سزائے مرتد پر چند مغالطے اور ان کا دفعیہ

( قسط دوم)

اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ قرآن میں قتل مرتد کی سزا موجود نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے تب بھی احادیث کو کسی منطقی یا شرعی دلیل سے مخالفِ قرآن نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ جرائم کی بے شمار اقسام ایسی ہیں جن کا مرتکب مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ بلکہ حدیث شریف میں ہے لہٰذا ایسے حکم کو قرآن کے خلاف نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ ازروئے حدیث کو مرد مرتد ایسا نہیں جو مستوجب سزائے موت نہ ہو۔ اگر قرآن حکیم سے کسی ایک مرتد کا بھی سزائے موت سے بری ہونا ثابت ہو تو بلاشبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حدیث کا فیصلہ قرآن کے خلاف ہے۔

مؤلف کتاب کا تمام تر انحصار آیت لا إکراہ في الدین پر ہے۔ اس آیت کی جو تفسیر و تعبیر وہ کرتے ہیں وہ بجائے خود تحریف کلامِ الٰہی ہے۔ اس آیت کا سیدھا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ اس کے واضح معنی جو بالعموم کیے جاتے ہیں وہ وہی ہیں جن پر فقہاء، خلفائے راشدین اور خود سرور کائنات کا عمل رہا اور ان کے طرزِ عمل سے اس آیت کے معانی و مطالب کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ السنة قاضيةٌ علي الكتاب کے یہی معنی ہیں۔ فاضل مؤلف کو ان لوگوں پر سخت اعتراض ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سنت رسول اللہ کتاب اللہ پر قاضی ہے۔ لیکن کیا وہ اس حقیقت پر غور فرمائیں گے کہ عدالت عالیہ کے ایک جج کی حیثیت میں اگرچہ وہ قانون کی بالا دستی کو تسلیم فرماتے ہیں تاہم کسی قانون کی صحیح تعبیر وہی ہے جس کی تائیدان کے مفصل مقدمات سے ہوتی ہو۔ فریق ثانی کے وکلائے مرافعہ لاکھ سر پٹخیں کہ قانون کی رو سے ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوتا لیکن صحیح بات وہی ہے جس کی تائید عدالت کے فیصلہ سے ہوتی ہے۔ یہی صورت حال عقلاً اور دیانۃً قرآن و حدیث کے بارے میں ہے کہ آیاتِ قرآنِ حکیم کی وہی تعبیر درست ہے جو احادیث اور سنت رسول سے ثابت ہو یا خلفائے راشدین و صحابہؓ کے فیصلوں کے مطابق ہو یا پھر وہ تعبیر درست ہے جو قرآنی بصیرت رکھنے والے۔ دینی علوم کے ماہرین یا فقہاء و مجتہدینِ ملت نے کی۔ بالخصوص وہ اصحاب جن کا ورع و اتقا اور خوف و خشیت اللہ مسلمہ حقائق ہوں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کی بنا پر قانون کی جو تعبیر کی جاتی ہے کوئی شخص اس فیصلہ کے خلاف آواز اُٹھائے تو مجرم اور قابلِ تعزیر اور بعض صورتوں میں توہین عدالت کی پاداش میں سزا کا مستوجب ہوتا ہے تو آخر کوئی مسلمان یہ کیسے گوارا کر سکتا ہے کہ قرآن احکام کا جو فیصلہ صاحبِ وحی ﷺ نے فرمایا اس کے خلاف ایک ایسے شخص کی بات کو تسلیم کیا جائے جو قانونِ خداوندی کی زبان تک سے ناواقف ہو۔ غرض قرآن پر حدیث کے قاضی ہونے کی مثال وہی ہے جو قانونِ ملک پر عدالت عالیہ کے قاضی ہونے کی ہے پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر ملک کے مختلف حصوں میں جس قدر عدالت ہائے عالیہ ہیں۔ ان سب کے فیصلوں پر تعزیرات ملکی کی کسی دفعہ کا ایک ہی مفہوم لیا گیا ہو اور اس کے خلاف کسی گاؤں کا چودھری یہ دعویٰ کرے کہ وہ سب فیصلے غلط ہیں صحیح صرف وہ فیصلہ ہے جو چودھری صاحب نے ان سب کے خلاف کیا تو ایسے شخص کو لوگ دیوانہ کہیں گے۔ غرض عدالت کے فیصلے قانون ملکی کے لئے اسی طرح قاضی کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح احادیث اور فقہاء کے فیصلے قرآنی قانون کے لئے۔ بندۂ عاجز یہ سمجھنے سے قطعاً قاصر ہے کہ مؤلف جیسے فاضل انسان نے اس باب میں مسٹر پرویز کی تقلید کیوں فرمائی۔

اس سے بھی زیادہ تعجب مجھے اس بات پر ہے کہ انہوں نے مفسر ابنِ حیان کی تفسیر بحر المحیط سے بھی اصل مفہوم کے خلاف نہایت ہی غلط نتیجہ اخذ فرمایا اور نہج استدلال کذب بیانی کی حد تک پہنچتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

نہایت ہی اہم اور معنی خیز وہ بات ہے کہ علامہ ابن حیان قرآن کی اس آیت لا إکراہ في الدین کی اس تعبیر کو فوقیت دیتے ہیں جو اس کے الفاظ اور مفہوم کے عین مطابق ہے یعنی وہ شخص بھی جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کرے اسے اپنے سابقہ مذہب میں واپس لانے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بیان انتہائی گمراہ کن ہے۔ ابن حیان کی تفسیر جلد ۲ ص ۸۱ کو ملاحظہ کیا جائے۔ یہاں انہوں نے اس آیت کا شانِ نزول بتایا ہے کہ بیشتر اصحاب بیان کرتے ہیں کہ انصار کی کچھ اولاد یہودی اور کچھ نصرانی ہو گئی تو ان کے والدین نے ان کو جبراً مسلمان کرنا چاہا تو یہ آیت نازل ہوئی (کہ ان کو جبراً مسلمان نہ بنایا جائے)

اس کے متعلق آگے چل کر علامہ ابن حیان کہتے ہیں۔

قیل لا یکرہ علی الاسلام من خرج الٰی غیرہ کہ ایک قول ضعیف یہ ہے کہ جب کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اسے اسلام لانے پر مجبور نہ کیا جائے۔

مؤلف کتاب موصوف کو ایک غلط فہمی تو یہ ہوئی اس میں اسلام سے پھر جانے کا ذِکر ہے حالانکہ یہاں ان کے اپنے آبائی دین سے پھر جانے کا ذِکر ہے۔

دوسری غلط بیانی یہ کی گئی کہ ابن حیان نے اس خیال کو فوقیت دی ہے حالانکہ اس کے لئے علامہ موصوف نے قیل کا لفظ استعمال کیا ہے جو ایسے خیال کے لئے استعمال ہوتا ہے جس سے خود عاقل کو اتفاق نہ ہو اور اسے کمزور تصور کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کا نام تک نہیں لیا جس نے رائے ظاہر کی۔ اس کی بجائے خود علامہ ممدوح نے کلبی کا قول لفظ قال سے نقل فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک قول قوی ہے۔ قال الکلبي لا إکراہ بعد الإسلام العرب ویقبل الجزیة یعنی عرب کے مسلمان ہو جانے کے بعد کسی کو جبراً مسلمان کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کافروں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے قول زجاج کو بھی قوی قرار دیا ہے۔

وقال الزجاج لا تنسبوا إلی الکراھة من أسلم مکرھا۔ یعنی اگر کوئی مجبوراً بھی مسلمان ہو جائے تو اسے یہ نہ کہنا چاہئے کہ وہ مجبوراً مسلمان ہوا (بلکہ اسے مسلم ہی کہا جائے)

غرض ابن حیان تو کہتے ہیں کہ یہ قول کمزور ہے اور مؤلف کتاب فرماتے ہیں کہ ابن حیان اس کو قوی کہتے ہیں۔ اب اس کو غلط بیانی کے سوا کیا کہا جائے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جناب مؤلف نے لا إکراہ في الدین کا مفہوم سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی بلکہ مسٹر پرویز کے قول پر بھروسہ کر لیا ہے۔

دین میں جبر نہ ہونے کے تین مفہوم ہیں۔ ایک تو یہ کسی کو جبراً مسلمان نہ بنایا جائے۔ دوسرے یہ کہ جبراً مسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ اور تیسرے یہ کہ دین کے لئے جبر بھی کیا جائے تو وہ جبر نہیں ہے جیسا کہ علامہ زجاج کی عبارت بالا سے مترشح ہوتا ہے اور اس کی تائید لغت سے ہوتی ہے۔

اکراہ کے معنی ہیں بری بات پر مجبور کرنا۔ برے کام پر کسی کو آمادہ کرنا یعنی نیک کام پر مجبور کرنا جرم نہیں ہے۔ (المنجد، مصباح)

میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ وہ قرآن قانونی لا إکراہ في الدین کا تجزیہ خود اپنی اس منصبی حیثیت سے فرمائیں جو بحیثیت قاضی القضاۃ مملکت پاکستان کے ان کو حاصل رہی ہے۔

جبر بلاشبہ ایک جرم ہے لیکن مجھے امید نہیں کہ انہوں نے بحیثیت جج کبھی کسی ایسے شخص کو جبر کی پاداش میں واجب التعزیر قرار دیا ہو۔ جس نے جبراً اقدام قتل یا اقدام خود کشی سے کسی کو باز رکھا ہو یا اخلاقی اور قانونی فعل کے اقدام پر مجبور کیا ہو۔

ناجائز ہتھیائی ہوئی چیز کو جبراً چین لینا، چوری، ڈاکہ زنی اور اغوا یا آبرو ریزی سے جبراً باز رکھنا یا بچوں کو مار پیٹ کر سبق یاد کرانا یا جبر کر کے دوائی پلانا کیا ان میں سے کوئی بات بھی قانون آزادیٔ ضمیر کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعزیرات کی بعض قسمیں انتہائی شدید ہونے کے باوجود جبر نہیں کہی جا سکتیں۔ بلکہ حسن معاشرہ کے لوازمات میں سے ہیں۔

اکراہ کے جو تین معانی بتائے گئے ہیں فقہاء نے اس کی رو سے اور کتاب و سنت کی روشنی میں ہر معنی کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ پہلے معنی کی رو سے شریعت اسلامیہ میں کسی شخص کو جبراً مسلمان بنانے کی ممانعت ہے۔ دوسرے معنے کی رو سے جبراً بنائے ہوئے مسلمان کو حقیقی معنوں میں مسلمان نہیں سمجھا گیا۔

چنانچہ جبراً مسلمان بنایا ہوا شخص اگر مرتد ہو کر دوبارہ پھر اپنے دین میں چلا جائے تو اس پر ارتداد کی سزا (موت) عائد نہ ہو گی کیونکہ درحقیقت وہ کافر ہی تھا کہ مرتد نہیں ہوا۔

تیسرے معنی کی رو سے فقہا نے دین کے معنی اسلامی آئین شریعت قرار دیئے ہیں جو سرتاپا خیر ہیں اگر جبراً دین سے پھر جانے سے کسی کو روکا جائے تو وہ جبر نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر فتح الرحمٰن کے حاشیہ میں فرمایا ہے کہ (دین کے باب میں) اگر جبر کیا جائے و وہ جبر نہیں کہلائے گا۔)

مؤلف کتاب نے شاہ صاحبؒ کے اس خیال پر کہ حجب اسلام ظاہر شد گو یا جبر کردن نیست اگرچہ جبر باشد (یعنی اسلام کی صداقت عیاں ہو چکی ہے اب نجات اسی دین میں ہے۔ لہٰذا اس کے لئے کوئی جبر کیا جائے تو وہ جبر نہیں ہے) اعتراض فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ شاہ صاحب کا یہ خیال قرآن مبین کے صریحاً خلاف ہے نہ تو الفاظ قرآن میں اس مفہوم کی تحدید ہے نہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے اور نہ شانِ نزول سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی قرآن کا مطلب شاہ صاحب نے غلط بیان کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکراہ کے لغوی معنی اس کا حقیقی مفہوم اور شانِ نزول سب یہی کہتے ہیں کہ دین کے باب میں نہ جبر کرنا چاہئے نہ جبر کیا جا سکتا ہے اور نہ جبر کو جبر کہنا درست ہے۔ بہ ظاہر جناب مؤلف کافر اصلی اور کافر مرتد دونوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھتے ہیں لیکن اس بنیادی غلطی کا فرق وہ خود بھی بلا دلیل محسوس کر سکتے ہیں کہ کسی ایک مسلمان کا مرتد ہو جانا ہزار کافروں کی موجودگی کے مقابلہ میں زیادہ افسوسناک امر ہے۔ ہزاروں کافر ہمارے ارد گرد پھرتے ہیں جن کی موجودگی سے ہمیں وہ اذیت نہیں ہوتی جو ایک فرد مسلم کے کافر ہو جانے سے ہوتی ہے۔ بلاشبہ کفر ظلم ہے لیکن ارتداد سب سے بڑا ظلم ہے۔ کاش جناب مؤلف کو کوئی سمجھائے کہ ہزار مسلمان اپنی جان تک قربان کرنا گوارا کر لیں گے لیکن یہ گوارا نہ کریں گے کہ ایک مسلمان کو کافر بننے کی اجازت دے دی جائے۔ گویا ہزاروں مسلم جانوں کا یہ اتلاف اتنا عظیم نقصان نہیں ہے جتنا ایک فرد مسلم کا کافر بن جانا۔ مسٹر پرویز ہی کی یہ ہمت ہے کہ انہوں نے بے دھڑک یہ کہا ہے کہ ارتداد کوئی جرم ہی نہیں ہے حالانکہ اسلام میں اس سے بڑا کوئی جرم نہیں ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ پرویز کی تائید کا بیڑا ایک بہت بڑے مسلمان نے اُٹھایا ہے میں اس صورتِ حال کو ملک کی انتہائی بد قسمتی تصور کرتا ہوں۔

اس نکتہ کو خاص طور پر ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ بنفسہ کسی کافر کو اسلام لانے پر مجبور کرنا بھی جرم نہیں ہے کیونکہ اسے کسی بری بات پر مجبور نہیں کیا گیا۔ لیکن مملکت اسلامیہ میں اس کی سخت ممانعت اس لئے ہے کہ اسلام غداری اور نقضِ عہد کا سخت دشمن ہے۔ اسلام کے تمام عائلی، معاشی، معاشرتی، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد وفا کے عہد پر ہے اور جرائم کی تمام شاخیں ایک نقضِ عہد کی جڑ سے پھوٹتی ہیں۔ ہر غیر مسلم جو بحیثیت ایک رعایائے مملکت یا شہری کے کسی اسلامی ملک میں اقامت کرتا یا وارد ہوتا ہے اس کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کا عہد مسلمانوں نے کر رکھا ہے۔ قرآن و حدیث اس کی پابندی کو فرضِ الٰہی قرار دیتے اور نقص عہد کو قتل سے زیادہ فعل مذموم قرار دیتے ہیں۔ ہاں جب کفار عہد توڑتے ہیں تو پھر مسلمان بھی کسی کو نہیں چھوڑتے اور ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ آزادی ضمیر غداری کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی نقض عہد ہے جو ایک مسلمان کو بھی مستوجب قتل قرار دیتا ہے۔

لا إکراہ في الدین کا یہی مفہوم ہے جو عقل و عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام مسلمانوں کو غداری کی اجازت دیتا ہے اور اس جرم کو باوجود غدر صریح کے آزادی ضمیر کے خلاف اور قابل تعزیر نہیں سمجھتا۔

یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ کسی کافر کو جبراً مسلمان بنانا یا کسی مسلمان کو جبراً کافر بننے سے باز رکھنا دو مختلف امور ہیں۔ پہلی صورت بلاشبہ جبر ہے لیکن دوسری صورت میں مطلق شائبہ جبر نہیں ہے بلکہ عین خیر ہے۔ کسی سپاہی کو سرکشی کی پاداش میں گولی مار دی جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت زبردستی لوگوں کو سپاہی بنانا چاہتی ہے بلکہ برعکس اس کے یہ تو سپاہی بننے کی سخت ذمہ داریوں کا احساس دلا کر لوگوں کو سپاہی بننے سے خائف کرنا ہے۔ اسی طرح مرتد کو قتل کرنے کے حکم میں لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ مسلمان ہونے سے پہلے سوچ سمجھ کر دین اسلام اختیار کرنا چاہئے۔ گویا یہ امر ایک قسم کی تخویف اور اسلام لانے میں رکاوٹ کا موجب ہے۔ اسلام کے لئے نہ تشویق ہے نہ ترغیب نہ جبر نہ زبردستی۔ اس کو جبر قرار دینا ہی ایک بنیادی غلطی ہے باوجود اس کے وہ اصحاب جو کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ بصراحت یہ حکم موجود نہیں ہے اس حکم کی صراحت احادیث میں ہے۔ لیکن مؤلف کتاب نے ایسی احادیث پر جن سے یہ حکم ثابت ہے تبصرہ کرنے سے پہلے پانی کے آگے باڑ باندھنے کی کوشش فرمائی ہے۔ ص ۵۶ تا ۵۹۔ اور احادیث سے ثابت ہونے والے احکام کے متعلق یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ وہ کمزور، محل نظر، مشتبہ اور بے حقیقت ہیں۔ چنانچہ تمہیداً انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ:

سنت رسول اللہ قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی۔

قرآن سے ثابت شدہ امر کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ خواہ وہ کتنی ہی بڑی شخصیت رکھتا ہو۔

1. حدیث کو قرآن کے بعد دوسرا رجہ حاصل ہے۔

2. حدیث کو قرآن کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

3. قرآن کے خلاف خبر واحد کو ترک کر دیا جائے گا۔

4. موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو اعتبار کے لحاظ سے پہلا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد دوسری صحاح کا درجہ ہے۔ محدثین ان دو کو قابلِ وثوق خیال فرماتے ہیں۔ باقی کتب احادیث تیسرے چوتھے درجہ پر ہیں۔

5. حجیت حدیث کے مختلف مراتب ہیں جن کا تعین قرآن کے الفاظ اور ان کے معنی کے پیش نظر کیا جائے گا۔

6. حضرت عائشہؓ کا کہنا ہے کہ حدیث کو صحیح طریقہ سے نہ باور کیا گیا اور نہ سمجھا گیا۔ انہوں نے حضرت عمرؓ پر فہم قرآن کے باب میں اعتراض بھی کیا۔

7. حدیث صرف قرآن کی تائید کر سکتی ہے اس کے خلاف نہیں جا سکتی۔

واضح ہو کہ جناب مؤلف نے حدیث کے باب میں یہ تمام حقائق اپنے ذہن سے گھڑ کر نہیں بیان فرمائے بلکہ ہر بات کو شرعی دلائل اور فقہا و مفسرین کے اقوال سے ثابت فرمایا ہے تو اب کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ جن اصحاب کو قرآن و حدیث کا یہ مقام معلوم ہے اگر کسی مسئلہ میں وہ اپنے ہی مسلمہ نظریات کے برعکس قرآن کی مخالف احادیث سے کوئی حکم اخذ کریں یا قرآن کے خلاف احادیث کو صحیح قرار دیں یعنی حدیث کے باب میں قرآن کو پس پشت ڈال دیں تو گمراہ نہیں بلکہ قرآن کے دشمن نہیں ہیں۔

زیر نظر کتاب میں مرتد کے مستوجب قتل ہونے کے باب میں جناب مؤلف کی تمام تحقیق یہ ہے کہ کسی مفسر یا محدث یا فقیہ نے قرآن کو وہ مقام نہیں دیا جو حدیث کے مقابلہ میں دینا چاہئے۔ یعنی قتل مرتد کی سزا قرآن کے خلاف ہے۔ جو اصحاب اس کے قائل ہیں وہ مقام حدیث سے آگاہ ہونے کے باوجود صریحاً بے ایمانی سے کام لے رہے ہیں یا کم از کم حماقت میں مبتلا ہیں کہ احادیث سے ایسا حکم مستنبط فرماتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب کے باب ارتداد و سنت کے تحت کئی طریقوں سے اپنے دعوے کی تائید میں چند دلائل پیش فرمائے ہیں۔

ایک تو یہی کہ قرآن اس حکم کے صریحاً خلاف ہے کیونکہ اس میں صاف لا إکراہ في الدین آیا ہے۔

دوسرے یہ کہ احادیث کا مفہوم متعین کرنے میں اختلاف ہے۔

چوتھے یہ کہ احادیث قابل تاویل ہیں اس کے جو معنی لیے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

پانچویں یہ کہ اس حکم کے پس منظر کو سب نے نظر انداز کر دیا ہے۔ دراصل ہر مرتد کو قتل کا حکم نہیں بلکہ صرف مرتد حربی کو قتل کا حکم ہے۔

ان تمام دلائل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ محدثین و فقہا نے آیت لا إکراہ في الدین کا مطلب غلط سمجھا۔ کمزور اور غلط احادیث پر اعتبار کیا۔

مفہوم احادیث کے تعین میں اختلاف ہے۔ احادیث کا مطلب صحیح نہیں سمجھا گیا۔ یعنی اخذ مطالب پر پس منظر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ تفقہ کے اصول میں سے کسی کی پابندی نہیں کی گئی لَآ إکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ کے معنی کی تفصیل جو علماء کے نزدیک معتبر ہے وہ اوپر آچکی ہے اور یقیناً اس آیت کا جو مطلب مؤلف ممدوح نے بیان فرمایا ہے وہ کسی کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔

کمزور اور غلط احادیث پر اعتبار کے باب میں و باتیں عرض ہیں ایک تو یہ کہ خود جناب مؤلف نے جن اقوال کا سہارا پکڑا ہے وہ ان احادیث سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتبار، کمزور بلکہ غلط سلط اور فضول ہیں۔ تفصیل میرے مفصل مضمون میں ہے پھر یہ کہ کسی راوی کا محل نظر ہونا اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دوسرے قطعی دلائل، تعامل صحابہ اور اجماعِ امت کے خلاف ہو۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی ناقابلِ اعتبار ہو اگر وہ کوئی بات حقائق مسلمہ کے مطابق کہتا ہے تو اس کی تائید و توثیق کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جو احادیث اس باب میں آئی ہیں وہ بیشتر صحیح، متفق علیہ اور ناقابلِ تنقیح ہیں جن کے راویوں میں کہیں ضعف ہے اس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور محدثین نے اسے بھی ناقابل جرح قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ کہ مفہوم احادیث کے تعین میں اختلاف ہے بلاشبہ اختلاف ہے لیکن مقام حیرت ہے کہ اس باب میں کہ مرتد مستوجب سزائے موت ہے کسی کو اختلاف نہیں چنانچہ ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس سے اشارۃً یا کنایۃً بھی یہ مفہوم اخذ کیا جا سکے کہ کوئی مرتد مرد واجب القتل نہیں ہے۔ اختلاف اگر ہے تو صرف اس باب میں کہ مرتد کو توبہ کی مہلت دی جائے یا نہیں؟ اور کتنی مہلت دی جائے اور مرتدہ عورت کو کہاں تک اس باب میں مراعات دی جا سکتی ہیں؟

مؤلف کتاب نے محض اختلافی نکتوں پر اپنے دلائل کی بنا رکھی ہے۔ متفقہ فیصلہ کو نظر انداز کر دیا ہے لیکن احادیث کی تمام بحث میں کوئی ایک نظیر بھی ایسی نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ کسی مرتد کو ارتداد کی حالت میں زندہ رہنے کا حق ہے۔ اختلاف کی صورت تطبیق یہ ہے کہ مرتد کو مہلتِ توبہ دی جائے تو بہتر ہے نہ بھی دی جائے تو چنداں مضائقہ نہیں۔ عورت کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر مرتدہ سرکشی پر اتر آئے تو وہ بھی مستوجب قتل ہے ورنہ اسے قید میں رکھا جائے گا اور توبہ کر لے تو مرد و عورت دونوں کے لئے معافی کی اجازت ہے اور یہ تمام مسائل الفاظ و معانی قرآن و حدیث سے اخذ فرمائے گئے ہیں۔ (مسلسل)