صدر، سپیکر اور وزیر اعظم

پاکستان کے مستقل آئین کی روشنی میں

مملکت پاکستان میں سب سے اہم اور اونچے عہدے اور منصب تین ہیں۔ صدر، سپیکر اور وزیر اعظم جو مستقل آئین کے تحت پہلی بار بالآخر ملک کو مل ہی گئے ہیں۔ اس لئے ہم بھی ان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کو منتخب کر کے عوام نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنے عوام کی جائز اور بجا توقعات کی لاج بھی رکھ سکتے ہیں۔

ملکی آئین اور دستور میں ان تینوں کے مرتبہ، اختیارات اور حقوق کا جو تعیین کیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں، ایک دفعہ آپ بھی ان کا مطالعہ فرما لیں۔ تاکہ اس بات کے سمجھنے میں آپ کو آسانی ہو کہ، مملکت کی سیاسی آب و ہوا کیسی ہے اور اس کا رخ کدھر کو ہے یا بالآخر اس کا انجام کیا ہو گا؟

یہ تمام کوائف قومی اسمبلی کے پاس کردہ دستور اور آئین سے ماخوذ ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے 'اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ۱۹۷۳ء ہے جو فاروق ملک کا ترجمہ کردہ ہے۔

ملکی آئین میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ:

1. صدر، جمہوریہ کے اتحاد کا مظہر ہو گا۔

2. اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

3. صدر کوئی منفعت بخش ایسا عہدہ قبول نہیں کر سکے گا جو حکومت پاکستان کے تحت ہو۔

4. صدر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑ سکے گا۔ اگر پہلے رکن ہو گا تو اس سے اس کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔

5. صدر پانچ سال تک اپنے منصب پر فائز رہ سکے گا۔

6. صدر اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشوروں پر عمل کرے گا اور وہ اس ضمن میں مشوروں کو تسلیم کرنے کا پابند ہو گا۔

7. عدلیہ کو ایسے کسی مشورہ کے بارے میں تفتیش کرنے کا حق حاصل نہ ہو گا جو وزیر اعظم کی جانب سے صدر کو دیا جائے گا۔

8. آرٹیکل ۹۹ کے مطابق صدر کی جانب سے جاری ہونے والے تمام احکامات پر وزیرِ اعظم کے توثیقی دستخط ہونا ضروری ہوں گے۔

9. وزیر اعظم کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ صدر مملکت کو داخلی، خارجی امور اور پارلیمنٹ میں ہونے والے قانون سازی سے متعلق سارے معاملات سے آگاہ کرتا رہے۔

10. صدر کو کسی ٹریبونل یا کسی عدالت کی طرف سے دی گئی مجرم کی سزا معاف کرنے، اس میں کمی کرنے یا اس کو معطل کرنے کا اختیار ہو گا بشرطیکہ وزیر اعظم ایسا کرنے کا مشورہ دے۔ (صہ سوم ص ۳۲ تا ۳۶)

11. صدر کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ وقتاً فوقتاً پارلیمنٹ کے کسی ایک یا دونوں کا اجلاس طلب کرے یا مشترکہ اجلاس بلائے۔ اسے پارلیمنٹ کو برخواست کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔ (ص ۳۸)

سپیکر کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ:

1. انتخابات کے بعد قومی اسمبلی پہلے ہی اجلاس میں سپیکر کا انتخاب کرے گی۔

2. سپیکر اس اجلاس کی صدارت نہیں کر سکے گا جس میں اس کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کی جانے والی ہو۔

3. خود مستعفیٰ ہو جائے یا اسمبلی کا رکن نہ رہے یا اسمبلی کے ریزولیوشن کے ذریعے اس کو عہدے سے الگ کر دیا جائے تو وہ سپیکر نہیں رہے گا۔ (ص ۳۸)

وزیر اعظم کے متعلق کہا گیا ہے۔

1. سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے بعد کوئی اور کام کیے بغیر قوم اسمبلی اپنے ارکان میں سے کسی ایک مسلم رکن کو بغیر کسی بحث کے بحیثیت وزیر اعظم چن لے گی۔

2. اس کو اکثریت کی رائے سے انتخاب کیا جائے گا۔

3. وزیر اعظم اپنے وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کو پارلیمنٹ کے ارکان میں سے منتخب کرے گا اور وہ ان میں سے کسی وزیر کو اس کے عہدے سے سبکدوش کر سکے گا۔

4. اپنے جانشین کے انتخاب او عہدہ سنبھالنے تک وہ اپنے عہدے کے فرائض ادا کرتا رہے گا۔

5. جن دنوں میں اسمبلی توڑی جا چکی ہو ان دنوں میں آرٹیکل ۹۲-۹۱ کی رُو سے وزیر اعظم.... کو عہدے سے الگ نہیں کیا جا سکے گا۔

6. وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اس وقت تک پیش نہیں کی جا سکے گی جب تک نئے وزیر اعظم کا نام نہ لیا جائے یا جب سالانہ بجٹ کے مطابق مطالبات پر قومی اسمبلی غور کر رہی ہو۔

7. دس سال کے عرصہ تک یا دوسرے عام انتخابات کے انعقاد تک قومی اسمبلی کے کسی رکن کا ووٹ جو کسی سیاسی جماعت کی اکثریت پر منتخب ہوا ہو، عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں قبول نہیں کیا جائے گا۔

8. اگر ایک دفعہ وہ تحریک منظور نہ ہو سکے تو ایسا کوئی ریزولیوشن آئندہ چھ ماہ گزرنے تک پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ (ص ۵۰ تا ۵۳)

مناسب ہو گا کہ اس فرصت میں قومی اسمبلی، سینٹ، اسلامی کونسل، صوبائی گورنر اور عدالتہائے عالیہ کو سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں نئے آئین میں جو ضوابط مقرر کئے گئے ہیں ان کی مختصر تفصیل سے بھی آپ کو آگاہ کر دیا جائے جو امید ہے ملکی مسائل کے سمجھنے میں مفید رہے گی۔

1. پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہو گی۔ ایک کو قومی اسمبلی دوسری کو سینٹ کہا جائے گا اور صدر کو پارلیمنٹ برخواست کرنے کا اختیار ہو گا۔

2. قومی اسمبلی قانون کے مطابق براہِ راست اور آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے دو سو ارکان پر مشتمل ہو گی۔

3. صدر، وزیر اعظم کے مشورہ سے قومی اسمبلی کو توڑ سکے گا بشرطیکہ اسمبلی میں اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ کی جا چکی ہو۔

4. ایوان کی ساری کارروائی صدر کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق کی جائے گی۔

5. پارلیمنٹ کی کسی کارروائی کی قانونی حیثیت کو طریق کار میں بے قاعدگی کی بنیاد پر عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

1. سینٹ ۲۳ ارکان پر مشتمل ہو گی، ہر صوبائی اسمبلی ۱۴؍ ارکان منتخب کرے گی اور ہر دو سال بعد یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہر رکن کی میعاد چار سال ہو گی۔ ۲/۱ کی دو سال اور ۲/۱ کی چار سال۔

2. سینٹ کو معزول نہیں کیا جا سکے گا۔

3. جو مسودہ قانون قومی اسمبلی میں منظور ہو اسے سینٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اور اسے وہ نوے دن میں بہ ترمیم یا بلا ترمیم منظور کرے گا یا مسترد کر دے گا۔ اگر اس عرصہ میں کچھ نہ کیا گیا تو مسودہ قانون پاس تصور کیا جائے گا۔ سینٹ خاموش رہا تو اسے صدر کی منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔

4. سینٹ بل مسترد کر دے یا ترمیم کر دے تو اسے مکرّر قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ منظوری کی صورت میں اسے براہِ راست صدر کی منظوری کے لئے بھیج دیا جائے گا۔

دراصل صوبائی احساسات کی بنا پر سینٹ کی ایجاد کی گئی ہے تاکہ قومی اسمبلی میں اپنی پوری نمائندی کے نہ ہونے کی صورت میں اپنے حقوق اور مسائل کی نگرانی کی جا سکے۔ بہرحال دونوں ایوانوں میں تضاد کی صورت میں فیصلہ قومی اسمبلی کا ہی ناطق تصور کیا جائے گا۔

1. اسلامی کونسل کے ارکان کی تعداد کم سے کم ۸ زیادہ سے زیادہ ۱۵ ہو گی۔ ایک کو صدر ہی چیئرمین مقرر کرے گا۔

2. ان کی تقرری صدر کرے گا۔ مگر ضروری ہو گا کہ وہ اسلام کے متعلق علم رکھتے ہوں۔

3. ان میں کم از کم دو افراد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ضرور ہوں گے۔

4. ان میں کم از کم چار ایسے رکن ہوں گے جنہوں نے ۱۵ سال تک ریسرچ یا اس کی تدریس کی ہو گی۔

5. ان میں ایک عورت بھی ضرور ہو گی۔

6. اگر اکثریت سینٹ کے کسی رکن کے خلاف صدر سے سفارش کرے گی تو صدر اس کو الگ کر سکے گا۔

7. پارلیمنٹ اسلامی کونسل سے مسودہ قانون کے بارے میں رائے معلوم کر سکے گی۔

8. اور کونسل اس کو یہ بتائے گی کہ یہ اسلام کے مطابق ہے یا نہیں؟

9. اپنی آخری رپورٹ سات سال کے اندر پیش کرے گی اور ہر سال ایک عبوری رپورٹ پیش کرتی رہے گی۔ رپورٹ چاہے آخری ہو یا عبوری اسے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور آخری رپورٹ کے پیش ہونے کے دو سال بعد تک اسمبلی اس کے مطابق قانون بنائے گی۔

گورنر کا تقرر صدر کرے گا اور اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا جب تک اس کو صدر کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ اور وزیر اعلیٰ کے مشوروں کا پابند ہو گا نیز وزیر اعلیٰ کی جانب سے دی جانے والی ہدایت کے بارے میں عدلیہ کو تفتیش کرنے کا اختیار حاصل نہ ہو گا۔ (ص ۵۴)

1. سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر صدر کرے گا اور دیگر جج بھی صدر چیف جسٹس کے مشورہ سے مقرر کرے گا۔ اسی طرح ہائی کورٹ کے جج صاحبان۔

2. عدلیہ کو انتظامیہ سے آئین کے لاگو ہونے کے تین سال کے اندر بتدریج الگ کر دیا جائے گا۔ یعنی ابھی نہیں۔ (ص ۷۹-۸۰)

اس سلسلے میں چند ایک امور ایسے سامنے آتے ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ:

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر، سپیکر اور وزیرِ اعظم کے لے ضروری نہیں کہ وہ کتاب و سنت کے علم و عمل اور حکمت کے حامل بھی ہوں۔ یعنی شہر کی جامع مسجد کا خطیب اور امام وہ، جو اور تو سبھی کچھ ہو مگر اس کو نماز نہ آتی ہو۔

مذکورہ بالا ساری سیاسی حکمتِ عملی کی انتہاء 'ملک کے وزیر اعظم' کی ذات پر ختم ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی جس میں وزیرِ اعظم کو اکثریت حاصل ہے وہ بھی دراصل اپنی نہیں، وزیر اعظم کے دل کی بات قومی اسمبلی کی زبان میں کہتی ہے۔

اسلامی کونسل اور شقوں کی بات بھی اسی ''ذات والا'' کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اسلامی کونسل صرف سفارش کا حق رکھتی ہے۔

صدر، سپیکر اور وزیر اعظم بظاہر علیحدہ علیحدہ منصب ہیں لیکن معنویت کے لحاظ سے صدر اور سپیکر کی حیثیت 'وزیر اعظم' کی زبان کی ہے۔ علیحدہ کچھ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کچھ اچھی فال نہیں ہے یہ اس کی صورت ایک آئینی حیثیت کی بات ہے۔ جہاں تک ان کی شخصی حیثیت کا معاملہ ہے، اس میں ان کی ''انفرادیت'' محل نظر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنا ہے کہ، انکا انتخاب قومی امنگوں اور دلچسپیوں کا مظاہر ہے یا کسی فردِ واحد کی نظر کرم اور مصلحت آمیز صوابدید کا نتیجہ؟ ہمارے نزدیک اصل صورت اخیری ہے۔ اس لئے اندازہ یہی ہے کہ یہ دونوں بزرگ مسٹر بھٹو کو شاید ہی کسی مفید مشورہ کا قائل کر سکیں۔ اس پر اگر کوئی صاحب یہ کہہ دیں کہ:

منفرد مقام اور حیثیت کے حامل یہ دونوں منصب ضائع ہو گئے ہیں اور ان کی افادی حیثیت مشتبہ ہو گئی ہے تو اس کو جھٹلانا آسان نہیں ہو گا۔