فتاوی
1۔ دودھ شریک بھائی کی لڑکی سے نکاح؟
2۔ صغر سنی کے ناقابل قبول نکاح کا حکم ؟
سوال:
1. اسماعیل نے زید کی والدہ کا دودھ پیا ہے۔ اب وہ زید کی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟
2. ایک لڑکی کا والد اس کا نکاح کم سنی میں کسی شخص سے کردیتا ہے۔ بلوغت کے بعد لڑکی کو نکاح قابل قبول نہیں، لہٰذا وہ صراحتاً انکاری ہوجاتی ہے۔اس کے بعد اس لڑکی کا والد ہی اس کا نکاح کسی دوسری جگہ کردیتا ہے۔ پہلے اور دوسرے نکاح کا کیا حکم ہے؟
جواب :
سوال کے جواب سے پہلے ایک مسئلہ وضاحت اور تحقیق طلب ہے اور وہ یہ کہ آیا اسماعیل نے زید کی والدہ کا دودھ پیا ہے یا کہ نہیں؟ اور اگر پیا ہے تو کب؟ اور کتنی مقدار میں؟
اگر قابل اعتماد ذرائع سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ اسماعیل نے زید کی والدہ کا د ودھ پانچ یا پانچ سے زیادہ مرتبہ ، دو سال سے کم عمر میں پیا ہے، تو شرعاً دودھ پینا ثابت ہوجائے گا۔ اس لیے کہ پانچ سے کم مرتبہ دودھ پینے پر شرعاً دودھ پینے کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ جس کی دلیل خاتم الانبیاء و سیدالمرسلینﷺ کا یہ فرمان ہے:
''لا تحرم المصة ولا المصتان''
''ایک یا دو مرتبہ دودھ پلانا حرام نہیں کرتا۔'' 1
کیونکہ حرمت پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں:
''کان فیما أنزل من القرآن: عشر رضعات معلومات تحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھن فیما یقرأ من القرآن''2
''قرآن حکیم میں یہ بات بھی نازل ہوئی تھی کہ ''دس مرتبہ'' دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہوگی۔پھر ''پانچ مرتبہ'' سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک یہ آیت قرآن حکیم میں پڑھی جاتی رہی۔''i
اور یہ دودھ دو سال سے کم عمر میں پلایا جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
''لا یحرم من الرضاع إلا ما فتق الأ معاء في الثدي وکان قبل الفطام'' 3
یعنی ''دودھ پلانے سے اس وقت حرمت ثابت ہوتی ہے، جب سیر ہوکر پیئے اور یہ، دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔''
واضح رہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے۔
اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اسماعیل نے زید کی والدہ کا دودھ پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ پیا ہے اور دو سال سے کم عمر میں پیا ہے، تو اسماعیل زید کا دودھ شریک بھائی بن جائے گا اور زید کی بیٹی اسماعیل کی بھتیجی (دودھ شریک بھائی کی بیٹی) ہوگی۔لہٰذا اس لڑکی سے اسماعیل کا نکاح کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ مندرجہ حدیث سے واضح ہوتا ہے:
أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أرید علی ابنة حمزة فقال: إنھا لا تحل لي إنھا ابنة أخي من الرضاعة و یحرمه من الرضاعة ما یحرم من النسب'' 4
''آپﷺ کو حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب (آپؐ کے چچا) کی بیٹی سے نکاح کے لیے کہا گیا، تو اپؐ نے فرمایا: ''وہ میرے لیے حلال نہیں ہے، کیونکہ وہ میری رضاعی بھتیجی (دودھ شریک بھائی کی بیٹی) ہے اور دودھ پینے کی وجہ سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو کہ نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔''
لہٰذا اسماعیل کا نکاح زید کی بیٹی سے جائز نہیں۔
شریعت کی نگاہ میں نکاح، مرد عورت کے زندگی گزارنے کا ایک معاہدہ ہے جس میں دونوں کی رضا و رغبت کا پایا جانا ضروری ہے۔لہٰذا صورت مسئولہ میں جب لڑکی بالغ ہوکر پہلے نکاح پر راضی نہیں ہے۔ تو گویا وہ نکاح ہوا ہی نہیں ہے۔اس کی مثال خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود ہے، جو کہ ہمارے لیے بہترین اور ناقابل تردید و اختلاف مثال ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے:
''إن جاریة بکرا أتت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فذکرت أن أباھا زوجھا وھي کارھة و خیرھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔'' 5
کہ'' ایک کنواری لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ ا س کے والد نے اس کی شادی کردی ہے اور وہ اسے ناپسند ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار دے دیا ۔ (کہ چاہو قبول کرلو اور چاہو تو انکار کردو'')
اس صحیح اور واضح حدیث کی روشنی میں کسی عورت کا نکاح اس کی مرضی و منشاء کے خلاف کہیں نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوئی سرپرست نکاح کردے تو عورت کی رضا مندی پر منحصر ہے کہ چاہے تو اسے ختم کردے اور چاہے برقرار رکھے۔
لہٰذا مسئلہ مسئولہ میں نکاح اوّل، بلوغت کے بعد لڑکی کے انکار کی وجہ سے کالعدم ہوگیا اور اس کا دوسرا نکاح جوکہ لڑکی کی رضا و رغبت سے ہوا ہے، بالکل صحیح ہے۔ ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب!
حوالہ جات
1. صحیح مسلم، کتاب الرضاعة، باب في المصة والمصتان
2. صحیح مسلم، کتاب الرضاع۔ باب التحریم بخمس رضعات
3. سنن الترمذی۔ کتاب الرضاع، باب ماجاء ما ذکر أن الرضاعة لا تحرم إلا في الصغر
4. صحیح بخاری، کتاب النکاح، صحیح مسلم، کتاب الرضاع
5. سنن أبي داود، کتاب النکاح۔ باب في البکر یزوجھا أبوھا ولا یستأمرھا
i. واضح رہے کہ اس معنیٰ کی آیت تلاوت کے اعتبار سے تو منسوخ ہوچکی ہے البتہ اس کا حکم باقی ہے اور یہ ایسی بات ہے جس پر امت کے تمام علماء کا اتفاق ہے ۔ملاحظہ ہو جامع الاصول ج11، ص781۔782)