مسئلۂ کشمیر عالمِ اسلام کے لئے ایک چیلنج ہے

تازہ ترین صورتِ حال پر غور و خوض کی دعوت

''آل پاکستان کشمیر کانفرنس'' کو کامیاب بنانے کی اپیل!

آج ہم ملکی و ملّی سطح پر جن سنگین مسائل سے دو چار ہیں۔ وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے قومی سطح پر غور و خوض کر کے کوئی متفقہ اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی تمام اجتماعی اور انفرادی قوتوں اور وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ صرف اس طرح ہم اس بہت بڑے چیلنج سے عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں جو آج ہمیں ملکی و ملی سطح پر در پیش ہے۔

اس وقت قومی سطح پر جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک اہم مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر نظریاتی، تمدنی، جغرافیائی اور تاریخی، ہر اعتبار سے پاکستان کا جزو لا ینفک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر اپنے پسِ منظر اور نصب العین کے اعتبار سے ابتدا ہی سے تحریکِ پاکستان کا ایک حصہ رہی ہے۔ پھر تقسیم برصغیر کے اصولوں کے مطابق بھی غالب مسلم اکثریت کا علاقہ ہونے کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان ہی کا ایک حصہ ہونا چاہئے تھا، لیکن بھارت نے ان تمام اصولوں اور کشمیری عوام کی خواہش اور کوشش کے بالکل علی الرغم کشمیر کے ہندو مہاراجہ کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی سازش کے ذریعہ، جس کا مقصد بالآخر مسلمانانِ برصغیر کا مکمل استیصال کر کے ایک عظیم برہمنی سازش کا قیام تھا، ریاست کے ایک بڑے حصہ پر جابرانہ تسلط جما لیا اور اب انتہائی عیاری اور پوری قوت کے ساتھ ریاست کے باقی ماندہ حصہ آزاد کشمیر کو بھی ہڑپ کرنے کے لئے بڑھ رہا ہے اور اس کے لئے صرف فوجی اور سیاسی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی سامراج کی سٹریٹجی ہندوؤں کی سیاسی بائیبل ''ارتھ شاستر'' کے الفاظ میں یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب تم اپنے دشمن کو مارنا چاہو۔۔۔۔ تو اسے اپنا دوست بنا لو۔ پھر جب تم اسے مارنے لگو تو اس سے بغل گیر ہو جاؤ اور جب تم اسے مار چکو تو اس کی لاش پر آنسو بہاؤ۔

جو لوگ پاکستان کے دفاعی امور پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کو بھی جانتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے دفاعی حصار کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ:

''کوئی بھی با غیرت قوم اپنی شہ رگ کو شمن کے قبضہ میں نہیں رہنے دیتی۔۔۔۔۔۔''

ریاست جموں و کشمیر کی یہی جغرافیائی اور دفاعی اہمیت ہے جس کی وجہ سے بھارت اس کے ایک حصہ پر غاصبانہ تسلط کے بعد اب اپنی پوری قوت اور عیاری سے کام لے کر اس کے بقہ حصہ ''آزاد کشمیر'' پر بھی قبضہ جمانے کے لئے کوشاں ہے۔۔۔ اور اس خطہ کے ایک ایک انچ پر تسلط جمانے اور باقی رکھنے کے لئے اپنی پوری فوجی اور سیاسی قوت کو استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کے اس دفاعی حصار کے ختم ہو جانے کے بعد اس کے لئے پاکستان کے مشرقی بازو کی طرح اس کے مغربی بازو پر بھی تسلط جما لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہے گا اور یوں اسلامیانِ برصغیر کی اس آخری پناہ گاہ مملکتِ خداداد پاکستان کو ختم کرنے کے بعد اس کے لئے اکھنڈ بھارت کی صورت میں ایک عظیم برہمنی ریاست کے قیام کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر بنانا آسان ہو جائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم بھارت کے ان توسیع پسندانہ عزائم اور اس کی مخصوص سٹریٹیجی کو سمجھ کر اس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے نہایت سنجیدگی سے غور و خوض کریں۔

یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ بد قسمتی سے پچھلی ایک مدت سے بعض حلقوں میں غالباً بھارتی اور عالمی سامراجی قوتوں کے پروپیگنڈہ کے باعث یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ کشمیر کا پاکستان سے اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا تحریکِ پاکستان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر اپنے پسِ منظر، نصب العین اور اہمیت کے اعتبار سے صرف کشمیریوں ہی کا نہیں، بلکہ پوری ملّتِ پاک کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ تحریک آزادیٔ کشمیر کے تحریکِ پاکستان ہی کا ایک حصہ ہونے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور پوری ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بغیر تحریکِ پاکستان کی تکمیل نا ممکن ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر خدانخواستہ بھارت تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو کچل کر پوری ریاست جموں و کشمیر کو اپنے جارحانہ تسلط کا شکار بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں خود پاکستان کی بقا اور سالمیت بھی خطرے میں پڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔

یہاں اس حقیقت کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کا ہدف صرف پاکستان ہی نہیں پورا عالمِ اسلام ہے اور اس کے اصل عزائم یہ ہیں کہ اپنے گرد و پیش کے مسلم ممالک پاکستان، افغانستان، ایران اور انڈونیشیا وغیرہ پر قبضہ کر کے اپنے قدیم دیو مالائی تصور کے مطابق دریائے جیحوں سے جکارتہ تک ایک عظیم برہمنی سلطنت کا قیام عمل میں لایا جائے اس اعتبار سے بھارتی جارحیت صرف پاکستان ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیائے اسلام کے لئے ایک زبردست چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں ہی کا نہیں بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر اس وقت ایک انتہائی نازک اور سنگین صورتِ حال سے دو چار ہے۔ گزشتہ پاک بھارت جنگ کے نتائج نے بھارتی سامراج کے حوصلوں کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ وہ انتہائی عیاری اور پوری قوت سے کام لے کر ریاست جموں و کشمیر کے بقیہ حصہ آزاد کشمیر پر قبضہ کر کے تحریکِ آزادی کشمیر کو کچل دینے کی تیاری کر رہا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان کو کچھ بھی مہلت مل گئی تو وہ ایک بار پھر اس کے جارحانہ عزائم کا سر کچلنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس لئے وہ پاکستان کو مزید مہلت دیئے بغیر اس کے خلاف ایک بار پھر جارحیت کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر ملتِ پاک اس سلسلہ میں اپنے مؤقف کو متفقہ طور پر پوری قوت اور یکجہتی کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھ دے تو یہ بات بھارتی جارحیت سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے حکومت کے ہاتھ میں مضبوط کرے گی اور اس سے عالمی رائے عامہ بھی، بھارتی جارحیت کے خلاف، پاکستان کے حق میں ہموار ہو گی۔ لیکن اگر اس وقت ملتِ پاک نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی اور اس کے نتیجہ میں خدانخواستہ بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا تو یہ بات صرف تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے لئے ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو گی اور تاریخ ہماری اس کوتاہی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

یہی احساس ہے' جس کی وجہ سے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر نے، جو تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نمائندہ حکومت ہونے کی وجہ سے ایک نظریاتی حکومت ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال پر قومی سطح پر غور و خوض کرنے کی غرض سے آزاد کشمیر میں ایک ''آل پاکستان کشمیر کانفرنس'' منعقد کی جائے اور اس میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے زعما، ممتاز علمائے کرام اور ماہرینِ قانون، طالب علم رہنماؤں، صحافیوں، دانش وروں اور مزدور لیڈروں کو دعوتِ شرکت دی جائے۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ آزاد کشمیر حکومت ریاست جموں و کشمیر نے مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ اور اعلان گزشتہ کئی ماہ سے کیا ہوا ہے اور اسے بہر صورت منعقد کرنے کے انتظامات تیزی سے کئے جا رہے ہیں لیکن جس چیز نے مجوزہ کانفرنس کی اہمیت کو غیر معمولی بنا دیا ہے، مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین۔۔۔ سیاسی صورتِ حال ہے جو اس اعتبار سے حد درجہ تشویشناک ہے کہ بھارت ایک بار پھر جبر و تشدّد اور ترغیب و تحریص کے مختلف ہتھکنڈوں سے کام لے کر وہاں تحریکِ آزادی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہیں۔

یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو علی وجہ البصیرت سمجھتے ہیں کہ جہاں پاکستان کی بقا و سالمیت کا دار و مدار بڑی حد تک مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور پوری ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر ہے۔۔۔ وہاں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی تکمیل کا تمام تر انحصار بھی پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر ہے۔ اس لئے ہم اس بات کو پوری طرح سمجھتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کی بقا و سالمیت کے سلسلہ میں بھی ہم کشمیری مسلمانوں پر انتہائی گراں بار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو ہمیں بہر صورت ادا کرنا ہوں گی اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مجوزہ آل پاکستان کشمیر کانفرنس اس راہ میں ایک اہم قدم ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ!

ہماری خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں قومی سطح پر غور و خوض کے بعد ان اس مسئلہ کو بین الاسلامی اور پھر بین الاقوامی سطح پر بھی اُٹھایا جائے۔ چنانچہ ہماری کوشش ہے کہ مجوزہ ''آل پاکستان کشمیر کانفرنس'' کے انعقاد کے بعد مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں ایک بین الاسلامی اور پھر اس کے بعد ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی جائے، لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لئے ابتداءً یہ ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں قومی سطح پر کوئی لائحہ عمل اختیار کر لیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں مجوزہ بین الاسلامی اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔