اسلام کا آئین ہے تسخیر دو (۲) عالم
کیوں بندۂ مومن نہیں تقریر میں بے باک کھلتے نہیں کیوں قوم کی تقدیر کے پےچاک
کیوں سوزِ دروں مردِ خدا کا ہے فسردہ! الحاد کے ہاتھوں ہے زمیں دین کی نمناک
توحید کی وہ تیغِ دودم کند ہوئی کیوں یاں کفر بھی عیار ہے اور شرک بھی چالاک
ہم خاک کے تودوں کی پرستش میں ہیں مصروف اغیار کے حصے میں ہے پہنائی افلاک
واعظ کا بیان چرب زبانی کا مرقع! زاہد کا شکم شاکی کمیابی خوراک
مزوک ہوا جاتا ہے مسلمان کا رہبر ہے اس کے تصور سے جبیں میری عرقناک
نقّالی اغیار پہ نازاں ہوا مسلم! دامانِ حمیت کو کیے بیٹھا ہے صد چاک
گلشن میں چلی اب کے عجب بادِ سم آلود پھولوں کا جگر شق ہے تو کلیوں کی قبا چاک
ملت کا جواں ذہن رسا سے ہوا عاری نے فہم مقاصد ہے نہ منزل ہی کا ادراک
تہذیب وہ کیا جس میں نہ غیرت رہے باقی تعلیم وہ کیا دیدہ و دل جس سے ہوں ناپاک
اسلام کا آئین ہے تسخیرِ دو عالم!
اسلام سے ہٹ کر ہے ہر آئین خطرناک