بالشوزم اقبالؒ کی نظر میں

وطن عزیز میں اسلام اور اسلامی سوشلزم اور سائنٹفک سوشلزم کے مباحث گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں۔ پاکستان کے بعض نام نہاد ترقی پسندوں کی جانب سے اسلام میں سوشلزم کا پیوند لگانے یا سائنٹیفک سوشلزم میں اسلامی عقائد شامل کرنے کو عین اسلام قرار دینے کی مساعی ہنوز جاری ہیں۔ اس ضمن میں بعض کوتاہ اندیش لوگوں کی جانب سے علامہ اقبال کے کلام سے سیاق و سباق کے بغیر اقتباسات یا حوالے پیش کر کے مطلب براری کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ چند یوم قبل یوم اقبالؒ کے موقع پر ایک بار پھر ان لوگوں کی جانب سے اقبال کے کلام سے سندیں پیش کی جا رہی ہیں۔ علامہ اقبالؒ ایک راسخ القیدہ مسلمان مفکر تھے۔ اسلام کے بارے میں ان کے نظریات بالکل واضح ہیں۔ وہ اسلام کو انسان کی فلاح و ترقی اور نجات کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے متذکرہ قسم کے لوگوں کی ایسی باتوں کا جواب تحریر کیا تھا۔ جو زمیندار میں شائع ہوا تھا۔ یہ مقالہ سپرد کرنے کی ضرورت انہیں اس لئے محسوس ہوئی کہ لاہور کے روزنامہ انقلاب کے اس دور میں بعض کمیونسٹوں کی گرفتاری کے موقع پر ایک اداریہ میں یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ اگر بالشوزم کو پسند کرنا اور ترقی پسندانہ نظریات رکھنا ایسا ہی جرم ہے تو پھر علامہ اقبالؒ سب سے بڑے مجرم ہیں۔ علامہ مرحوم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس الزام کی تردید کی خاطر زیر نظر مقالہ تحریر کیا تھا۔ جسے ہم قارئین کی دلچسپی کے لئے شامل اشاعت کر رہے ہیں۔ (ادارہ نوائے وقت)

مکرم بندہ جناب ایڈیٹر صاحب زمیندار!

السلام علیکم۔ میں نے ابھی ایک اور دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں (میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا) میری طرف بالشویک خیالات منسوب کئے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔

میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے۔ لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے۔ جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کے ناعاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارۃً ذکر کیا ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کامقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے اور اس مدعا کے حصول کے لئے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے۔ جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے، اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا۔ بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے۔ اور ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنی مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے فاصبحتم بنعمته اخوانا۔ میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہوں ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریںَ مجھے ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔