معزز معاصر ''بینات'' ستمبر 1972ء میں مولانا نبوری دیو بندی کا ایک مضمون بعنوان ''منصبِ رسالت اور سنت کا تشریعی مقام'' شائع ہوا ہے۔ مولانا بنوری نے جامع ترمذی کی ایک شرح معارف السنن لکھی ہے، جس کا ایک مقدمہ ''عوارف المنن'' کے نام سے الگ تحریر فرمایا ہے، مندرجہ ذیل مضمون مولانا مووف کے اسی مقدمہ کے ایک باب کا ترجمہ ہے ادارہ بینات نے پیش کیا ہے۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منصبِ تشریع پر روشنی الی گئی ہے۔ مضمون جتنا علمی ہے افسوس! ویسا واضح اور مرتب نہیں ہے۔ مولانا بنوری اس میں لکھتے ہیں:
قرآنِ حکیم کی وہ آیات جن میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منصبِ تنفیذِ احکام شرعیہ کی تائید ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ احکامِ شرعیہ اوامر ہوں یا نواہی، اصل میں آپ ﷺ نافذ فرماتے ہیں اور قرآنِ کریم ان کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔'' (بینات ستمبر 1972ء ص ۱۸)
﴿وَما جَعَلنَا القِبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيها﴾
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریع و تجویز کو وَمَا جعلنا فرما کر اپنی تشریع و تجویز قرار دیا۔'' (ص 20-21)
لہٰذا ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا منصب ہی تشریع و تنفیذِ احکامِ الٰہیہ ہے خواہ قرآنِ عزیز میں ان احکام کا ذِکر آیا ہو یا نہ آیا ہو، قرآنِ عزیز تو آپ کے نافذ کردہ احکام کی تصدیق و توثیق کرتا ہے اسی لئے آپ ﷺ احکامِ الٰہیہ کے نفاذ میں قرآن کریم اور وحیِ متلو کا انتظار نہیں کرتے تھے۔'' (ص 21)
اذان کی ابتداء اور تشریح صاحبِ شریعت علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رائے اور ذوقِ معصوم کے ذریعے عمل میں آئی۔ (ص 22)
اس پر تفصیلی تبصرہ تو پھر سہی بشرطیکہ وقت ملا۔ سر دست ہم اس پر علمائے دیو بند اور ائمہ احناف کا مسلک پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آپ موازنہ کر سکیں۔
مولانا بنوری کی اس رائے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منصب تنفیذ کے علاوہ منصبِ تشریع بھی ہے۔ قرآنی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
﴿ثُمَّ جَعَلنـٰكَ عَلىٰ شَريعَةٍ مِنَ الأَمرِ فَاتَّبِعها...١٨﴾... سورة الجاثية
پھر ہم نے آپ ﷺ کو ایک شریعت اور خاص طریقہ پر لگایا پس آپ اس کی پیروی کریں۔
﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ﴾ حکم صرف خدا ہی کے لئے ہے۔
یہ بھی غلط ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وحی متلو کا انتظار نہیں کیا کرتے تھے، بخاری میں ہے کہ:
«فما أجابني شیء حتی نزلت اٰية المیراث»
جب تک آیتِ میراث نازل نہ ہوئی مجھے جواب نہ دیا۔
حضرت شاہ عبد العزیزؒ محدث دہلوی لکھتے ہیں:
''مذہب صحیح آں تا کہ امر تشریع مفوض بہ پیغمبر نمی باشد۔ زیرا کہ منصب پیغمبری، منصبِ رسالت وایلچی گریست نہ نیابت خدا نہ شرکت در کارخانہ خدائی۔'' (تحفہ اثنا شریہ)
''بدیہی است کہ امام بلکہ نبی نیز شارع نیست۔ شارع حقیقی حق تعالیٰ است۔'' (محولہ بالا)
حضرت امام ابن الہمام حنفی اور شارح لکھتے ہیں:
المختار عند الحنفية المتأخرین ما عن أکثرھم أنه علیه السلام مأمور في حادثة لا وحي فیھا بانتظار الوحي أولا ما کان راجیه أی الوحي إلی خوف فوت الحادثة بلا حکم ثم بالاجتھاد ثانیا إذا مضی وقت الانتظار ولم یوح إلیه کان عدم الوحي إلیه فیھا إذن في الاجتھاد حینئذ (تحریر مع شرح)
یعنی آپ ﷺ کے لئے وحی کا انتظار کرنا ضروری تھا۔ پیش آمدہ صورت کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو پھر اجتہاد کا۔
ایک بریولی مولوی صاحب (مولوی سید محمد کچھوچھوی) نے ''التحقیق البارع فی حقوق الشارع'' نامی کتاب لکھی تی جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے یہی مولانا بنوری احب والا منصبِ تشریع ثابت کیا گیا تھا اس کا رد حضت مولانا ابو المآثر حبیب الرحمٰن اعظمی دیو بندی نے تحریر کیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
''اس میں کسی نوع سے دخل نہیں ہے نہ بالذات کسی کو یہ اختیار حاصل ہے نہ بتفویضِ الٰہی۔'' (احذب المشارع فی تحقیق الشارع ص ۲)
موصوف نے جو نظریہ پیش کیا ہے، اس سے دراصل شیعوں کو تقویت ملتی ہے جن کا نظریہ یہ ہے:
''إن اللہ عزوجل فوض إلیٰ نبیه علیه السلام أمر خلقه''
اللہ نے اپنی مخلوق کے معاملات اپنے نبی کے حوالے کیے ہیں۔ (اصول کا فی باب 52)
إن اللہ لم یزل متفردا بوحدانیته ثم خلق محمدا وعلیا وفاطمة...... وفوض أمورھا إلیھم فھم یحلون ما یشاؤون ویحرمون ما یشاؤون
اللہ تعالیٰ اپنی وحدایت میں منفرد ہے تا آنکہ اس نے محمد ﷺ، علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کو پیدا کیا۔ پھر انکے امور کو ان کے حوالے کر دیا تو وہ جو چاہتے ہیں حلال کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں حرام کرتے ہیں (اصول کا فی باب مولد النبی ﷺ)
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:
المفوضة فھم القائلون إن اللہ فوض تدبیر الخلق إلی الأئمة وإن اللہ أقدر النبي ﷺ علی خلق العالم وتدبیرہ (غنیۃ الطالبین)
مفوضہ وہ گروہ ہے جن کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے خلق کی تدبیر ائمہ کے حوالے کر دی ہے اور حضور ﷺ کو خلق اور تدبیر پر قدرت بخشی ہے۔
الغرض مولانا بنوری کے کلام سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سارا کچھ تشخیص، تجویز اور تشریح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بس انگوٹھا لگا کر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
(ب) شاہ ولی اللہؒ کے علوم کو سمجھنے کے لئے
''مولانا عبید اللہ سندھی اور میری یادداشت'' کے عنوان سے ماہنامہ ''الحق'' اکوڑہ خٹک میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں مولانا عبد السلام (لائل پور) نے مولانا سندھی کے سلسلہ کی چند یاد داشتیں سپرد قلم کی ہیں۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
''ایک موقعہ پر فرمایا کہ:
''حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے علوم کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے حضرت شیخ الہند کی کتابیں دیکھو پھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی کتابوں کا مطالعہ کرو۔ اس کے بعد حضرت شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کے علوم سے استفادہ کرو پھر شاہ عبد العزیز کے واسطہ سے امام ولی اللہ کے علوم کو سمجھو۔'' (الحق جولائی 1972ء)
دوسرے لفظوں میں شاہ ولی اللہؒ کو دیو بندیوں کی عینک سے دیکھو۔ شاہ ولی اللہ کو دیو بندیوں کے خصوصی افکار کے شیشہ میں اتارنے کی یہ کوشش حضرت شاہ ولی اللہؒ کو سمجھنے کے لئے نہیں، اپنی بات شاہ ولی اللہؒ کی زبان سے اگلوانے کی ایک نامناسب کوشش ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ولی اللّٰہی تحریک اور شاہ شہیدؒ کے جہاد فی سبیل اللہ میں علمائے حدیث کی خدمات کو چھپا کر دیو بندیوں کے خصوصی حلقہ کے پلّے میں باندھ دینا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان کی زندگی میں حضرت مولانا مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا نوٹس لینا پڑا۔ جب اتنے بڑے لوگ یوں سوچتے ہیں تو یقین کیجئے! ہمارے حسن ظن کو کافی سے زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک حضرت شاہ ولی اللہؒ کے افکار اور کتب کے مطالعہ کے لئے جو راہ مولانا سندھیؒ نے تجویز کی ہے، ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے سوچنے کا انداز ناقدانہ اور مجتہدانہ ہے۔ اس کے برخلاف علمائے دیو بند کے سوچنے کا انداز تقلیدی اور فرقہ وارانہ ہے، ان دونوں میں کیسے ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔
فاضل مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ:
''ایک موقعہ پر فرمایا، پہلے ہم سمجھتے تھے کہ امام ولی اللہ کی کتابوں میں کوئی غلطی نہیں ہے پھر ان کی بعض بڑی بڑی غلطیوں کا علم ہوا۔'' (ص 60 الحق)
سب سے بڑی غلطی ہی یہ تھی کہ آپ نے پہلے ان کو مافوق الاغلاط تصور کر لیا تھا۔ بندوں کو مقام الوہیت پر فائز کرنے سے اس قسم کے اوہام کا پیدا ہونا قدرتی بات ہوتی ہے۔ بہرحال کتاب اللہ اور نبی ﷺ کے بعد ہمارے نزدیک کوئی بھی ہستی لغزش سے منزّہ نہیں ہے۔
(ج) لڑکیوں کے لئے سکول کی تعلیم
ماہنامہ طلوع اسلام نے ''مجلس مذاکرہ'' کے عنوان کے تحت تبسم سلطانہ کا ایک مذاکرہ شائع کیا ہے جس میں اس نے اپنی ایک سہیلی کا رونا بیان کیا ہے کہ وہ سکول پڑھنے چلی گئی تو سارا خاندان ہی اس پر ٹوٹ پڑا کہ:
''تم نے ہماری ناک کاٹ ڈالی، لڑکیوں کو سکول بھیجنا آخر کہاں کی شرافت ہے۔ انہیں کونسا پٹواری یا تھانیدار بننا ہے۔ آج تم نے اسے سکول بھیجا ہے تو کل اس کے بال کٹواؤ گی اور پھر وہ گلیوں میں آوارہ پھرے گی۔ برادری ہمارا حقہ پانی بند کر دے گی۔ بردار! جو آئندہ اسے سکول بھیجا۔'' پھر اس پر تبسم صاحبہ نے یہ طنز کیا ہے کہ:
''جو لڑکی میلوں دور کھیتوں میں کھانا دینے جا سکتی ہے۔ ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل سکتی ہے، وہ اگر تھوڑی سی دور سکول چلی گئی تو غصے کی کونسی بات ہوئی؟'' (ملخصاً طلوع اسلام ستمبر ص 15)
بات سکول کی نہیں اس نصاب، نظامِ تعلیم اور ماحول کی ہے جس میں زن، نازن بن جاتی ہے، جن اندیشوں کا بزرگوں نے اظہار کیا ہے، کیا آج وہ حرف بحرف صحیح نہیں نکلے؟ پھر ان پر اعتراض اور اچنبھا کا ہے کا؟
دراصل جن بزرگوں نے اندیشوں کا ذِکر کیا ہے، محترمہ تبسم سلطانہ کے لئے وہ اندیشے اندیشے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ان کے لئے وقت پاس کرنے کا ایک ذریعہ، ترقی اور حسن معاملہ کا معیار اور الڑھ شوخیوں کا ایک دلچسپ بہلاوا ہے۔ اقبال مرحوم نے جو کہا ہے وہ شاید آپ کی اسی تعلیم کے متعلق کہا ہے جس کی تڑپ آپ کے دل میں چٹکیاں لے رہی ہے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن ہے شق و محبت کے لئے علم و ہنر موت
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے روشن ہے نگہ آئینۂ دل ہے مکدّر!
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
(ضرب کلیم ص 95-91)