حرم کے عظیم پاسبان اور کتاب و سنت کے بیدار چشم دربان
حضرت شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ شہید ہو گئے
...........اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ۲۵؍ مارچ پاسبانِ حرم اور سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبد العزیز ایک قاتلانہ حملہ میں شہید ہو گئے۔
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيهِ رَاجِعُوْنَ!
فرمانروائے حجاز پر ان کے بھتیجے شہزادہ فیصل بن سعد بن العزیز نے نہایت قریب سے ریوالور سے متعدد گولیاں چلائیں۔ (نوائے وقت ۲۶؍ مارچ)
قاتل شاہِ فیصل علیہ الرحمۃ کا بھیتجا ہے، جب وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس وقت شیخ عیانی اور شیخ کاظمی شاہ کے کمرے میں داخل ہونے والے ہی تھے، قاتل نے باڈی گارڈوں کو ایک طرف دھکیل دیا اور دروازہ کھول کر کمرے میں جا پہنچا۔ باڈی گارڈوں نے زیادہ مزاحمت اس لئے نہ کی کہ وہ شاہ کا بھتیجا ہے، قاتل کے تیور بھانپ کر چیف آف پروٹوکول احمد عبد الوہاب نے اسے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ شاہ فیصل المعظم حسبِ روایت اپنے بھتیجے کو بوسہ دینے کے لئے آگے بڑھے۔ اس نے گولی چلا دی جو شاہ فیصل کے سر پر لگی، شاہ گرنے لگے تو اس نے ایک اور گولی چلا دی جو گردن میں شاہ رگ کے قریب لگی۔ دوسرے فائر کی آواز پر باڈی گارڈ اندر لپکے۔ (نوائے وقت ۲۸؍ مارچ)
اس سے پہلے (۲۶؍ مارچ) یہ خبر دی گئی تھی کہ شاہ فیصل دربار لگائے ہوئے تھے اور شہزادہ انہیں عید میلاد کی مبارک باد دینے آیا اور انہیں گولی مار دی۔ محافظوں نے اس سے کہا کہ وہ میٹنگ ختم ہونے کا انتظار کرے لیکن اس نے پرواہ نہ کی (۲۸؍ مارچ نوائے وقت)
لیکن مصر کے کثیر الاشاعت روزنامہ 'الاخبار' نے اطلاعات کو غلط قرار دیا ہے کہ قاتلانہ حملہ شاہی محل میں محفلِ میلاد کے دوران کیا گیا۔ (۲۸؍ مارچ۔ نوائے وقت)
تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ:
منگل کو شہزادہ فیصل عین اس وقت محل میں پہنچا جب کویت کا ایک وفد ایک وزیر کی قیادت میں شاہ فیصل کے پاس موجود تھا، اس کویتی وزیر نے ۱۹۶۹ء میں شہزادہ فیصل کے ساتھ کولوریڈو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی اور دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادہ فیصل نے محل میں داخلے کے لئے بھی بہانہ تراشا تھا کہ وہ اپنے کویتی دوست سے ملنا چاہتا ہے۔ (نوائے وقت ۲؍ اپریل)
شاہ فیصل کے قاتل کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ کمیونسٹ نظریات کا حامی ہے اور 'سرخ شہزادہ' کے نام سے مشہور ہے اور وہ ایک خفیہ ریڈیو سٹیشن سے 'سعودی عرب کی رجعت پسند بادشاہت' کے عنوان سے پروپیگنڈہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ بیروت کے اخبار 'لا اورئنٹ' کے مطابق شہزادے کے کار ڈرائیور کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، جس وقت شہزادہ قاتلانہ حملہ کے لئے محل میں داخل ہوا وہ کار کو ادھر ادھر اس انداز میں چلاتا پھر رہا تھا جیسے وہ محل کا محافظ ہو۔ (نوائے وقت ۳۰؍ مارچ)
شاہی خاندان نے ولی عہد خالد بن عبد العزیز کو متفقہ طور پر نیا بادشاہ منتخب کر لیا ہے اور شہزادہ فہد بن عبد العزیز کو ولی عہد بنا دیا گیا ہے۔ (نوائے وقت ۲۶؍ مارچ)
اگلے دن مرحوم کو بعد نماز عصر ریاض کے مرکزی قبرستان میں ان کے والد شاہ ابن سعود کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے وقت ہزاروں بدو بھی موجود تھے، جب میت لحد میں اتاری گئی تو انہوں نے بھی دعا کی۔
''اے خدا! ہمارے روحانی باپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرما۔'' (امروز ۲۸؍ مارچ)
شاہ فیصل موحد اور متبع سنت تھے
شاہ فیصل درویش، شب زندہ دار، موحداور متبع سنت بادشاہ تھے۔ سرکش نہیں تھے۔
درویشی کا یہ عالم کہ: شاہی محل کے بجائے ہمیشہ ایک سادہ سے مکان میں رہائش رکھی، یہی حال ان کے دفتر کے کمرے کا تھا۔ ایک دفعہ ان کی خواب گاہ کے ملحقہ غسل خانے میں بہت قیمتی سامان لگایا تو آپ نے اسے نکلوا دیا اور کہا کہ:
''ہم سادہ لوگ ہیں ہمیں سادہ چیزیں چاہئیں۔''
سادگی کا یہ رنگ قبر تک قائم رہا، چنانچہ اب بھی وہ ایک بے نام و نشان قبر میں ہی محو خواب ہیں۔ اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:
شاہی قبرستان کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی دیواریں ہیں جو ریاض کے نواح میں واقع ہے۔ اس چار دیواری کے اندر بے نام و نشان قبریں ہیں جن میں شاہی خاندان کے دیگر افرادِ محوِ خواب ہیں، سعودی روایات کے مطابق ان کی قبروں پر کتبہ ہے نہ لوح، بلکہ یہ قبریں بھی عام شہریوں کی قبروں کی طرح ہیں۔ ان قبروں پر سنگِ مرمر کا کوئی کتبہ یا لکڑی پر کندہ کوئی تحریر نہیں اور نہ کوئی نشان ہے جسے قبر میں محوِ آرام شخصیت کا پتہ چل سکے۔ (نوائے وقت، ۳۰؍ مارچ)
سعودی وارث تاج و تخت کو 'تاج' نہیں پہنایا جاتا۔ بلکہ نہایت سادگی سے ان کی امارت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ (وفاق)
دوپہر کا کھانا کھاتے تو عام مستری معمار وغیرہ کو جو اس وقت موقع پر موجود ہوتے، شریکِ طعام کر کے تناول فرماتے۔ (وفاق)
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ:
شاہ بڑے تہجد گزار اور خدا کے حضور گریہ و زاری کرنے والے انسان تھے۔ ان کی آنکھیں ہمیشہ پرنم رہتی تھیں، اشک بار رہنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے نیچے گڑھے پڑ چکے تھے، دو تین سال ان کی کیفیت میں عجیب تبدیلی رُونما ہو چکی تھی، ان پر آخرت کا خوف بے پناہ حد تک طاری ہو چکا تھا اور وہ ہر دم موت کو یاد کرتے رہتے تھے۔
نیز کہا کہ:
شاہ پوری نماز ادا کرنے کے بعد، اللہ کے حضور ایک طویل سجدہ کیا کرتے تھے، اس میں وہ تمام دعائیں دہراتے تھے جو سلطان عبد العزیز نے ایک مجموعے کی صورت میں مرتب کی ہیں۔ (نوائے وقت، ۳۰؍ مارچ)
آپ کو شخصیتوں کے بجائے اصولوں سے محبت تھی، جن کا جامع نام اسلام ہے۔ جہاں اسلامی حیا، غیرت اور کردار کا فقدان ہوتا وہاں ان کا جواب صاف ہوتا کہ:
﴿إِنّا بُرَءٰؤُا مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّـهِ...٤﴾...سورة الممتحنةلاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ایک دعوت میں شیخ مجیب الرحمٰن، شاہ فیصل کے ایک طرف اور مسٹر بھٹو دوسری طرف بیٹھے تھے، شیخ مجیب نے شکوہ کے طور پر شاہ فیصل سے کہا کہ آپ بھٹو سے میری نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں، شاہ فیصل نے کہا۔
اس میں شک نہیں کہ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں، مجھے محبت بھٹو یا مجیب سے نہیں، پاکستان سے ہے جو پاکستان کے لئے کام کرے مجھے اس سے محبت ہے اور جو پاکستان کی مخالفت کرے مجھے اس سے کس طرح محبت ہو سکتی ہے۔ (وفاق، ۲۸؍ مارچ)
پروفیسر غلام اعظم نے حالیہ حج کے موقعہ پر شاہ فیصل سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ آپ نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا...... آپ کے اس اقدام کا سبب کیا ہے؟ شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
میں بنگلہ دیش کو کیسے تسلیم کر سکتا ہوں، مجیب نے اسلامی ریاست کا ایک حصہ کاٹنے کے بعد اس کو لادینی مملکت قرار دے دیا ہے۔ جب تک مجیب یہ اعلان نہ کر دے کہ بنگلہ دیش اسلامی ریاست ہے، میں اسے کبھی تسلیم نہیں کروں گا۔ (وفاق۔ ۲۸؍ مارچ)
جب ہم نے شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ کا یہ غیرت مندانہ بیان پڑھا تو شرم سے ہماری گردن جھک گئی، کیونکہ پوری قوم کی مرضی کے علی الرغم دینی غیرت اور ملی حمیت کے برعکس مسٹر بھٹو نے عالمِ اسلام کے تمام سربراہوں کی موجودگی میں اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انا للہ!
آپ کے نزدیک یہ 'اصولِ برحق' صرف دوستی اور دشمنی یا اخذ و ترک کا معیار نہیں تھا بلکہ آپ کے نزدیک یہ دینی، تمام مکارمِ حیات اور معراجِ زندگی کا ضامن بھی ہے۔ ۱۹۶۶ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔
ہمارے دین اور اس کے قوانین میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ہمیں ان کمتر نظریات کو درآمد کرنے سے بے نیاز کر سکتا ہے، جسے محض انسانوں نے تیار کیا ہے، کیونکہ اسلام خدا تعالیٰ کا قانون ہے، جسے اس نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا اور وہ اپنی تخلیق کے مفادات کو بہتر طور پر جاتا ہے۔
شاہِ ایران کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں شاہ فیصل نے کہا۔ اعلیٰ حضرت! ہمارا مذہب ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ترقی کریں اور آگے بڑھیں اور اعلیٰ روایات اور بہترین اطوار کا بار اُٹھائیں۔ آج کے دور میں جس چیز کو ترقی پسندی کہا جاتا ہے اور جس کے لئے مصلحین شور مچاتے ہیں۔ خواہ یہ ترقی سماجی، انسانی یا اقتصادی ہو، دین اسلام اور اس کے قوانین میں مکمل طور پر موجود ہے لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ ہم اسے اپنے مذہب میں تلاش کرنے کی زحمت گوارا کریں۔ ۱۹۶۵ء میں دورۂ ایران)
۱۹۶۴ء میں جب آپ کی تخت نشینی ہوئی تو آپ نے اعلان کیا کہ:
میں جس دستور کی پابندی اور وفاداری کا حلف اُٹھاتا ہوں وہ قرآن ہے، ہمارا دستور قرآن ہو گا اور ہم اپنی زندگی اور سلطنت کے امور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق طے کرینگے۔ (نوائے وقت ۳۰؍ مارچ)
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ معروف معنوں میں سعودی حکومت کا کوئی مدون دستور نہیں ہے کیونکہ ان کا دستور قرآن و سنت ہے اور وہ صدیوں پہلے موجود ہے۔ باقی رہا قرآنی آئین اور دستور کو کیوں مدون اور مرتب نہیں کیا گیا؟ تو صرف اس لئے کہ اس میں اجتہاد کو بھی دخل ہوتا ہے جس طرح حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا مالک کو عباسیہ مملکت کا ملکی دستور بنانے کی اجازت نہیں دی تھی اسی طرح انہوں نے بھی اپنی طرف سے کوئی چیز مسلمانوں پر مسلط کرنے سے پرہیز کیا ہے بلکہ علماء اور قضاۃ کی صوابدید پر چھوڑا ہے کہ وہ ان کا کیا مفہوم متعین کرتے ہیں؟ ہمارے نزدیک اسلامی دستور کی یہ وہ خوبی ہے جو دنیا کے دوسرے دساتیر میں نہیں پائی جاتی۔
توحید کے سلسلے میں مرحوم انتہائی ذکی الحِس واقع ہوئے تھے، جو بات حق تعالیٰ کے شایان ہوتی اسے کسی دوسرے کے حق میں استعمال کرنے سے نفرت کرتے تھے۔
میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی نے بتایا کہ:
ہمارے وفد کے ترجمان نے شاہ فیصل کو مخاطب کرنے کے لئے ''ہزمیجسٹی جلالۃ الملک' کے الفاظ استعمال کیے۔ اس پر شاہ فیصل نے فوراً ٹوکا اور کہا کہ:
جلالۃ الملک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، میں نہ ہزمیجسٹی ہوں اور نہ جلالۃ املک، میں مسلمانوں اور اسلام کا ادنیٰ خادم ہوں اور یہ میری خوش بختی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا موقع عطا فرمایا ہے اور میں حرمین شریفین کی خدمت کر رہا ہوں (وفاق)
۱۹۶۴ء میں جب شاہ فیصل علیہ الرحمۃ کی تخت نشینی ہوئی تو سعودی وزیرِ اطلاعات نے ریاض ریڈیو سے دو ایسے لفظ استعمال کیے جو شاہِ فیصل کے اسلامی احساسات کے منافی تھے۔ ایک خطاب ''جلالۃ الملک'' کا دوسرا مملک سعودیہ کے تخت کو ''عرش المملکۃ السعودیہ'' سے تعبیر کیا۔ حضرت علیہ الرحمۃ انےان دونوں لفظوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ:
کوئی انسان ''جلالت مآب'' نہیں ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ جل جلالہ کو جلال و عظمت سزاوار ہے اور اس کائنات میں اللہ کے عرش کے سوا کسی کا کوئی عرش نہیں ہے، میں اللہ کا عاجز بندہ ہوں اور مسلمانوں کی خدمت میرے سپرد کی گئی ہے۔
مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے سپاسنامے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
میں جامعہ کے نائب صدر کے اس بیان کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے مجھے 'ایمان والوں کا بادشاہ' کہا ہے، میں کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا جتنے ایمان والوں کے بادشاہ یا اسلامی خلفاء تھے، میں ایمان والوں کا خادم ہوں اور مسلمانوں کا نوکر ہوں۔''
چونکہ اخبارات ''جلالۃ الملک'' کا لقب برابر استعمال کرتے رہتے تھے اس لئے آپ وقتاً فوقتاً اس پر ٹوکتے رہتے تھے۔ ۱۹۷۴ء کی اسلامی کانفرنس کے موقع پر وفد کے ترجمان جناب کامل الشریف نے اپنی تقریر میں جلالۃ الملک کا لفظ استعمال کیا، تقریر کے بعد شاہ فیصل علیہ الرحمۃ نے کہا کہ مجھے اس تقریر پر یہ اعتراض ہے کہ مسلمانوں کے ایک ادنیٰ خادم کو جلالۃ الملک کہا گیا ہے جو کسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ (نوائے وقت ؍ ۳۰ مارچ)
الغرض: شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ ایک بندۂ حنیف، اوّاہ، بندۂ غیور، ملتِ اسلامیہ کے عظیم رہنما اور مسلمانانِ عالم کے روحانی باپ تھے، ہمارے سر سے ان کے سایۂ رحمت کے اُٹھ جانے سے ہم یتیم ہو گئے ہیں۔
قبرص کے مسلمانوں پر کوئی آنچ آئے یا کشمیری مسلمانوں کے مستقبل کا سوال اُٹھے، فلسطین کی آزادی کا قصہ ہو یا صیہونیت کی یوش سے عالم عرب کو بچانے کی کوئی بات ہو، پاکستان کے خلاف بھارت کی شرارتیں ہوں یا بنگلہ دیش کی بے حمیتی کا کوئی واقعہ ہو۔ اریٹیریا کے مسلمانوں کا المیہ ہو یا فلپائنیوں کا آپ بہرحال بے چین ہو جاتے تھے، مرحوم ایک خدا ترس، غریب پرور، دینی تحریکوں کے سرپرست وحدتِ ملی کے نقیب اور عالمِ اسلام کے غمگسار تھے۔
پاکستان پر جو بیت رہی ہے اور جن خطرات میں وہ گھرا ہوا ہے، مرحوم کو اس کا شدید صدمہ تھا، جب سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا تو صدمہ کی شدت سے ان کی آنکھیں دیر تک اشکبار رہیں اور وہ کئی راتوں تک سو نہ سکے۔ کہتے ہیں کہ ایک دوست نے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد شاہ سے کہا کہ:
''اب شاید پاکستان کے لئے خود پاکستان کے اندر بھی کوئی رونے والا نہ ہو۔''
شاہ نے کہا کہ:
''میں اس لئے روتا ہوں کہ شاید پاکستان کے لئے اب اور کوئی رونے والا نہیں رہا۔''
شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ حرم کے عظیم پاسبان اور کتاب و سنت کے بیدار چشم دربان تھے اور شایان شان تھے، ان کی شہادت سے ہمیں سخت دکھ ہوا ہے، خدا کے لئے تو کوئی بات بھی مشکل نہیں، تاہم بظاہر فی الحال مستقبل قریب میں اس کی تلافی ہمیں بہت ہی مشکل نظر آتی ہے۔