کہیں ہمیں نہ اب اس کا چراع گل کردیں
تر س رہا ہوں میں اس بادہ کہن کےلیے
پیام خندہ گل تھا جو جان و تن کے لیے
یہ رقص گاہ، یہ زینت کدے یہ میخانے
کوئی جگہ نہیں محفوظ مرد و زن کے لیے
یہ دورشیشہ و ساغر، یہ عہد جنگ و رباب
زوال دیدہ و دل ہے کمال فن کے لیے
صنم کدے کے چراغوں کو روشنی بخشے
یہ بات خوب نہیں دست بُت شکن کےلیے
غذائے روح ہے ذکر خدائے عزوجل
ہے آب و نان غذا جس طرح بدن کے لیے
کہیں ہمیں نہ اب اس کا چراغ گل کردیں
لٹا دیے مہ و خورشید جس چمن کے لیے
تو مال و زر کی طلب میں ہے جاں بلب عاجز
ملے نہ خاک بھی شاید ترے کفن کے لیے