آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کا نفاذ
تحریکِ آزادی کشمیر کی تکمیل کی طرف ایک تاریخی قدم
مندرجہ ذیل مضمون اصل میں آزاد کشمیر اسمبلی اور سرکار کی خدمت میں ایک ''ہدیہ تبریک'' اور ان سے خوش آئندہ توقعات کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ایک واقعہ ہے کہ ہزار کمزوریوں کے باوجود جب سرکار کی طرف سے 'صدائے اسلام' بلند ہوت ہے تو مسلم عوام اپنی آنکھیں بچھانے لگ جاتے ہیں اور یوں شادماں گھر سے نکلتے ہیں جیسے آج ان کی عید ہو گئی ہو اور یہ بات اس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ اگر گمراہ کن خواص رکاوٹ نہ بنیں تو عوام بہرحال اسلام کو چاہتے ہیں۔ اسلامی قانون کے نفاذ کے سلسلہ میں آزاد کشمیر اسمبلی اور حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کو ایک دانش مندانہ اقدام اور اسلام دوستی کا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم اس پر ان کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے اس مرحلہ پر 'محتاط تر' رہنے کی سفارش بھی کرتے ہیں کیونکہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد اس سلسلے میں مداہنت یا بے عملی اسلام کو پہلے سے زیادہ بدنام کرنے کا موجب ہو گی۔ اگر کما حقہ اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کی گئی تو ان شاء اللہ اسلامی دنیا کے لئے یہ ایک مشعلِ راہ ثابت ہو گی۔ اور خود مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے بھی ایک عظیم تحریک کا کام دے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ (مدیر)
آزاد کشمیر اسمبلی نے اسلامی قوانین کے نفاذ کا بل بالاتفاق منظور کر لیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بل تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مسودہ قانون کی تیاری میں جو تعزیرات، دیوانی مقدمات، عشر و زکوٰۃ اور غیر مسلموں کے حقوق سے متعلق ہے۔ صدر آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان نے جس خصوصی دلچسپی اور ان کی دعوت پر آزاد کشمیر اور پاکستان کے جید علمائے کرام اور ماہرینِ قانون نے جس غیر معمولی محنت و کاوش اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ اس کے لئے وہ پوری ملت اسلامیہ کے شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے معزز ارکان نے اس تاریخی مسودہ قانون کو مکمل اتفاق رائے سے منظور کر کے اسلام سے اپنی غیر معمولی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔
اسلامی قانون کے باقاعدہ نفاذ سے عامۃ المسلمین کو اسلامی قانون کی اہمیت، تقاضوں اور دونوں جہاں کی سرفرازی کا ضرور احساس ہو جائے گا اور یہ چیز ان کی اسلام سے غیر معمولی وابستگی کا سبب بن جائے گی۔ اب مناسب ہے کہ محکمہ امور دینیہ حکومت آزاد کشمیر کے زر اہتمام آزاد کشمیر کے طول و عرض میں علمائے کرام کے دعوتی و تبلیغی دوروں جلسہ ہائے عام، مجالس مذاکرہ اور خصوصی تقاریب کے انعقاد اور اسلامی قانون سے متعلق خصوصی قسم کے بیجوں، پوسٹرں اور ہینڈ بلوں کے وسیع پیمانے پر تقسیم کے لئے ایک مربوط پروگرام تیار کیا جائے تاکہ جب اسلامی قانون کا باقاعدہ نفاذ عمل میں آجائے تو ریاست کے ہر شہری کو یہ معلوم ہو کہ اسلامی قانون پر کامیابی سے عملدرآمد کے لئے اس پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان ذمہ داریں سے کس طرح عہدہ بر آ ہو سکتا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کا نفاذ حیح اسلامی معاشرہ کے قیام کی راہ میں ایک اہم اور مؤثر قدم ثابت ہو گا کیونکہ قانون، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، انسانی زندگی کا رخ متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اگر قانون صحیح ہے تو انسانی زندگی کا رخ بھی صحیح سمت میں ہو گا اور اگر خدانخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہے تو نتیجۃً انسانی زندگی کا رخ بھی لازمی طور پر غلط سمت میں ہو گا اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس آسمان کے نیچے خدا کے نازل کردہ قانون سے زیادہ صحیح کوئی قانون نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لئے زندگی کو صحیح اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے اسلامی قانون کا نفاذ ناگزیر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کو اسلامی حکومت کی اولین اور بنیادی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور اس سے گریز کی راہیں اختیار کرنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ظلم و فسق اور کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ ٤٤﴾... سورة المائدةیعنی قانونِ الٰہی کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے لوگ کفر کرتے ہیں۔اسی سورہ کی دوسری آیات میں ایسے لوگوں کو ظالم و فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی قرآن حکیم کی بیسیوں دوسری آیات ہیں، جن سے اسلامی قانون کی اہمیت اور تقاضوں کا پتہ چلتا ہے۔
ان آیاتِ کریمہ سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے حل ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہ پڑتا ہو۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے یہ مسئلہ خالصۃً کفر و اسلام کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس مسئلہ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ اول جناب صدیق اکبرؓ نے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا تھا کہ خدا کی قسم میں ان کے خلاف اس وقت تک لڑوں گا جب تک کہ یہ لوگ اونٹ کے پاؤں باندھنے کی وہ رسی بھی جو یہ حضور ﷺ کے دور میں زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے دینے پر آمادہ نہیں ہو جائیں گے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے پہلے اسلامی معاشرہ کا قیام ضروری ہے کیونکہ جب تک صحیح اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہو جائے گا، اس وقت تک اسلامی قانون کے نفاذ کا تجربہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ ان حضرات کی یہ رائے اپنے اندر وزن رکھتی ہے اور ہمیں ان کے خلوص پر بھی کوئی شبہ نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحیح اسلامی معاشرہ قائم کس طرح ہو گا؟ ظاہر بات ہے کہ گزشتہ کی صدیوں سے اسلامی نظام قائم نہ رہنے کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ انحطاط کی جس طرح پر پہنچ چکا ہے اسے بدلنے کے لئے ایک ایسی ہمہ گیر تحریک کی ضرورت ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہو اور اس مقصد کے لئے جہاں دوسرے اقدامات ضروری ہیں وہاں خود اسلامی قانون کا نفاذ بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی گزارش کیا جا چکا ہے کہ قانون، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، انسانی زندگی کا رُخ متعین کرنے کے لئے ایک مؤثر قوت ماخذہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے صحیح اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے امور کے علاوہ معاشرے کو اسلامی رُخ پر ڈالنے والی اس مؤثر قوت نافذہ سے بھی کام لیا جائے اور اس پہلو سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کا نفاذ صحیح اسلامی معاشرے کی تشکیل اور مکمل اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں ایک تاریخی قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ صرف اسی پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ دوسرے متعلقہ امور کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جائے۔
آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کے نفاذ کی اہمیت کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی استعمار نے برصغیر پر اپنے جارحانہ تسلط کو دوام بخشنے کے لئے جب مسلمانوں کا تعلق ان کے دین و تہذیب اور نظام حیات سے منقطع کرنے کے لئے کیا تو ان کی اجتماعی زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس سامراجی قوت نے اسلامی قانون پر بھی ڈاکہ ڈالا۔ کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کی زندگی کا صحیح رُخ متعین کرنے والی اِس مؤثر قوت نافذہ کو ختم نہیں کیا جاتا، ان کا اسلام سے تعلق منقطع نہیں ہو سکتا۔
مسلمانوں کے دین و ایمان کے خلاف یہ سازش کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ٹھنڈے پٹیوں برداشت کر لیا جاتا۔ چنانچہ عام مسلمانوں نے بالعموم اور علمائے کرام نے بالخصوص اس سازش کے خلاف زبردست احتجاج کیا جسے تشدد کے ذریعے دبا دیا گیا۔ لیکن یہ کوئی ایسا جذبہ نہیں تھا جسے تشدد کے ذریعے ختم کیا جا سکتا چنانچہ اسلامی نظام کے احیاء اور اسلامی قانون کے نفاذ کے اس جذبے نے ایک دوسری اور نسبتاً زیادہ مؤثر شکل اختیار کر لی ہے۔ اور برصغیر میں تحریک پاکستان کا بنیادی محرک ثابت ہوا۔ اسی طرح تحریک آزادی کشمیر کے پیچھے بھی، جو اپنے پس منظر اور نصب العین کے اعتبار سے ابتداء ہی سے تحریک پاکستان کے ایک حصہ کی حیثیت رکھتی ہے، یہی جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔ 'تحریکِ آزادیٔ کشمیر' جیسا کہ اس تحریک کے بانی قائد رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے اپنی خود نوشت سوانح حیات 'کشمکش' میں لکھا ہے۔ 'اپنے پس منظر اور نصب العین کے اعتبار سے ایک اسلامی تحریک تھی۔ اس کی بنیادیں بھی خالصتاً اسلامی تھیں۔ اور اسے فروغ بھی اسلام ہی کے ذریعہ سے ہوا تھا۔' اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اس تحریک کو زندہ رکھنے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے صرف اسلامی جذبہ ہی کام آسکتا ہے۔ غرضیکہ تحریک آزادی کشمیر کی راہ میں دی جانے والی عظیم قربانیوں کا جذبہ محرکہ پہلے بھی اسلام ہی تھا، اور اب بھی اسلام ہی ہو سکتا ہے اس لئے تحریک آزادی کشمیر کو زندہ اور فعال رکھنے کے لئے اس جذبہ کو زندہ اور توانا رکھنے کی ضرورت ہے اور ایسا صرف اسلامی قانون کے نفاذ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔
تحریک آزادی کشمیر کی اساس اس اسلامی اساس اور اس تحریک کی راہ میں دی جانے والی عظیم جانی و مالی قربانیوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ آزاد کشمیر میں جس کی بنیادی حیثیت تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کی ہے۔ 1947ء میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسلامی قانون کا نفاذ بھی عمل میں آجاتا۔ تاکہ جہاں ایک طرف تحریک آزادی کشمیر کی راہ میں جانیں لڑانے والے مجاہدین کی قربانیوں کا صحیح حق ادا ہوتا وہاں دوسری طرف تحریک آزادی کا سفر بھی صحیح رخ پر جاری رہتا۔ مگر بد قسمتی سے گزشتہ 27 سالوں کے دوران بوجوہ اس انتہائی اہم اور بنیادی فریضہ کی ادائیگی کی طرف توجہ نہ دی جا سکی۔ نتیجۃً گزشتہ 27 سالوں کے دوران بجائے اس کے کہ تحریک آذادی کشمیر کو صحیح رخ پر آگے بڑھایا جا سکتا۔ ایک 'راہرو پشت بمنزل' کی طرح ہمارا ہر قدم ہمیں منزل سے دور لے جاتا گیا۔
خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 27 سال کے طویل انتظار کے بعد بالآخر وہ مبارک گھڑی آ ہی گئی کہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کے نفاذ سے آزادی کشمیر کی یہ عظیم تحریک صحیح سمت میں اور تیزی سے آگے بڑھ سکے گی اور اس راہ میں دی جانے والی عظیم الشان جانی و مالی قربانیوں کا صحیح طور پر حق ادا ہو سکے گا۔ اس اعتبار سے آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کے نفاذ کا فیصلہ موجودہ حکومت کے ایک تاریخی کارنامہ اور تحریک آزادی کشمیر کی طرف ایک انقلابی قدم کی حیثیت رکھتا ہے اور صدر آزاد کشمیر جناب مجاہد اول سردار عبد القیوم اور ان کے رفقاء اپنے اس کارنامہ کے لئے اسلامیان آزاد کشمیر و پاکستان کے شکریہ، مبارک باد اور بھرپور تعاون کے مستحق ہیں۔