تعارف و تبصرۂ کتب

نام کتاب : بد نصیب

مصنف : مائل خیر آبادی

ضخامت : 64 صفحات

قیمت : 25/1 روپے

ناشر : ادارہ الحسنات ذیلدار پارک اچھرہ لاہور

بچوں اور بڑوں کے لئے افادی ادب کی تخلیق میں مائل خیر آبادی صاحب کا قابل قدر حصہ ہے۔ وہ سادہ و سلیس اور شگفتہ و رواں زبان میں لکھتے ہیں۔ اندازِ بیان دلکش ہے۔ زیرِ نظر کتاب ''بدنصیب'' میں انہوں نے ان دس بد نصیبوں کا حال کہانی کے انداز میں لکھا ہے جن تک اللہ کا دین پہنچا لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے اس نعمت سے محروم ہو گئے۔ واقعی اس شخص سے زیادہ بد نصیب کون ہو سکتا ہے جس کے سامنے جنت کا راستہ ہو لیکن وہ اپنا رخ بدل کر جہنم کی طرف چل پڑے۔ یہ دس کہانیاں ہم سب کے لئے درسِ عبرت ہیں۔ بڑوں کو چاہئے کہ وہ اس کتاب کو خود بھی پڑھیں اور اپنی اولاد اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی پڑھائیں۔ جن دس بد نصیب لوگوں کے حالات و واقعات اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں، ان کے نام یہ ہیں۔ ابلیس۔ کنعان۔ سامری۔ قارون۔ عبد اللہ بن ابّی۔ مسیلمہ کذاب۔ جبلہ بن ابہم اور ثعلبہ۔

-----------------------

نام کتاب : چٹانیں

مصنف : مائل خیر آبادی

ضخامت : 104 صفحات

قیمت : 25/2 روپے

ناشر : ادارہ الحسنات ذیلدار پارک اچھرہ لاہور

''بد نصیب''اگر ان لوگوں کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے کہ جو حرص و ہوس اور نفس پرستی کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے و ''چٹانیں'' ان بزرگ و پاکباز خواتین کی زندگی کے واقعات پر مشتمل ہے جو باطل کے سیلِ بیکراں میں چٹانوں کی طرح ڈٹی رہیں۔ کوئی ظلم، کوئی لالچ اور کوئی فریب انہیں دینِ حق سے نہ ہٹا سکا۔ ہر طرح کے مصائب اور تکالیف برداشت کیں لیکن اسلام چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ یہ چٹانیں ہیں، حضرت فاطمہؓ، حضرت سمیہؓ، حضرت اُم سلیمؓ، حضرت اسماءؓ، حضرت ام عمارہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت ہندؓ بنت عتبہ، حضرت صفیہؓ اور حضرت خنساءؓ۔ ان صحابیات کے حالات پڑھ کر نہ صرف یہ کہ ایمان تازہ ہتا ہے بلکہ مستحکم ہوتا ہے۔ ادارہ الحسنات نے بڑے خوبصورت پیرایہ میں دونوں کتابیں پیش کی ہیں۔
-----------------------

نام کتاب : اربعین نوویؒ

مرتب : حافظ نذر احمد۔ مولانا عزیز زبیدی

ضخامت : 96 صفحات

قیمت : 60/1 روپے

ناشر : مسلم اکادمی، نذر منزل 18/29، محمد نگر۔ لاہور

زیر نظر کتاب اربعین نوویؒ، امام نوویؒ کی منتخب بیالیس احادیثِ رسول کا مجموعہ ہے جسے ایف اے کے طلباء کے لئے موجودہ شکل میں حافظ نذر احمد صاحب نے مولانا عزیز زبیدی صاحب کے تعاون سے مرتب کیا ہے۔ اربعین کا معنی چالیس ہے لیکن اس مجموعہ میں احادیث کی تعداد بیالیس ہے جن میں سے 29 احادیث امام ابو عمر بن صلاح کا انتخاب ہے۔ امام نوویؒ نے مزید 13 احادیث شامل کر کے اس مجموعہ کا نام اربعین نووی رکھا۔ تبین نے متن اربعین کا ترجمہ، ہر حدیث کا الگ الگ مرکزی خیال و مفہوم اور مشکل الفاظ کے معانی دینے کے علاوہ امام نوویؒ کی زندگی کے حالات، اربعین کی وہ تسمیہ اور تاریخ، حدیث کی اہمیت، حدیث کی اقسام، علم حدیث کی اصطلاحات، تدوینِ حدیث اور اس کی تاریخ، مشہور راویوں کے نام، ان سے روایت کردہ احادیث کی تعداد اور احادیث کی مشہور کتب کے متعلق نہایت اہم معلومات شامل کر دی ہیں۔ یہ مجموعہ طلباء کے علاوہ تمام لوگوں کے لئے بھی مطالعہ اور یاد کرنے کی چیز ہے کہ حدیث میں آتا ہے:

''میری امت میں سے جس شخص نے چالیس احادیث دینی امور کے متعلق یاد کیں، اللہ اسے قیامت کے روز فقیہوں، عالموں اور شہیدوں کے گروہ سے اُٹھائے گا۔''
-----------------------

نام کتاب : ارمغان آزاد جلد اوّل

مرتب : ابو سلمان شاہجہان پوری

ضخامت : 268 صفحات

قیمت : 50/5 روپے

ناشر : مکتبۃ الشاہد۔ علی گڑھ کالونی کراچی۔41

مولانا ابو الکلام آزادؔ کی شخصیت کسی طرح بھی طلسماتی شخصیت سے کم نہیں۔ طلسماتی اس لئے کہ ایسی خصوصیات و صلاحیتوں کے لوگ خال خال ہی نہیں بلکہ صدیوں میں کوئی ایک  ہی ملتے ہیں۔ وہ ایسی ہستی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے جامع الصفات کی ترکیب انہی کو دیکھ کر وضع کی گئی ہے۔ جناب ابو سلمان شاہجہان پوری نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ:

''ایسی باکمال اور پہلو دار شخصیت کے علوم و معارف کے احاطے، فضائل و محاسن کے ذکر اور خدمات کے تذکرے کے لئے علماء کے بڑے بڑے مجامع، عظیم الشان اکیڈمیوں اور ان کے بے شمار وسائل اور قرنوں کی کوششوں کی ضرورت ہے۔''

لیکن انہوں نے یہ بات ٹھیک نہیں کہی ہے کہ:

''ان پر (مولانا آزاد پر) قلم اُٹھانے کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، بلاشبہ وہ مجھ میں نہیں۔ مجھے ان پر قلم اٹھانے اور ان کے تذکرے کا حق نہیں پہنچتا تھا۔''

کیونکہ ارمغان آزاد اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ ابو الکلام آزادؒ کو سمجھنے اور سمجھانے میں ان کے قلم نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔

ارمغان آزاد، مولانا آزادؒ کی ابتدائی دَور کی شعری اور نثری تخلیقات کا گلدستہ ہے۔ مولانا آزادؒ کے رنگا رنگ گلہائے شعر و نثر کو ابو سلمان صاحب نے اتنی عقیدت اور سلیقہ سے سجایا ہے کہ یہ مجموعہ ارمغانِ آزاد بھی ہے اور ارمغانِ ابو سلمان بھی۔

زیر نظر کتاب کے حصہ اول میں مولانا آزاد کا کلام بڑی عرق ریزی اور محنت سے جمع کر دیا گیا ہے۔ اس میں غزلیات، رباعیات، قطعات، مثنوی اور نعت جیسی اصناف شامل ہیں۔ اردو کے علاوہ فارسی کلام بھی ہے۔ مولانا آزادؒ کے عکسی کلام سے یہ کتاب گراں قدر اہمیت کی حامل ہو گئی ہے۔ مولانا کے کلام سے پہلے ابو سلمان صاحب نے نہایت دلچسپ اور شگفتہ انداز میں مولانا کے شعری میلان کی تاریخ بھی بیان کر دی ہے۔ اور متن کے ساتھ ساتھ حواشی دے کر کلام کا ذہنی اور تاریخی پس منظر سمجھنے میں آسانی کر دی ہے۔ حصہ دوم گیارہ مضامین پر مشتمل ہے اور مضامین بھی ابتدائی دور کے مثلاً فن اخبار نویسی، جشن تاج پوشی کا کلکتہ میں دلچسپ مشاعرہ، سرمد شہید، ایک بت سیمیں سے، قمار باز، حکیم خاقانی شیروانی وغیرہ۔

ارمغانِ آزاد جیسی کتابیں اس دور میں کم ہی چھپتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ علم بھی انہی کتابوں کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کتاب عمدہ، کاغذ اعلیٰ، جلد پختہ، سرورق پر مولانا آزاد کا خیال افروز تصویری خاکہ۔ غرض یہ کتاب جہاں اپنے مواد کے لحاظ سے علمی و تحقیقی ہے، وہاں ظاہری صورت میں بھی علمی تاثر دیتی ہے۔
-----------------------

نام کتاب : معرکۂ ایمان و مادیت

تالیف : مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

ترجمہ : مولانا محمد الحسنی

ضخامت : 136 صفحات

قیمت : 6 روپے

ناشر : ملک برادرز کارخانہ بازار لائل پور

معرکۂ ایمان و مادیت سیدھے سادھے الفاظ میں سورۂ کہف کی تفسیر ہے لیکن یہ معروف انداز میں تفسیر بھی نہیں بلکہ موجودہ دور کی نثری صنف میں علمی مقالہ ہے۔ ایک بلند پایہ علمی و دینی مقالہ، جس میں قرآن و حدیث، تاریخِ قدیم اور معلوماتِ جدیدہ کی روشنی میں سورۂ کہف کا تعارف کرایا گیا ہے۔ تفسیر کا یہ انوکھا اور دل نشیں انداز مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ طویل عربی زبان میں لکھا گیا تھا۔ جس کا ترجمہ مولانا علی میاں کے بھتیجے مولانا محمد الحسنی نے کیا ہے۔ مقالہ کا آغاز ملاحظہ ہو۔

''جمعہ کے روز جن سورتوں کے پڑھنے کا شروع سے میرا معمول ہے۔ ان میں سورۂ کہف بھی شامل ہے۔ حدیثِ نبوی کے مطالعہ کے دوران مجھے علم ہوا کہ اس میں سورۂ کہف پڑھنے اور اس کو یاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کو دجال سے حفاظت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ کیا اس سورہ میں واقعی ایسے معانی و حقائق اور ایسی تنبیہیں یا تدبیریں ہیں جو اس فتنہ سے بچا سکتی ہیں، جس سے رسول اللہ ﷺ نے خود بار بار پناہ مانگی ہے اور اپنی امت کو بھیاس سے پناہ مانگنے کی سخت تاکید فرمائی ہے اور جو، وہ سب سے بڑا آخری فتنہ ہے، جس کے بارہ میں حضور ﷺ کا ارشاد یہ ہے کہ آدم کی پیدائش سے قیامِ قیامت تک دجال سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ رسول اللہ ﷺ نے، جو کتاب اللہ اور اس کے اسرار و علوم سے سب سے بڑھ کر واقف ہیں، قرآن کی ساری سورتوں میں سے آخری اسی سورہ کا انتخاب کیوں فرمایا ہے؟ مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل اس راز تک پہنچنے کے لئے بے تاب ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس خصوصیت کا سبب کیا ہے اور اس حفاظت اور بچاؤ کا، جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی ہے، سورہ سے کیا معنوی تعلق ہے۔ قرآن مجید میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی سورتیں موجود تھیں۔ کیا وجہ ہے کہ ان سب کو چھوڑ کر اس سورت کا انتخاب کیا گیا اور یہ زبردست خاصیت اسی سورہ میں رکھی گئی۔ مجملاً مجھے اس کا یقین ہو گیا کہ یہ سورہ قرآن کی ضرور ایسی منفرد سورہ ہے جس میں عہدِ آخر کے تمام فتنوں سے بچاؤ کا سب سے زیادہ سامان ہے۔ جس کا سب سے بڑا علمبردار دجال ہو گا۔ اسی میں اسی تریاق کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو دجال کے پیدا کردہ زہریلے اثرات کا توڑ کر سکتا ہے اور اس کے بیمار کو مکمل طور پر شفا یاب کر سکتا ہے اور اگر کوئی اس سورہ سے پورا تعلق پیدا کر لے اور اس کے معانی کو جان و دل میں اتار لے تو وہ اس عظیم اور قیامت خیز فتنہ سے محفوظ رہے گا اور اس کے جال میں ہرگز گرفتار نہ ہو گا۔''

اس طویل اقتباس کے لئے میں معذرت خواہ نہیں ہوں کیونکہ میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ اس اقتباس کے پڑھنے کے بعد کوئی مسلمان ایسا نہ ہو گا جس کا دل بقایا کتاب پڑھنے پر آمادہ نہ ہو جائے۔ جب تمہید ہی دل و نگاہ پر قابو پا لے تو باقی حصہ پڑھے بغیر کون رہ سکتا ہے۔

آج کا دور روحانیت و مادیت کی کشمکش کا دَور ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم مادیت کے مقالہ میں روحانی اقدار کی شکست قبول کر چکے ہیں۔ آج ہم اسلام کی بجائے سوشلزم، کمیونزم اور کیپٹلزم کی مثالیں دے کر اپنے اندر ترقی کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کشمکش اور اس شکست خوردگی کے عالم میں سورۂ کہف روشنی کا مینار ہے۔ آئیے اس ایمان و مادیت کی کشمکش کے پس منظر میں سورۂ کہف کا مطالعہ کیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس معرکۂ ایمان و مادیت میں فتح ایمان ہی کی ہے۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی:

''میں نے دیکھا ہے کہ پوری سورہ صرف ایک موضوع پر مشتمل ہے جس کو میں ''ایمان و مادیت کی کشمکش'' یا ''غیبی قوت اور عالمِ اسباب'' سے تعبیر کر سکتا ہوں۔ اس میں جتنے اشارے، حکایات، واقعات، مواعظ اور تمثیلیں گزری ہیں، وہ سب انہی معانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کبھی کھل کر کبھی در پردہ۔ مجھے اس نئی دریافت یا نئی فتح پر بڑی مسرت حاصل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور قرآن مجید کے اعجاز کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا۔ مجھے اس کا اندازہ نہ تھا کہ یہ کتاب جو چھٹی صدی عیسوی یعنی آج سے تیرہ سو برس سے بھی پہلے نازل ہوئی، اس دجالی تمدن و تہذیب کی نیز اس کے نقطۂ عروجاور اختتام اور اس کے رہبرِ اعظم کی، جس کو نبوت کی زبان میں دجال کہا گیا ہے، ایسی سچی اور منہ بولتی تصویر افسانوں کے سامنے پیش کرے گی۔''

معرکۂ ایمان و مادیت کا مطالعہ علوم و معارف کے کئی دریچے کھولتا ہے اور ایمان و ایقان کی مہک سے دل و دماغ کو معطر کرتا ہے۔ اس کا مطالعہ علمی تسکین کا باعث ہی نہیں بلکہ روحانی طمانیت اور مسرت کا باعث بھی ہے۔ اس گراں قدر کتاب کو ملک برادرز کارخانہ بازار لائل پور نے بڑی خوبصورت گٹ اپ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لیکن یہ کتاب خواہ کتنے بھی حسین انداز سے پیش کی جائے، اس کے معنوی حسن کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ موجودہ نظریاتی بتوں کا، جس طرح بننا ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح ان کا ٹوٹنا بھی ایک حقیقت ہے۔ بت تراش اپنا کام کر چکے اور اب بت شکنی کا دَور آرہا ہے۔
-----------------------

نام کتاب : اقوالِ مودودی

مرتب : سعد بن اسعد

ضخامت : 120 صفحات

قیمت : 5 روپے

ناشر : گلستان پبلیکیشنز۔ 40 اردو بازار لاہور

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تحریروں نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر حیاتِ نو بخشی ہے انہوں نے زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا اور کھرا کھوٹا الگ الگ کر کے رکھ دیا۔ مولانا نے جو کچھ لکھا خونِ جگر سے لکھا، خلوص و دیانت سے لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس موضوع پر قلم اُٹھایا، اس کا حق ادا کر دیا۔ ''دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے'' اور آج یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ خصوصی طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں دین پر اعتماد جس قدر پھیلا ہے اس کا بیشتر حصہ مولانا کی تحریروں کا مرہونِ منت ہے۔ بلاشبہ مولانا کی شخصیت ان شخصیات میں سے ایک ہے جن کے اقوال و اعمال رہنما اصول بن جاتے ہیں۔

اقوالِ مودودی، مولانا مودودی کی تحریروں سے منتخب کردہ فقرات اور اقتباسات ہیں جن میں کوئی نہ کوئی فکر انگیز پیغام ہے یا کسی معاملہ میں دو ٹوک رائے ہے۔ یہ مجموعہ جماعتِ اسلامی صوبۂ پنجاب کے امیر سید اسعد گیلانی کے صاحبزادے سعد بن اسعد نے مرتب کیا ہے۔ اقوال کو مختلف عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ ان اقوال کو مولانا کی تحریروں کا جوہر ہونا چاہئے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے، اتنی محنت اور عرق ریزی سے کام نہیں لیا گیا جس کی متقاضی مولانا جیسی علمی اور سیاسی شخصیت ہے۔ مجموعی طور پر یہ انتخاب کوئی چونکا دینے والی کوشش نہیں، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جن کی نظر سے مولانا کی تصنیفات گزرتی رہتی ہیں۔ ظاہری حسن کے لحاظ سے کتاب قابلِ قدر ہے۔ کتابت و طباعت اعلیٰ۔ پلاسٹک کی خوبصورت جلد حسن کو دوبالا کر رہی ہے۔
-----------------------

نام کتاب : کتاب الوسیلہ

مصنف : مولانا عبد الستار محدّث دہلوی

ضخامت : 112 صفحات

قیمت : ۲ روپے

ناشر : کتب خانہ اشاعت الکتاب والسنہ گلی نمبر 1 برنس روڈ کراچی نمبر 1۔

وسیلہ موضوع کوئی نیا نہیں۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ سنا جا چکا ہے۔ وسیلہ کے سلسلہ میں ایک فریق کو مؤقف یہ ہے کہ وسیلہ نبی ﷺکی ذاتِ بابرکات بلکہ اولیاء اللہ کا بھی ہے۔ انہی کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ مدد و رحمت فرماتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ جن کا وسیلہ ہوتا ہے وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں۔ دوسرے فریق کا مؤقف یہ ہے کہ وسیلہ محض اعمالِ صالحہ اور دعا کا نام ہے ان کے نزدیک قرآن و حدیث میں کسی بزرگ کی ذات کا وسیلہ نہیں پایا جاتا۔

کتاب الوسیلہ اسی دوسرے فریق کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں مولانا عبد الستار صاحب کلا نوریؒ نے نہایت دلکش انداز میں قرآن و حدیث اور فتاویٰ ابن تیمیہؒ، تفسیر روح المعانی اور شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے فرمودات کی روشنی میں اپنے موقف کو واضح کیا ہے۔ اور حق یہ ہے کہ مسئلۂ وسیلہ کو صاف کر دیا ہے۔

کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں توسل کے معنی مستند حوالوں سے بیان کئے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں توسل بالذات کے حامی فریق کے دلائل اور ان پر تبصرہ و بحث ہے۔ یہ تبصرہ و بحث نہایت علمی اور تحقیقی اسلوب میں ہے۔ تیسرے باب میں قرآنِ کریم، احادیث نبوی، اقوال محدّثین اور ائمہ مجتہدین کی روشنی میں توسل بالذات کے باطل ہونے کے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ یہ باب کتاب کی جان ہے۔ چوتھے باب میں سماعِ موتیٰ یعنی ''کیا مردے سنتے ہیں'' کے موضوع پر بحث ہے جسے بڑے عالمانہ انداز میں نبھایا گیا ہے۔

وسیلہ اور سماعِ موتیٰ کے موضوع پر یہ ایک گراں قدر کتابچہ ہے جسے اول اول مولانا عبد الستار کلا نوریؒ نے حقیقت التوسل والوسیلہ کے نام سے تصنیف فرمایا تھا اور پھر موجودہ شکل میں کچھ اضافوں کے ساتھ مولانا عبد الستار صاحب محدّث دہلوی سابق امام جماعت غرباء اہلحدیث نے طبع فرمایا۔ یہ کتاب دو روپے میں کتب خانہ اشاعت الکتاب والسنہ گلی نمبر 1 بنس روڈ کراچی نمبر 1 سے منگوائی جا سکتی ہے۔