ملکی دستور کی تدوین میں ہر جگہ اور اس کے ہر پہلو سے بحث کی جاتی ہے، کیونکہ پورے ملک کے مستقبل کا سوال ہوتا ہے مگر افسوس! اگر اس کا کوئی پہلو تشنہ رہتا ہے تو وہ صرف ملک کے سیاسی سربراہ کی اخلاقی اور دینی حیثیت کا پہلو ہے۔ دوسری اقوام کے لئے تو ممکن ہے، یہ ایک غیر ضروری اور غیر سرکاری بات ہو، لیکن ملتِ اسلامیہ کے لئے اس کی حیثیت دینی اور سرکاری ہے کیونکہ اس کے بغیر ان پاک اور عظیم مقاصد کا حصول ناممکن ہے، جو ملتِ اسلامیہ کی دنیوی اور اخروی صلاح و فلاح کے ضامن ہو سکتے ہیں۔
اصلاحی اور اسلامی دستور سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ملکی دستور میں سیاسی حکمرانوں اور ملک کی دوسری کلیدی آسامیوں کے حکام کی 'سچی مسلمانی' اور ان کے 'اسلامی اخلاق' کی تعیین کر دی جائے، ورنہ بہتر سے بہتر دستور بھی بانجھ اور نامراد ہی رہے گا جیسا کہ اب تک کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس فرصت میں مختصراً اس امر پر روشنی ڈال دی جائے کہ:
اسلامی سیاست کیا ہے اور ملتِ اسلامیہ کی سیاسی سربراہی کیا شے ہے؟ تاکہ اگر مسلمان چاہیں تو اپنے اپنے ملکی دستور کی تدوین میں ان دفعات کو شامل کر کے اپنی بگڑی بنا سکیں۔
اسلامی سیاست:
اسلامی سیاست کا دوسرا نام 'نصیحت' (نصح) اور 'حکمت' ہے۔ نصیحت سے مراد جذبۂ خیر خواہی ہے اور حکمت سے مقصود یہاں وہ حکمتِ عملی ہے جو جذبۂ خیر خواہی کے نفاذ اور اطلاقات سے تعلق رکھتی ہے۔ اسلامی سیاست کے لئے ضروری ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے سربراہ اور حکام سبھی اس جذبۂ خیر خواہی اور صفاتِ حکمت سے متصف ہوں، چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
«ما من عبد یسترعیه اللہ رعيةً ثم لم یحطھا بنصیحة ألا لم یدخل الجنة»
کہ جس کو بھی اللہ تعالیٰ نے رعیت کی ذمہ داری بخشی، پھر اس نے اس سلسلہ میں پوری پوری خیر خواہی ملحوظ نہ رکھی تو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، مسلم عن معقلؓ)
طبرانی کی ایک روایت میں یوں آیا ہے:
«من لا یھتم بأمر المسلمین فلیس منھم ومن لم یمس ویصبح ناصحا للہ ولرسوله ولکتابه ولإمامه ولومة المسلمین فلیس منھم» (طبرانی عن حذیفةؓ)
کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات کی پرواہ نہیں کرتا، اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور جس شخص نے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول (ﷺ) اس کی کتابِ حمید اور عام مسلمانوں کی (سچی) خیر خواہی سے غفلت برتی، اس کا بھی ان سے کوئی تعلق نہیں۔
اس جذبۂ پاک کو آپ ﷺ نے دین سے تعبیر فرمایا ہے:
«الدین النصیحة ثلٰثا قلنا لمن؟ قال للہ ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين ولعامتھم »(مسلم عن تميم الداريؓ)
کہ دین جذبۂ خیر خواہی کا نام ہے، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، ہم نے عرض کی، حضور! کس کی (خیر خواہی)؟ فرمایا، خدا، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے رہنماؤں اور تمام مسلمانوں کی۔
یعنی جذبۂ خیر خواہی کا دائرہ وسیع ہے کہ انسان خدا کا وفادار ہو، کتابِ الٰہی کا فرمانبردار ہو، رسولِ پاک ﷺ کا اطاعت شعار ہو اور ایسے سیاسی سربراہ ہوں، جو خداوند کریم اور اس کے رسول ﷺ کے فرمانبردار ہوں، سے صدق دلانہ تعاون اور ان کے جائز احکام کی تعمیل کرے اور مسلمان عوام کا خیر خواہ ہو۔ سیاست کو دین کہنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ دین سے الگ کوئی شعبہ نہیں ہے بلکہ اسی کا ایک شعبہ ہے۔ چنانچہ علماء نے سیاست کی یہ تعریف کی ہے:
علم بمصالح جماعة متشاركة في المدنية لیتعاونوا علي مصالح الأبدان وبقاء نوع الإنسان فإن للقوم أن يعاملوا النبي والحاكم والسلطان كذا وللنبي والحاكم والسلطان أن يعامل كل منھم قومه ورعاياه كذا
یعنی ایسا علم کہ جس کی بدولت اپنے باہمی مصالح اور بقاء کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جا سکے کہ قوم اپنے نبی، حاکم اور بادشاہ سے کس طرح معاملہ کرے اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی قوم او رعایا کے ساتھ یوں (اس علم کی روشنی میں) سلوک کرے۔ (دستور العلماء لعبد النبی الاحمد نگری)
ان احادیث کی تائید آیات الٰہی سے بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد اس طرح منقول ہے:
﴿أُبَلِّغُكُم رِسـٰلـٰتِ رَبّى وَأَنا۠ لَكُم ناصِحٌ أَمينٌ ﴿٦٨﴾... سورة الاعراف
کہ میں تم تک اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا دیانتدار خیر خواہ ہوں۔
حضرت صالحؑ نے اپنی قوم سے فرمایا:
﴿لَقَد أَبلَغتُكُم رِسالَةَ رَبّى وَنَصَحتُ لَكُم وَلـٰكِن لا تُحِبّونَ النّـٰصِحينَ ﴿٧٩﴾... سورة الاعراف
کہ میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور جو خیر خواہی کرنی تھی کر دی، مگر (افسوس) سچے خیر خواہوں سے تمہیں کوئی انس نہیں۔
سورۂ اعراف ہی میں حضرت نوحؑ کا ارشاد بھی موجود ہے:
﴿أُبَلِّغُكُم رِسـٰلـٰتِ رَبّى وَأَنصَحُ لَكُم...٦٢﴾... سورة الاعراف
کہ میں تم تک اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے معاملہ میں خیر خواہی کر رہا ہوں۔
یہ جذبۂ خیر خواہی اندھے کی لٹھ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک حکمت عملی ہے جس کے ذریعے ''جذبۂ خیر خواہی'' کا اتمام ہوتا ہے اور اس کا فیضان عام اور بے لاگ ہو جاتا ہے۔
حکمت کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
ورجل اٰتاہ اللہ الحكمة فھو يقضي بھا ويعلمھا (بخاری عن ابن مسعودؓ)
کہ (قابل رشک دوسرا) وہ آڈمی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ''فراستِ مومنانہ'' اور ''عدلِ حکیمانہ'' کی دولت بخشی، پھر وہ اس کے مطابق نظام چلاتا اور تعلیم دیتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿يُؤتِى الحِكمَةَ مَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُؤتَ الحِكمَةَ فَقَد أوتِىَ خَيرًا كَثيرًا ...٢٦٩﴾سورة البقرة
کہ اللہ جس کو چاہتا ہے (بات کی) سمجھ دیتا ہے اور جس کو (یہ) سمجھ دی گئی، اس نے یقیناً بڑی دولت پائی اور نصیحت بھی وہی مانتے ہیں جو سمجھدار ہیں۔
گویا معلوم ہوا کہ حکمتِ عملی کے سلسلہ کی سوجھ بوجھ اہلیت کا ایک سرٹیفکیٹ بھی ہے، جو اس سے عاری ہیں وہ اہل نہیں۔ اسی طرح جو اپنے دائرہ اثر میں ''خیر خواہی کے جذبہ'' سے دامن تہی رکھتا ہے وہ بھی ملتِ اسلامیہ کی سیاسی سربراہی کا اہل نہیں رہتا۔ کیونکہ اس سے مقصد ہی حصولِ خیر و برکت ہے اور اگر کوئی قائد اس سے عاری ہے تو ''خیرِ کثیر'' سے اس کی اپنی جھولی خالی ہے وہ دوسروں کو کیا دے گا؟
قرآنِ حکیم نے نصیحت اور حکمتِ عملی کے مجموعہ کو یوں بیان فرمایا ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ... ٥٨﴾...سوره النساء
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ''امانتیں'' ان کے حقداروں کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو انصاف سے کرو۔
حقوق حقداروں کے حوالے کرنا اور پوری دیانتداری کے ساتھ سپرد کرنا، بس یہی اسلامی سیاست ہے۔
الغرض: سیاست کی وادیٔ سینا میں قدم رکھنے کے لئے یدِ بیضا اور ضربِ کلیمی کے اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے، یہ کاروبار نہیں، خدا کی عبادت ہے اور خلقِ خدا کی خدمت! ہر بو الہوس اس کا اہل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندگانِ خدا کو ہانکنا نہیں، لے کر چلنا ہے، خدا کو بہلانا نہیں، اس کے حضور سچی عبودیت کا ہدیہ پیش کرنا ہے۔ جہاں عوام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خیر خواہ حکمرانوں کا استحصال نہ کریں بلکہ ان کو اپنا تعاون پیش کریں وہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ عوام، حکمرانوں کی ضیافتِ طبع کی مایہ نہیں، قوم کی امانت ہیں اور جو سیاسی سربراہ اس احساس، شعور، دل سوزی اور اخلاص کی متاعِ گراں مایہ سے محروم ہیں، وہ ملتِ اسلامیہ کی قیادت کے اہل قرار نہیں دیئے جا سکتے۔
ملتِ اسلامیہ کی قیادت بڑے جان جوکھوں کا کام ہے مگر افسوس! ہر بو الہوس آج اسکا مدعی ہے، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آج آپ کے سامنے اسلام کا معیارِ قیادت بھی پیش کر دیا جائے، تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ ملکی دستور کی تدوین میں جو شے سب سے اہم اور بنیادی تھی، نظر انداز بھی اسی کو کیا جا رہا ہے۔ ہم پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کو ملکی دستور میں مناسب آئینی تحفظ دلائے تاکہ پورا عالمِ اسلام اناڑیوں کا تختۂ مشق بننے سے بچ سکے۔
اسلام کا معیارِ قیادت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب امت کی امامت عطا ہوئی تو اس سرفرازی اور دینِ الٰہی کو دیکھ کر جھوم اُٹھے اور بولے:
﴿وَمِن ذُرِّيَّتى...٤٠﴾...سورة ابراهيم (الٰہی!) اور میری اولاد؟
﴿قالَ لا يَنالُ عَهدِى الظّـٰلِمينَ١٢٤﴾... سورة البقره
جواب دیا، جو ظالم ہیں وہ میرے اس عہد میں داخل نہیں ہیں۔
گویا ظالموں (نا اہلوں) سے میرا کوئی وعدہ اس لئے نہیں کہ وہ اسلام کے معیارِ قیادت پر پورے نہیں اترتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 'ظالمین' کے زمرے میں کون کون داخل ہیں؟ اگر قرآن مجید ہی کی روشنی میں 'ظالمین' کی تعیین کر لی جائے تو یہ امر محتاجِ وضاحت نہ رہے تا کہ قوم کی قیادت کا اہل کون ہے اور نا اہل کون؟
ظالم قرآن کی اپنی اصطلاح ہے اور جو اردو کے لفظی مفہوم سے زیادہ وسیع اور جامع ہے۔ خدا کے نزدیک مشرک بھی ظالم ہے۔
﴿إِنَّ الشِّركَ لَظُلمٌ عَظيمٌ...١٣﴾...سورة لقمان
کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
جو حدود کا لحاظ نہیں کرتے، وہ بھی ظالم ہیں:
﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّـهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ...١﴾...سورة الطلاق
کہ جس نے اللہ کی حدوں سے باہر قدم رکھا اس نے اپنی ذات پر ظلم کیا۔
اپنی دولت اور دھن کے نشہ میں دھت اور مسرف بھی ظالم ہیں:
﴿وَاتَّبَعَ الَّذينَ ظَلَموا ما أُترِفوا فيهِ...١١٦﴾...سورة هود
یعنی جن لوگوں نے ظلم کیا تھا وہ تو ان ہی دنیوی لذات کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھیں۔
اور وہ لوگ بھی ظالم ہیں جو با اثر لوگوں کا دم بھرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کی یہ معذرت کام نہ آئے گی کہ ہم مجبور تھے کمزوروں اور بڑے لوگوں کی باہمی تو تُکار کے ذکر کے بعد فرمایا: ﴿ يَومَ لا يَنفَعُ الظّـٰلِمينَ مَعذِرَتُهُم ۖ وَلَهُمُ اللَّعنَةُ وَلَهُم سوءُ الدّارِ ﴿٥٢﴾...سورة غافر
کہ اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی نفع نہ دے گی، ان پر خدا کی لعنت اور ان کے لئے بُرا ٹھکانہ ہے۔
وہ لوگ بھی ظالم ہیں جو اسلام کے صرف وہ فیصلے اپناتے ہیں جن میں ان کا فائدہ ہو ورنہ نہیں مانتے۔
﴿وَإِذا دُعوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم إِذا فَريقٌ مِنهُم مُعرِضونَ ﴿٤٨﴾ وَإِن يَكُن لَهُمُ الحَقُّ يَأتوا إِلَيهِ مُذعِنينَ ﴿٤٩﴾ أَفى قُلوبِهِم مَرَضٌ أَمِ ارتابوا أَم يَخافونَ أَن يَحيفَ اللَّـهُ عَلَيهِم وَرَسولُهُ ۚ بَل أُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٥٠﴾...سورة النور"یعنی جب ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو ان میں کچھ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ ہاں اگر اس میں ان کا کچھ فائدہ ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔ یہ لوگ (یقیناً ظالم ہیں۔
جو لوگ اپنے جتھے، کنبہ یا پارٹی کے سلسلہ میں اس قدر پختہ ہوتے ہیں کہ اگر وہ حق کا ساتھ بھی چھوڑ دیں تو یہ پھر بھی ان کو نہیں چھوڑتے۔ یہ لوگ بھی ظالم ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا ءاباءَكُم وَإِخوٰنَكُم أَولِياءَ إِنِ استَحَبُّوا الكُفرَ عَلَى الإيمـٰنِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٣﴾...سورة التوبة
کہ مسلمانو! اپنے باپ دادوں اور بھائی بندوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں انکار حق کو اختیار کریں، (اور اس کے باوجود بھی) تم میں سے کوئی اگر ان کے ساتھ یارانے رکھے گا تو ایسے لوگ ظالم ہوں گے۔
جو لوگ اعراض عن الحق کی راہ پر گامزن ہیں، قرآن نے ان کو سب سے بڑا ظالم (نا اہل) قرار دیا ہے: ﴿وَمَن أَظلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـٔايـٰتِ رَبِّهِ فَأَعرَضَ عَنها وَنَسِىَ ما قَدَّمَت يَداهُ...٥٧﴾...سورة الكهف
کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہو گا جس کو خدا کی آیات یاد دلائی جائیں اور وہ اس سے رُو گردانی کرے اور اپنے پہلے کرتوت بھول جائے۔'' (الکہف)
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٤٥﴾...سورة المائدة
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔
یہ ہے وہ تعیین جو قرآنِ مجید نے 'ظالمین' کی فرمائی ہے۔ پس ایسے لوگ قیادت کے اہل قرار نہیں دیئے جا سکتے اور اسی لئے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ:
﴿قالَ لا يَنالُ عَهدِى الظّـٰلِمينَ ﴿١٢٤﴾...سورة البقرة " کہ میرا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا"۔
خواہ وہ اولادِ ابراہیمی ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں۔
یہ لوگ بھی نا اہل ہیں:
ظالمین کے علاوہ بھی قرآنِ مجید نے بعض لوگوں کی قیادت کی واضح نفی فرمائی ہے۔ چنانچہ صاف الفاظ میں فرمایا:
﴿وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ وَكانَ أَمرُهُ فُرُطًا ﴿٢٨﴾...سورة الكهف
کہ ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنے نفس کا غلام ہو رہا اور جس کے کام حد سے گزرے ہوئے ہو گئے۔ (الکہف)
امام ماوردی (ف 45ھ) نے لکھا ہے کہ:
''ملک کا سربراہ اپنی غیر معتدل خواہشات کا غلام ہو جائے اور اپنے شہوانی جذبات سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا شرعی پابندیوں کی خلاف ورزی کرے۔ ایسی صورت میں کوئی شخص نہ تو امام منتخب ہو سکتا ہے اور نہ بطور سیاسی سربراہ اپنے عہدے پر قائم رہ سکتا ہے۔''
ان کے الفاظ یہ ہیں:
وأما الجرح في دالته وھو الفسق فھو علٰي ضربين، أحدھما ما تابع فيه الشھوة والثاني ما تعلق فيه بشبھته، فأما الأول منھما فمتعلق بأفعال الجوارح وھو ارتكابه للمحظورات وإقدامه علي المنكرات تحكما للشھوة انقياداً للھوي فھذا فسق يمنع من انعقاد الإمامة ومن استدامتھا (الاحكام ص 15 السلطانیہ)
سورۃ الشعراء میں فرمایا:
﴿وَلا تُطيعوا أَمرَ المُسرِفينَ ﴿١٥١﴾ الَّذينَ يُفسِدونَ فِى الأَرضِ وَلا يُصلِحونَ ﴿١٥٢﴾...سورة الشعراء
''اور ان مسرفین اور عیاش لوگوں کی اطاعت سے پرہیز کرو جو تخریب پسند ہیں (یعنی قیادت عیاش اور تخریب پسندوں کے حوالے بھی نہ کرو) اور اصلاحِ احوال کی طرف توجہ نہیں دیتے۔''
چنانچہ فرمایا:
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ...١١٥﴾...سورة النساء
کہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد جو رسول ﷺ کے خلاف کرے وار مومنوں کی دوستی چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی دھکیل دیں گے جدھر کو وہ چل پڑا ہے پھر اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔
ظاہر ہے جو شخص جہنمی ہے وہ لائقِ اتباع اور مومنوں کی قیادت کا اہل کیسے ہو سکا ہے؟ قومی نمائندوں کے نعرے ایک ڈھونگ ہے۔ خداوندِ کریم کا واضح ارشاد ہے کہ:
﴿اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَبِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ...٣﴾...سورة الاعراف
کہ تمہارے رب کی طرف سے جو تم پر نازل کیا گیا ہے اس کا اتباع کرو اور اسے چھوڑ کر دوستوں اور رفقاء کاا تباع نہ کرو۔
لیکن اس کے باوجود ان (قومی نمائندوں) کو دستور سازی کے اختیارات کا حق دے کر ان کو خدا کے متوازی بٹھا دیا گیا ہے حالانکہ یہ سب مل کر بھی حکمِ خداوندی کو رد نہیں کر سکتے:
﴿يـٰصـٰحِبَىِ السِّجنِ ءَأَربابٌ مُتَفَرِّقونَ خَيرٌ أَمِ اللَّـهُ الوٰحِدُ القَهّارُ ﴿٣٩﴾...سورة يوسف
کہ اے باران جیل! (بھلا سوچو تو سہی) کہ یہ مختلف خدا اچھے ہیں یا زبردست اور وحدہ لا شریک لہ اللہ''
''ارباب متفرقون'' سے مراد سربراہِ مملکت، مشیرانِ کار اور احکامِ اعلیٰ ہیں۔ نیز آج کل کے یہ نمائندے بھی ''اربابِ متفرقون'' میں داخل ہیں، جن کی وجہ سے علاقائی قیادتوں اور اطاعتوں کے انتشار نے وباء کی صورت اختیار کر لی ہے اور ان کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کے ''کلمۂ جامعہ'' اور ''وحدتِ ملّی'' کے امکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
قیادت کے اہل کون لوگ ہیں؟
ظالمین اور دوسرے نا اہلوں کے برعکس قیادت کے اہل وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا ہے:
﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ﴿٨٢﴾...سورة الانعام
کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں کی، وہی لوگ امن و امان کے مستحق ہیں اور یہی لوگ راہِ راست پر ہیں۔''
نیز ان کی اہلیت کی عام فہم اور واضح نشانی قرآن نے یہ بیان کی ہے:
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ...٤١﴾...سورة الحج
''اقامتِ نماز'' سے مراد مسنون طریقہ سے نماز پڑھنے اور عبودیت کی اس ۔۔۔۔۔ کو، جو ایک نمازی اپنی نماز میں پیش کرتا ہے۔ خارج میں بھی برپا کرنا ہے۔
''زکوٰۃ'' سے مراد راہِ خدا میں مالی ایثار ہے، جس میں فرض زکوٰۃ بھی آجاتی ہے۔
''امر بالمعروف'' سے مراد نظامِ حق برپا کرنا اور ''نہی عن المنکر'' سے مراد نظامِ باطل کا قلع قمع کرنا ہے۔ رومیوں کو جب پے در پے شکستوں کا سامنا ہوا تو ہرقل روم نے دریافت کیا کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ چنانچہ ان سے ایک بزرگ آدمی بولے:
من أجل أنھم یقومون اللیل ويصومون النھار ويوفون بالعھد ويأمرون بالمعروف وينھون عن المنكر ويتناصفون بينھم
کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان رات کو قیام کرتے ہیں، دن میں روزہ رکھتے ہیں۔ عہد پورا کرتے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کار بند ہیں اور باہم انصاف کرتے ہیں۔
یہ سن کر ہرقل بولا: 'صدقت' کہ تو نے سچ کہا!
حضرت امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
الولایة لھا رکنان (۱) القوة (۲) ولأمانة، فالقوة في الحكم ترجع إلي العلم بالعدل بتنفيذ الحكم، والأمانة ترجع إلي خشية الله (الاختيارات العلميه ص ۱۹۷)
کہ حکومت کے دو (۲) ستون ہیں۔ قوت اور امانت، حکم میں قوت کے یہ معنی ہیں کہ عدل اور قانون کے نفاذ کا علم اور فہم ہو اور امانت کی بنیاد یہ ہے کہ دل میں خشیتِ الٰہی ہو۔
عدل اور قانون کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ عادل اپنی یا قوم کی خواہشِ نفس کے اتباع سے گریز کرتا ہو اور صرف حق کے اتباع کا دم بھرتا ہو جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ ۖ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم...٤٨﴾...سورة المائدة
کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو اور ان کی خواہش نفس کی پیروی سے پرہیز کرو۔''
نیز فرمایا:
﴿فَاحكُم بَينَ النّاسِ بِالحَقِّ وَلا تَتَّبِعِ الهَوىٰ فَيُضِلَّكَ...٢٦﴾...سورة ص
کہ حق کے مطابق لوگوں کے درمیان حکومت کرو، خواہش کا اتباع نہ کرو، وہ تجھے گمراہ کر دے گی۔''
اس لئے کہ حکومت صرف اسی کی ہے:
اِنِ الْحُكمُ اِلَّا لِلهِ (يوسف) حكومت الله كے سوا كسی كے لئے نہيں ہے۔
اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (اعراف) یہ بھی یاد رکھو کہ مخلوق بھی اسی (اللہ) کی ہے اور حکم بھی اسی اللہ کا چلنا چاہئے۔ اور ملک بھی اسی کا ہے:
اَللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ (فاطر) اللہ ہی تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہت اور ملک ہے۔ اس میں آمیزش بالکل نہ ہونی چاہئے:
﴿إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ فَاعبُدِ اللَّـهَ مُخلِصًا لَهُ الدّينَ ﴿٢﴾ أَلا لِلَّـهِ الدّينُ الخالِصُ...٣﴾...سورة الزمر
کہ ہم نے برحق کتاب آپ ﷺ پر نازل فرمائی ہے تو خالص خدا ہی کو غلامی ملحوظ رکھئے! سنیے! خالص غلامی اور بے آمیز فرمانبرداری صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔
حق کے ساتھ فیصلے کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ اگر کوئی اختلاف رونما ہو تو اس کا علاج افہام و تفہیم سے کرو، پکڑ دھکڑ سے نہیں:
﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّـهِ...٥٩﴾...سورة النساء
یعنی اگر تمہارے درمیان جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹا دو۔(وہاں سے جو رہنمائی ہو، اس کے مطابق کام کیا کرو)
اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ غلط طریقہ سے کسی کو راستے سے ہٹانے کی کوشش نہ کیا کرو:
﴿وَلا تَقتُلُوا النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّـهُ إِلّا بِالحَقِّ...٣٣﴾...سورة الإسراء
کہ جس جان کو اللہ نے حرمت والا بنایا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو۔
کیوں کہ جو لوگ اپنی برتری کے خبط میں مبتلا ہیں اور فساد کے متلاشی ہیں، وہ دنیا ہی میں نہیں، آخرت میں بھی ناقابلِ التفات ہیں:
﴿تِلكَ الدّارُ الـٔاخِرَةُ نَجعَلُها لِلَّذينَ لا يُريدونَ عُلُوًّا فِى الأَرضِ وَلا فَسادًا...٨٣﴾...سورة القصص
کہ آخرت کا یہ گھر ان کے لئے جو زمین میں برتری کے خبط میں مبتلا نہیں ہیں اور نہ ہی تخریب کار ہیں۔ (القصص)
بلکہ انجام ان کا اچھا ہے جو پرہیزگار ہیں۔ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ
قیادت کا صحیح معنوں میں مستحق وہی شخص ہے جو مندرجہ بالا احکامِ الٰہی پابند اور ان (بیان کردہ) شرائط اور معیارات پر پورا اترتا ہو۔
علاوہ ازیں ایک قائد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے دماغ میں شاہزادگی کا خمار نہ ہو بلکہ وہ صدق دل سے ملک و ملت کا خادم ہو اور اپنے تئیں ایک نوکر تصور کرتا ہوں۔
ابو مسلم خولانی (ف 62ھ) حضرت امیر معاویہؓ (ف 60ھ) سے ملنے آئے تو 'السلام علیك یا أیھا الأجیر' کہ (اے نوکر تم پر سلام ہو) کہا، لوگوں کو حیرت ہوئی تو حضرت امیر معاویہؓ نے اس کی تصدیق اور تائید فرمائی۔ اس پر حضرت خولانی نے کہا:
إنما أنت أجیر أستاجرك رب ھذہ الغنم لرعايتھا فإن ھنأت جرباھا ودأويت مرضاھا وحبست أولاھا علي أخراھا فقال أجرك سيدك
کہ ان بکریوں (رعایا) کے چرانے کے لئے رب نے آپ کو نوکر رکھ لیا ہے۔ اگر آپ نے ان کو وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی اور ان کے بیماروں کی دوا کی اور ان کا نظم قائم رکھا تو ان بکریوں کا مالک آپ کو مزدوری دے گا۔
قیادت کی ذمہ داری کو صحیح طور نباہنے کا پتہ دراصل قائد کی نجی زندگی سے چلتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی نجی زندگی میں جو خدمات انجام دے سکتا ہو، وہ تو انجام نہ دے، لیکن لوگوں سے کہے کہ مجھے اقتدار دو تاکہ میں تمہاری خدمت کروں۔ جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کے سربراہ، ارکانِ مجلس اور حکامِ اعلیٰ کے سلسلہ کے یہ وہ خصائص ہیں' جن کو ملکی دستور کی تدوین میں اوّلیں حیثیت حاصل ہونی چاہئے، جب آپ ہر چھوٹی بڑی شے بیان کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت کے کارکنانِ قضا و قدر کے بارے میں اسلام نے جن اسلامی اخلاق ایمانی اقدار، اعمالِ صالحہ اور طہارتِ نفس کا ذِکر کیا ہے، دستور میں ان کو آئینی حیثیت نہیں دیتے اور اس کا آپ کو کیوں یقین نہیں آتا کہ جب تک حکمران طبقہ حاملِ قرآن نہیں ہو گا، وبالِ جان بنا رہے گا اور بہتر دستور بھی ہاتھ آگیا تو محض ان کی وجہ سے رائیگاں جائے گا؟
ملتِ اسلامیہ کو چاہئے کہ وہ اپنی قیادت کے لئے اسلامی شرائط اور معیارات پر تول کر لینے کی ریت ڈالے تاکہ جو بھی ہمارے مقدّر کا تارا بنے، ہماری بگڑی بنا دے۔
اگلے شمارہ میں ہم اسلامی ریاست کے سربراہوں کے اسلامی اخلاق اور طرزِ حیات کے نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ یہ صرف باتیں نہیں، ہماری تاریخ اور روایات ہیں جن کا اب ہم مکرر مشاہدہ کرنے کی جائز خواہش رکھتے ہیں۔