عقیقہ او راس کے احکام

عقیقہ پر سلف و صالحین کا عمل:
تمام مستند احادیث اور روایات کے مطالعہ سے یہ بات وثوق کی حد تک پہنچ جاتی ہےکہ عہد نبویؐ اور خلفائے راشدینؓ کے ادوار خلافت میں تمام صحابہؓ و تابعینi کا اس سنت پر عمل رہا ہے، بعد کے ادوار میں بھی تمام اہل علم او رعامل بالحدیث طبقہ میں اس سنت پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا رہا ہے، نیز اس پر خود رسولﷺ کا عمل کرنا اور آج تک اس پر تواتر کے ساتھ عمل ہوتے چلے آنا بذات خود اس کی مشروعیت کی واضح دلیل ہے۔

عقیقہ کی شرعی نوعیت پر فقہاء کی آراء :
اس امر میں فقہائے اسلام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ عقیقہ کی شرعی نوعیت یا حیثیت کیا ہے؟ مشہور مسالک سے اہل حدیث (سلفی، شافعی، حنبلی او رمالکی مسلک کے پیرو عقیقہ کی مشروعیت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعض اس کی شرعی نوعیت کی تعیین میں اختلاف رکھتے ہیں۔

ائمہ مجتہدین کا ایک گروہ جو عقیقہ کے سنت اورمستحب ہونے کا قائل ہے، اس میں امام مالک، اہل مدینہ، امام شافعی اور ان کے اصحب ، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، علمائے اہلحدیث اور فقہ و علم و اجتہاد کے کبار علماء کی ایک بڑی جماعت شامل ہے۔(رحمهم اللہ تعالیٰ)

فقہاء کا ایک دوسرا گروہ جو عقیقہ کی تحتیم اور وجوب کا قائل ہے، اس میں امام حسن بصری، امام لیث، امام ابن سعد وغیرہ شامل ہیں او رامام ابن حزم تو عقیقہ کو فرض قرار دیتے ہیں۔ii

فقہاء کا ایک تیسرا گروہ وہ ہے جو سرے سے عقیقہ کی مشروعیت کا قائل ہی نہیں ہے۔ اس گروہ میں فقہائے حنفیہ کا شمار ہوتا ہے۔

عقیقہ کے سنّت و مستحب ہونے کے شرعی دلائل:
عقیقہ کے سنّت و مستحب ہونے پر بہت سی احادیث نبوی ﷺ شاہد ہیں، مثلاً
1۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة'' 1
''جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے ذبیحہ کرنا چاہیے تو لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرے۔''

2۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عن ولده فلیفعل'' 2
''جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنےبچہ کی جانب سے ذبح کرنا چاہے تو کرے۔''

3۔ ''مع الغلام عقیقة فأھر یقوا عنه دما و أمیطوا عنه الأذٰی'' 3
4۔ ''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسمٰی'' 4

ان تمام روایات سے عقیقہ کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔

عقیقہ کے واجب ہونے کے دلائل اور ان کا علمی جائزہ :
جو فقہاء عقیقہ کی تحتیم اور وجوب کے قائل ہیں، ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔ بریدہ اسلمیؓ کی مذکورہ روایت کہ:
''إن الناس یعرضون یوم القیامة علی العقیقة کما یعرضون علی الصلوات الخمس''iii
عقیقہ کے وجوب پر استدلال کرتی ہے۔

2۔ حضرت سمرہ بن جندبؓ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے:
''کل غلام رھینة بعقیقته'' 5
او ربعض روایات میں یہ الفاظ ہیں: ''الغلام مرتھن بعقیقته'' ان روایات کے الفاظ ''رھینة'' اور ''مرتھن'' عقیقہ کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔
3۔ حضرت سلمان بن عامر الضبی کی رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث کے الفاط : ''مع الغلام عقیقة''6بھی وجوب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
4۔ ''اگر والدین بچہ کی طرف سے عقیقہ کریں تو بچہ اپنے والدین کی شفاعت پر محبوس و مامور ہے۔'' یہ امر بھی عقیقہ کے وجوب کا متقاضی ہے۔

جو فقہاء کرام عقیقہ کے وجوب کے قائل نہیں ہیں، وہ ان دلائل کے حسب ذیل جواب دیتے ہیں:
1۔ اگر عقیقہ کرنا واجب ہوتا تو اس کا وجوب دین و شریعت سے معلوم ہوتا۔
2۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے امت پراس کا وجوب کافی اور واضح طریقہ پر بیان کیا ہوتا۔
3۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو اس پر حجت قطعی موجود ہوتی او راس کا وجوب صرف عذر شرعی کی موجودگی میں منقطع ہوتا۔
4۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو عذر شرعی کی عدم موجودگی میں ترک کیا جانے والا عقیقہ گناہ کا سبب ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
5۔ رسول اللہ ﷺ کا خود عقیقہ کرنا اس کے وجوب کے بجائے استحباب پر دلالت کرتا ہے۔
6۔ احادیث نبویؐ کے الفاط '''رھینة''، ''مرتھن'' ، ''مع الغلام عقیقة'' اور ''الناس یعرضون یوم القیٰمة علی العقیقة'' وغیرہ عقیقہ کے وجوب کے بجائے اس کے استحباب پر دلالت کرتے ہیں۔
7۔ عقیقہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك الخ'' اور ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك فلیفعل'' کے یہ الفاظ بھی عقیقہ کے مستحب ہونے پر واضح دلیل ہیں۔

عقیقہ کی مشروعیت کےانکار کی بنیاداور اس کا علمی جائزہ:
جو فقہاء عقیقہ کی مشروعیت کے قائل نہیں ہیں، ان کی حجت و دلائل یہ ہیں:
1۔ عمرو بن شعیب کی حدیث، جسے انہوں نے اپنے والد سے او رانہوں نے ان کے دادا سے نقل کیا ہے کہ:

انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''لاأحب العقوق'' 7
''عقیقہ مجھے پسند نہیں ہے۔''

2۔ ابی رافع ؓ کی حدیث کہ جب حسن بن علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہؓ نے ان کا عقیقہ دو مینڈھوں سے کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
''لا تعقي ولٰکن احلقي رأسه فتصد قي بوزنه من الورق ثم ولد حسین فصنعت مثل ذٰلك'' 8
''عقیقہ نہ کرو مگر اس کا سرمونڈو او راس کے بال کے وزن کی مقدار میں چاندی صدقہ دو۔ پھر جب حسینؓ کی ولادت ہوئی تو میں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔''

عقیقہ کی مشروعیت کے منکرین کے ان دلائل کا جواب محققین اس طرح دیتے ہیں کہ:
''وہ احادیث جن سے عقیقہ کی مشروعیت کے انکار پر استدلال کیا جاتا ہے، ان کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس انکار کی کوئی دلیل بھی صحیح نہیں ہے۔ بلکہ تمام دلیلیں اپنے ظواہر کے اعتبار سے عقیقہ کے سنت و مستحب ہونے کی تائید و تاکید ہی ثابت کرتی ہے لہٰذا فقہاء اور اکثر اہل علم و اجتہاد اسی طرف گئے ہیں۔''

جہاں تک عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ''لا أحب العقوق'' کا تعلق ہے تو اس حدیث کا سیاق اور اس کے درود کے اسباب اس امر پر دلالت کرتے ہین کہ عقیقہ قطعاً سنت و مستحب ہی ہے۔ حدیث کے سیاق و سباق کے الفاظ ملاحظہ ہوں جو اس طرح ہیں: ''عقیقہ کے متعلق جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ''مجھے عقوق پسند نہیں ہے۔'' آپؐ نے ایسا اس لیے فرمایا تھا کیونکہ آپؐ کو یہ نام ناپسند تھا (یعنی ذبیحہ کو عقیقہ کہناiv) پھر لوگوں نے دریافت کیا کہ : ''یارسول اللہﷺ، ہم میں سے جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا:
''من أحب منکم أن ینسك عن ولده فلیفعل عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریة شاة''
یعنی ''تم میں سے جو اپنے بچہ کی طرف سے ذبیحہ کرنا چاہے وہ لڑکے پر ایک جیسی دو بکریاں اور لڑکی پرایک بکری ذبح کرے۔''

اس حدیث کے ظواہر سے فقہاء کے ایک گروہ نے لفظ ''عقیقہ'' کا ''نسیکہ'' سے استبدال پر استدلال کیا ہے او ریہ بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو''عقیقہ'' نام ناپسند تھا۔ لیکن فقہاء کا ایک دوسرا گروہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا او راس نااتفاقی کی وجہ وہ بہت سی احادیث بتاتا ہے جن میں اس موقع کے ذبیحہ کا نام''عقیقہ'' خود رسول اللہ ﷺ سے بلا اظہار کراہت مروی ہے۔ علماء کاایک تیسرا گروہ ان دونوں آراء کے مابین اتحاد و اتفاق کی صورت یہ پیش کرتا ہے کہ اس موقع کے ذبیحہ کے لیے ''عقیقہ'' اور ''نسیکہ'' دونوں ناموں کااستعمال درست اور صحیح ہے لفظ ''نسیکہ'' استعمال کرنا اگرچہ بہتر ہے، لیکن حکم بیان کرنے یا وضاحت یا مراد و مقصد کے اظہار کے لیے ''عقیقہ'' کا لفظ استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور یہ طریقہ احادیت نبویؐ کے موافق بھی ہے۔ او رجہاں تک منکرین مشروعیت عقیقہ کی دوسری دلیل یعنی ابی رافع کی حدیث کے الفاظ ''لا تعقي ولٰکن احلقي رأسه.......... الخ'' کا تعلق ہے تو فی الحقیقت اس روایت سے بھی عقیقہ کی مشروعیت کے انکار یا ا س کی کراہت پر دلالت نہیں ہوتی۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں نواسوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کی جانب سے خود کرنا پسند فرمائے تھے (جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی)، چونکہ آپؐ نے ان حضرات کے عقیقے خود فرمائے تھے اس لیے مکرر عقیقے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ پس آپؐ نے حکم فرمایا کہ : ''ان کے عقیقے نہ کرو لیکن سر کے بال مونڈواؤ اور اس کے وزن کے مقدار میں چاند صدقہ دو۔''

رسول اللہ ﷺ کا خود عقیقہ کرنا:
رسول اللہ ؐ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے خود کئے تھے، اس بات کی تائید میں بہت سی احادیث مروی ہیں، جن میں سے چند ذیل میں پیش خدمت ہیں:
1۔ حضرت ایوب نے عکرمہ او رانہوں نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا'' 9
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا۔''

2۔ حضرت بریدہؓ روایت کرتے ہیں:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین'' 10
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ کیا۔''

3۔ جریر بن حازم نے قتادہ سے او رانہوں نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے:
''أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشین''11
''نبی ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ دو مینڈھوں سےکیا۔''

4۔ یحییٰ بن سعیدنے عمرہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن و الحسین یوم السابع'' 12
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ساتویں دن فرمایا۔''

کیا مذکّر کا عقیقہ مؤنت کے مثل ہے؟
تمام اہل علم و جمہور فقہاء و مجتہدین کے نزدیک متفقہ طور پر مؤنث او رمذکر دونوں پر عقیقہ کیا جانا یکساں طور پرمستحب سنت ہے او را س کی شرعی نوعیت میں مذکر و مونث کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے۔ لیکن مونث و مذکر کی فضیلت و مراتب کے فرق کے اعتبار سے آیا مذکر و مونث دونوں پر ایک ایک بکری یا دونوں پر دو دو بکریاں یا ان میں سے کسی پر ایک اور کسی پر دو بکریاں ذبح کرنا مشروع ہے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی دو مختلف رائیں ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ، حضرت عائشہؓ ، اہل حدیث او راہل علم حضرات کی ایک بڑی جماعت کا مسلک یہ ہے کہ مونث و مذکر کی فضیلت او رمراتب کے فرق کے اعتبار سے مذکر کے لیے دو بکریاں اور مونث کے لیے ایک بکری ذبح کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔مثلاً:
1۔ اُم کرز کعبیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان و عن الأنثٰی واحدة'' 13
''لڑکے پر دو بکریاں او رلڑکی پر ایک بکری ہے۔''

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
''أمرنا علیه الصلوٰةوالسلام أن نعق عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة'' 14
3۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة'' 15

(اس مسلک کی تائید میں کچھ اور احادیث ان شاء اللہ آگے ''عقیقہ کا جانور کیسا ہو؟'' کے زیر عنوان پیش کی جائیں گی)

اس مسلک کے برخلاف امام مالک  کا مذہب یہ ہے کہ مذکر اور مونث دونوں پر یکساں طور پر ایک ایک بکری ہی ذبح کرنا مسنون ہے، اور ان کے مابین عقیقہ میں فضیلت مراتب کے فرق کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ اس مسئلک کی تائید میں امام مالک خود رسول اللہﷺ کا فعل یعنی حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے والی مندرجہ ذیل روایات پیش کرتے ہیں:
1۔ ''عن ابن عباس رضی اللہ عنهما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا'' 16
2۔ ''ذکر جریر بن حازم عن قتادة عن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشین'' 17
3۔ ''روی جعفر بن محمد عن أبيه أن فاطمة ذبحت عن حسن و حسین کبشا کبشا''18
''جعفر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ پر ایک ایک بھیڑ ذبح کی۔''

4۔ امام مالک بیان کرتے ہیں:
''وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنهما یعق عن الغلمان والجواري من ولدہ شاة شاة'' 19
''اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے اپنی اولاد میں سے لڑکے او رلڑکیوں کی طرف سے ایک ایک بکری کا عقیقہ کیا۔''

بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام مالک سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ لڑکے او رلڑکی پر کتنے جانور ذبح کیے جائیں؟ تو آپ نے فرمایا:
''یذبح عن الغلام شاة واحدة و عن الجارية شاة''

محققین او راہل علم حضرات اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ''اگر اللہ تعالیٰ استطاعت دے تو لڑکے پر دو جانور او رلڑکی پر ایک جانور ذبح کیا جائے۔ اگرلڑکے کے عقیقہ پر دو جانور ذبح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک جانور ذبح کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح لڑکی کے عقیقہ پرایک سے زیادہ جانور ذبح کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔'' واللہ أعلم بالصواب

عقیقہ کرنے کا مستحب وقت:
بچہ کی ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کرنا افضل اور مسنون ہے۔ جیسا کہ حضرت سمرۃ بن جندبؓ کی حدیث میںمروی اور رسول اللہ ﷺ کے فعل مبارک سے ثابت ہے:
''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسقیٰ'' 20

نیز :
''عق ............. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن حسن و حسین یوم السابع و سماھما و أمر أن یماط عن رؤو سھما الأذٰی'' (رواہv عبداللہ بن وہب عن عائشہؓ)

مندرجہ بالا دونوں احادیث پچھلے صفحات میں گزر چکی ہیں، ان احادیث کی روشنی میں عقیقہ کے ذبیحہ کے لیے ولادت کا ساتواں دن بلا شک و شبہ مستحب قرار پاتا ہے۔ لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اگر ولادت کے ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جاسکے تو چودہویں دن کیا جائے اور اگر چودہویں دن بھی نہ کیا جاسکے تو اکیسویں دن کیا جائے۔

حضرت بریدہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا:
''تذبح لسبع ولأ ربع عشرة ولإ حدیٰ و عشرین'' 21
''ساتویں، چودہویں او راکیسویں دن ذبح کیا جائے گا۔''

حضرت اُم کرز اور ابوکرزؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے عقیقہ کےمتعلق فرمایا:
''......... ولکن ذاك یوم السابع فإن لم يکن ففي أربعة عشر فإن لم یکن ففي إحدیٰ عشرین'' 22
''یہ (عقیقہ) ساتویں دن ہونا چاہیے اور اگر نہ ہوسکے تو چودہویں دن اور پھربھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن''

میمونی کا قول ہے : ''میں نے عبداللہ سے سوال کیا کہ لڑکے پر عقیقہ کب کیا جاتا ہے ؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
''(في) سبعة أیام و أربعة عشر ولأ حدو عشرین''
یعنی ''ساتویں دن، چودہویں دن اور اکیسویں دن۔''

صالح بن احمد فرماتے ہیں : ''میں نے اپنے والد سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
''تذبح یوم السابع وإن لم یفعل ففي أربعة عشر فإن لم یفعل ففي إحدیٰ و عشرین''
یعنی ''ساتویں دن ذبح کیا جائےگا پس اگر ایسا نہ کرسکے تو چودہویں دن اور اگر چودہویں دن بھی نہ کرسکے توپھر اکیسویں دن''

دن کی اس تعیین کے سلسلہ میں محققین کی رائے ہے کہ ''عقیقہ ساتویں دن کئے جانے کی قید لزوم کے باب سے نہیں بلکہ استحباب کی وجہ سے ہے۔ پس اگر ساتویں دن کے بجائے چودہویں او راکیسویں دن اور بعض کے نزدیک چوتھے، آٹھویں ، دسویں یا اس کے بعد کبھی بھی کرلے تو عقیقہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ امام مالک  فرماتے ہیں:
''والظاھر أن التقید بالیوم السابع إنما ھو علیٰ وجه الاستحباب وإلا فلو ذبح عنه الیوم الرابع أو الثامن أو العاشر أو مابعدہ أجزأت العقیقة''vi
''او ریہ ظاہر ہے کہ ساتویں دن کی قید محض استحباب کی وجہ سے ہے، اگر بچہ کی طرف سے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں یا اس کے بعد کسی اور دن ذبیحہ کیا جائے تو بھی عقیقہ ہوجاتا ہے۔''

خلاصہ کلام یہ ہےکہ اگرباب اپنی اولاد کے ساتویں دن قدرت و استطاعت رکھتا ہو تو مستحب طریقہ پر ا س کا عقیقہ کرکے رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو زندہ رکھے اور اس کی فضیلت و برکات نیز اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو۔ اگر کسی مجبوی کی وجہ سے ساتویں دن نہ کرسکتا ہو تو چودہویں دن کرلے، اگر ایسا بھی کرنا ممکن نہ ہو تو اکیسویں دن کرلے۔ اگر اکیسویں دن کی استطاعت بھی نہ ہو تو جب بھی اللہ تعالیٰ استطاعت بخشے، بلاتاخیر عقیقہ کر ڈالے۔''يُرِ‌يدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ‌...﴿١٨٥﴾...سورۃ البقرۃ'' اور ''وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَ‌جٍ...﴿٧٨﴾...سورۃ الحج'' کا یہی تقاضا ہے۔ ایسی صورت میں نفس عقیقہ تو ہوجائے گا، لیکن ساتویں یا چودہویں او راکیسویں دن، عقیقہ کرنے میں جو اجر و ثواب ہے ، وہ حاصل نہ ہوگا بلکہ سید قاسم محمود صاحب تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ''اگر والدین (عقیقہ) نہ دے سکیں تو بچہ جوان ہوکر خود کرے۔ ''vii (جاری ہے)


حوالہ جات
1. سنن أبي داود کتاب الأضاحي و سنن النسائي کتاب العقیقة و إسنادہ جید
2. مؤطا امام مالک، کتاب العقیقة و إسنادہ، ضعیف
3. صحیح بخاری
4. سنن أبي داود وترمذي و نسائي و ابن ماجة و غیرها بالأسانید الصحیحة
5. رواہ اصحاب السنن
6. رواہ البخاری
7. رواہ البیہقی صفحہ 2؍300
8. مسنداحمد صفحہ 6؍396
9. سنن ابی داؤد صفحہ 3؍66
10. سنن نسائي ، کتاب العقیقة و إسنادہ جید
11. سنن البیہقی صفحہ 9؍299
12. مستدرک حاکم صفحہ 4؍237
13. مسنداحمد صفحہ 6؍422 و سنن الترمذی مع التحفة صفحہ 2؍362
14. سنن ابن ماجہ ،صفحہ2؍281 طبع مصر
15. سنن ابی داؤد سنن نسائی
16. سنن ابی داؤد مع العون صفحہ 3؍66
17. مجمع الزوائد صفحہ 4؍57
18. تحفۃ المودود صفحہ 47
19. تحفۃ المودود صفحہ 47
20. سنن أبي داود و ترمذي والنسائي و ابن ماجة وغیرها عن سمرة بن جندبؓ
21. سنن بیہقی ج9 صفحہ303 و إسنادہ، ضعیف
22. مستدرک حاکم ج4 صفحہ 238۔239


i. مؤطا امام مالک میں مذکور ہے: ''جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ او عروۃ بن زبیر تابعی اپنی اولاد کا عقیقہ کیا کرتے تھے۔'' اور مؤطا اما محمد کے حاشیہ پر یہ تصریح موجود ہے کہ:
''آنحضرتﷺ کے وصال کے بعص صحابہ کرامؓ عقیقہ کیا کرتے تھے۔''(تعلیق الممجد حاشیہ مؤطا امام محمد، طبع کراچی صفحہ 291 حاشیہ نمبر 2)
ii. ملاحظہ ہو ماہنامہ محدث لاہور ، جلد 14 عدد نمبر 11 صفحہ 419
iii. لیکن یہ حدیث نبویؐ نہیں بلکہ قول صحابیؓ ہے او رپھر اس کی سند میں صالح بن حیان متروک الحدیث ہے۔ (ادارہ)
iv. کیونکہ ''عقوق'' کا معنی ''نافرمانی'' بھی ہے۔
v. تربیة الأولاد في الإسلام تالیف أستاد عبداللہ ناصح علوان صفحہ 1؍94 مطبع دارالسلام حلب ۔
vi. تربیة الأولاد في الإسلام تألیف استاذ شیخ عبداللہ ناصح علوان صفحہ 1؍93 طبع حلب
vii. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا مرتبہ سید قاسم محمود صفحہ 1082 طبع شاہکار فاؤنڈیشن۔