موجودہ نظامِ تعلیم اور دینی تعلیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت ایک موازنہ، ایک جائزہ

تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ تعلیم نہ صرف انسان کو مہذب بناتی اور اس کے اخلاق و کردار کو سنوارتی ہے بلکہ زندگی کے دشوار گزار اور پر پیچ راستوں پر چلنے کے لئے اس کے اندر حوصلہ اور جرأت بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ انسان کو احساسِ سود و زیاں عطا کرتی ہے اور کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کا شعور بخشتی ہے۔ انسان جس قسم کی تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کی سیرت و کردار پر اسی قسم کے نقوش پختہ اور مرتسم ہو جاتے ہیں۔ اور پھر انہی نقوش کے مطابق وہ اپنی زیست کی گاڑی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پون صدی قبل بچوں کو ابتدائی تعلیم ہمیشہ مسجدوں سے متصل مکتبوں میں دی جاتی تھی جہاں انہیں سب سے پہلے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ ان کے مستقبل کی پوری عمارت قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیم کی اساس پر تعمیر ہو۔

یہ وہ وقت تھا کہ تعلیم کے متعلق اہلِ اسلام میں دینی اور دنیوی کا امتیاز نہ تھا۔ ایک عالمآدمی کے لئے قرآن مجید ناظرہ کے علاوہ نوشت و خواند اور ابتدائی حساب میں مہارت نیز توحید و رسالت پر مبنی بنیادی عقائد، نماز اور روزہ جیسی بنیادی عبادتوں سے واقفیت اور عربی یا فارسی کی آسان ادبی کتابیں پڑھنے کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد جو شخص مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا وہ بڑے مدارس میں جا کر تفسیر، حدیث، فقہ، طب، ہیئت اور فلسفہ پر مشتمل نصابی کتب پڑھتا اور یہی اس دور کی مکمل تعلیم تھی۔ یہ لوگ دینی تعلیم اور دنیاوی علیم کی اصطلاح سے واقف تھے نہ ان کے ہاں دین اور دنیا میں کوئی امتیاز تھا۔

موجودہ نظام تعلیم خرابیوں کی جڑ ہے:

لیکن جب سے انگریزی نظامِ تعلیم ہمارے ملک میں رائج ہوا، ہمارے دین اور دنیا، روح اور جسم اور مذہب اور سیاست میں امتیاز پیدا ہو گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ یہ امتیاز بڑھتا گیا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو نہی صرف تنگ نظر ملا کہہ کر انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا بلکہ حصولِ معاش کے سلسلہ میں بھی انہیں اس قدر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا کہ باعزت طریقے سے زندگی گزارنا ان کے لئے مشکل ہو گیا جبکہ تمام اعلیٰ عہدے، مناصب، کاروبار اور جاہ و چشم وغیرہ دنیوی تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے مخصوص ہو گئے۔ دراصل یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ تھا کہ دنیا زندگی گزارنے کا نام ہے اور دین ان قواعد و ضوابط کا نام ہے جن کے تحت زندگی بسر کی جائے۔ گویا اس طرح ان کی دنیا دین (خدائی ہدایت) کے تابع تھی اور اسی چیز سے انگریز کو چڑ تھی کیونکہ یہی چیز مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر غلام بنانے میں ان کے آڑے آتی تھی۔ لہٰذا انگریز کی اسلام شمنی نے مسلمانوں کے اس عقیدہ کو پامال کرنا ضروری خیال کیا۔ چنانچہ جہاں اس نے علماء دین کو نفرت و حقارت کا نشانہ بنانے کا سامان کیا اور ان کی معاشی حیثیت کو مفلوج کر کے رکھ دیا وہاں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والوں کو مناصب اور عہدوں کی رشوت پیش کر کے انہیں دین سے قطعی طور پر بیگانہ بنا دیا۔ جس کا نتیجہ ان کے حق میں خاطر خواہ برآمد ہوا۔ اور آج ہماری قوم اپنی تمام تر مذہبی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر ایک طویل معاشی تگ و دو میں مصروف ہے۔ ہر کوئی مال و دولت کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خواہ اس کے لئے اسے رشوت، غبن، چوری، ڈاکہ، سمگلنگ، چور بازاری، سٹہ بازی، دغا و فریب اور دجل و جعل سازی جیسے شیع افعال کا مرتکب ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ گویا کثرتِ جرائم کا پیشہ بھی بالواسطہ طور پر اسی غلط تعلیم سے جا ملتا ہے۔ جو انگریز کی در آمد شدہ تھی۔

دوسرا بڑا نقصان جو انگریزی تعلیم سے قوم کو پہنچا وہ یہ تھا کہ یہ تعلیم اپنے پیچھے اپنی پوری تہذیب لے کر آئی جس نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مکمل طور پر فرنگیت زدہ بنا دیا۔ ان میں ہر قسم کی اخلاقی برائی کو فروغ دیا۔ عریانی اور فحاشی حد سے بڑھ گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تہذیب وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو کفر و الحاد کے انجکشن بھی دیتی رہی بلکہ اسلام سے برگشتہ و منحرف کرنے کے لئے شعائر اسلامی کا تمسخر اڑایا گیا اور اسلام کو نہایت مکروہ اور گھناؤنی شکل میں پیش کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اسلامی تہذیب و اقدار اور اپنے اسلاف کی روایات سے باغی ہو کر ذہنی اور عملی طور پر انگریز کے غلام بن گئے اور اس طرح انگریز کا وہ مقصد پورا ہو گیا جس کے لئے وہ کوشاں تھا۔ اس طرح اس نے اپنی صلیبی شکستوں اور محکومیوں کا بھرپور انتقام لیا اور سادہ لوح مسلمان اس کے دامِ فریب میں کچھ اس طرح سے الجھ گیا کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی مفلوج ہو گئیں اور وہ اس سے آزادی پانے کے لئے بھی اسی فریب کا سہارا لینے لیا جس کا وہ شکار ہوا تھا لیکن آزادی پانے کی بجائے اس جال میں اور ہی الجھتا گیا۔

ہمارا مقصد تعلیم کو سبّ و شتم کرنا نہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی قوم کا نظامِ تعلیم ہی اس کی تہذیب و تمدن کا صحیح آئینہ دار ہوتا ہے اور چونکہ ہماری موجودہ تعلیم کا ڈھانچہ بے خدا تہذیب کے پجاریوں کے ہاتھوں وضع ہوا تھا اس لئے اس کا یہاں اپنے تمام برگ و بار کے ساتھ آنا ضروری تھا جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری درسگاہوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رائج شدہ نظامِ علیم ہمارے لئے زہرِ ہلاہل ثابت ہو رہا ہے جو طلبہ کو نہ صرف دین سے برگشتہ کرتا رہتا ہے بلکہ انجام کار طلباء کو ملحد بنا کر چھوڑتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر نصابی اور امدادی کتب غیر مسلم مصنفین اور ان کے مولدین کی مرتبہ ہوتی ہیں جنہیں دین سے کوئی مس نہیں ہوتا۔ اور اسلامی افکار و خلاق سے بھی وہ بالکل کورے ہوتے ہیں۔ اندریں حالات جدید تعلیم یافتہ طبقے کے بیشتر افراد اگر اکھڑ مزاج، بے ادب، من چلے ترش رُو، آزاد رَو اور اساتذہ اور والدین سے گستاخی سے پیش آنے والے نیز تکلّف اور تصنّع پر مر مٹنے والے، فیشن کے پجاری، اقربا اور اعزہ کو ٹھکرانے والے اور اپنے دوستوں میں اپنی ناک رکھنے کی خاطر اپنے غریب رشتہ داروں بلکہ غریب والدین تک کو نظر انداز کرنے والے ہیں تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔

مزید برآن اگر انسان کے سامنے کوئی واضح نصب العین موجود ہو تو وہ اپنے مقصد کو پا لینے کے لئے تن دہی سے کام کرتا ہے اور ثمرِ کامیابی چکھنے کے لئے اسی قسم کے اطوار و عادات کی نعمت سے بھی مال مال ہو جاتا ہے۔ جو کسی معاشرہ کی خوشحالی کی ضامن ہوتے ہیں لیکن ہماری تعلیم مقصدیت سے عاری ہے اور جب منزل ہی متعین نہ ہو گی تو اس کو پانے یا نہ پانے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور اس سلسلہ میں محنت و کوشش چہ معنی وارد؟

افسوس ہے کہ ہم نے صحیح مقصد اور منزل سے صرفِ نظر کر کے صرف ایک سفلی مقصد ہی سامنے رکھا اور وہ ہے حصولِ معاش۔ لیکن موجودہ تعلیم معاشی تحفظ دینے میں بھی تو ناکام ہو چکی ہے۔ چنانچہ فی الوقت جتنی بے روزگاری تعلیم یافتہ طبقے میں ہے شاید ہی کسی طبقے میں موجود ہو۔ رہی یہ بات کہ موجودہ تعلیم سے تربیت سازی کا کام لیا جا سکے۔ لیکن یہ چیز دین و اخلاق کی مرہونِ منت ہے اور جہاں مقصدِ تعلیم مادی فوائد کا حول ہو، قطع نظر اس کے کہ یہ حاصل ہوتا ہے یا نہیں۔ وہاں روحای قدروں کا کیا کام اور تربیت سازی ہو و کیونکر؟ بلکہ ایسی تعلیم تو روح کی موت ہوتی ہے۔ اسی لئے اکبرؔ مرحوم نے کہا تھا ؎

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی!

موجودہ دور میں تعلیمِ نسواں:

عورتوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے۔ عورت ماں ہے اور اس کی گود بچہ کے لئے سب سے پہلی درسگا بنتی ہے پھر اس کی نگرانی میں بچپن کے معصوم دور میں حاصل کی ہوئی تعلیم ذہن میں ایسی راسخ ہو جاتی ہے کہ تاحیات اس کے اثرات رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیندار گھرانوں کے بچے کیسی بھی سوسائٹی میں چلے جائیں ان میں وہ اثرات قائم رہتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم یافتہ والدین کے بچے نسبتاً زیادہ ہوشیار، چالاک اور ذہین ہوتے ہیں لیکن موجودہ دور میں ہمارے بچوں کی تہذیب اور علم کا مبلغ ممی، ڈیڈی اور پاپا تک محدود رہتا ہے کیونکہ عورت جس کو قوم کی ماں بننا ہوتا ہے، اسے یہی تربیت دی جاتی ہے اور اس کی تعلیم کے وقت ماں باپ کے پیش نظر مالدار شوہر اور عیاشی کی تلاش ہوتی ہے اور خود لڑکی کے سامنے شمعِ محفل بننے اور مردوں کے دوش بدوش چل کر انہیں زیرِ نگیں کرنے کا خیال ہوتا ہے۔ اندریں حالات ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی اولادوں کو اخلاقی اور ذہنی تربیت دیں گی، عبث ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اولادیں ان سے بھی بڑھ کر دین بیزار اور ملحد بنتی ہیں۔ چنانچہ ہماری موجودہ نسل اپنے بزرگوں کے مقابلے میں ہزار گنا اپنے مذہب سے دور ہے بلکہ دین سے نفرت کے اظہار کو انہوں نے فیشن کے طور پر اپنا لیا ہے جس کا احباب کی محفلوں میں فخریہ ذکر کیا جاتا ہے۔

مادہ پرست ذہنوں میں یہ بات بھی بیٹھ گئی ہے کہ لڑکیوں کے لئے زیادہ تعلیم حاصل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر شریکِ یات کسی حادثہ کا شکار ہو جائے یا خدانخواستہ طلاق وغیرہ کی صورت میں پیش آجائے تو اس صورت میں عورت کسی دفتر وغیرہ میں ملازمت کر کے اپنایا اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکے۔ حالانکہ اول تو عورت کی تعلیم کا یہ مقصد ہی غلط ہے لیکن اگر اس میں کچھ معقولیت ہو بھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو کس حد تک روزگار مہیا کرنے کا ضامن ہے؟ ان کی ایم۔اے۔، ڈبل ایم۔اے اور بسا اوقات پی۔ ایچ ڈی کے مساوی درجہ کی تعلیم ملازمت کے لئے آخر کسی کام آتی ہے اور پھر گھریلو اور اولاد کی تربیت کے کٹھن بوجھ کے بعد کس میں ملازمت کی ہمت ہوتی ہے نیز کوئی اچھی نوکری بھی تو کسی خوش قسمت کو ہی حاصل ہوتی ہے ورنہ اکثر لڑکیاں بے کاری یا غلط کاری کے ہتھے ہی چڑھتی ہیں اور ان کی پڑھائی پر کثیر محنت، قیمت وقت اور قیمتی دولت کاغذی ڈگریوں کی شکل میں فریم ہو کر کسی ڈرائنگ روم یا کمر میں آراستہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔

پھر جہاں اس تعلیم کے فائدے مفقود ہیں وہاں نقصانات بہت زیادہ ہیں مثلاً اکثر لڑکیاں اپنا بیشتر وقت پڑھائی پر صرف کرنے سے امورِ خانہ داری و سلائی وغیرہ سے عاری رہ جاتی ہیں اور انہیں اپنے گھر چلانے میں بڑی دِقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات طعن و تشنیع سے تجاوز کر کے طلاق و تفریق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں پڑھائی کے دوران زیادہ محنت کرنے سے جسمانی صحت کا متاثر ہونا بھی لازمی امر ہے۔ ایک عام لڑکی اور ایک تعلیم یافتہ لڑکی کی صحت کا عمومی مقابلہ کریں۔ یہ لڑکی پہلی کے مقابلہ میں زیادہ کمزور، دبلی پتلی، زرد رُو، چہرے کے روپ اور قدرتی رونق سے عاری ہو گی۔ شادی کے بعد اسے کمزوریٔ صحت کی بناء پر گوناگوں مشکلاتکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر یہ کمزوریٔ صحت اولاد کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کمزور مائیں کمزور اولاد کو ہی جنم دیں گی جس سے پورے معاشرہ اور پوری قوم کا متاثر ہونا لازمی ہے اور جس کے نقصانات محتاجِ بیاں نہیں۔

مخلوط تعلیم:

مخلوط تعلیم بلاشبہ ہمارے معاشرہ کے لئے ایک لعنت ہے۔ نئی روشنی سے متاثر بڑے بڑے ماہرینِ تعلیم خواہ اس کے کتنے ہی فائدے گنوائیں لیکن ﴿وَإِثمُهُما أَكبَرُ‌ مِن نَفعِهِما﴾ کے مصداق اس کی ایک قباحت ہی اس کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے اور وہ ہے عورت کی عصمت، عفت اور حیا کی ارزانی۔ ہمارا مسلم معاشرہ تو ہمیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ عورت ننگے سر، ننگے منہ یا بغیر پردہ کے گھر سے باہر قدم ہی رکھے کجا یہ کہ عمر کے اس دَور میں جب کہ شہوانی جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں، وہ نوجوان لڑکوں کے درمیان بیٹھ کر تعلیم حاصل کرے۔ اس سے بے تکلفی کے ساتھ بات چیت کر کے آزادانہ میل جول رکھے اور وہ بھی اس حالت میں کہ ایسے ایسے حیا سوز ملبوسات زیبِ تن ہوں کہ ایک عابد و زاہد شب زندہ دار بھی اگر اتفاقیہ دیکھ لے تو ایک بار تو ضرور ٹھٹک کر رہ جائے۔ اندریں حالات یہ تو بہ شکن قربتیں چند ہی دنوں میں جو رنگ لاتی ہیں تو بس یوں سمجھئے کہ فحاشی کے سینکڑوں نئے باب کھلتے اور رومان کے ان گنت عملی افسانے جنم لیتے ہیں جو کسی قوم کو تباہی کے مہیب غار تک پہنچانے میں شاندار خدمات انجام دیتے ہیں۔

ماہرین تعلیم مخلوط تعلیم کے جو فائدے گنواتے ہیں ان میں سب سے بڑا فائدہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مخلوط تعلیم سے لڑکوں اور لڑکیوں میں مقابلہ کی فضا پیدا ہوتی ہے جو ان کے لئے بہت زیادہ محنت اور حصولِ تعلیم میں لگن کا باعث بنتی ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ حدیث میں تو یہ آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«ما خلا رجل بامرأة إلا کان الشیطان ثالثھما»

کہ جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہتا ہے۔

اور اگر ایسی درسگاہوں کے ماحول کا جائزہ لیا جائے جہاں مخلوط تعلیم رائج ہے تو ہر کونے میں نوجوان جوڑے مسکراتے اور اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دیں گے اور اگر مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں ہر جوڑے کے ساتھ ایک ایک شیطان کا تصور کر لیا جائے تو ہم نہیں سمجھتے کہ شیطان کی کاروائیاں ان کو محض ''ضروری نوٹس'' تیار کرانے میں ممد و معاون ہونے تک ہی محدود رہتی ہوں گی۔ ہاں ایک بات ان کی تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اس طرح ''مقابلہ'' کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ خواہ یہ فضا رومان لڑانے کی ہو یا بے حیائی اور ننگِ انسانیت حرکات کا مظاہرہ کرنے کی، تعلیم کا بہرحال ستیاناس ہو کر رہا ہے۔

مرد اور عورت باہم جنس مخالف ہیں جن کے مسائل بھی مختلف ہیں اور شرم و حیا ایسے مسائل کو مرد اور عورت دونوں کی موجودگی میں سمجھنے سمجھانے میں مانع رہتی ہے۔ ہاں اگر شرم و حیا ہی کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن ماحول کے پروردہ مردوں اور عورتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کامیاب طریقے سے گزر سکیں گے یا اپنی اولاد میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کر کے اور ان کو صحیح تریت دے کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں کوئی خدمت انجام دیں گے یا قوم کا کوئی بھلا کریں گے۔ تو اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کر کے اور ان کو صحیح تربیت دے کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں کوئی انجام دیں گے یا قوم کا کوئی بھلا کریں گے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہ ہو گی۔

اسلامی طرزِ تعلیم سر چشمۂ ہدایت و رحمت ہے:

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم ہمارے لئے مفید ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوا ہے اور اس نے ہمارے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ لہٰذا عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دوبارہ اپنے اس دینی طرزِ تعلیم کو اپنائیں جس میں نہ صرف ہمارے مسائل کا حل موجود ہے بلکہ اس کے فوائدِ عظمےٰ سے آشنا ہونے کے بعد ہم زندگی کی دوڑ میں دوسری تمام قوموں پر سبقت بھی لے سکتے ہیں۔

دینی تعلیم کی اہمیت و افادیت لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ انسان کو ایک اعلیٰ و ارفع مقصد عطا کرتی ہے اور یہ مقصد عبادت و رضوانِ الٰہی ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:

﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورة الذاريات

کہ میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج تو بذاتِ خود عبادت ہیں لیکن بہت سے کام ایسے بھی ہیں۔ جو بظاہر دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر ان کو خدا وندِ کریم کی منشاء و رضا کے مطابق انجام دیا جائے تو وہ بھی عبادت ہی میں شمار ہوں گے۔ مثلاً رشتہ داروں سے حسن سلوک، والدین اور اساتذہ کی خدمت اور ان کا ادب و احترام، اولاد کی اعلیٰ تربیت، باہمی ہمدردی وغیرہ کے جذبات کے تحت زندگی بسر کرنا، تجارت، ملازمت اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں حدود اللہ کا پاس رکھنا اور ان سے تجاوز کرنا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہر شعبۂ حیات میں متعلقہ اسلامی اصول و ضوابط سے کما حقہ، واقفیت حاصل کرے۔ جو دینی تعلیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ چنانچہ فرمایا:

«طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰي كُلِّ مُسْلِمٍ وَّمُسْلِمَةٍ» کہ علم سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت كا فرض ہے۔

دینی تعلیم کے اس مقصدِ حسنہ کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ کتاب و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ انسان کا دل اس کے باعث تقویٰ اور خشیتِ الٰہی کی آماجگاہ بن جائے، وہ کسی سے دھوکہ فریب کرتے ہوئے، کسی کو جانی، مالی یا قولی تکلیف دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اپنے اخلاق اور سیرت کی تعمیر کرے، اپنے اندر عاجزی اور فروتنی پیدا کرے، آخرت کی جواب دہی کا احساس اسے ہر گناہ سے بچائے اور اللہ تعالیٰ کے علیم و خبیر ہونے کا یقین کسی بھی غلطی کے ارتکاب کے وقت اس کا دامن تھام لے۔ اس کی ساری زندگی خلقِ محمدیﷺ، اتحاد، مساوات، باہمی ہمدردی اور اخوّت سے عبارت ہو۔ وہ روحِ جہاد سے سرشار ہو کر ہر دم اللہ کے شمنوں سے مصروفِ جہاد رہے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کی خاطر ہر وقت اپنے دین، وطنِ عزیز اور اپنی روایات و اقدار کی حفاظت کے لئے جان ہتھیلی پر رکھے نظر آئے۔

الغرض کتاب و سنت کی تعلیم سے انسان ان تمام قواعد و ضوابطِ دینیہ سے واقف ہو جائے گا جو خداوندِ کریم نے ہر شعبۂ حیات کے لئے وضع کیے ہیں اور یہ چیز نہ صرف اس کے تمام اعمال کا مطمحِ نظر، محض خوشنودی و رضاءِ الٰہی کو قرار دینے میں اس کی ممد و معاون ہو گی بلکہ اندریں حالات ہر قسم کی تعلیم جو وہ اس کے علاوہ بھی حاصل کرے گا، دین و دنیا میں اس کی سربلندی اور فلاح و کامرانی کا باعث ہو گی۔

رہی تعلیمِ نسواں تو اسلام نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ« طَلَبُ الْعلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی كُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ» کے تحت حصولِ تعلیم کو عورت کے لئے فرض قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ازواجِ مطہرات امہات المومنینؓ بھی خواندہ تھیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی صحابیات، تابعیات نیز وہ محدثات و حافظات خواتین جن سے محدثینِ کرام روایات اخذ کرتے تھے بھی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں حتیٰ کہ کتب اسماء الرجال میں (ایسی کتابیں جن میں حدیث کے راویوں کے حالاتِ زندگی پر تبصرہ ہوتا ہے)۔ بے شمار عالم، فقیہ اور ادب عورتوں کے حالات زندگی درج ہیں اور یہ اس زمانہ کی بات ہے جب کہ چار دانگ عالم میں اسلامی عظمت کا ڈنکا بج رہا تھا اور دشمنانِ اسلام ذلیل و خوار تھے۔

مخلوط تعلیم توخیر سمِّ قاتل ہے ہی لیکن خواتین کو مردوں سے الگ تھگ رکھ کر بھی ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو انہیں باحیاء اور پاک دامن رہنے کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ماں جیسی عظیم ہستی کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے تیار کرے تاکہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی تربیت دے سکیں۔ خدا، رسول اور فکرِ آخرت کو ان کے ذہنوں میں راسخ کریں، زمانہ کی مسموم فضاؤں سے ان کو متاثر نہ ہونے دیں اور بچوں میں روحِ جہاد پھونک کر اسلامی تاریخ میں مثالی ماؤں کا کردار ادا کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ان کے لئے بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور حدیث شریف کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور جب بھی اس کے باعث ان میں ایمان کی پختگی اور کمالِ عفت پیدا ہو جائے گا تو پھر وہ خواہ کوئی سا علم بھی حاصل کریں گی ان کے لئے مضرت رساں نہ ہو گا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے نسوانی حجاب اور حیا کو ملحوظ رکھ کر مردوں کے کاموں میں گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر بھی اگر ان کا ہاتھ بٹائیں گی تو مطعون نہ ٹھہریں گی (بشرطیکہ ہمارا معاشرہ اس کی اجازت دے) کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیویاں سفرِ حج اور سفرِ جہاد میں ان کی شریکِ سفر ہوتیں، میدانِ جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتیں اور گھوڑوں کی رکھوالی کرتی تھیں لیکن تمام صورتوں میں اپنی نسوانیت اور شرم و حیاء پر کوئی آنچ نہ آنے دیتی تھیں ۔

الغرض دینی تعلیم و تربیت کی بدولت لڑکیاں خدمتِ شوہر، تربیتِ اطفال، امور خانہ داری اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت وغیرہ جیسے ضروری اور بنیادی کاموں کو عبادت سمجھ کر سر انجام دے سکتی ہیں جس کے باعث پورا معاشرہ یکسر اصلاح کی طرف گامزن ہو سکتا ہے اور تمام گھرانے دین و دنیا کے ہر قسم کے اطمینان سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ خدا کرے ہمارے تعلیمی ادارے اس شعر کی عملی تفسیر بن جائیں۔
اک مقدّس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
قسمتِ نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں

حاشیہ

ان کی معنوی اولاد اور ان کے تریت یافتہ

واضح رہے کہ قرونِ اولیٰ کے ادوار کے مسلم معاشرہ میں اس قدر امن و امان تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: عنقریب ایک عورت تن تنہا اپنے سر پر سونے کا تھال رکھ کر مکہ سے مدینہ کا سفر کریگی لیکن اسے راہ میں کوئی ٹوکنے والا نہ ہو گا۔ اور صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ہمارے معاشرہ میں تو اس کا تصور بھی محال ہے چنانچہ اسی لئے میں نے اوپر ''بشرطیکہ ہمارا معاشرہ اس کی اجازت دے'' کے الفاظ نقل کئے ہیں۔