خود غرضی اور تعصبات
ملّی وحدت کے لئے عظیم فتنہ ہیں
ان کی راہ روکو! ورنہ مٹ جاؤ گے
نوعِ انسانی مختلف امتیازات اور تعصبات میں مبتلا تھی۔ اللہ نے کرم کیا، کتابِ پاک اتاری اور رسولِ پاک ﷺ کو مبعوث فرما کر سب کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ روٹھے ہوئے گلے مل گئے۔ بچھڑے پھر جڑ گئے، دشمنِ جاں بھائی بن گئے اور افتراق و انتشار کے روگی وحدت اور اتحاد کے مسیحا ہو گئے اپنے اس احسان کا خداوند کریم نے یوں ذکر فرمایا ہے:
﴿وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا ...١٠٣﴾... سورة آل عمران''اور اپنے اللہ کا وہ احسان یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے۔''فرمایا: آپ ﷺ اس کے لئے اور جو بھی جتن کرتے، اتحاد و اتفاق کی یہ دولت حاصل نہ کر سکتے تھے:
﴿لَو أَنفَقتَ ما فِى الأَرضِ جَميعًا ما أَلَّفتَ بَينَ قُلوبِهِم وَلـٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَينَهُم ۚ إِنَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٦٣﴾... سورة الانفالیعنی ''اگر آپ ﷺ روئے زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت نہ پیدا کر سکتے، مگر (وہ تو) اللہ (ہی تھا جس) نے ان لوگوں میں الفت پیدا کر دی، بے شک وہ زبردست اور صاحبِ تدبیر ہے۔''اور اس نعمت کے تحفظ کا علاج بھی خود ہی بتا دیا:
﴿وَأَطيعُوا اللَّهَ وَرَسولَهُ وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ريحُكُم...٤٦﴾... سورة الانفالکہ الله اور اس كے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں لڑو بھڑو نہیں (ورنہ) تم ہمت ہار دو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔چونکہ انسان، انسان ہے، باہم الجھ پڑنا بعید از قیاس نہیں۔ ہو سکتا ہے کبھی لڑ بھی پڑے، تو فرمایا:
﴿فَأَصلِحوا بَينَهُما﴾ تو ان کے درمیان صلح کراو۔وہ کیسے؟ فرمایا:
﴿فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ...٥٩﴾... سورة النساء" پس اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔یعنی ان کے احکام کی روشنی میں، ان کے درمیان مفاہمت کرادی جائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک اس اصول پر عمل رہا، باہم بڑی سے بڑی لڑائیوں کے باوجود، مشرق سے لے کر مغرب تک پوری ملتِ اسلامیہ متحد تھی۔ یہ بے کراں دنیا ایک ریاست تھی۔ ایک ہی ہمارا سیاسی سربراہ تھا۔ ایک ہی قوم مسلم تھی،ایک ہی جھنڈا تھا، ایک ہی فوج تھی، ایک ہی ہائیکورٹ اور ایک ہی انتظامیہ تھی، لیکن بعد میں جذبۂ اتباع میں جیسے جیسے کمی واقع ہوتی گئی، خودرائی اور خودمختاری کے اتنے ہی حلقے اور دائرے بنتے چلے گئے۔ جن کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ایک ہی علاقے کے لوگ باہمی مناقشت اور بغض و عناد کے طویل چکروں میں الجھے ہوئے ہیں جو بلاشبہ کسی بھی قوم کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اُٹھا رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند کریم نے مسلمانوں کو افتراق اور انتشار کے ہر رنگ سے روکا اور نہایت سختی کے ساتھ تنبیہ فرمائی:
﴿وَلا تَكونوا مِنَ المُشرِكينَ ٣١ مِنَ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِحونَ ٣٢﴾... سورة الروم''اور (ان) شرك كرنے والوں ميں سے نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور فرقے (فرقے) ہو گئے۔ جو (طریقہ) جس کے پاس ہے وہ اس پر لٹو ہے۔''«لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللہ إخوانا»کہ باہم ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، حسد نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے سے روٹھ کر رہو بلکہ اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہو کر رہو۔اسلام نے اخوت اور اتحاد کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور منافرت و مناقشت کی ہر طرح سے نفی فرمائی ہے۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ مثلاً فرمایا:
«لا یحل لمؤمن أن یھجر أخاہ فوق ثلثة أیام»کہ کسی مومن کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی رکھے۔اسی طرح اجتماعی طور پر مناقشت کو قتل سے بھی مذموم گردانا:
الفتنة أشد من القتل کہ فتنہ (یعنی لڑائی، جھگڑا اور فساد وغیرہ کرنا (تو) قتل سے بھی بدتر ہے۔
علاوہ ازیں باہم لڑائی جھگڑا اور فساد کو اس حد تک برا جانا کہ لیلۃ القدر جس میں عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ کی برکات اور انوار سے اس شخص کو محروم کر دیا جو اپنے کسی بھائی کے لئے اپنے دل میں کینہ اور بغض رکھتا ہے اور اس سے قطع کلامی کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا کہ:
''مجھے لیلۃ القدر کا علم دیا گیا اور میں اپنے صحابہ کو اس کے بارے میں بتانے نکلا کہ راستے میں دو مسلمانوں کو جھگڑتے دیکھا جس (کی نحوست) کی بنا پر یہ بات میرے ذہن سے نکل گئی۔اور اس کی حوصلہ شکنی یوں بھی فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے:
''ابلیس کا تخت پانی پر ہے۔ وہ شام کو اپنے چیلوں چانٹوں کی رپورٹیں سنتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ میں نے آج قتل کروایا ہے اور کوئی یہ رپورٹ دیتا ہے کہ میں نے آج حضرتِ انسان کو زنا میں ملوّث کیا ہے اور کوئی کسی اور برائی کا ارتکاب کروانے پر فخریہ طور پر اس کارنامے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ابلیس ان سب کے بیانات سنا جاتا ہے اور ان کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا حکم دیتا ہے حتیٰ کہ ایک شیطان یہ رپورٹ دیتا ہے کہ میں نے آج دو مسلمانوں بھائیوں کو آپس میں لڑوایا ہے تو ابلیس اپنے تخت سے اٹھ کر اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ''مرداں چنیں کنند'' کہ تم نے تو بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔''اور ابلیس کی یہ خوشی بجا ہے، عموماً محدود پیمانے پر لڑائی جھگڑا اور فساد بعد میں فرقہ وارانہ آویزش یا طبقاتی اور نسلی عصبی کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور اس وقت کوئی بھی قوم جس میں یہ وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں، اپنی وحدت اور یک جہتی کو قائم نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ''عصبیت'' کی مذمت کرتے ہوئے نہایت سختی کے ساتھ تنبیہ فرمائی کہ:
«لیس منا من دعا إلی عصبية ولیس منا من قاتل عصبية ولیس منا من مات علٰی عصبية» (ابو داؤد)
کہ جو شخص ''عصبیت'' (قوم، برادری، نسل یا علاقہ کی بے جا حمایت) کی طرف لوگوں کو بلائے، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں! نیز جو شخص اس بے جا حمایت میں مر گیا اس سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں!حضرت واثلہؓ نے پوچھا:
«یا رسول اللہ! ما العصبية'' قال ''أن تعین قومك علی الظلم»حضورﷺ! عصبیت کسے کہتے ہیں؟ فرمایا، آپ کا اپنی قوم کی ناحق بات پر مدد کرنا۔مشرقی پاکستان کا حشر ہمارے سامنے ہے، منافرت انگیز ذہنیت اور نعروں کا انجام ہم نے دیکھ لیا۔ اس کے باوجود، اب مغربی پاکستان میں بھی پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھانی کے نعرے لائے جا رہے ہیں اور ہمارے انتہائی نیک دل اور سادہ لوح عوام ان نعرے ایجاد کرنے والوں کو جو پوری ملت اسلامیہ کے لئے وبال جان بن رہے ہیں اور بنے آرہے ہیں، ابھی تک نہیں پہچان سکے، ہم یہ سمجھتے تھے کہ اتنے جان کاہ چرکوں کے بعد ان کی آنکھیں کھل جائیں گی مگر افسوس! ابھی تک انہی لوگوں کو مسیحا سمجھا جا رہا ہے جو بجائے خود بیماری ہیں۔ ذرا سوچئے تو کہ جن لوگوں کو خدا اور رسول کی شرم نہیں وہ اس کی مخلوق سے کیا حیا کریں گے اور ملک اور قوم کا کیا بھلا چاہیں گے؟ جن کی زندگیاں اللہ اور رسول کی باغی ہیں، جو کلمہ پورا پڑھنا جانتے، جنہوں نے مسجد کا کبھی منہ نہیں دیکھا، جو روزے کے نام سے ناواقف ہی، جو اول درجہ کے شرابی، کبابی، قرآن و حدیث سے بالکل بے خبر اور صحابہؓ اور بزرگانِ دین سے نا آشنا ہیں۔ انہی سے آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو متحد رکھیں گے۔ کیا اس لئے آپ نے ان کو ووٹ دیئے تھے کہ وہ آپ کو صوبائی عصبیت، علاقائی ذہنیت، نسلی امتیازات اور طبقاتی مفادات کے چکروں میں ڈال کر تباہ و برباد کر دیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ ان کا احتساب کیوں نہیں کرتے، ان کے ہاتھ کیوں نہیں پکڑتے؟ سن لیجئے اور کان کھول کر سن لیجئے! اگر آپ لوگوں نے ان کے ہاتھ نہ پکڑے تو خدا کی پکڑ سے کبھی نہ بچ سکو گے اور جب اس نے پکڑ لیا تو کہیں سے بھی کوئی تمہاری فریاد کو نہ پہنچ سکے گا۔ یہ علاقائی، لسانی اور طبقاتی نعرے اچھالنے والے بلاشبہ خدا، اس کے رسول، اسلام، ملک، قوم اور خود تمہارے اپنے دشمن ہیں۔ ان کی راہ روکو، ورنہ مٹ جاؤ گے اور پھر۔۔۔۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں!
جائزے
اب بھی کہتے ہیں کہ اسلام خونخوار تحریک ہے!جہاد حسب حال ایک دینی فریضہ ہے اور عبادات میں اس کا سب سے اونچا مقام ہے۔ لیکن یہ ملک و نسب کے نام کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہوتا ہے اور اس سے غرض صرف احتساب اور تادیب ہوتی ہے تاہم 23 سالہ نبوی جہاد کے درمیان جانبین سے جو فوجی کام آئے ان کی تعداد صرف (977) نو سو ستتّر ہے۔ مسلم شہداء کی عداد (300) اور مقتولینِ کفار کی (677) ہے۔
حالیہ جنگ ویت نام میں جو 12 سال جاری رہی اس کی تباہ کاریوں کی جو تفصیل شائع ہوئی ہے۔ مختصراً یہ ہے:
امریکی نقصانہلاک: چھیالیس ہزار 46000
زخمی (داخل ہسپتال): ڈیڑھ لاکھ 150000
زخمی (جو ہسپتال میں داخل نہ ہوئے): ایک لاکھ پچاس ہزار تین سو سولہ 150316
لاپتہ: ایک ہزار تین سو چالیس 1340
قیدی: پانچ سو نواسی 589
حادثات و امراض میں مرنے والے: دس ہزار دو سو اٹھانوے 10298
مالی نقصان: دس کھرب پچاس ارب 10،50،00،00،00،00
جنوبی ویت نامہلاک: ایک لاکھ تراسی ہزار پانچ سو اٹھائیس 183528
مرنے والے کمیونسٹ: نو لاکھ پچیس ہزار 925000
شہری ہلاک (رفیوجی کے حساب سے) چار لاکھ پندرہ ہزار 415000
(سب کمیٹی کے حساب سے) نو لاکھ پچیس ہزار مجروح 925000
شمالی ویت نامابھی اس کے نقصانات کا اندازہ نہیں کیا گیا۔ سائیگان کے امریگی کمان کا اندازہ یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی ویت نام اور لاؤس کے 3695 طیارے اور 4783 کاپٹر تباہ ہوئے۔ روس نے 2 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان دیا اور چین کا تقریباً 3 ارب ڈالر خرچ ہوا۔'' (نوائے وقت 26؍ جنوری)
یہ بالکل محتاط اندازہ ہے بہرحال اتنی تباہ کاری کے باوجود یہ خونخوار درندے مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ یہ خون خوار لوگ ہیں۔
؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی!
سیاسی حج یا سیاسی رشوت:پیپلز پارٹی کے کارکن اور مرکزی وزیر اطلاعات و حج جناب کوثر نیازی نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
''پیپلز پارٹی اپنے دورِ حکومت میں تمام کارکن صحافیوں کو فریضۂ حج ادا کرنے کا موقع دے گی۔'' (وفاق 24؍ جنوری)
وزیر موصوف حج اوقاف جیسے دینی شعبوں سے وابستہ ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس سلسلہ کی خدمات محض ایک دینی فریضہ کے طور پر انجام دیتے، لیکن افسوس! محض جماعتی فریضہ، سیاسی تقاضا اور پارٹی مفاد کو سامنے رکھ کر یہ خدمات انجام دے رہے ہی۔ اس لئے بار بار یہ رٹ بھی لگاتے رہتے ہیں کہ ''پہلی حکومتوں نے یہ کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے کیا ہے۔'' وغیرہ وغیرہ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ سیاسی حج شاید ہی ان کی جماعت کے لئے بابرکت ثابت ہوں۔
اب کارکن صحافیوں کو نوید حج سنائی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے پس منظر میں جو ''فکر'' کام کر رہا ہے وہ بھی سراپا سیاسی ہے جس سے غرض صرف پارٹی کے کاروبارِ سیاست کے لئے ایک ''تعویذ'' حاصل کرنا ہے، تعویذ کیا پلپلی سیاسی عمارت کے لئے کچھ اینٹ اور گارا کی تلاش منظور ہے۔
اس قسم کی سیاست جتنی پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں عام ہو گئی ہے، اتنی شاید ہی کسی اور میں ہو۔ غریب عوام کا نعرہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور روحانیات کے سلسلہ میں تو پارٹی نے کچھ ''فقیہانِ شہر'' کی خدمات بھی لے رکھی ہیں۔
گو حج کی خدمات بہت عظیم ہیں لیکن جس شدّ و مد کے ساتھ اس کو اچھالا جا رہا ہے۔ ویسی تڑپ ان کی زندگی کے عنوان سے نمایاں نہیں ہو رہی۔ قول و عمل کا یہ تضاد اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ لوگ ان خدمات کو محض رضائے الٰہی کے لئے انجام دیں اور ان کو دکھلاوے اور سیاسی مفاد کی آمیزش سے بالکل پاک رکھیں۔
ایک گزارش اور بھی ہے کہ اگر وزیرِ اطلاعات کو کسی کو حج کرانا ہی ہے تو ان لوگوں کی تلاش کریں جن کی زندگیاں پاکیزگی اور طہارت میں حرم کا نمونہ ہیں اور جو پروانوں کی طرح شمعِ حرم کے لئے بے چین اور بے کل رہتے ہیں۔ کیونکہ حج سے غرض صرف حجاز کا پھیرا نہیں ہے بلکہ یہ براہیمی قلب و نگاہ کی تخلیق اور آتشیں اعمالِ حیات کا احیاء ہے۔ ہمارے خیال میں ''حجاج اگاؤ'' کی اس مہم چلانے سے زیادہ خود اپنی زندگی میں انقلاب بپا کرنے کی ضرورت ہے جو حضورِ خداوندی میں باریاب ہونے اور تحفۂ درویش پیش کرنے کے لئے مناسب اور ضروری ہے۔ورنہ ایں شور و فغاں چیزے نیست!
صدر بھٹو کا دربارِ عام!کراچی میں در موصوف نے دربارِ عام لگایا اور عوام کی شکایات سنیں اور وہیں بہت سے مقدمات کے سلسلے میں ہدایات جاری کیں اور فیصلے بھی سنائے۔ (اخبارات)
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد سے چل کر صرف کراچی میں جا کر کیوں دربار لگایا۔ راولپنڈی، لائل پور، ملتان، لاہور اور بہاولپور جیسے شہروں میں یہ دربار کیوں نہ لگے؟ جو مقدمات وہاں سنے، ان سے کہیں زیادہ سنگین کیس دوسرے علاقوں میں موجود ہیں اور اس قسم کے لوگ آپ کو بکثرت ملیں گے جن کی پکار اللہ کے سوا اور کوئی سننے والا ہی نہیں ہے۔ آخر ان کی طرف بھی تو اِک نگاہِ کرم درکار تھی۔
صدر موصوف ایک سیاسی پارٹی کے رہنما اور ملک کے صدر ہیں۔ جن کے فرائض میں عدالتوں کے کام میں مداخلت کرنا نہیں بلکہ عدالتوں کے فیصلوں کو نافذ کرانا ہے۔ لیکن یہ عجیب قصہ ہے کہ اب جناب نے ''شعبۂ عدالت'' بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
پارٹی اگر ملک، قوم اور اپنا بھلا چاہتی ہے تو اس کو اخلاص اور سنجیدگی کی راہ اختیار کرنی چاہئے ملک اور قوم کی قیادت کوئی کھیل تماشا و ہے نہیں، اس کے لئے خون پسینہ اور دن رات ایک کر دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال اگر دفتر عمل میں اخلاص اور استعداد کی کچھ پونجی موجود ہے تو پیش کیجئے، پوری قوم اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور اگر اِدھر اُدھر کی باتوں سے اس کو بہلانے کی کوشش کی گئی تو وہ پارٹی کے پورے مستقبل کو مسترد کر دے گی۔
کراچی میں جا کر بہت ہی گمنام اور عام قسم کے کیس سنے ہوں گے اور خدا جانے ایک ہی نشست میں ان مقدمات کے پورے مالہ، وماعلیہ کو کیسے سمجھا اور کس بنیاد پر آناً فاناً فیصلے سنائے۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں کہ ہماری ناچیز عقل سے باہر ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر صدر موصوف ڈاکٹر نذیر احمد شہید اور خواجہ رفیق کے کیس کی روداد بھی سنتے اور ''جرمِ حق'' کے ان مجرموں کی بھی داد سی فرماتے۔
؎ ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی
خود لاڑکانہ شہر میں دن دہاڑے جماعتِ اسلامی کے دفتر کو جس طرح تہس نہس کیا گیا تو کیا وہ موقع دربارِ عام کا نہ تھا۔ گھر میں جو کیس بن رہے ہیں ان کی فکر کون کرے گا؟
دِل کسی کے ساتھ اور تلواریں کسی کے ساتھ!
لاہور پہنچنے کے بعد ہوائی اڈے پر ایک اخبار نویس نے پروفیسر غفور احمد سے پوچھا کہ:
''کیا دستور کو جمہوری اور اسلامی بنانے کے لئے آپ کو پیپلز پارٹی کے بعض ارکان کا تعاون بھی حاصل ہو گا؟''
تو انہوں نے کہا کہ:
''ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہ پوچھئے، یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، یوں وہ جمہوریت کے ہم سے بڑھ کر حامی بنتے ہیں اور نجی ملاقاتوں میں ہمیں یہ طعنے دیتے ہیں کہ ہم حکومت سے سمجھوتہ کر رہے ہیں مگر اسمبلی میں ان کا کردار یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ان کا معاملہ عجیب ہے۔ ان کے دل کسی کے ساتھ ہیں اور تلواریں کسی کے ساتھ۔'' (وفاق ۴؍ فروری)
دراصل یہ لوگ کچھ غیر نظریاتی قسم کے ہیں۔ ورنہ اس قسم کی پالیسی قوم کے منتخب رہنماؤں کے لئے عجیب سے عجیب تر ہے۔
قومی رہنما بہت بڑی اکسیر ہیں۔ بشرطیکہ قوم ان کے انتخاب میں احتیاط برتے۔ ورنہ یہ اکسیر، بے کار شے سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو آپ کو یہی محسوس ہو ا کہ برسوں سے ہمیں کچھ اسی قسم کے لوگوں سے پالا پڑ رہا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
یہ قومی غیرت کے خلاف ہے!لیفٹیننٹ جنرل امیر عبد اللہ خاں نیازی اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
''ابھی پچھلے دِنوں اخبارات میں جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے لاہور میں نکلنے والے خواتین کے جلوس کی تصویریں شائع ہوئی ہیں۔ جس میں خواتین ماتم کناں ہیں۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ مجھے اس سے کس قدر صدمہ پہنچا ہے۔ خدارا ان مظاہروں سے اجتناب کریں۔ خدارا ہماری رہائی کے لئے آنسو نہ بہائیے۔ ہم ذلت کی رہائی سے دشمن کی قید میں رہ کر مر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔'' (وفاق 8؍ فروری)
اب اقوام کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر کوٹ والڈہیم کی آمد پر اسلام آباد میں جس طرح سسکیاں بھرتے اور روتے ہوئے خاموش مظاہرہ کیا گیا اور جس عاجزی اور انکساری کے ساتھ ان کے سامنے اپیلیں کی گئی ہیں، جب جنرل نیازی اس کی رپورٹ پڑھیں گے تو ان پر کیا گزرے گی؟ وہی جانیں، ان کے سامنے اپنا کیس رکھیں۔ لیکن وضع داری اور خود داری پر آنچ نہیں آنی چاہئے، ورنہ شرم کے مارے قوم کی گردنیں جھک جائیں گی۔ کاش! ہم خوشی اور غمی ہرحال میں سنجیدہ اور باوقار رہنا سیکھ سکیں۔ مندرجہ ذیل خبر ہمارے حد درجہ آذار دِہ ہے جس سے ہماری عزت نفس کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ ملاحظہ ہو:
''بھارت میں قید مشرقی پاکستان کے سابق فلیگ آفیسر کمانڈنگ ایئر ایڈمرل ایم شریف کی بارہ سالہ بیٹی مس راحت شریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام ایک خط میں استفسار کیا ہے کہ:
''اُس کے ابو بھارتی قید سے کب واپس آئیں گے۔ میں اپنے ڈیڈی سے بہت اداس ہوں، اگر آپ ہمارے ڈیڈی ہمیں واپس لا دیں تو ہم سب آپ کو دعائیں دیں گے۔'' (نوائے وقت ۸؍ فروری)
اس پر ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ:
؎ خریدیں نہ جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی
پیپلز پارٹی کا تکیہ کلام!طفل تسلیّوں کے لئے اربابِ اقتدار نے اب تک جو نعرے تجویز کیے ہیں یا انہوں نے اپنا جو تکیۂ کلام بنا رکھا ہے ان میں سے دو یہ ہیں:
1. ''ہم نے فلاں کام کے کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔''
2. ''ہم کسی کو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔''
اور یہ کہہ کر دراصل وہ عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ گھبراؤ نہیں۔
ہم آئے کہ بس آئے!
؎ ہمراز مرے غمخوار مرے، مرنے ہی نہیں دیتے مجھ کو ہر بار یہی کہتے ہیں مجھے، وہ آتا ہے وہ آتا ہے
جب تک یہ لوگ عوام کے ساتھ ایسی پالیسی ترک نہیں کریں گے۔ اس وقت تک ان کے کسی کام میں کوئی برکت نہیں ہو گی اور نہ ہی عوام کے مصائب حل ہوں گے۔
دراصل ارباب اقتدار اپنے ہر پھوکلے وعدہ اور نعرہ میں ناکام ہوجانے کے بعد نیا پینترا بدلنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں تاکہ بھرم باقی رہے۔
پیپلز پارٹی کو، قوم کو جفا کش، سخت کوش اور خلاق بنانے کی کوشش کرنا چاہئے تھی۔ کیونکہ زندہ قوموں کی یہی نشانی ہوتی ہے، مگر افسوس! اس نے اس کے بجائے بجائے بیٹھے بٹھائے اللے تللے کرنے اور تن آسانی کے خواب دکھا دکھا کر پوری قوم کی ہمتوں، ولولوں اور کارکردگی کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ قوم کے ساتھ اس نے جو زیادتیاں کی ہیں، یہ زیادتی ان سب سے بڑی زیادتی ہے تو اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔
قوم کو لفظوں کی شعبدہ بازی کے ذریعے بہلانے والے انجام کار بُری طرح فیل ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ پھر کوئی طبقہ ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کا نام بھی ایک ''گالی'' بن جاتا ہے جیسا کہ اصلی مسلم لیگ کا اب حال ہو گیا ہے۔ اس لئے بہر ہے کہ اب پیپلز پارٹی سوچنے اور کام سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدار پر ایمان لائے اور قو کی تعمیرِ سیرت کی طرف صدق دلانہ توجہ دے۔ تاکہ قوم کا کچھ بھلا ہو۔ پارٹی کے شعبدہ بازوں نے شعبدہ بازی ی اتنی بھرمار کی ہے کہ اب عوام کا پوری پارٹی سے اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے بلکہ اس پارٹی کا نام ''ریاکاری اور شعبدہ بازی'' کا مترادف ہو کر رہ گیا ہے۔
یہ ایک دوست ملک کے ترجمان اور ہمارے مہربان ہیں!
قاہرہ (مصر) کے بااثر نیم سرکاری روزنامہ ''الاہرام'' کے ایڈیٹر حسنین ہیکل نے دہلی میں بین الاقوامی مطالعات کے سکول میں اساتذہ اور طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
''بنگلہ دیش کے بحران اور پاک بھارت جنگ سے قبل بھارت کے لئے روس کی بیشتر امداد مصر کے راستے مصری حکومت کے علم سے آتی رہی ہے اور ہم سرگرم طور پر آپ کی امداد کر رہے تھے۔''
انہوں نے کہا کہ:
''1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مصر عرب ممالک میں زیادہ کام کر رہا ہے کیونکہ ان موجودہ حالات میں اسرائیل کے مقابلہ میں عرب ملکوں کی حمایت زیادہ ضروری ہے تاہم اس پس منظر میں بھی مصر بھارت کی ہر ممکن مدد کرتا رہا تھا۔''
انہوں نے کہا کہ:
''ہم غیر جانبدار نہیں تھے، نہ لا تعلق تھے اور نہ ہی ہمارا رویہ منفی تھا۔'' (نوائے وقت یکم فروری)
پاکستان میں آکر اس ''نادان دوست'' نے کہا کہ:
''وہ بنگلہ دیش کی تخلیق کو غیر حقیقی تصور نہیں کتے'' لاہور کے ہوائی اڈہ پر جب ان سے سوال کیا گیا کہ ''کیا وہ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کو مصنوعی تصور کرتے ہیں'' تو کہا ''ہرگز نہیں۔ بلکہ میں اپنی حکومت کو واپس جا کر مشورہ دوں گا کہ وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کر لے۔ انہوں نے پاکستانیوں سے کہا کہ اب ماضی کو بھول کر اپنے مسائل حل کریں۔'' اس پر ان سے پوچھا گیا کہ ''اسرائیل نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، کیا وہ اسے فراموش کر دیں گے؟'' تو کہا ''اسرائیل کی جارحیت یہاں سے بہرحال قطعی مختلف ہے۔'' (نوائے وقت 3 فروری)
یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسٹر ہیکل بھارت کی خوشامد کی قسم کھا کر آئے تھے۔ ورنہ ایک برادر ملک کے ترجمان ہمارے ہاں آکر ہمیں کوسیں، بہت مشکل ہے۔
مسٹر ہیکل ایک ایسے ملک کے ایک فرزند ہیں، جہاں گاؤ پرستی کو ایک مقام حاصل رہا ہے یہی خونی رشتۂ شاید ان کو بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور کر رہا ہے۔ بلکہ ہم شروع سے دیکھ رہے ہیں کہ ہیکل نے ہمیشہ بھارت سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے سلسلہ میں انتہائی سرد مہری کا برتوأ کیا ہے۔
مصر صرف ایک دوست ملک نہیں بلکہ برادر ملک بھی ہے ان سے ہمیں ہمیشہ نیک توقعات رہی ہیں۔ اس لئے ان کے سلسلہ میں ہمارے وہی جذبات رہے ہیں جو ایک بھائی کے وہ سکتے ہیں۔ مگر حسنین ہیکل نے مصری حکومت کے سلسلہ میں جو تاثر آکر دیا ہے اس سے خود مصری حکومت کی بھی کوئی خدمت نہیں ہوئی۔ بہرحال مسٹر ہیکل ''یہود'' کے ساتھ ''ہنود'' کو سمجھنے میں بھی ناکام رہے ہیں اور اپنے مسلمان بھائی کے حقوق پامال کرتے ہوئے ذرہ بھر نہیں شرمائے۔ آخر ڈھائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
غیر طبقاتی معاشرہ کا قیام!پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر مسٹر محمد حنیف رامے نے اسمبلی میں امنِ عامہ اور عام نظم و نسق پر بحث کے دوران اعلان کیا کہ ''ان کی جماعت ملک میں غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔'' (نوائے وقت 3؍ فروری)
ملک کے اندر طبقاتی جذبات کی بنیاد پر کامیاب ہونے والی پارٹی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرنے کے نعرے بلند کرے۔ دراصل یہ نعرے سستی شہرت حاصل کرنے اور عوام کو نہلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اس لئے ہمیں یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ابھی تک قوم کے جذبات سے کھیلنے اور ان کو سبز باغ دکھا کر ان کا استحصال کرنے سے باز نہیں آرہے۔
لینن کے مقبرے پر پھول!''پاکستان کے وزیرِ قانون اور پارلیمانی امور۔۔۔۔ مسٹر پیرزادہ عبد الحفیظ اپنے دورۂ روس کے دوران لینن کے مقبرے پر بھی تشریف لے گئے اور اس پر پھول بھی چڑھائے۔'' (نوائے وقت)
اسلامیہ جمہوریہ کے ایک مرکزی وزیر کا یہ عمل دراصل عہدِ حاضر کے مصنوعی خداؤں کے حضور میں ایک نذرانۂ عقیدت ہے۔ کیوں؟ صرف اسی توقع پر کہ شاید ان کی بگڑی بن جائے۔ ؎
ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے(اقبال)
یہ لینن وہ صاحب ہیں جو اپنی تحریر و تقریر میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ:
اشتراکین کے عوام و خواص کا نصب العین حیات ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہر ممکن کوشش صرف کر دیں کہ خدا سے اس کا غلبہ و تسلط اور سطوت و حکومت چھن جائے کیونکہ اشتراکیت کا بدترین دشمن خدا کا وجود ہے۔'' (لینن اینڈ گاندھی)
''سرمایہ داری کی غیر مرئی قوتوں نے ذہن انسانی میں ایک ڈر کی صورت پیدا کر دی ہے جس سے ایک حاکمِ اعلیٰ کے تخیل کی بنیاد پڑی۔ اسے انسان نے خدا کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ سو جب تک خدا کا تخیل ذہن انسانی سے فنا نہ کر دیا جائے یہ لعنت کسی طرح دُور نہیں ہو سکتی۔'' (ہیمر اینڈ ہیکل)
''دنیا میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا استبداد کا حامی خود خدا ہے۔'' (بالشوزم)
اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اور اسلامی دستور کے حامیوں اور مدعیوں کی طرف سے ایسے دشمنِ خدا ''لینن'' کے مقبرے پر پھولوں کی چادریں چڑھانا کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
بیچ ہی دیتے ہیں یوسف سا برادر اپنا!اسلام آباد میں عراقی سفارت خانہ سے روسی ساخت کا جو اسلحہ برآمد ہوا ہے، اس سے ہر مسلم انگشت بدنداں ہے اور ہر شخص کی زبان سے بے ساختہ نکلا ہے۔ ؎
بھاگ ان بردہ فروشوں سے، کہاں کے بھائی بیچ ہی دیتے ہیں یوسف سا برادر اپنا
یہ جو کچھ ہوا ہے، وہ، دراصل جو ہونے والا ہے، اس کی طرف ایک مکروہ تلمیح ہے کہ ؎
عاقل را اشارہ کافی ست!
گلہ غیروں سے نہیں، کیونکہ غیر تو ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ گلہ اپنوں سے ہے، لیکن ان سے بھی نہیں جو ''بے خدا دنیا دار'' بندے ہیں، کیونکہ یہ عموماً ''بے ضمیر اور بکاؤ'' مال ہوتا ہے، اصل شکوہ اپنے اسلام کے نام لیوا عوام سے ہے، جو ایسے لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کر کے ملک، ملت اور دین و ایمان کے لئے فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اب بھی اسلحہ کی سمگلنگ کو ملکی عافیت سے زیادہ اپنی پارٹی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
ہم مسلم عوام کو ان کے خدا کے نام کا واسطہ دے کر اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ عالمِ اسلام کے کتنے مومن بندوں کو آپ نے ملتِ اسلامیہ کی قیادت عطا کی ہے؟ یا جن کو آپ نے اپنی رہنمائی کے لئے انتخاب کیا ہے، ان میں سے کتنے ہیں جن کے نام اور کام سے اسلام کا بول بالا ہوا اور ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے کام ہوئے؟ اور وہ کتنے مائی کے لال ہیں جن کی شخصیت اور مساعی میں سنتِ رسول ﷺ کی جھلک اور شرم دکھائی دیتی ہے؟ اگر جواب مایوسانہ ہے تو پھر اپنے انتخاب اور ملکی قیادت پر نظرِ ثانی کریں۔ ورنہ یہ بکاؤ مال ہر قدم پر ملتِ اسلامیہ کے لئے عراقی 'سفارت خانے' قائم کرتے رہیں گے۔ (العیاذ باللہ)