مدینہ منورّہ
آنکھوں میں ہے پھر حسرتِ دیدار مدینہ یاد آتا ہے پھر مسکن سردار مدینہ
گزراہوں میں تپتے ہوئے صحراؤں سے پیدل آسان ہوئی یوں رہِ دشوارِ مدینہ
وہ شوق کا عالم تھا کہ تھا جوشِ عقیدت پلکوں سے چنے میں نے خس و خارِ مدینہ
وہ کتنا حسیں، کتنا دلآویز سماں تھا جس دم نظر آنے لگے آثارِ مدینہ
دل ڈوب گیا کیف میں، بہنے لگے آنسو! جب سامنے آئے در و دیوارِ مدینہ
آنکھوں میں پھرے مسجدِ نبویؐ کے مقامات پڑھتے تھے نمازیں جہاں سردارِ مدینہ
یاد آتی ہے وہ جا کہ جہاں بیتِ نبی تھا اور اس پر ہے اب روضۂ سرکارِ مدینہ
ہوتا تھا ضیا بار جہاں بدرِ دو عالمؐ یاد آتے ہیں وہ کوچہ و بازارِ مدینہ
کس طرح سکوں دل کو میسر کہیں آئے دامانِ تخیل میں ہے گلزارِ مدینہ
پھر بھیج دے عاجزؔ کو مدینے میں الٰہی!
ہو جائے شفایاب یہ بیمارِ مدینہ