فکر و نظر کی بجائے فکر و عمل
محدّث کے ادارتی کالم (فکر و نظر) پر ایک تبصرے کی حیثیت سے یہ مضمون جس سیماب صفت شخصیت کے قلم سے نکلا ہے۔ ربِّ لم یزل کی مشیت ہے کہ وہ آج ہم میں موجود نہیں۔ حق کا یہ برہنہ داعی لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کا عادی تھا۔ قوم کے امراض پر کڑھتا، منصوبے بناتا، عمل پیرا ہوتا اور پھر اپنی سیمائی طبع کی بناء پر نئی راہیں ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوتا۔ اپنی زندگی میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اس نے بہتیری وادیاں قطع کیں، بڑے میدان مارے۔ مختصر یہ کہ اُس کی تمام تر سعی و کاوش اللہ کے لئے اور اس کے نظام کو برپا کرنے کے لئے رہی لیکن اسے اپنے احباب سے بڑے گلے شکوے تھے۔ وہ انہیں اللہ کے سپاہی دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنی زندگی میں اس کے قلم اور اس کی زبان سے اللہ کے نظام کو برپا کرنے کے لئے جو کام ہوا، لوگ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ اس کی اثر انگیز خطابت کا اثر ہنوز فضا کو مرتعش کیے دے رہا ہے۔ دین کا نازک آبگینہ مجروح نہ ہو۔ یہ اس کی تمنا تھی۔ اس نے اس کے لئے جدوجہد کی۔ پھر جس کسی نے اسے دیوانہ سمجھ کر پتھر برسائے۔ اس کی زبان سے یہی نکلا۔
تہنیت گویند مستاں راہ کہ سنگِ محتسب
برسرِ ما آمد و ایں آفت از مینا گزشت
قارئینِ محدثِ اس کے درود و داغ اور جذب و شوق کی تشکیلات اس مرقع میں دیکھ سکتے ہیں۔ (ادارہ)
یہ مضمون، ماہنامہ محدث جلد 1، عدد 6 فکر و نظر کے عنوان سے عبد الغفار اثرؔ کے ایک ایسے مضمون کو پڑھ کر لکھ رہا ہوں جو فکر و عمل کی بجائے فکر و نظر اور مرثیہ تک محدود ہے۔
پاکستان کو نظریاتی اسٹیٹ بنانے اور کہنے والے ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اینگلو محمڈن نوابوں کی اولاد اور ٹکڑ گدا مولویں کے درویزہ گر آج مسجد اور کالج میں اسلام کے نام پر جی رہے ہیں۔ راقم الحروف نے اسلام کو دو مردانِ خدا کی زندگی میں دکھا، سمجھااور 30 سال میں ایک جہاد کو بروئے کار لا کر برای العین، اللہ کے کلام کی برکت و عظمت کو دیکھ رہا ہوں۔
میرے قلم سے کالج کے فرنگیانہ دور میں حمایتِ اسلام کا نام لینے والوں کے لئے 26 جمادی الاولیٰ 1363ھ مطابق 20 مئی 1944ء میں ایک عملی تدبیر بروئے کار آئی اور ترویجِ قرآن کے لئے یہ سطور لکھی گئیں۔
''دین کی غرض و غایت یہ تھی کہ لوگ اس کی تعلیم پر عمل پیراہوں۔ ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہوں۔ وہ دنیا میں غلبہ اور آخرت میں خدائی نعمتوں کو حاصل کر سکیں۔ اسلام مذہب کی جامع صورت ہے اور نبی اکرم ﷺ اس کے آخری مبلغِ اعظم۔
ان کی زندگی (اسوۂ حسنہ) اور ان کے بعدصحابۂ کرامؓ کی زندگیاں اسلام کا نمونہ تھیں۔ اسلام کے سچے پیروؤں کا مقصد بھی یہی ہونا چاہئے کہ ان ہی نمونوں کے مطابق خود بھی اس دنیا میں زندگی گزاریں اور تمام انسانوں کو بھی اس کی ہدایت کریں۔
قرنِ اوّل کے مسلمان اس حقیقت کو سمجھتے تھے۔ ان کا ایک ایک فرد مجسم دعوتِ اسلام تھا، وہ کہیں جاتے تو تبلیغ کا درد ان کے دل میں ہوتا۔ تجارت کرتے تو اسی کے لئے۔ زراعت کو ہاتھ میں لیتے تو اسی کے لئے۔ غرض کہ دعوتِ اسلام کے بغیر وہ کسی کام کا تصور ہی نہ کر سکتے تھے۔ وہ تبلیغِ اسلام اور درایؤں کی طوفان خیزیاں ان کی تبلیغ کے راستے میں حائل نہ ہو سکیں۔ قید خانوں کی کوٹھڑیوں میں بھی انہوں نے اسوۂ یوسفی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ وہ برابر تبلیغ کرتے رہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ حقیقی معنوں میں وہی عاشقِ رسول (ﷺ) تھے۔
ابتدائی چند صدیوں تک مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ تبلیغ و دعوت ہر مسلمان کا فرضِ حیات ہے۔ مگر اس کے بعد جمود و استبداد نے ان کی قوتوں کو پامال کر دیا اور صرف علماء کا گروہ اس کا اجارہ دار بن بیٹھا۔
دین و دنیا، عالم و عامی کی حد بندی ہوئی۔ دنیا کے حاکم تبلیغِ اسلام سے لاپرواہ ہو گئے اور اس غفلت میں وہ اتنے بے باک ہوتے گئے کہ انجام کار علماء کو بھی اپنی خواہشاتِ نفس کا شکار کرنے کی ٹھان لی، علمائے حق ظلم کی تلوار کے سائے میں بھی اعلائے کلمۃ الحق کا فرض ادا کرتے رہے اور ان میں سے اکثر کی زندگیاں آج بھی ہمارے لیے عمل کا بہترین نمونہ ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا عام مسلمان اسوۂ حسنہ سے دور ہوتے گئے تو علما کا ایک طبقہ دنیا پرست بنتا گیا یہاں تک کہ اسلامی تعلیمات فراموش ہو کر رہ گئیں اور بعض ناہنجار گوروؤں اور چیلوں نے اس خیال کو رواج دیا کہ:
''وہ صرف مسلمان کہلوا کر کامیاب ہو سکتے ہیں اور آخرت میں جنت کے ٹھیکہ دار بھی بن سکتے ہیں۔''
صدیوں کے تجربے نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ مسلمان اس غفلت اور بد عملی کی وجہ سے ہی دنیا میں ذلیل ہے اور آہستہ آہستہ آخرت کا خوف بھی اس کے دل سے نکلتا جا رہا ہے، اس کی زندگی ایک مادہ پرست انسان سے کچھ جدا نہیں۔ وہ اسی دھارے پر بہ رہا ہے جس پر حیوانی رجحانات اسے بہائے لئے جا رہے ہیں۔
اب زمانے نے کروٹی لی ہے۔ مسلمان کو اپنی غفلت اور زیاں کاری کا احساس ہو رہا ہے۔ وہ جاگ رہا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے لئے اسلامی تعلیمات سمجھانے کے اسباب ناپید ہیں۔ نہ کوئی مناسب نصاب تعلیم ہے اور نہ انتظام۔ موجودہ نصابِ تعلیم کے نا خدا یہ چاہتے بھی نہیں کہ مسلمان اسلام سے واقف ہوں اور سچے مسلمان بن جائیں۔
اس لئے کہ جمہور جب بیدار ہو جائیں گے تو ان کی غلامی کا جو ایک لمحہ کے لئے برداشت نہ کریں گے۔ اللہ کی زمین میں صرف اللہ کا قانون رائج ہو گا اور یہی چیز باطل پرستوں کے لئے پیامِ موت ہے۔
اسلامیات یا دینیات کے لئے موجودہ سکولوں اور کالجوں میں یا تو سرے سے کوئی باقاعدہ نصاب ہی نہیں اور اگر کچھ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں تو ان میں سے اکثر، جہاں زبان کے لحاظ سے سو سال پہلے کی ہیں وہاں طرزِ بیان اور ترتیبِ مضامین کے اعتبار سے بھی دورِ حاضر کی ضروریات کو پورا نہیں کرتیں۔ میں نے 1927ء سے 1942ء تک پندرہ سال متواتر سکولوں اور کالجوں میں تعلیم و تدریس کے تجربے کے بعد محسوس کیا ہے کہ جب تک اسلامیہ سکولوں اور اسلامیہ کالجوں میں قرآنِ عزیز کی لازمی تعلیم کا انتظام نہیں ہتا اور ایسی رائے عامہ بیدار نہیں ہو جاتی کہ عامۃ المسلمین مذہبی تعلیم کے بغیر موجودہ نصابِ تعلیم کے زہر کے گھونٹ سمجھنے لگ جائیں، ملتِ اسلامیہ کی بگڑی نہیں بن سکتی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں 3 سال کی جدوجہد کے بعد 1943ء میں پہلی مرتبہ قرآنِ عزیز ی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔ ہندوستان کے مشاہیر علماء اور ماہرینِ تعلیم سے نصاب کے متعلق مشورہ کیا گیا اور قرآنِ عزیز کے علاوہ عام مذہبی معلومات کے لئے ایک نصاب مرتب ہوا۔ اسلامی تعلیمات اس نصاب کی پہلی کتاب ہے اور ہائی سکولوں اور کالجوں کے لئے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی رتیب میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو مذہبی امور میں جن معلومات کی ضرورت ہے وہ سلسلہ وار بیان کر دی جائیں تاکہ اس نصاب کی تکمیل کے بد ایک مسلمان اسلام، تبلیغِ اسلام اور ترویجِ اسلام کی روح کو سمجھ لے اور اس کے دل میں قرنِ اول کے مسلمانوں کے نقشِ قدم پر چل پڑنے کی تڑپ پیدا ہو جائے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کے غیور فرزندوں کو توفیق دے کہ وہ پہلے خود دین کو سمجھیں اور پھر اس کی اشاعت کے لئے سر بکف میدان میں نکل آئیں۔
(۲)
1944ء کے بعد پاکستان قائم ہوا۔ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے 1930ء کے تخیل کو ادھورے عمل میں پیش کیا۔ وہ ایک سال کے بعد چل بسے۔ قائد ملت لیاقت علی خاں کو قتل کیا گیا۔ اینگلو محمڈن نوابوں اور ان کے کاسہ لیسوں نے اس پاک ملک میں وہ اودھم مچایا کہ اسلامی تعلیمات ان کی عیاشیوں نالائقیوں اور گستاخیوں کے غبار و ہوس میں نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ نئی نسل کو اپنے مخصوص نہاد کے لئے نئے سانچوں میں ڈھالنے کے لئے زن، زر، زمین کے تینوں ہتھیار استعمال کئے گئے تا آنکہ 1957ء تک یہ اسلامی ملک ہر طرح غیر اسلامی اور یہ پاکستان پوری ناپاکی کا نمونہ بن گیا۔
راقم الحروف کے اپنے اور بیگانے اس کے در پئے آزار رہے مگر اللہ کی رحمت نے ساتھ نہ چھوڑا۔ ''جدوجہد'' کے نام سے ایک ماہنامہ شروع کیا اس میں ''نئے سال اور نئے ارادے'' کے عنوان سے یہ اداریہ لکھا:
''یکم جنوری 1957ء کو وہ سال شروع ہوتا ہے جس کے متعلق افسانے سے زیادہ دلکش اور رومان سے زیادہ دل موہ لینے والی پیش گوئیاں اور سنسنی خیز کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔ اقوام کی طرح افراد کی زندگیوں میں بھی ایسے افسانے اور ایسی حقیقتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ داعی الی الحق نے بحیثیت کارکن زندگی کا تجزیہ کیا۔ زندگی قبول کر لینے کے بعد اسے مہم سمجھ کر سر کر لینے کی کوشش کی۔ مسجد، کالج اور حکومت و سیاست، قومی ادارے، میدان جنگ اور مشرق و مغرب کی دسیسہ کاریوں کا تنقیدی مطالعہ اس کی جولانگاہ رہے۔ 1957ء کا تاریخ سال اس کے لئے ایک پیغام لایا ہے۔ پیغامِ جنون!
لہٰذا وہ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہے اپنا ایک جنون۔ ہاں جنون! یہ جنون نہیں تو اور کیا ہے کہ عالمگیر کساد بازاری۔ عام قدر ناشناسی اور اپنی پریشان خاطری کے باوجود خدمتِ خلق کے پروگرام کو لے کر میدانِ عمل میں نکلا ہے۔
ماضی کے دھندلکوں میں اسے مایوسیاں، ناکامیاں، قید و بند، بے وفائیاں، اور کج ادائیاں نظر آتی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ تو تجربات تھے۔ ان سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ اس کے جسمِ ناتواں کو نقصان پہنچا۔ اس کی ذات اور خدمت سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ مگر۔ نفع و نقصان کی وہ جنس جو سماج کے ترازو میں تلتی ہے اس نے قبول ہی کب کی؟ اس کا تو اپنا ایک معیار ہے اور وہ اس کے مطابق افراد، سماج اور زمانے کی قدروں کو تولتا رہا۔ مطمئن دل اور ایسی ہمت جو شکست سے ناآشنا ہو، ایسا سرمایہ جس کی بدولت وہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے۔
خدائے قادر و توانا کی نصرت اور غیبی اسباب و وسائل ہمیشہ اس کا سہارا بنتے رہے۔ آج بھی ایک نہیں درجنوں دعوتیں ہیں کہ آؤ آرام کے ساتھ پھولوں کی سیج پر بیٹھو۔ تنخواہ اور وظیفے حاضر ہیں۔ صرف تم کو۔ اپنی زبان، اپنی قلم اور اپنے دل کو کسی دوسرے کے ہم نوا کرنے کی ضرورت ہے۔ داعی الی الحق سے ایسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہوا ہے!
اسی لئے تو وہ، یہ بھاری بوجھ پھر اپنے سر لے رہا ہے اور ایسی حالت میں لے رہا ہے کہ دل پر آرے چل رہے ہیں اور دماغ پاش پاش ہے۔ لیکن وہ جنون ہی کیا جو عقل ومنطق کا پابند ہو۔ جنوں بس جنوں ہے اور اس کی منطق نرالی ہوتی ہے۔''
(۳)
اب سوال یہ ہے کہ دنیا دیوانے سے اس قدر کیوں ڈرتی ہے؟ کیا حرج ہے کہ عقل مندوں کی دنیا میں ایک دو دیوانے بھی آکر اپنا بسیرا بنا لیں۔ پروانے نے بھی آخر دیوانے ہی ہتے ہیں ورنہ شمع پر اس طرح جان کیوں دیں۔ دنیا پروانوں کو گورا کر لیتی ہے۔ پھر کیا حرج ہے کہ شاخ ہستی پر ایک دو دیوانے بھی آبیٹھیں اور لوگ انہیں برداشت کر لیں۔
لوگ دیوانوں سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ ان کا کام ان کے نزدیک تعمیر نہیں تخریب ہوتا ہے۔ وہ ان کے بنائے ہوئے قاعدوں کے مخالف اور ان کے خود غرضانہ اور خود ساختہ اصولوں کے دشمن ہوتے ہیں۔
ان کا ہاتھ، ان کے جمود اور ان کی بے حسی کو زندگی، احساس اور حرکت کے لئے جھنجھوڑتا ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں دیوانے ان کی عمارت کو آگ نہ لگا دیں۔ ان کے عیش کو غم میں نہ بدل دیں۔
لوگوں کا اندیشہ بے جا نہیں ہے۔ مگر سنیئے۔ سر زمینِ مصر تمدّن کا گہوارہ ہے۔ سر بفلک محل کھڑے ہیں۔ آباد عبادت خانوں کے سنہرے گلشن دھوپ میں ہزاروں سورج بنے ہوئے ہیں۔ علم کی گرم بازاری ہے۔ حکمت کی ارزانی ہے۔ تہذیب عروج پر ہے۔ تنظیم مکمل ہے۔ حکومت باقاعدہ ہے۔ بادشاہ دنیا بھر میں بادشاہوں سے طاقت ور ہے۔ اتنا طاقت ور کہ برملا کہتا ہے:
اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی میں ہی تمہاری اس دنیا کا سب سے بڑا رب ہوں
کیونکہ یہ تمام تنظیم و ترتیب میرے ہی تدبر اور حسنِ انتظام کا نتیجہ ہے۔
یہ مصر کی قوم ہے۔ یہ مصر کا بادشاہ ہے۔
سب باطل۔ سب فریب۔ دفعتاً ایک آواز بلند ہوتی ہے۔ فرمائیے! مصر کی تہذیب کو باطل و فریب کہنے والا آپ کی بول چال میں سیانا ہو سکتا ہے یا دیوانہ؟
اسی قدر نہیں۔ سب سے بڑا جنون ملاحظہ ہو۔ کہتا ہے کہ میں صدیوں کے غلام اسرائیلیوں کو آزاد کر کے فلسطین کا بادشاہ بناؤں گا۔
عقل اور جنون کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متمدن و مہذب اور منظم و طاقت ور مصر کی فوج اپنے زبردست فرعون کے ساتھ سمندر میں غرق ہو جاتی ہے اور غلام اسرائیلی قوم فلسطین کی حکمران ہو کر دنیا کی سب سے بڑی قوم بن جاتی ہے۔
بتائیے!روپے سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہے؟ دولت۔ اقتدار۔ بادشاہی۔ یہی چیزیں ہیں جن پر عقلمندوں کی دنیا ریجھی ہوئی ہے۔ لیکن ایک ناصری فقیر پکارتا پھرتا ہے:
''آسمان کی بادشاہت غریبوں کے لئے ہے!''
وہ برملا کہتا ہے:
''سوئی کے ناکے سے اونٹ کا نکل جانا ممکن ہے مگر امیر آدمی کا جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں کیوں کہ آسمانی بادشہات ان ہی کی ہے۔''
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ یقیناً مجنون کی بڑ ہے مگر آپ تعجب سے سنیں گے کہ آج آپ ہی جیسے کروڑوں عقل مند انسان اس دیوانے کو خدا کا بیٹا کہہ کر پوج رہے ہیں۔
یہ یوسف کنعان ہے یاکوئی بدرِ منیر جو زمین پر اتر آیا ہے!
اللہ اللہ کیسی موہنی صورت ہے، دل میں اتری جاتی ہے۔ آبرو کی کمانیں قیامت کے تیر چلا رہی ہیں۔ اور مژگان ہیں کہ سینے توڑے ڈالتی ہیں۔ دراز کا کلیں جن کی نظیر چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھی، مکھڑا جس سے چاند بھی شرمائے۔ جڑواں بھویں، بھرے ہوئے بازو، کشادہ سینہ، سڈول بدن، کون ہے جو اس صورت پر قربان نہ ہو جائے۔ پھر یہی چاند سا مکھڑا لہو لہان ہے۔ جن دانتوں سے مارے شرم کے موتی پانی ہوتے تھے، ٹوٹے ہوئے زمین پر پڑے ہیں۔ رخسار جن پر نازک گلاب نثار ہوتے تھے زخموں سے چور ہیں۔ کیا ہوا؟ لڑائی کس بات کی ہے؟؟
لڑائی اس بات کی ہے کہ عرب کہتے ہیں، ہم بتوں کو نہیں چھوڑیں گے اور محمد رسول اللہ (ﷺ) ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ خدائے واحد پر ایمان لاؤ اور قیصر و کسریٰ کے خزانوں کے مالک بن جاؤ۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ ابن عبد اللہ کو کیا پڑی ہے کہ دوسروں کے لئے خود اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیںَ آخر اپنا شباب، اپنا حسن، اپنی جان کیوں جوکھوں میں ڈال رہے ہیں۔ خدارا بتاؤ کیا یہ جنون سب سے بڑا جنوں نہیں ہے؟ لیکن پھر کیا ہوا؟
محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں قیصر و کسریٰ کے تاج پڑے دکھائی دیئے یا نہیں؟ آج دیوارِ چین سے بحر ظلمات تک کون کون خطۂ زمین ہے جہاں روز پانچ مرتبہ یہ صدا بلند نہیں ہوتی۔
أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُهدیکھا آپ نے کہ عقل مندوں کی دنیا نے جن لوگوں کو دیوانہ کہا، ان کی اس دنیا کو کس قدر ضرورت تھی اور انہوں نے اس دنیا میں کیسے مبار انقلاب پیدا کئے!
یقین کیجئے اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی نیک انقلاب بھی کسی عقل مند کے ہاتھوں کبھی انجام پذیر نہیں ہوا۔
یہ سب دیوانے ہی تھے، جنہوں نے وقت اور حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور نئی دنیا بسا ڈالی۔ آپ کیا جانیں کہ ان جنون کے مبتلاؤں کو اپنی بیماری میں کیا حظ و سرور ملتا ہے۔ ساری دنیا کے خزانے کیا چیز ہیں۔ اگر ماہتاب و آٖتاب بھی اتار کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیئے جائیں تو بھی وہ اپنے مرض کے اس لطف سے کبھی دست بردار نہ ہوں گے۔ ان کی زبانِ حال ہمیشہ کہتی ہے ؎
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی!
لکھ دیجیؤ یا رب اسے قسمت میں عدو کی
(۴)
بے شک دیوانے کا کام تعمیر نہیں تخریب ہی ہے مگر آپ نے یہ کیوں کر طے کر لیا کہ آپ کو تخریب کی نہیں تعمیر کی ضرورت ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ جس عمارت میں آپ رہتے ہیں، اندر ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہو اور آج ہی کل میں اپنے مکینوں پر گر پڑنے والی ہو!
اگر واقعہ یہی ہے تو آپ کو خوش ہونا چاہئے۔ اگر کوئی دیوانہ یہ عمارت گرا دے اور آپ کی جان بچ جائے، لیکن اگر آپ کی عمارت کھوکھلی نہیں سنگین ہے تو پھر یقین کیجئے۔ ہزار دیوانے بھی اسے نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
پھر یہ بھی یاد رہے۔ کوئی دیوانہ یہ کہہ کر نہیں آتا کہ میں آتا ہوں مجھے آنے و، وہ تو بس آدھمکتا ہے۔ اسی لئے آپ کا یہ دیوانہ بھی عزمِ محکم اور عملِ پیہم کے بل پر آپ کی مجلس میں نازل ہوتا ہے، اور سچ کہتا ہے کہ آپ کتنے ہی دھکے دیں، اسے نکال نہ سکیں گے۔ اس کے شور سے آپ چیں بجبیں ہوں گے، دانت پیسیں گے، محتسب سے فریاد کریں گے مگر یاد رکھئے یہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ آپ کا سکون خاطر برباد ہی کرتا رہے گا کیونکہ اس کے سر میں جو جنون ہے وہ نہ جیتے جی جائے گا اور نہ وہ آپ کو چین لینے دے گا۔ یہ درد ایسا ہے کہ مر جائے تو جائے!
اے کاش'! کسی طرح آپ کے دل میں یہ بات اتاری جا سکے کہ آپ کی کھوئی ہوئی عظمت، فکر و نظر یا عقل سے نہیں، ایمان و عمل اور جنون کی راہ میں واپس آسکتی ہے۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ملتِ اسلامیہ گومگو۔ رسمی اسلام اور تذبذب کا شکار ہے۔ اگر اس ملت کے افراد میں سے کچھ اللہ کے نام کے دیوانے بن جائیں، پھر ایمان و عمل کے ساتھ ایسے جہاد میں مصروف ہو جائیں جو
يَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ یعنی غزاء اور شہداء کی منزل تک پہنچے بغیر اپنی زندگی کو نامکمل سمجھیں تو چشم زون میں دوش ہی پر اپنے آپ کو رسوا پائیں۔ ؎
ہر زماں یک تازہ جولانگاہ می خواہم ازو
تا جنوں فرمائے من گوید دِگر ویرانہ نیست