تعالیٰ مسلمان کی اس نامسلمانی کا یوں گلہ کرتے ہیں:

﴿وَيَقولونَ ءامَنّا بِاللَّـهِ وَبِالرَّ‌سولِ وَأَطَعنا ثُمَّ يَتَوَلّىٰ فَر‌يقٌ مِنهُم مِن بَعدِ ذٰلِكَ...٤٧﴾...سورة النور
اور کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لے آئے اور (خدا رسول کا) حکم مانا۔ پھر اس کے بعد ان میں کا ایک گروہ رو گردانی کرتا ہے۔

فرمایا: ایسے لوگ سو بار مسلمان کہلائیں، اصل میں مسلمان نہیں ہیں۔

﴿وَما أُولـٰئِكَ بِالمُؤمِنينَ ﴿٤٧﴾...سورة النور
کیوں؟ وجہ؟ فرمایا: یہ لوگ خدا سے مطلب کا معاملہ کرتے ہیں، ایمان کا نہیں کرتے۔

﴿وَإِذا دُعوا إِلَى اللَّـهِ وَرَ‌سولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم إِذا فَر‌يقٌ مِنهُم مُعرِ‌ضونَ ﴿٤٨﴾...سورة النور
اور جب ان کو خدا اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں تو بس ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے۔ اگر ڈگری ان کے حق میں ہو تو (پھر) کان دبائے رسول کی طرف دوڑے (چلے) آتے ہیں۔

سورت حج میں اس شکوے کا یوں اظہار فرمایا کہ: ایک طرف ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے، اگر بات مطلب کی آگئی تو پکا مسلمان ورنہ تو کون میں کون؟

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَعبُدُ اللَّـهَ عَلىٰ حَر‌فٍ ۖ فَإِن أَصابَهُ خَيرٌ‌ اطمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِن أَصابَتهُ فِتنَةٌ انقَلَبَ عَلىٰ وَجهِهِ خَسِرَ‌ الدُّنيا وَالـٔاخِرَ‌ةَ...١١﴾...سورة الحج
اور لوگوں میں کوئی کوئی ایسا بھی ہے جو خدا کی عبادت اور غلامی بجا لاتا ہے (مگر) ایک طرف کھڑے ہو کر، اگر اس کو کچھ فائدہ پہنچ گیا تو اس کا دل ٹھنڈا ہو گیا، اگر آزمائش والی کوئی مصیبت آپڑی تو جدھر سے آیا تھا ادھر ہی کو الٹا لوٹ گیا۔

راہِ حق میں لینے کے بجائے دینا پڑ گیا یا سکھ کے بجائے دکھ آگیا تو ان کو رونا پڑ جاتا ہے، اگر حق کا یہ کارواں کامیاب رہا تو آگے بڑھ بڑھ کر دکھاتے ہیں کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ تھے۔

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَقولُ ءامَنّا بِاللَّـهِ فَإِذا أوذِىَ فِى اللَّـهِ جَعَلَ فِتنَةَ النّاسِ كَعَذابِ اللَّـهِ وَلَئِن جاءَ نَصرٌ‌ مِن رَ‌بِّكَ لَيَقولُنَّ إِنّا كُنّا مَعَكُم...١٠﴾...سورة العنكبوت
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو (منہ سے تو) کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، پھر جب ان کو (راہِ خدا میں) کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذا دہی کو عذابِ خدا کی طرح (ناقابل برداشت مصیبت بنا لیتے ہیں) اور اگر تمہارے رب کی طرف سے مدد آپہنچے تو کہنے لگ جاتے ہیں ہم بھی تو تمہارے ساتھ تھے۔

فرمایا: اگر ان پر فضل و کرم کی جل تھل کر دیتے ہیں تو پھولے نہیں سماتے، اگر اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ان پر کوئی افتادہ آپڑے تو دل توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

﴿وَإِذا أَذَقنَا النّاسَ رَ‌حمَةً فَرِ‌حوا بِها ۖ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ بِما قَدَّمَت أَيديهِم إِذا هُم يَقنَطونَ ﴿٣٦﴾...سورة الروم
اور جب ہم لوگوں کو (اپنی) رحمت (کا مزہ) چکھا دیتے ہیں تو وہ جھوم جاتے ہیں اور اگر ان کے اپنے کرتوتوں کی بناء پر ان پر کوئی افتادہ پڑ جائے تو بس آس توڑ بیٹھتے ہیں۔

فرمایا اصل میں یہ لوگ درمیانی راہ چاہتے ہیں کہ کچھ مان لیں یا کچھ چھوڑ دیں، تو اس سے مسلمانی میں کوئی فرق نہ آئے۔

﴿...وَيُر‌يدونَ أَن يَتَّخِذوا بَينَ ذٰلِكَ سَبيلًا ﴿١٥٠﴾...سورة النساء
کام آسان ہو اور فائدہ کی بھی توقع ہو تو ساتھ ہو لیتے ہیں، ورنہ حیلے بہانے کر کے جان چھڑاتے ہیں۔

﴿لَو كانَ عَرَ‌ضًا قَر‌يبًا وَسَفَرً‌ا قاصِدًا لَاتَّبَعوكَ وَلـٰكِن بَعُدَت عَلَيهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحلِفونَ بِاللَّـهِ لَوِ استَطَعنا لَخَرَ‌جنا مَعَكُم...٤٢﴾...سورة التوبة
(اے پیغمبر!) اگر سرِ دست فائدہ ہوتا اور سفر بھی متوسط درجے کا ہو تو وہ آپ کے ساتھ ہو لیتے لیکن ان کو مسافت دور معلوم ہوئی (اگر آپ ان سے وجہ پوچھیں گے تو) خدا کی قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم سے بن پڑتا تو ہم ضرور آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے۔

تکلیف کی گھڑی ہوتی تو خدا کا شکر کرتے کہ ہم ان کے ہمراہ نہیں تھے، اگر بات فضل و کرم کی ہوتی تو ہاتھ ملتے کہ کاش ہم بھی ان کے ہمراہ ہوتے۔

﴿فَإِن أَصـٰبَتكُم مُصيبَةٌ قالَ قَد أَنعَمَ اللَّـهُ عَلَىَّ إِذ لَم أَكُن مَعَهُم شَهيدًا ﴿٧٢﴾ وَلَئِن أَصـٰبَكُم فَضلٌ مِنَ اللَّـهِ لَيَقولَنَّ .... يـٰلَيتَنى كُنتُ مَعَهُم فَأَفوزَ فَوزًا عَظيمًا ﴿٧٣﴾...سورة النساء

پھر اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو لگے کہنے کہ خدا نے مجھ پر احسان کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔ اور اگر تم پر خدا کا فضل ہو تو بول اُٹھے کہ..... اے کاش! میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی ہوتی۔

بلکہ اگر فریق مخالف کو فتح ہوتی تو ان کو ممنون کرنے کی کوشش کر ڈالتے کہ ہم نے تم کو ان کے چنگل سے چھڑایا۔

﴿فَإِن كانَ لَكُم فَتحٌ مِنَ اللَّـهِ قالوا أَلَم نَكُن مَعَكُم وَإِن كانَ لِلكـٰفِر‌ينَ نَصيبٌ قالوا أَلَم نَستَحوِذ عَلَيكُم وَنَمنَعكُم مِنَ المُؤمِنينَ...١٤١﴾...سورة النساء
تو اگر اللہ کے کرنے سے تمہاری فتح ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں (کیوں جی!) کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ اور اگر کافروں کو فتح ہوئی تو (ان سے) کہنے لگتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں ہو گئے تھے اور تم کو مسلمانوں (کے چنگل) سے چھڑایا نہیں تھا؟

قرآن نے ان لوگوں کی کچھ نشانیاں بھی ذکر فرمائیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ معصیت، بے انصافی اور حرام خوری میں بالکل بے باک ہوتے ہیں۔

﴿وَتَر‌ىٰ كَثيرً‌ا مِنهُم يُسـٰرِ‌عونَ فِى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ وَأَكلِهِمُ السُّحتَ...٦٢﴾...سورة المائدة
ان میں سےبہتیروں کو آپ دیکھیں گے کہ گناہ کی بات، ظلم اور حرام خوری پر گرے پتے ہیں۔

بلکہ ان کمبختوں کی یہ کیفیت ہے کہ: اگر کوئی فائدہ پہنچ جائے تو اس کا کریڈٹخود لے لیتے ہیں اگر کوئی آنچ آجائے تو اس کو اللہ والوں کی نحوست تصور کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کو مختلف حیلوں بہانوں سے بد نام کرتے ہیں۔

﴿فَإِذا جاءَتهُمُ الحَسَنَةُ قالوا لَنا هـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ يَطَّيَّر‌وا بِموسىٰ وَمَن مَعَهُ...١٣١﴾...سورة الأعراف
تو جب ان کو فائدہ پہنچتا تو کہتے یہ ہمارا حق ہے (اور ہماری بدولت پہنچا) اور اگر ان پر کوئی مصیبت آتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے۔

یہاں تک کہ اگر بات خواہش کے مطابق نہیں ہوتی تو اڑ جاتے ہیں اور اللہ والوں کو جھٹلاتے ہیں یا قتل کر ڈالتے ہیں۔

﴿أَفَكُلَّما جاءَكُم رَ‌سولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُكُمُ استَكبَر‌تُم فَفَر‌يقًا كَذَّبتُم وَفَر‌يقًا تَقتُلونَ ﴿٨٧﴾...سورة البقرة
(تم اس قدر شوخ ہوگئے ہو کہ ) جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری اپنی خواہش کے خلاف کوئی حکم لے کر آیا تم اکڑ بیٹھے، پھر بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کو لگے قتل کرنے۔

ان کی خفیہ میٹنگیں بھی ہوتی ہیں تو وہ محض راہِ حق میں روڑے اٹکانے کے لئے:

﴿أَلَم تَرَ‌ إِلَى الَّذينَ نُهوا عَنِ النَّجوىٰ ثُمَّ يَعودونَ لِما نُهوا عَنهُ وَيَتَنـٰجَونَ بِالإِثمِ وَالعُدوٰنِ وَمَعصِيَتِ الرَّ‌سولِ...٨﴾...سورة المجادلة
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو خفیہ میٹنگیں کرنے سے روکا گیا تھا، پھر جس سے ان کو روکا گیا تھا لوٹ کر وہی کرتے ہیں اور خفیہ میٹنگ بھی کرتے ہیں (تو) گناہ کی، زیادتی کی اور رسول کی نافرمانی کی۔

الغرض: جو اسلام کا دم بھرتے ہیں، اس کے باوجود اگر ان کے ہتھکنڈے وہی رہیں، جو اللہ کے نافرمانوں کے ہو سکتے ہیں تو غور فرمائیے! اس ''نامسلمانی'' کو کوئی کیسے مسلمانی تصور کرے۔ یہاں تک کہ ان تمام حماقتوں کے باوجود اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ یہ خدا کے مقبول لوگ ہوں جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ کرتے سب نا مناسب اور ایمان کُش حرکتیں مگر دعوے کرتے کہ ہم خدا کی روحانی اولاد اور محبوب بندے ہیں۔

﴿وَقالَتِ اليَهودُ وَالنَّصـٰر‌ىٰ نَحنُ أَبنـٰؤُا اللَّـهِ وَأَحِبّـٰؤُهُ...١٨﴾...سورة المائدة
اس پر خدا ان سے پوچھتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر تمہیں جوتے کیوں پڑتے ہیں۔

﴿قُل فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنوبِكُم...١٨﴾...سورة المائدة
قارئین سے درخواست ہے کہ آپ ان تمام تصریحات اور انکشافات کو جو قرآن پیش کر رہا ہے اپنے ماحول، اپنی ذات، اور اپنے سیاسی رہنماؤں پر منطبق کر کے دیکھیں کہ کیا اِن میں اور اُن میں کچھ تفاوت رہ گیا ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر آپ کو غور کرنا چاہئے کہ:

اب یہ کانٹا بدلنا چاہئے یا اس کے نتائج کا مزہ چکھنے کے لئے مزید تیاری کر لینی چاہئے؟ بہرحال آپ دل سے یہ خیال نکال دیں کہ آپ اس اسلام کے حامل ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہؓ کے توسط سے پیش فرمایا تھا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اگر حضوردیکھ لیں تو ضرور بول اُٹھیں گے۔

فَسُحْقًا سُحْقًا لِّمَنْ أحدث بعدي أو کما قال

اے متجد دین! دفع ہو جاؤ!

اصل اسلام کا تقاضا ہے کہ: قرآن و سنت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جائیں اور اس کے باب میں کسی سے پوچھنے کی تحریک ہی دل میں پیدا نہ ہو۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے حضور نے فرمایا کہ دنیا چاہتے ہو یا اللہ اور رسول کو؟ جا کر اپنے والدین سے مشورہ کر لو!

حضرت عائشہؓ تڑپ گئیں بولیں:

اَفِیْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ اَسْتَشيرُ اَبَوَيَّ؟ بَلْ اَخْتَارُ اللهَ وَرَسُوْلَه وَالَّدَار الْاٰخِرَةَ (مسلم)

یا رسول اللہ! کیا آپ کے سلسلے میں والدین سے مشورہ کروں؟ (اوخو! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟) بلکہ میں اللہ، اس کے رسول اور (دنیا کے بجائے صرف) آخرت

کو اختیار کرتی ہوں۔

باقی رہے بہانے؟ یہ بہانے ہی رہیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: مسلمان مجبوراً مشرکین کے ہمراہ میدانِ جہاد میں شریک ہوئے، دل میں اسلام تھا مگر کمزور تھے۔ گو مسلمانوں کے خلاف تلوار بھی نہیں اُٹھائی تھی تاہم ان کو عددی قوت بہم پہنچائی۔ جب مسلمانوں کے تیروں سے وہ کھیت ہو رہے تو فرشتوں نے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، بولے کمزور اور بے بس تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ بجا! کیا اس سے بھی کمزور تھے کہ وہ خطّہ ہی چھوڑ دیتے۔ فانزل اللہ تعالٰی: اِنَّ الَّذِينَ تَوَفّٰهُمْ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِي اَنْفُسِهِمْ (بخاري)

الغرض اپنے منہ میاں مٹھو بن کر اس نامراد 'نا مسلمانی' کے باوجود اگر ہم اپنے کو مسلمان کہتے رہے اور نا مسلمانی کے سلسلے میں ادھر ادھر کے حیلے تراشتے رہے تو یقین کیجیے: ان میں سے کوئی بھی چیز کام نہیں آئے گی اور نہ ہم اس مخمصہ سے نکل پائیں گے جس میں آج پورا عالمِ اسلام مبتلا ہے، بلکہ سزا نا مسلمانی کی پا رہے ہیں۔ لیکن دنیا یہ تصور کرنے لگی ہے کہ:

مسلمان، مسلمانی کی سزا پا رہے ہیں۔ گویا کہ ہم نہ صرف سزا پا رہے ہیں بلکہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيهِ رَاجِعُوْنَ

ہاں آپ یہ فرما سکتے ہیں کہ بیشتر آیات کا تعلق کفار اور منافقین سے ہے، ہم بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، اور اس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ، اس وقت ایسے کام کفار اور منافقین ہی کیا کرتے تھے مسلمان نہیں کرتے تھے۔ اب مسلمان بھی کرنے لگ گئے ہیں، اصل بات کام کی ہے نام کی نہیں ہے۔ کافر ہو کر اگر ایسا کریں تو ان پر کوئی الزام نہیں کیونکہ وہ اس کو مانتے ہی نہیں، الزام تو مسلمانوں پر ہے کہ مان کر وہ کام کرتے ہیں جو نہ ماننے والے کیا کرتے ہیں۔ یہ تو بے انصافی ہے کہ پرائے کریں تو گردن زدنی اپنے کریں تو 'سب خیر' خدا سے بہرحال اس بے انصافی کی توقع کرنا خدا نافہمی کی بدترین مثال ہے۔