عالم اسلام کا اتحاد اور استعماری طاقتوں کے جال

( قسط 2)

مشنتری سرگرمیاں (تبشیر) اور استعمار ایک دوسرے کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہیں

(بسلسلہ مسلمان ریاستوں میں اسلامی قانون سازی کے قابل غور مسائل)

دوسرا موضوع تھا ''الوحدۃ الاسلامیة'' یعنی اتحاد عالم اسلامی۔ اس موضوع پر بہت کم مقالے پڑھے گئے۔ ایک مقالہ دکتور عبد العزیز کامل کا قابل توجہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو چیزوں میں تشابہ یا تباین دیکھنا بڑی حد تک دیکھنے والے کے نقطۂ نظر کی بات ہے۔ عالم اسلامی کے قلب میں وہ قوم ہے جو سب سے پہلے اسلام کا جھنڈا لے کر نکلی اور جس کی زبان قرآن کی زبان ہے۔ مشرق میں وہ قومیں ہیں جو عقیدۂ اسلام میں برابر کی شریک ہیں اور جن کی عبادت کی زبان عربی ہے۔ شمال میں جنوبی یورپ سے اسلام سمٹ چکا ہے اور وسط ایشیا سے بھی سمٹ رہا ہے۔ یہ اسلام کے جزر کا کنارہ یا ''خط التراجع'' یعنی پسپائی کا خط ہے۔ جنوب میں یعنی افریقہ میں اسلام کے مد کا کنارہ یا 'خط التقدم' یعنی آگے بڑھنے اور پھیلنے کی سمت ہے۔ یورپ کی عیسائی قومیں اسلام کے اس پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ اس غرض سے وہ سیاسی دباؤ بھی ڈالتی ہیں او سب سے بڑھ کر مدرسوں اور اسپتالوں کے ذریعہ کام کرتی ہیں۔ انہیں دشمن اسلام طاقتوں نے اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر بھونک دیا ہے جس سے عالمِ اسلام دو ٹکڑے ہو گیا ہے۔ دورِ عالمِ اسلام کے مشرقی کنارے پر فلپائن میں مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کھلی جنگ بپا ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر سلطان عبد الحمید کا ذکر آیا کہ وہ تاریخ کی بڑی مظلوم شخصیت ہے۔ انہوں نے چونکہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، اس لئے وہ سازش کا شکار ہوئے اور مسلمانوں نے بھی ان کی قدر نہیں پہچانی۔ دوسرے یہ کہ حبشہ کے ہیلی سلاسی اسلام کے پکے دشمن ہیں۔ مسلمانوں پر انہوں نے بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں اس کے باوجود سیاسی مصلحتوں کی بنا پر مسلم ممالک میں ان کی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ الغرض پورے عالمِ اسلام میں قیدہ کی وحدت ہے۔ کم از کم عبادت کی زبان ایک ہے۔ زندگی کے طور طریقے بھی یکساں ہیں۔ مختلف سیاسی وحدتوں کے وجود سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن استعماری طاقتوں نے اقلیمیت قومیت اور علاقائی عصبیت کا بیج بو دیا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مسلم ممالک بڑی طاقتوں کی رسہ کشی کے سیاق میں مختلف بلکہ متضاد میلانات و رجحانات رکھتے ہیں اور ان کی بڑی شد و مد سے حمایت کرتے ہیں۔ ماضی میں یہ ہوا کہ ابتدا ہی سے وحدتِ اسلامی کا جامع منصوبہ باندھا گیا۔ اور بڑی بڑی توقعات اس سے وابستہ کی گئیں۔ واقعیت کا تقاضا یہ ہے کہ جن مقاصد پر مکمل اتفاق رائے ہو ان سے ابتداء کی جائے خواہ یہ مقاصد کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں، اور اس اتحاد کو خود بخود بڑھنے کا موقع دیا جائے اتنا بے شک ضروری ہے کہ مختلف ادارے جو کسی نہ کسی دائرہ میں اتحاد کے لئے کوشاں ہیں انہیں ایک مرکزی ادارہ میں جمع کر دیا جائے۔

تیسرا موضوع تھا التبشیر في العالم الإسلامی۔ یعنی عالمِ اسلامی میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں۔ یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہی گئی کہ مسلم ممالک کی سیاسی آزادی اور استقلال کے بعد اس موضوع کو سرے سے ختم ہی ہو جانا چاہئے تھا اور استعمار کی تاریخ کا جزو بن کر ماضی کی داستان میں جگہ پانا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس یہ موضوع آج پہلے سے کہیں زیادہ تازہ، خطرناک اور فوری اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے تمام مسلم ممالک میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں نئے وسائل اور نئے اسالیب کے ساتھ بڑے پیمانے پر اور بڑی سینہ زوری کے ساتھ نمودار ہوئیں اور روز افزوں تیزی کے ساتھ آج بھی بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کوئی کہے یا نہ کہے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پس ماندہ ملکوں کو آزادی دیتے ہی یورپ کی ترقی یافتہ قوموں نے ان کو صنعتی ترقی کا خواب دکھلایا اور از خود دروازہ پر آکر طرح طرح کی امداد (Aid) کی پیشکس کی۔ یہ امداد ایک ایسا جال ہے کہ طائر زیرِ دام جتنا باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی اس کے پھندے مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ بالخصوص مسلم ممالک کی اس احسان مندی سے عیسائی مشنری تنظیموں کے حوصلے بڑھے اور ان کے کارکنوں کو اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے مواقع میسر آئے۔

تاریخ میں ہمیشہ استعمار اور کنیسہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف اور مددگار نظر آتے ہیں۔ یہ محض اتفاقی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے۔ ایک طرف تو یہ نظریہ ہے کہ دنیا تمام انسانوں کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے کسی شخص یا قوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کو قدرتی ذخیروں تک پہنچنے سے روکے۔ یہ استعمار کی اخلاقی اساس ہے۔ دوسری طرف انجیل کا یہ حکم ہے کہ ''جاؤ اور اقوام عالم کو تعلیم دو۔ اس طرح تبشیر کے لئے سیاسی اور فوجی طاقت سے مدد لینا فرض ہوا۔ چنانچہ استعمار اور تبشیر دونوں ایک دوسرے کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب پرتگال اور سپین میں افریقہ کی تجارت کی بابت جھگڑا ہوا تو پاپا نیقولا خامس نے یہ فیصلہ دیا کہ کینیا تک افریقہ کی سرزمین پر قبضہ کرنا پرتگال کا حق ہے اور اگر کسی دوسری مسیحی طاقت نے اس کی مزاحمت کی تو اسے کنیسہ سے نکال دیا جائے گا۔ بعد کو جب کولمبس کے اکتشافات کے نتیجہ میں اسپین کی بحری طاقت بڑھ گئی تو ۱۴۹۳ء میں پاپا الگزینڈر نے دنیا کے مختلف حصوں کو پرتگال اور اسپین کے منطقۂ نفوذ Sphere of Influence میں تقسیم کیا۔ اس سے بڑھ کر سبق آموز یہ بات ہے کہ انیسویں صدی میں جب فرانس میں دین اور دولت (کنیسہ اور حکومت) میں مکمل جدائی ہو چکی تھی اور سیاست میں کنیسہ کا عمل دخل گوارانہ تھا عین اسی وقت فرانس کی حکومت الجزائر میں کنیسہ اور اس کے کارکن مبشرین (مشنریز) کو اپنی سیاست کی تنقید کا مؤثر ادارہ تصور کرتی تھی اور اسی اعتبار سے اس کی سرپرستی کرتی تھی۔ گھر میں تو کنیسہ سے قطع تعلق اور گھر سے باہر کنیسہ کے ہاتھ میں ہاتھ۔ وجہ ظاہر ہے کہ مستعمرات میں حکومت اور کنیسہ دونوں کا مقصد مغلوب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے اپنا غلام اور تابع بنانا تھا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے اور اسلام کی جڑ کاٹی جائے۔ یہ مبشرین جو رحمت کا پیام لے کر آئے تھے ان کے وحشی اعمال کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۸۶۸ء میں انہوں نے الجزائر کے قحط کے حالات میں ۱۷۵۳ یتیم عیسائی بنانے کے لئے بھیج دیئے (ایسے واقعات ہندوستان کی تاریخ میں بھی ملتے ہیں)

انیسویں صدی تک مسلمانوں کی غیرت کا یہ حال تھا کہ وہ ان عیسائی مبشرین سے حکومت سے کسی اقدام کا انتظار کیے بغیر خود ہی نمٹ لیتے تھے۔ وہ ان کو بجا طور پر دشمنِ اسلام اور استعمار کا آلۂ کار اور جاسوس سمجھتے تھے اور دیکھتے ہی انہیں قتل کر دیتے تھے۔ غیرت مند مسلم عوام ان عیسائی مبشرین کو اپنے درمیان برداشت کرنے پر اس وقت مجبور ہوئے جب عیسائی حکومتوں نے کمزور مسلمان حکومتوں سے معاہدے کر کے امتیازات حاصل کیے۔ پھر بھی عرصہ تک یہ عیسائی مبشرین اندرونی علاقوں میں تاجروں کا بھیس بدل کر جاتے تھے۔ مسلمانوں کی رواداری کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ یہ دشمنانِ اسلام یہودی تاجروں کے بھیس میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ''شارل دوفوکو'' یہودی کے لباس میں تونس اور مغرب کے علاقہ میں گھومتا پھرتا آنکہ اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور ایک مسلمان کی گولی نے اس کا کام تمام کر دیا۔ آج یہ حال ہے کہ مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی حکومتوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ رحمت کا پیام لانے والے صلیب بردار، ان کے، ان کی سیاسی آزادی کے اور ان کے دین کے دشمن ہیں۔

استاد عثمان الکعاک نے تبشیر یعنی عیسائی تبلیغ اور عیسائیت کے پرچار کے اقسام اور طریقہ پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔

1. پہلی قسم ہے التبشیر الصریح یعنی صریح انداز میں کھلم کھلا عیسائیت کا پرچار کرنا اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ علمی مناظرہ کا ہے۔ اس طریقہ سے عیسائیوں کو مطلق کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسلام نہایت سادہ، منطقی اور آسانی سے عقل میں آنے والا مذہب ہے۔ اس کے برعکس عیسائیت کا ہر عقیدہ ایک گورکھ دھندا ہے۔ مسلمان علماء نے مناظرہ کی خدمت بڑی عرق ریزی اور خوش اسلوبی سے انجام دی ہے۔ سب سے پہلے ابن حزم نے اپنی کتاب 'الفصل بین الملل والنحل'' میں اس کا حق ادا کیا۔ اس کے بعد عبد اللہ الترجمان کا نمبر آتا ہے جو تونس میں 'سیدی تحفہ' کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ ابتداء میں بہت بڑے پادری تھے۔ انہوں نے جب اسلام کا مطالعہ کیا تو خدا نے ایسی ہدایت کی کہ مسلمان ہو کر عیسائیت کا دندان شکن جواب لکھا۔ 'پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے' ان کی کتاب کا نام ہے 'تحفة الأدیب في الردّ علی أھل الصلیب' یوں کہنا چاہئے کہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی۔ انہیں کے ساتھ ہندوستان میں جواد ساباط اور شیخ رحمت اللہ کے نام زندۂ جاوید ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مناظرات کا سلسلہ ہی ختم کر دیا۔

علمی مناظرہ کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ تشکیک کا ہے۔ یہ طریقہ تحریر، تقریر اور تعلیم ہیں۔ استعمال کرتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو ان کے دین، تہذیب اور ثقافت ماضی اور مستقبل کی بابت شک میں ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسلامی نظامِ حیات فرسودہ ہو چكا ہے۔ موجودہ دور میں مغربی نظام حیات اختیار کیے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ مسلمانوں میں بھی جمہوریت نہیں رہی۔ اسلام نے فقیروں اور مظلوموں کو صبر و شکر کی تلقین کر کے دبائے رکھا، علم میں ترقی کے لئے مسلمانوں کو قرآن کی زبان سے نجات حاصل کرنا پڑے گی۔ اس کے بعد وہ چاہے اجنبی زبانوں، انگریزی، فرنچ کی برتری قبول کر لیں چاہے ''مادری زبان'' کے تعصب میں پڑ کر اپنی وحدت کو پارہ پارہ کر لیں۔ بہرد و صورت رنگ چوکھا آئے گا۔ اس طریقہ سے کوئی مسلمان عیسائی تو نہیں ہوتا۔ اتنا ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو 'طوق گلو افشار' سمجھنے لگتا ہے۔ اسلام کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ عیسائی مبلغ اس نتیجہ سے پوری طرح مطمئن ہیں اور یہ مسلمانوں کے لئے سمِ قاتل ہے۔ اس کے لئے عیسائی۔ مبلغ کتنے جتن کرتے ہیں، اس پر سے بحث ہوئی جس کا بیان آگے آئے گا۔

''تبشیر صریح'' کبھی کبھی شمشیر و سنان کے بل بوتے پر بھی ہوئی ہے۔ صلیبی جنگیں اس کی سب سے نمایاں مثال ہیں۔ ادھران (شمالی افریقہ) کے علاقہ میں اسپینی کافی عرصہ تک چھوٹے بچوں کو زبردستی عیسائی بناتے رہے۔ LUCERA میں سسلی کے مسلمانوں کو جمع کر کے آگ میں جلایا گیا۔ بحر ہند میں استعماری طاقتوں کی قزاقی بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ استاد عثمان الکعاک نے کہا۔ ذرا غور کیجئے۔ بیافرا میں کیا ہوا؟ جنوبی سوڈان میں کیا ہوا؟ قبرص میں مکاریوس کیا کر رہا ہے؟ پاکستان کے ٹکڑے کرنے سے اصل مقصود کیا ہے۔ فلپائن میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کیوں کھیلی جا رہی ہے؟

ایک قسم ''التبشیر المختفی'' ہے یعنی وہ تبشیر جو رحمت اور نیکی کے لبادہ میں چھپی ہوئی ہے۔ عیسائی گشتی شفا خانے، بڑے بڑے ہسپتال، اونچے اونچے مدرسے، یتیم خانے، دار الامان، سیلاب اور طوفان کے مارے ہوئے لوگوں میں امدادی کام۔ گھر گھر جا کر خواتین کو دست کاری سکھانا اور حفظانِ صحت کے طریقے سکھانا، یہ سب ظاہر میں رحمت اور باطن میں عذاب ہیں۔ جس روز ایک مسلمان یہ کہتا ہے کہ دیکھو! عیسائی کیسے رحم دل ہوئے ہیں اور کیسے نیکی اور خیرات کے کام کرتے ہیں؟ اسی روز اسلام سے برگشتگی کا بیج ان کے دل میں پڑ جاتا ہے۔

الاستاذ عثمان الکعاک نے کہا کہ تبشیر یا عیسائیت کا پرچار ایک منضبط علم بن چکا ہے اور اس کے بہت سے فروغ ہیں۔

1. لغات اور لہجات یعنی بولیوں کا علم۔ جس ملک یا جس علاقہ میں عیسائیت کا پرچار کیا جائے وہاں کی زبانوں اور بولیوں کا باقاعدہ بڑی محنت سے علم حاصل کیا جاتا ہے۔ افریقہ اور ایشیاء کی چھوٹی چھوٹی بولیوں کے سیکھنے سکھانے کا اہتمام اسی غرض سے کیا جاتا ہے۔ پیرس کے مدرسۃ اللغات الشرقیہ اور اسی قسم کے دیگر مدارس سے اصل فائدہ اُٹھانے والے وہ عیسائی ہیں جنہیں کنیسہ کی جانب سے تبلیغ کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ مغرب میں استشراق یعنی مشرقی علوم و آداب، ادیان و تواریخ کی تعلیم کا رواج اسی ضرورت کے تحت اور اسی غرض سے عمل میں آیا۔ خواہ کچھ بھی کہا جائے آج تک استشراق پر تبشیر کی چھاپ ہے۔

زبانوں اور بولیوں کے علم سے محض افہام و ابلاغ کا کام نہیں لیا جاتا بلکہ اسے مسلمانوں میں فکری انتشار کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ مثلاً مختلف عرب ممالک میں گھر اور بازار میں بولی جانے والی زبان اس کلاسیکی عربی (قرآن کی زبان) سے قدرے مختلف ہے جو لکھی پڑھی جاتی ہے۔ یہ عیسائی پادری گھر اور بازار کی بولیوں کی صرف و نحو مرتب کرتے ہیں، ڈکشنریاں تیار کرتے ہیں، فولکلور جمع کر کے اسے ادب کا نام دیتے ہیں۔ الغرض وہ بولیاں جو جہل کی علامت سمجھی جاتی ہیں انہیں مستقل زبان کا درجہ دیتے ہیں تا آنکہ وہ کلاسیکی عربی سے ٹکر لیں۔ پھر ناصح بن کر جاتے ہیں اور عربوں کو درس دیتے ہیں کہ جو زبان تم گھر میں بولتے ہو جو تمہاری مادری زبان ہے اسی کو لکھنے پڑھنے کا ذریعہ بناؤ اور قرآن کی زبان کا بوجھ جو تم لادے پھرتے ہو اس سے چھٹکارا حاصل کرو۔ چودہ صدیوں میں زبان کا بدل جانا بالکل فطری امر ہے۔ تم قرآن کی خاطر اس فطری تغیر کو روکنا چاہتے ہو اور اس سے انکار کرتے ہو۔ علم کے میدان میں تمہارے پیچھے رہ جانے کا یہی سبب ہے۔ فرانس کی حکومت اور مبشرین دونوں نے مل کر سب سے زیادہ زور عرب اور بربر کے اختلافات کو ہوا دینے میں لگایا۔ بربریوں سے کہا کہ عربی زبان عربوں کی غلامی کی علامت ہے عربوں نے تمہاری زبان کو کچل دیا ورنہ اس میں کیا نہیں ہے۔ یہاں تک آگے بڑے کہ بربر تو غالی نسل سے ہیں جس نسل سے کہ فرانس کے باشندے ہیں۔ اس لئے ان کا فرانس کے ساتھ متحد ہونا ایک طبیعی امر ہے۔ علم اجناس البشر (Anthropology) کی مدد سے ثابت کیا کہ ایک بربری کے اور ایک عربی کے دماغ کی ساخت بالکل جداگانہ ہے۔ یہ فتنہ بڑے زور سے اٹھا۔ چند نوجوان جو پختہ شعور نہیں رکھتے تھے وہ گمراہ ہوئے لیکن بہت جلد یہ بات عیاں ہو گئی کہ عربوں کے اتحاد کی ضمانت 'عربیہ فصحی' کلاسیکی عربی اور قرآن کی زبان ہے۔ مقامی بولیوں کے تعصب سے یہ رشتہ ٹوٹا تو پھر وہ دین دنیا کہیں کے نہیں رہیں گے۔ بربریوں کے دل میں اسلام کتنا گہرا بیٹھا تھا اس کی بابت بھی فرانسیسی استعمار اور تبشیر دونوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ صدیوں عربوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر بربریوں نے جہاد کی روح کو محفوظ رکھا تھا جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ یہ انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے اور فرانس میں ضم کرنے کی سازش ہے فوراً شدید ردِ عمل ہوا اور فرانسیسی بربری مدارس سے نفرت و بغاوت کے شعلے اُٹھے۔ ایک واقعہ ہے کہ مدرسہ میں ایک چھوٹی بچی کو فرانسیسی زبان کی ایک نظم یاد کرائی گئی جو کچھ اس طرح شروع ہوتی تھی۔ 'اے چچا گرجا کی گھنٹی بج رہی ہے، جا دعا کر۔' شام جب وہ گھر لوٹ رہی تھی تو از خود اس نظم کو بدل کر یوں گا رہی تھی۔ 'میرے چچا! موذن نے اذان دے دی وضو کر اور جا نماز پڑھ۔'

علال فاسی مغرب (مراکش) کے تجربہ کار سیاست دان اور لیڈر ہیں۔ جہاد آزادی میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ایک نادر بات یہ ہے کہ وہ بیک وقت عالم بھی ہیں اور سیاسی لیڈر بھی۔ ایک طرف عربی کی قدیم لغت 'مختصر العین للزبیدی' ایڈٹ کرتے ہیں دوسری طرف اپنی علمی بصیرت سے سیاست کو روشن کرتے ہیں۔ مجھے ان سے نو سال قبل ملنے کا اتفاق ہوا تھا اس کی بنا پر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارے بہت سے پاکستانی لیڈروں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں۔ افسوس کہ ''اتراشحنہ'' قسم کے لیڈروں کا آئے دن پاکستان میں استقبال ہوتا رہتا ہے اور علال فاسی جیسے دانا اور مخلص دوستوں سے پاکستانی عوام نا آشنا ہی رہتے ہیں۔ خیر! علال فاسی علالت کی وجہ سے الجزائر کے اجتماع میں شریک نہ ہو سکے لیکن انہوں نے اپنا مقالہ لکھ کر بھیجا تھا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ جب مغرب کی جنگ آزادی پورے زور سے جاری تھی تو ایک طرف تو مجاہدین نے پاپائے روم سے اظہار ہمدردی کی جو اپیلیں کیں ان کا انہوں نے جواب تک نہ دیا۔ دوسری طرف روس نے اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مجاہدین آزادی کا ساتھ دینے کی بجائے ڈی گال کی حکومت کی حمایت کی۔ جن ماسکو نواز حضرات کو اس سے اچنبھا ہو وہ سن لیں اور سمجھ لیں کہ روس کا منصوبہ یہ تھا کہ بالکل اتحاد سوفیاتی کی طرف پر ایک اتحاد فرانسیسی قائم ہو اور اس میں شمال افریقہ کے مسلم ممالک جن پر فرانس کا تسلط تھا ان کی حیثیت وہی ہو جو اتحاد سوفیاتی کے اندر وسط ایشیا کے مسلم ممالک کی ہے!!! یہ وہی ''قومیتوں'' کی آزادی و خود مخاری کا نسخہ ہے جسے لینن کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے اور جس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ یہ نسخہ دو اجزا سے مرکب ہے۔ پہلا جزو یہ ہے کہ ہر قسم کے اختلافات کو جلا دو۔ مقامی تعصبات کو ہوا دو۔ مصنوعی طریقوں سے نیشنلیٹز کو جنم دو اور کاغذ کے پرزے پر آزادی اور خود مختاری کا تحفہ دے کر طفل تسلی کر دی۔ دوسرا جزو یہ ہے کہ جب ہر نیشنلٹی انفرادی طور پر اتنی کمزور ہو جائے کہ کس جدوجہد کے قابل نہ رہے او رسب کو نظریاتی، فوجی آمرانہ جابرانہ مرکزی نظام کے تحت آہنی اتحاد کی گرفت میں ایسا جکڑو کہ آزادی اور خود مختاری کے استعمال کا خیال تک نہ آنے پائے۔ بالخصوص دین و مذہب کی آزادی حرام قرار پائے اور غداری کے مترادف ہو جائے۔ اس کے بعد بھی اگر ذرا خدشہ ہو تو ایک آہنی پردہ ڈال کر ساری دنیا سے تعلق منقطع کر دو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شمالی افریقہ میں فرانس کی حکومت نے اور عیسائی مبشرین نے جو کچھ کہا تھا وہ روس کے مقاصد اور اس کے طریقہ کار کے عین مطابق تھا۔ متعدد عرب اور بر بر قومیتیں دردِ زہ کے مرحلہ سے گزر رہی تھیں۔ فرانس کی حکومت اگر ناپام بم گرا کر اپنے جبر و استبداد کو بچا رہی تھی تو یہ تو وہ گناہ ہے جو روس میں بھی کیا جاتا ہے۔ مقصود مسلم ممالک کی آزادی نہیں بلکہ یہ کہ فرانس کی حکومت روس کی شاگردی اختیار کرے اور مسلم ممالک کے ساتھ وہی سلوک کرے جو روس نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے۔ وقت جیسے تیسے گزر ہی گیا البتہ روس کی اس معاندانہ پالیسی کا ایک اچھا نتیجہ برآمد ہوا کہ شمال افریقہ کے مسلم ممالک میں آزادی کی تحریکیں تمام تر اسلامی محرکات کے تابع رہیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو یہ موقع نہ مل سکا کہ وہ ان تحریکات میں عمل دخل پیدا کر کے ان کا منہ موڑیں اور اپنا اُلو سیدھا کریں۔

جب یہ حقائق تابڑ توڑ سامنے آرہے تھے تو میں بیٹھا پاکستان کے احوال پر غور کر رہا تھا۔ یہ جو چار یا پانچ قومیتیں آہستہ آہستہ پل رہی ہیں جس روز انہیں بال و پر نصیب ہوئے اس روز انہیں متحد رکھنے کے لئے روسی امپریلزم ناگزیر ہو جائے گا۔ روسی مارکہ قومیتوں کے کسی جمہوری نظام میں منسلک رہنے کی کوئی مثال نہیں۔ ایک آمرانہ جابرانہ مرکزی نظام قومیتوں کے تصور کے ساتھ لازم ملزوم ہے گو قبل از وقت اس پر گفتگو نہیں کی جاتی۔

یہ مستشرقین اور مبشرین تاریخ اور علم الآثار (آر کیالوجی) کو بھی اپنے اغراض کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کی قدیم تاریخ کریدتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ اسلام سے پہلے یہ ممالک کیسی سیاسی اور تہذیبی عظمت کے مالک تھے۔ گویا اسلام ان کے زوال کا باعث ہوا۔ جب ایک مصری اہرام پر فخر کرنے لگے اور یہ بھول جائے کہ اسلام نے مصریوں کو بدترین غلامی، انسان کی بندگی، اقتصادی ظلم اور سماجی ناہمواری سے نجات دلائی و ظاہر ہے کہ دشمنان اسلام کا مقصد پورا ہوا۔ اسی کا ایک اہم پہلو یہ ہے جس کی طرف استاد علال فاسی نے توجہ دلائی اور وہ یہ کہ استعماری حکومتیں شریعت کو میدان سے خارج کرنے کے لئے مقامی عرف اور رواج کو زندہ کر کے اسے قانونی تحفظ دیتی ہیں۔ اس طرح ایک مرتبہ جب شریعت ہٹ جائے تو عرف اور رواج کو آگے چل کر اجنبی قانون سے بدلنا آسان ہو جاتا ہے فرانسیسی حکومت نے خاص طور پر بربری علاقوں میں یہی کیا۔ پہلے قبائلی عرف اور رواج کو زندہ کیا پھر اسے فرانسیسی قانون سے بدل دیا۔

استاد علال فاسی نے ایک اور بات بڑی اچھی کہی اور وہ یہ کہ جب عیسائی مبشرین مسلمانوں کو عیسائی بنانے سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے اسلام میں ملاوٹ ڈالنے کی کوشش تیز تر کر دیں اور اس کا ذریعہ مستشرقین کے نام نہاد علمی کارناموں کو بنایا۔ استاذ عثمان الکعاک نے اس کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ عربی لغت اور شعر و ادب کی بہت سی کتابیں یسوعی پادریوں نے لبنان سے شائع کی ہیں الاب شیخو نے 'شعراء النصرانیہ' لکھی ہے جس میں بے شمار عربی شاعروں کو نصرانی بنا ڈالا ہے۔ اس سے تبشیری مقاصد پر پردہ پڑ جاتا ہے اور مبشرین کو موقع ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قریب آئیں اور انہیں متاثر کر سکیں۔ یہی مبشرین ساری دنیا میں مسلمانوں کے احوال کا تازہ بہ تازہ نوبہ نو مطالعہ کرتے رہتے ہیں مثلاً افریقہ میں اسلام کی بابت تری منگھم (Trimingham) کی تصانیف۔ مسلمانوں کے لئے یہ بات باعث افسوس و ندامت ہے کہ نہ ان کے اپنے ایسے ادارے ہیں نہ ایسے علماء جو لیاقت، تندہی اور لگن کے ساتھ ایسے کام انجام دیں۔ ہماری جامعات کے اساتذہ تک الا ماشاء اللہ، انہیں مبشرین اور مستشرقین کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں۔ دراصل اس بارے میں کسی غیر سے شکایت بے جا ہے۔ ہمیں خود اپنے اوپر رونا چاہئے۔

استاد عثمان الکعاک نے کہا کہ مبشرین کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمان نوجوان اپنے اسلامی علوم عربی ادب، قرآن و حدیث فقہ میں اپنے علماء کے بجائے مغرب کے مستشرقین کی شاگردی اختیار کریں اور عیسائی ماہرین اسلام مستند مسلم علما کی جگہ لیں۔ اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک صدی سے مومن عالم کی توہین اور دینی اسلامی علوم میں بھی مشرک کی تکریم کا سلسلہ جاری ہے اور ہنوز ختم ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ ازہر کے دکتور الغزالی نے اپنی تعقیب (اظہار رائے) کے دوران سارا وقت اسی پر صرف کیا اور اسی نقطہ کو ابھارا۔ انہوں نے کہا مستشرقین نہ تو عربی پڑھاتے ہیں اور نہ قرآن حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ کسی لحاظ سے بھی اس کے اہل ہیں۔ وہ تو صرف ایک انداز فکر دیتے ہیں۔ نوجوان مسلم طالب علم کی آنکھوں پر ایک رنگین چشمہ لگا دیتے ہیں جس سے وہ اپنے دین اور اپنے تہذیبی ورثہ میں شک کرنے لگتا ہے اس کا نام نقد ہے۔ ظاہر ہے کہ جس نقد کی ابتداء اپنے مستند علماء کی توہین سے ہو اس کی انتہا کیا ہو گی۔ عربی کی بابت بھی یہ ہے کہ ادب پڑھنے پڑھانے کے بجائے مستشرقین کی رائے اور تبصرے ازبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کے اقتباسات پر ساری عمر گزر جاتی ہے۔ دکتور الغزالی نے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ مسلم حکومتیں اس مال کے ضیاع اور ایمان کے خسارہ کو روکنے کے لئے سخت تدابیر اختیار کریں۔ اگر سائنسی علوم میں مغرب کی غلامی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدر ہو چکی ہے تو دینی علوم، عربی ادب، قرآن و حدیث میں مشرک عیسائی مبشرین اور یہودی مستشرقین کی شاگردی چہ معنی؟ اکبر کا قول یاد آتا ہے۔

''رقیب سرٹیفکیٹ دیں تو عشق ہو تسلیم'' (مسلسل)