سورۂ فاتحہ

( قسط 2)

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَجِيمِ

بِسمِ اللَّهِ الرَّ‌حمـٰنِ الرَّ‌حيمِ ١ الحَمدُ لِلَّهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ٢ الرَّ‌حمـٰنِ الرَّ‌حيمِ ٣ مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ ٤ إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ٥ اهدِنَا الصِّر‌ٰ‌طَ المُستَقيمَ ﴿٦﴾ صِر‌ٰ‌طَ الَّذينَ أَنعَمتَ عَلَيهِم...٧﴾... سورة فاتحة

الٰہی! ہم صرف تیری ہی غلامی کریں گے اور (اس کے لئے) تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ہم کو سیدھا رستہ دکھا۔ ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے (اپنا فضل) کیا۔

﴿إِيّاكَ نَعبُدُ﴾ (الٰہی! ہم صرف تیری ہی غلامی کریں گے)

جب وہاں (قیامت میں) اور کوئی نہیں! تو ہی تو ہو گا تو پھر بخدا! یہاں بھی ''تو ہی تو''! تیری عبادت کریں گے، تیرے ہی غلام رہیں گے، غلام بے دام بنیں گے، تیرے ہی گُن گائیں گے، ہر رنگ اور ہر حال میں تجھی کو اپنا قبلۂ حاجات اور مرکزِ توجہ تصور کریں گے اور تیری ہی طرف اپنا سفرِ حیات جاری رکھیں گے۔ ان شاء اللہ وھو ولي التوفیق

﴿وَإِيّاكَ نَستَعينُ﴾ (اور (اس کے لئے) تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)

الٰہی! خدا جوئی کا تہیہ کر لیا ہے لیکن یہ مہم تیری توفیق اور رہنمائی کے بغیر سر ہو؟ مشکل، مشکل ترین، محال اور ناممکن ہے۔ تو ہی ہماری مدد فرما، تو یہ راہ آسان کر اور تو ہی 'منزل مراد' تک پہنچا۔ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ

اللہ کی غلامی کے سلسلہ میں رب سے توفیقِ استقامات کی درخواست کے علاوہ الگ خدا سے یہ ایک ''عہد و پیمان'' بھی ہے کہ الٰہی! جیسے عبادت صرف تیری ہے بالکل ویسے ہی ''آسرا'' بھی صرف تیرا۔

انسان کے بہکنے اور بھٹکنے کا سب سے بڑا سبب غیر اللہ سے 'آس اور توقعات' کے غلط سہارے ہیں، وساطتوں کے یہ سارے چکر، انہی خوش فہمیوں کے پیدا کردہ ''حجابات اکبر'' ہیں۔ جو خدا اور بندوں کے درمیان شروع سے حائل ہیں اور نفس و طاغوت کی تزئین اور تحریص کا نتیجہ ہیں۔ اگر پہلے ہی دن ان کی رگ گلو پر چھری پھیر دی جائے تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا ''در'' چھوڑ کر کسی غیر کی دہلیز اور آستاں پر چوکڑی مار کر بیٹھ رہے یا کسی کے لئے ان میں کوئی وجہ دلکشی باقی رہے؟ ایک اللہ کے ولی فرمایا کرتے تھے: یہ سب کمزوریاں رب سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔

یَا رَبِّ! عَجِبْتُ لِمَنْ یَّعْرِفُكَ کَیْفَ یَرْجُوْ غَیْرَكَ وَعَجِبْتُ لِمَنْ یَّعْررِفُكَ کَیْفَ یَسْتَعِیْنُ بِخَیْرِكَ (جامع العلوم والحکم لابن رجب ص ۱۳۸)

الٰہی! میں حیران ہوں! تجھے پہچان کر پھر کوئی کیسے غیر سے آس لگاتا ہے اور یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ تجھے پہچانتا ہے، پھر غیر سے مدد مانگتا ہے۔

حضرت حسن بصری، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو خط لکھتے ہیں کہ:

لَا تَسْتَعِنْ بِغَیْرِ اللہِ فَیَکُلِّكَ اللہُ إِلَیْهِ (جامع العلوم ص ۳۸)

غیروں سے مدد نہ مانگیے ورنہ اللہ آپ کو اسی کے حوالے کر دے گا۔

الغرض استعانت کا دائرہ وسیع ہے: پس جو استعانت بندے اور خدا کے مابین 'حجاب' ثابت ہو وہ کافری، جو اس کی راہ نما نکلے، وہ ایمان پروری، بندے کو جو خدا سے درے درے رکھے، وہ ممنوع اور جو خدا سے قریب تر کر دے وہ مشروع، اللہ اللہ خیر سلا۔ ظاہر ہے وہ ایمان و عمل صالح ہی ہیں، ان کے سوا اور جو شے بھی ہوتی ہے وہ وسیلہ کے بجائے پاؤں کے لئے بیڑیاں بن جاتی ہیں۔ تجربات آپ کے سامنے ہیں۔

(۱)﴿اهدِنَا الصِّر‌ٰ‌طَ المُستَقيمَ﴾ (نہایت لطف و کرم کے ساتھ ہم کو سیدھی راہ رکھا)

آپ نے 'عہد غلامی' کر کے اللہ تعالیٰ سے 'توفیق عمل' کی درخواست کی تھی اور اس کا بھی یقین دلایا تھا کہ الٰہی صرف تیرے ہی در کی آس رکھوں گا اور جو مانگنا ہو گا تجھ ہی سے مانگوں گا۔ چنانچہ جواب ملا: کہ پھر یوں دعا کیا کرو! اگر طب صادق ہے تو، ہمت کیجیے! لب بام کچھ زیادہ دور نہیں رہا۔ کیونکہ جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔

خدا جوئی کے جذبہ سے، وحی الٰہی کی رہنمائی میں ''سفر حیات'' کی منزلیں طے کرنے کا نام ''صراط مستقیم'' ہے۔ خدا جوئی کا جذبہ اور نیت نہ رہے یا وحی الٰہی کی رہنمائی سے ہی کوئی الگ ہو جاے تو وہ راہ ''صراط مستقیم'' نہیں رہے گی۔

صراطِ مستقیم کا نام لے کر یہ سمجھایا ہے کہ: جو مانگا ہے، وہ کچھ پکا ہوا بیر نہیں کہ آپ کی جھولی میں ڈال دیا جائے بلکہ آپ کا مقصود و مطلوب وہ 'دھرا'' ہے اور ''راہ یہ جاتی'' ہے۔ چل پڑو! راہیں ہم کشادہ کرتے چلیں گے۔

﴿وَالَّذينَ جـٰهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنا...٦٩﴾... سورة العنكبوت

الغرض صراط مستقیم، جہد و کوشش کے لئے ایک لطیف تلمیح ہے، یہ نہیں کہ صراط مستقیم کی دعا کرنے سے بیٹھے بٹھائے 'ولی' بن جاؤ گے اور 'فی سبیل اللہ' قربِ الٰہی حاصل ہو جائے گا۔ راہ ہمیشہ چلنے کے لئے دکھائی جاتی ہے بیٹھ رہنے کے لئے نہیں دکھائی جاتی۔

ہدایت کے معنی لطف و کرم کیساتھ سیدھی راہ دکھانے کے ہیں یعنی الٰہی! راہ صرف اتمام حجت کے لئے نہ دکھائیو! بلکہ نہایت رحمت و رافت اور شفقت کے ساتھ ''تھام'' تھام کر'' لے چلنے کے لئے دکھائیو۔

(۱) ﴿صِر‌ٰ‌طَ الَّذينَ أَنعَمتَ عَلَيهِم﴾ (ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے (اپنا) فضل کیا)

جس جس راہ پر چل رہا ہے اسے 'صراط مستقیم' سمجھتا ہے۔ مگر یہ تو سب کی اپنی اپنی راہ ہوئی، صراط مستقیم کہاں؟ صراط مستقیم میں تعدد تنوع کا ہوتا ہے۔ تضاد کا نہیں، تضاد میں منزلیں جدا جدا ہو جاتی ہیں، تنوع میں منزل اور دل سب کے ایک رہتے ہیں، صرف رفتار اور رفتارِ کار میں فرق پڑ جاتا ہے، کوئی چیز، کوئی تیز تر، کوئی تیز ترین اور کوئی ان سے بھی 'سبک تر' مگر رخ سب کا ایک ہی طرف ہوتا ہے، محرک بھی سب کا ایک ہی ہوتا ہے اور منزل بھی ایک، اختلاف رائے ہوتا ہےتفرقہ نہیں ہوتا۔ بہرحال 'صراط مستقیم' کی تشخیص اور تعیین ، لوگوں کو اپنی اپنی صوابدید پر نہیں چھوڑی۔ بلکہ خود ہی واضح کر دی کہ، خدا کی نگاہ میں صراط مستقیم وہ ہے جس پر ''خاصانِ خدا'' انبیاء، صدیق، شہدا اور صالحین کے نقوشِ پا ثبت ہیں، یہ منعم علیہم ہیں ان میں یہ تعدد اور تفاوت، ساعی کے مدراج کا ہے، تفرق اور تضاد کا نہیں ہے۔ اس لئے دوسری جگہ ''أنعمت علیهم'' کی نشاندہی کرتے ہوئے ان مذکورہ چاروں اصحابِ مدارج کے ذکر کے بعد فرمایا:

﴿وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَ‌فيقًا ﴿٦٩﴾... سورة النساء

اور یہ لوگ (کیا ہی) اچھے ساتھی ہیں۔

مدار میں اتنے عظیم تفاوت کے باوجود ان کو 'اچھے ساتھی' کہا، کیونکہ یہ اختلاف عصری ہے یا علمی، مساعی کا ہے یا سفر حیات میں قدرتی تنوع کا، تضاد، تصادم اور عناد کا نہیں ہے۔ اختلافِ مدارج اور مساعی کے اس تنوع سے، ملی وحدت اور اس کی مرکزی حیثیت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ ان کا دینی اخلاص، علمی بصیرت اور نیتوں کے چشمۂ صافی بھی گدلے اور مکدر نہیں ہوتے۔ خدا کے ہاں یہ مساعی جمیلہ 'سعی مشکور کہلاتی ہیں۔

ان کا یہ اختلاف، ''اختلاف أمتی رحمة'' (میری امت کا اختلاف سراپا رحمت ہے) کا ظہر بھی ہوتا ہے جس میں کمزوریوں کے لئے گنجائش نکل آتی ہے اور باہم منافست اور مسابقت کیلئے راہ ہموار ہوتی ہے۔ جہاں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لئے یہ مہمیز کا کام دیتی ہے۔ وہاں ایک ساتھ، ایک دوسرے کو تھام تھام کر لے چلنے کی قدرتی تحریص اور ترغیب بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر آہ! زوال اور انحطاط کے دور میں ''مسابقت'' کی روح تو جاتی رہی۔ تضاد اور تصادم کو ہی دین سمجھ لیا گیا اس لئے یہ تضاد بڑھتا جا رہا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جس کی وجہ سے مسلمان، حسن رفاقت کی اس توفیق سے محروم ہوتے جا رہے ہیں جو قرآن نے ''صراط مستقیم'' پر چلنے والوں کا خاصہ اور نشانی بتائی ہے۔ غور فرمائیے ہماری وہ ابتداء تھی اور اب یہ انتہا ہے۔ فلیبك من کان باکیا

﴿صِر‌ٰ‌طَ الَّذينَ أَنعَمتَ عَلَيهِم ﴾ کی تخصیص فرما کر یہ بات بھی واضح کر دی کہ انعام کارکردگی کی بنیاد پر ملا کرتا ہے، وہ بھی سراپا اور اخلاص تھے، آپ کو بھی وہی حسن عمل وہی اخلاص اور حسن رفاقت کا وہی معیار پیش کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر صراط مستقیم کا فیضان، اس پر استقامت اور اس کے مبارک نتائج کا ظہور ہو؟ مشکل اور ناممکن ہے۔

(۱) ﴿غَيرِ‌ المَغضوبِ عَلَيهِم﴾ (نہ ان کی راہ جس پر تیرا غضب نازل ہوا)

دین میں ترمیمیں کرنے، خدا کو، رسول خدا اور مسلمانوں کو فریب دینے، پیغمبر کو حریف سمجھنے، وقار کا مسئلہ بنا کر تحریکِ نبوی کا مقابلہ کرنے، قومی اور وطنی سطح پر اسلام کو تولنے، سیاسی مفاد اور مادی مصالح کے معیار پر دین و ایمان کی باتیں کرنے۔ خاصانِ خدا کی تحقیر، ایمان اور عمل صالح سے پیچھا چھڑانے کے لئے جھوٹے حیلے بنانے کے باوجود اس فریب میں مبتلا رہنا کہ، خدا ہمارا اور ہم خدا کے، خدا کے غضب کو بھڑکانے والی باتیں ہیں۔ خدا کے ہاں اسی طرز عمل اور بھونڈی ذہنیت کا عنوان ''یہودیت'' ہے۔ یہودیت صرف ایک نسل اور قوم نہیں ایک منافقت، مکروہ ذہنیت، ایک فریب اور ایک شرمناک کردار کا نام بھی ہے۔ غیر المغضوب کہہ کر گویا کہ آپ نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ الٰہی ان مکار اور سرکش اقوام اور افراد کی راہوں سے دور رکھیو۔ دعا عموماً بے چین دل کی آواز ہوتی ہے، جو دعا اتنی گہرائی سے نکلتی ہے قلب و نگاہ پر اس کے اثرات ضرورت نمایاں ہوتے ہیں۔ یعنی اگر وہ اس پکار میں سچا ہے تو ان کے اعمال اور افکار سے بھی ضرور نفرت کرے گا۔ ورنہ وہ دعا نہیں ہو گی۔ ایک بے روح اور بے معنی آواز ہو گی۔

(۲) ﴿وَلَا الضّالّينَ﴾ (نہ گمراہوں کا) چلے تو خدا کو مگر راستہ میں بھٹک گئے، حصولِ خدا کی نیت سے، چھوٹے چھوٹے خدا نما خدا گھڑ لیے، نیک جذبہ کے ساتھ انواع و اقسام کے بدعات کی تخلیق کی، فرائض تو جوں توں کر کے نبھائے مگر خانہ ساز نفلی رسومات میں یوں کھو گئے کہ ان کو اپنا ہوش رہا نہ خدا کا، جیتے جی تو اللہ والوں کی ایک نہ سنی، لیکن جب وہ خدا کو پیارے ہو گئے تو ان کی پوجا کی، ترکِ دنیا کی ڈینگیں ماریں مگر نکلے سب سے بڑے ہوس پرست اور زر پرست، بلکہ خدا کے نام کی مالا، حصولِ زر کے لئے پھیرتے رہے۔ اسلامی زبان میں ان احمقوں کا عنوان عیسائیت ہے۔ یعنی اللہ سے آپ کی درخواست یہ بھی ہے کہ:

الٰہی! ان برخود غلط اور فریب خوردہ لوگوں کی راہوں سے بھی پرے رکھیو۔

اٰمین: علماء نے لکھا ہے کہ ختم سورت پر آمین کہنا سنت ہے۔ بخاری میں ہے کہ امام آمین کہے تو آپ بھی آمین کہیں! گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (بخاری) ایک روایت میں ہے کہ تم میں سے جب کوئی آمین کہے اور فرشتے بھی آسمان میں آمین کہیں اور دونوں کا باہم کراس ہو جائے تو بخشش ہو جاتی ہے (بخاری باب فضل التأمین)

آمین کے معنی ہیں اِسْتَجِبُ! الٰہی قبول فرما! فرشتوں کی آمین کی معیت کے ذکر میں ایک تلمیح بھی ہے۔ یعنی حضور قلب! فرشتہ صورت، فرشتہ سیرت کی دولت کا حامل ہونا چاہئے۔ آمین دراصل اس شخص کی صدا ہوتی ہے جو زبانِ حال سے کہتا ہے کہ الٰہی! اور کدھر جاؤں۔ تو ہی تو ہے، تو ہی ٹھکرا دے تو کہاں امان پاؤں! اپنے در سے نہ دھتکاریو! قبول فرمائیو!

آمین دراصل ایک ذہن، ایک فریاد اور ایک پس منظر ہے مگر کچھ یار دوستوں نے اس کو صرف گرمیٔ محفل کا مسئلہ بنا ڈالا ہے۔ دین برحق کے فیضان سے محرومی کے لئے اتنی ہی بات بس کرتی ہے کہ اس کے احکام کو اپنے پس منظر اور مرکز ثقل سے ہٹا کر لفظی موشگافیوں اور قانونی حیثیت کی حد تک ان کے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے پر کوئی قناعت کیش ہو جائے! الفاظ معانی اور روحِ معانی تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ خود روح نہیں ہیں، اصلی روح وہ شے ہے جس کی طرف الفاظ اور زبان کا قافلہ گامزن ہے۔

صورت و معنے: بسم اللہ کا درد حسبِ حال جاری رہے تو حضورِ قلب کی دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ اس لئے اسے ہر کام کے آغاز میں ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے! برکت ہوتی ہے، احساسِ معیت کی وجہ سے ''معصیت'' سے بچ جانے کی توفیق بھی حاصل ہو جاتی ہے۔

خدا خود بھی اپنی حمد کرتا ہے اور آپ سے بھی اس کی توقع رکھتا ہے کہ اس کے گن گائیں، اس کی ذات اور حسین صفات پر نظر رہے تو واقعی بے ساختہ زبان سے واہ وا نکل ہی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعریف اس کا حق ہے اس میں اس کا اور کوئی شریک نہیں!

بد کی تعریف نہیں چاہئے کیونکہ اس بے انصافی اور اسراف پر عرشِ الٰہی لرز جاتا ہے۔ تعریف ایک نذرانہ عقیدت ہے اس لئے فکر و عمل میں جذب و کیف نہ ہو، تو حمد کا واہمہ ہوتا ہے، حمد نہیں ہوتی۔

سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ کا ورد بڑی اکسیر شے ہے! بکثرت جاری رکھیے اور اپنے کو اس رنگ میں رنگنے کی کوشش کیجیے، ضرورت رنگ لائے گا۔ ان شاء اللہ سوہنے کی تعریف! سوہنے ہی منہ اور زبان سے اچھی لگتی ہے۔

خدا پر کوئی شے واجب نہیں، وہ جو بھی فضل و کرم کرتا ہے، صرف اس کا کرم ہے، رحم ہے ترس ہے۔

خدا کی غلامی اور غیر کی غلامی ایک ساتھ نہیں چل سکتیں، اس لئے گھپلا سے بچیے ورنہ آپ کی عبادت متوقع رنگ نہیں لائے گی۔

سچی اور پائیدار غلامی کے لئے ضروری ہے کہ غیروں سے آسیں توڑ کر صرف اسی سے ''آس لگائیے۔'' جسے بھی آپ اپنی احتیاج میں اپنا سہارا تصور فرمائیں گے، وہ آپ کو عزیز از جان بن جائے گی اس لئے غیر سے آس لگانے میں جو مضرت ہے، اس کا احساس کیجئے۔ خدا صرف اس کا رہتا ہے جو صرف اس کا ہو رہا ہے۔ ساجھے کی صورت میں خدا خود پیچھے ہٹ جاتا ہے، پھر اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے، پھر وہی ہوتا ہے جو ہو سکتا ہے۔ جتنا کسی غیر کی طرف بڑھیں گے، اتنی مسافت حق سے دور جا پڑیں گے۔ أعاذنا اللہ وإیاکم منھا ومن کل مکروہ

راہِ راست اسلام ہے، اللہ والے اس راہ کی مشعلیں ہیں، ان کی روشنی میں سفر حیات جاری رہا تو سفر ان شاء اللہ کامیاب رہے گا۔ اس راہ سے ہٹ کر جتنا سفر ہو گا، منزل اتنی دور ہوتی چلی جائے گی۔

اور بسا اوقات انسان اتنی دور نکل جاتا ہے کہ اسے ''ضیاع منزل'' کا ہوش اور احساس بھی نہیں رہتا۔ خدا کے ہاں اسی کا نام خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ (ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ گئی) ہے۔

ضیاعِ منزل کے دو سبب ہیں، یہودیت اور عیسائیت۔ یعنی اس معنی میں جو ہم نے ذکر کیا ہے! جتنے یہ اسباب مہلک ہیں، اتنے عام بھی ہیں۔ اور ان کی سنگینی سے اتنے ہم غافل بھی ہیں۔ اِنَّ للہ!