جولائی 1974ء

اسلام کے مشعل بردار۔ محمد بن عبد الوہّاب

مدیر اعلیٰ نے یہ تقریری ۱۹ مئی ۱۹۷۴ء کو ریڈیو پاکستان سے کی، جو چند ضروری اضافوں کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہے۔ (ادارہ)

کلمہ طیبہ 'لا إله إلا الله محمد رسول الله'نہ صرف مسلمانوں کا مذہبی شعار ہے بلکہ ان کی دینی و اخلاقی، انفرادی و اجتماعی اور سیاسی و معاشی جملہ قسم کی سر بلندیوں اور ترقیوں کا ضامن ہے۔ وحدتِ انسانیت اور عروج بشریت کی بے مثال تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ اسی کی برکت سے 'عرب' کے تاریک ریگزاروں نے تابانی پکڑی اور نہ صرف دنیائے آدمیت کو خیرہ کیا بلکہ رہتی دنیا تک سرفرازی و کامرانی کے 'سنگِ میل' لگائے۔

کم لوگ واقف ہوں گے کہ آج دنیائے اسلام کی عظیم سلطنت اور 'حرمین شریفین' کی محافظ 'سعودی حکومت' جو ہر جگہ اسلامی تحریکوں اور مسلمانوں کی ہمدردیوں میں پیش پیش نظر آتی ہے۔ اور 'اتحادِ عالم اسلام' کے لئے 'تضامن اسلامی' کے نعرہ سے سربراہی کا فرض ادا کر رہی ہے اپنے 'فکر و منہاج' میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہابؒ اور ان کی آل کی مرہونِ منت ہے اور آج تک سعودی دستور و قانون اور مشاورت میں شیخ موصوف کی نسلی اور روحانی اولاد کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ واضح ہو کہ سعودی حکومت کے سرکاری جھنڈے میں 'لا إله إلا الله محمد رسول الله'اور 'تلوار' سے اسی فکر و نہج کی ترجمانی مقصود ہے۔

شیخ محمد بن عبد الوہابؒ سعودی عرب کے موجودہ دار الخلافہ سے تقریباً ستر کلو میٹر دور 'نجد یمامہ' کے مشہور علاقہ عیبینہ میں ۱۱۱۵ء میں پیدا ہوئے۔ جہاں آپ کا خاندان کافی عرصہ سے علم و انصاف کی سیادت پر فائز تھا اور تقریباً سارے نجد کا مرجع و ماویٰ تھا۔ آپ بچپن ہی سے نہایت فطین، نیک نفس اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ دس سال سے بھی کم عمر میں قرآن حفظ کر لیا پھر نجد، حرمین اور بصرہ وغیرہ کے مشہور علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا جن میں سے ایک علامہ محمد حیاتؒ محدث سندھ بھی ہیں جو اُں دنوں مدینہ منورہ میں 'سنت و حدیث' کے مسلمہ امام تھے۔ اس تلمذ کے اعتبار سے گویا شیخ کو ایک نسبت اس وقت کے ہندوستان اور موجودہ پاکستان سے بھی ہے۔ آپ نے دورانِ تعلیم ہی میں پہلے 'بصرہ عراق' سے پھر واپس آ کر نجد کے علاقہ 'حریملا' سے اپنی دعوت کا آغاز کیا جہاں ان دنوں شیخ کے والد عبد الوہاب شہر کے قاضی (جج) کے عہدہ پر فائز تھے۔ دعوت ہی کے سلسلہ میں شیخ بعد ازاں نجد کے مشہور قصبوں 'عیینہ' پھر 'درعیہ' میں منتقل ہوتے رہے۔ آپ کی دعوت کی بنیاد 'توید' تھی جس کا شعار 'کلمہ طیبہ' اور ابتدائی نکات رب، نبی اور دین کے وہی تین اصول تھے جن کا موت کے بعد پہلی گھاٹی 'قبر' میں سوال ہو گا۔ دعوت کی وضاحت کے لئے آپ نے کتاب التوحید کشف الشبہات اور ثلاثہ اصول وغیرہ کتابیں بھی لکھیں جو آج کل تقریباً سارے سعودی عرب میں تعلیم کے مختلف درجوں میں بطور نصاب مقرر ہیں۔

چونکہ آپ نہایت متقی، پاکباز اور نفسیاتی تاثیر کے مالک تھے اور اوّل و آخر کتاب و سنت اور انبیاء کا طریقۂ کار اپناتے تھے اس لئے دور و نزدیک آپ کی دعوت کا خوب چرچا ہوا۔ اس دعوت کو جہاں عوام و حکام میں زبردست معاون و انصار ملے وہاں اسے جاہلوں، حاسدوں اور سیاسی طور پر بڑی بڑی سازشوں کا شکار ہونا پڑا۔ حریملا میں جب سماج دشمن عناصر نے آپ کو اپنی راہ کی رکاوٹ دیکھا تو قاتلانہ حملہ کیا لیکن اللہ نے آپ کو بچالیا۔ پھر عیینہ میں ایک زانی عورت کو جس نے بہ ہوش و حواس اپنے جرام کا افرار کیا تھا حاکم وقت سے سنگسار کرانے پر رنگیلوں کی سازش سے علاقہ بدر ہوئے حتیٰ کہ قتل کی ایک سازش سے بچتے ہوئے درعیہ کی طرف ہجرت کی۔ وہاں کا حاکم محمد بن سعود جو حسنِ اخلاق اور پاکبازی میں معروف تھا آپ کی دعوت سے متاثر ہو کر تعاون پر تیار ہوا اور اس نے آپ سے 'مستقل رفافت' کی شرط پر بھرپور تعاون کا عہد کیا۔ آج تک اسی رفاقت کے نتیجہ میں آلِ شیخؒ اور آل سعود کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کلمہ طیبہ اور تلوار کے اس جوڑ سے آپ کی دعوت کو جو فروغ ہوا اس نے دور دراز تک آپ کی دعوت کا تہلکہ مچا دیا۔ جس پر سیاسی طور پر بدنام کرنے ک لئے مخالفین نے آپ کو ایک نئے مذہب کا بانی قرار دے کر اسے 'وہابیت' کا نام دیا جو آج تک مذہبی سطح پر ایک گالی سمجھی جاتی ہے۔ اس میں اگرچہ کسی حد تک 'اخوانِ یوسف' کا بھی ہاتھ ہے تاہم 'وہابیت' کے طعن سے پراپیگنڈہ کرنے میں زیادہ کار فرمائی برطانوی سامراج کی ہے جس نے پہلے خلیج فارس کے بحری مرکز 'رأس الخیمہ' کے قرصی باشندوں سے ٹکر لی جو سعودیوں کے ہی زیر نگین تھے۔ بعد ازاں 'ہند' میں اسلامی نظام کے لئے شہیدین سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمٰعیلؒ نبیرۂ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے جہاد کو ناکام بنانے میں طعن وہابیت کے ہتھکنڈے سے کام لیا۔ حالانکہ سیاسی طور پر دونوں تحریکوں کا کسی قسم کا تعلق نہیں ہے بلکہ رابطہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مذہبی طور پر دونوں تحریکوں میں یہ مناسبت موجود ہے کہ دونوں خالص اسلامی نظامِ حیات کے نفاذ کے لئے جہاد کی تحریکیں ہیں اور کتاب و سنت کی تعلیمات کی حد تک ان کے افکار بھی یکساں ہیں لیکن طریق کار بلکہ بہت سے تفصیلی عقائد میں آپس میں کافی مختلف ہیں۔ کسی ترجیحی مقابلہ سے قطع نظر جو سادگی اور مسئلہ توحید میں تشدد شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت و تحریک میں نظر آتا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ اگرچہ شیخ کی دعوت میں شہیدین کی طرح (جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے) کتاب و سنت کی طرف رجوع کی پر زور دعوت بھی ملتی ہے۔

شیخ نے سلفی نہج فکر کو اپناتے ہوئے توحید کے خاص پہلو 'توحید الالوہیۃ' پر زیادہ زور دیا ہے۔ یعنی 'معرفت حق' کی بجائے 'طلب حق' کو اصل توحید قرار دیا ہے اور معرفت حق کو وسیلہ۔ اس سلسلہ میں ائمۂ اربعہ کے توحیدی فکر خصوصاً امام احمد بن حنبلؒ اور سلفی فکر کے شارح امام ابن تیمیہؒ کی خوشہ چینی کی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ کا خاندان 'حنبلی مکتبہ فکر' سے وابستہ رہا ہے۔ اگرچہ امام ابن تیمیہؒ کی متابعت میں شیخ کتاب و سنت کی تعبیر میں حنبلی فقہ کے پابند نہیں ہیں آخر میں شیخ کے لئے مصر کے مشہور ترقی پسند ادیب ''طٰہ حسین' کی ایک بحث 'جزیرۂ عرب میں ادبی کام' سے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

مسٹر طٰہ حسین اس تحریک کو دین و سیاست کا مجموعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ مذہب نیا بھی ہے اور پرانا بھی۔ نیا (اس دور کی دینی اور سیاسی حالت) معاصرین کے اعتبار سے اور پرانا حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے کیونکہ یہ مضبوط دعوت ایسے خاص پاکیزہ اسلام کی طرف ہے جو شرک اور بت پرستی کے ہر اختلاط سے پاک ہے۔

پھر طریقِ کار کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عجیب اتفاق ہے کہ اس نئے مذہب کو نجد میں ہوبہو وہی حالات میسر آئے جو حجاز میں (آنحضرت ﷺ کے دور کے) اسلام کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ مثلاً اس کے داعی نے نرمی سے دعوت کا آغاز کیا۔ جب لوگوں نے قبول کی تو بر سر عام اس کا اظہار ہوا۔ اسے پریشانی لاحق ہوئی اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہی داعی خود کو برادریوں کے امراء رؤسا کے روبرو پیش کرتا ہے جس طرح نبی ﷺ نے خود کو قبائل پر پیش کیا پھر اس نے درعیہ کی طرف ہجرت کی اور اس کے باشندوں نے اس کے تعاون پر معاہدہ کیا جس طرح نبی ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ لیکن محمد بن عبد الوہاب نے دنیاوی امور میں مصروف رہنا پسند نہ کیا لہٰذا سیاست (اپنے خلفاء سعودیوں کے ہاتھ میں چھوڑ کر) اسے اپنی دعوت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جب یہ سب کچھ مکمل ہوا تو لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف بلایا پھر جس نے قبول کیا خلاصی پائی اور جس نے انکار کیا اس پر تلوار سونتی اور لڑائی مسلط کی اس طرح نجدی زیر ہوئے اور اطاعت قبول کر کے اس دعوت کے سلسلہ میں قربانیاں دیں۔ جس طرح عرب نبی ﷺ کے تابع فرمان ہوا اور صحابہ نے آپ کے ساتھ ہجرت کی۔

اگر ترک اور مصری اس مذہب کے خلاف جمع ہو کر ایسی قوت اور اسلحہ سے اسی سرزمین میں نہ لڑتے جو ان بدوؤں کے پاس نہ تھا تو امید کی جا سکتی تھی کہ یہ مذہب عرب کی آواز کو بارھویں تیرھیوں صدی ہجری میں اسی طرح ایک کر دیتا جس طرح ظہور اسلام کے وقت پہلی صدی میں عرب کا اتحاد ہوا تھا۔ واٰخر دعوانا أن الحمد للہ رب العلمین۔

آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کا نفاذ

آزاد کشمیر کی اسمبلی نے شرعی تعزیرات کے قانون کا مسودہ متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ حزبِ اختلاف اور سرکاری پارٹی نے آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کے نفاذ کو نہ صرف آزاد کشمیر کی تاریخ جہاد آزادی میں اہم ترین بلکہ ساری اسلامی دنیا میں نہایت شاندار کارنامہ قرار دیا۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اسلامی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے تاکہ سارے معاشرے کی اصلاح ہو سکے۔ نیز اس نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ مسودۂ قانون کی دیگر دفعات کو بھی جلد نافذ کیا جائے۔ حکمران پارٹی نے اس قانون کو ایک غیر معمولی کارنامہ قرار دیا۔ (نوائے وقت ۱۴؍ اگست)

آزاد کشمیر کی اسمبلی کے اراکین کو اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایات سے نوازے اور ان کو اس امر کا اجر جزیل عنایت فرمائے کہ انہوں نے ایک ایسا مبارک اقدام کیا ہے جس سے مغرب زدہ طبقہ کتراتا یا شرماتا ہے۔

ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ: جو لوگ اسلامی اقدارِ حیات کے زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر فتوحات کے دروازے کھول دے گا، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد ملک میں حالات کچھ دگرگوں ہو گئے تھے۔ اس لئے مایوسی سایہ ڈالنے ہی والی تھی کہ حضرت سہیل ری اللہ تعالیٰ عنہ باب کعبہ پر کھڑے ہو کر بولے کہ:

حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ: لوگو! میرے ہمراہ لا إلٰه إلا اللہ کہو عرب تمہارے مطیع اور عجم باجگذار ہو جائیں گے، بخدا! قیصر و کسریٰ کے خزانوں (تمہارے قبضے میں آجائیں گے اور) کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے (الکامل ص ۱۲۴)

آزاد کشمیر کی یہ مُور بے مایہ اگر کتاب و سنت کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یقین کیجئے! کل وہ مقبوضہ کشمیر بھی آپ کے قدموں میں ہو گا جو اس وقت تک لا ینحل مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔

کیونکہ حدود اللہ اور اسلامی تعزیرات کے نفاذ کی جو برکتیں ہیں وہ رنگ لائے بغیر نہیں رہ سکتیں رحمۃ للعالمین ﷺ کا ارشاد ہے۔

«إقامة حد من حدود الله خير من مطر أربعين ليلة في بلاد الله» (ابن ماجه)

'ملک میں حدود اللہ میں سے ایک حد کا نفاذ ہی مسلسل چالیس راتوں کی بارش سے زیادہ خیر و برکت کا موجب ہے۔'

اس لئے ہم سردار عبد القیوم، اسمبلی کے ارکان اور دوسرے ان رہنماؤں کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں، جن کی مساعی جمیلہ سے آزاد کشمیر کو یہ سعادت نصیب ہوئی، یہ ایک ایسا مثالی کردار ہے جو پاکستان اور دوسری اسلامی ریاستوں کو دعوت مطالعہ دیتا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے: مسلم ہو تو اس کا ثبوت دو۔

قانون ضرورت کے تحت شریعت کی تعبیر نو؟

ہمارے ایک عزیز دوست نے 'زکوٰۃ اور عصری تقاضے' کے عنوان سے زکوٰۃ کے موضوع پر متعدد قسطوں میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس میں ایک جگہ فرمایا:

'خوش مال معاشرہ کا قیام اسلام کا بنیادی نظریہ ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت بھی اسی نقطۂ نظر سے ہوئی ہے تاہم جس معاشرہ اور ماحول میں اس عمل کو فرض کیا گیا ہے وہ آج کل کے ماحول اور معاشرہ سے قدرے مختلف تھا۔ اس سلسلہ میں 'قانون ضرورت' کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ شرعی قانون کی رو سے زکوٰۃ چار اشیاء پر فرض ہے۔

(1) مویشی (2) غلہ اور پھل (3) نقدی (سونا چاندی) (4) تجارت۔

پہلی تین مدات تو بحالہ قائم ہیں مگر جہاں تک مال کی تجارت کا تعلق ہے، اس کا میدان اب بہت وسیع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس معاملہ میں مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔ نصابِ زکوٰۃ بھی اسلام میں مقرر ہے لیکن اس معاملہ میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ انفاق فی سبیل اللہ کی کم از کم مد ہے۔ زکوٰۃ کا یہ نظام جب رائج کیا گیا تو اس وقت طلب اور رسد کی ضرورت کے مطابق تھا۔ زکوٰۃ کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مقررہ اموال میں سے معینہ مقدار ادا کر دی جائے۔ چاہے وہ معاشرتی ضروریات کا ایک فی صد ہی پورا کرے۔ زکوٰۃ کو فقراء اور محتاج لوگوں کی تمام ضروریات کا کفیل ہونا چاہئے۔ لہٰذا آج کل اس امر کی ضرورت ہے کہ 'ضرورت' کا اندازہ لگا کر نظام زکوٰۃ کو از سرِ نو منظم کیا جائے۔ (ہفت روزہ 'اہلحدیث' لاہور ص ۳، ۱۶؍ اگست ۱۹۷۴ء)

ہم نے یہ طویل اقتباس اس لئے نقل کیا ہے کہ فاضل ایڈیٹر کی بات سمجھنے میں اغلاق نہ رہ جائے۔ یہ فکر جدید طبقہ کی طرف سے وباء کی طرح پھیل رہا ہے، یہاں تک کہ وہ اہل حدیث جنہوں نے بادِ مخالف کے تیز و تند جھونکوں میں ہمیشہ شمع سنت فروزاں رکھی وہ بھی اب ڈانوا ڈول ہونے لگے ہیں۔

جس انداز سے مسائل کو سوچنے سمجھنے کے لئے اب چلن عام ہونے لگا ہے وہ مومنانہ کم اور مار کسی زیادہ ہے۔ اسلاف کے نزدیک حسن و قبح شرعی ہے، قدیم اور جدید اہلِ اعتزال کے نزدیک سرتاپا عقل۔ اس لئے شرعی نقطۂ نگاہ سے سوچنے کی کم کوشش کی جاتی ہے، صرف مادی اور افادی حیثیت سے جائزہ لیا جا رہا ہے، گویا کہ، اب خدا سے بھی مطلب کی دوستی ہو گئی ہے۔ اور بالکل یوں جیسے اب خدا کو اپنے بندوں سے ہی پوچھ پوچھ کر چلنا چاہئے۔ بہر حال ہمیں اس اندازِ نظر سے شدید اختلاف ہے، ورنہ کتاب و سنت کی ایک شے بھی متجد دین کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے گی۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں وقت کافی بچتا تھا، پانچ نمازیں چھوڑ دس پڑھی جا سکتی تھیں، اب حالات قطعی مختلف ہو گئے ہیں۔ پانچوں وقت مسجد میں حاضری سے بڑا ہی حرج ہوتا ہے، لہٰذا اب صرف صبح کی رہ جانی چاہئے یا زیادہ ایک شام کی۔ پہلے قوتِ برداشت زیادہ تھی۔ گرمیوں کے روزے ممکن تھے، اب سارے دسمبر جنوری میں آنا چاہئیں اور وہ بھی ہفتہ عشرہ سے زیادہ نہ ہوں۔ حج سے غرض ایک عظیم اجتماع ہے سو وہ حالات کے مطابق مناسب موسم اور مناسب جگہ میں ہو سکتا ہے، اتنا دور دراز کا سفر کیا ضرورت ہے۔ قرآن حکیم ایک آئینی کتاب ہے اس سے پروگرام لو، اور مناسب طریقے نافذ کرو، یہ تلاوت ولادت کے چکروں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ الخ

زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو ویسی ادا کی جائے گی، جیسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا نمونہ پیش کیا۔﴿ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ لِلَّذينَ يُر‌يدونَ وَجهَ اللَّهِ...٣٨﴾... سورة الروم" باقی رہیں 'ضرورتیں'؟ سو یہ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ، وہ صرف زکوٰۃ کے ہی کھاتے سے پوری ہونی ضروری ہیں؟ اسلام نے اس سلسلے میں کفالت کا ایک عام اصول بھی بتایا ہے، یعنی اقرباء اپنے ناداروں کے ذمہ دار ہیں ﴿فَـٔاتِ ذَا القُر‌بىٰ حَقَّهُ وَالمِسكينَ وَابنَ السَّبيلِ﴾ (سورت بنی اسرائیل و سورہ روم) ہمسایہ اپنے ہمسایوں کی دستگیری کرنے کا مکلف ہے (بخاری) اور مخیر حضرات کو زکوٰۃ کے علاوہ بھی مجبوروں پر نظر رکھنے کا حکم ہے۔﴿وَفى أَمو‌ٰلِهِم حَقٌّ لِلسّائِلِ وَالمَحر‌ومِ ١٩... سورة الذاريات" حضری کو مسافروں کو خوش آمدید کہنا چاہئے، لیکن یہ چیزیں شرعی اصطلاح میں فرض کفایہ کی شکلیں ہیں نہ کہ قانونِ ضرورت کے تحت مصارف کی تعیین نو یا تعمیر نو کی کھلی چٹھی مہیا کریں۔

زکوٰۃ سے غریب کی مد ہو جاتی ہے، رفاہِ عامہ کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور دینے والے کا تزکیہ ہوتا ہے، دنیا میں بسر کرنا ہے لیکن وہ مطلوب و مقصود مومن نہیں ہے۔ یہ دراصل جزوی خلا پُر کرنے کے کام آتی ہے۔ وہ سارے خلا جو غیر محتاط معاشرہ نے پیدا کر ڈالے ہیں، زکوٰۃ ان کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر نظامِ معاشرت اسلامی ہو تو آپ کو زکوٰۃ لینے والوں کی تلاش ہی کرنا پڑے۔ ہم اپنی حماقتوں اور اسلام دشمن اعمال کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو بھی زکوٰۃ ہی سہارا دے! کیوں! مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں شرعی قوانین کفالت اور مصارف ہماری تمام ممکنہ ضرورتوں کے ضامن ہیں کسی اور قانون ضرورت کی مطلقاً حاجت نہیں۔

بہرحال ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کے متعین احکام میں رد و بدل کرنے کی ریت بہت برا اور حد درجہ فتنہ پرور رنگ لائے گی۔ بہتر ہے یہ دروازہ کھولنے کی کوشش نہ کریں۔

ریڈیو پاکستان کی بد دیانتی

امریکہ سے واپسی پر ایک عظیم اجتماع سے تقریر کرتے ہوئے مولانا مودودی نے مرزائیوں کے سوشل بائیکاٹ کو اسلام کے عین مطابق بتایا جسے ہزاروں لوگوں نے سنا مگر داد دیجئے ریڈیو پاکستان کو کہ اس نے اس کے برعکس مولانا موصوف سے یہ بیان نشر کیا کہ وہ قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کو جائز نہیں تصور کرتے۔

ریڈیو پوری قوم کی امانت ہوتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کی جاگیر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا عملہ اس امر کا مجاز ہوتا ہے کہ اس کو کسی طبقہ کی دلجوئی کے لئے غلط استعمال کرے۔ کیونکہ وہ کسی خاص پارٹی کے سرکاری ملازم نہیں ہوتے بلکہ پوری قوم کے معزز کارکن اور ملازم ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو اپنے پیشہ کی تقدیس اور ذمہ داریوں کا خود احترام کرنا چاہئے۔

مولانا موصوف سے سینکڑوں اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن اس امر کے ممنوع ہونے میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ ان کے بیان کو کوئی توڑ موڑ کر پیش کرنے کی کوشش کرے اگر یہ سلسلہ جاری رہا جیسا کہ یہاں پر مدتوں سے جاری ہے تو بیرونی دنیا پاکستانی ریڈیو پر قطعاً کوئی بھروسہ نہیں کرے گی۔ اور یہ بات ملک و ملت کے لئے نیک نامی کا موجب نہیں بن سکتی۔