روضۂ اقدس کی زیارت اور قبر کی زیارت

روضۂ اقدس کی زیارت کی نیت سے حرمین کاسفر کیسا ہے؟

قبر کی زیارت اور سفر کے بارے میں وارد احادیث کا جائزہ

الحمد للہ ربّ العالمین والصّلٰوةوالسّلام علٰی نبّینا مُحمّد واٰله وصحبه أجمعین وبعد

مسئلہ:

دو شخص اس بات پر جھگڑتے ہیں کہ کیا مسجد نبوی کے بغیر صرف روضۃ الرسول ﷺ کے لئے زیارت کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے؟ اس کے لئے شرعی فتویٰ مطلوب ہے۔

جواب:

شروع اسلام میں نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قبروں کی زیارت سے روک رکھا تھا کیونکہ لوگ نئے نئے بت پرستی چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے لیکن بعد میں یہ حکم واپس لے لیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا:

«کنت نھیتکم عن زيارة القبور فزوروھا فإنھا تذكركم الآخرة»

میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن اب اس کی اجازت اور ترغیب دیتا ہوں کیونکہ یہ تمہیں موت اور آخرت یاد دلاتی ہے۔

اس طرح مردوں کو تو اجازت دے دی گئی لیکن عورتوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی ممانعت باقی رہی جیسا کہ ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ کی حدیث میں عبد اللہ بن عباس سے اس کی وضاحت موجود ہے:

«لعن رسول اللہ ﷺ زائرات القبور» (الحدیث)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ۔

اسی طرح کسی مخصوص قبر کی طرف سفر کے لئے کمر بستہ ہونا بھی ممنوع ہے جیسا کہ بخاری مسلم میں ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

«لا تشد الرحال إلا إلٰی ثلثة مساجد» (الحدیث)

کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مقام کے لئے (بغرض زیارت) کچاوے نہ کسے جائیں۔ یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کی طرف سفر جائز ہے۔

علاوہ ازیں کسی دوسری جگہ کے لئے صرف اسی کی نیت کرتے ہوئے سفر کرنے سے منع فرما دیا۔ لہٰذا صورتِ ممنوعہ یہ ہے کہ زیارت کرنے والا مسجد نبوی کو چھوڑ کر صرف روضہ شریف کا قصد کرے لیکن اگر زائر اصل سفر مسجد نبوی کی نیت سے کرے پھر روضہ کی زیارت بھی کر لے تو اس صورت میں زیارتِ قبر میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ صرف مردوں کے لئے قبروں کی زیارت کے لئے اجازت پہلے ذکر ہو چکی ہے۔ واضح رہے (ہم نے روضہ کی زیارت کا معاملہ عمومی زیارتِ قبر کے ساتھ اس لئے رکھا ہے) کہ کسی صحیح حدیث میں (خود صاحب روضہ) نبی ﷺ سے کسی مخصوص قبر کی طرف سفر کی اجازت ثابت نہیں ہو سکی جبکہ ممانعت کا حکم آپ نے عام صادر فرمایا جس میں اپنی قبر اور دوسروں کی قبور کو برابر رکھا یہی وجہ ہے کہ کسی (زیادہ سے زیادہ دلدادہ) صحابی اور بھلائیوں میں ان کے پیچھے لگنے والے تابعی سے منقول نہیں ہے کہ اس نے صرف روضہ یا کسی دوسرے کی قبر کا سفر اختیار کیا ہو۔ حضرت عائشہؓ کا فرمان ہے کہ:

«من عمل عملا لیس علیه أمرنا فھو رد»

جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہم عمل پیرا نہ ہوئے ہوں وہ کام راندہ اور بدعت ہے ۔

بھلائی اور نیکی تو صرف سلف صالحین کی پیروی میں ہی ہے اور پچھلوں کی اختراعات کو اپنانا برائی ہی ہے ۔ مسئلہ تو یہی ہے لیکن متاخرین میں سے بعض نام نہاد علماء روضۂ اطہر یا دوسری قبروں کی طرف سفر جائز ثابت کرنے کے لئے بعض دلائل اور احادیث کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ وہ یا تو موضوع (بناوٹی) ہیں یا بہت کمزور جس سے شرعی مسائل ثابت نہیں ہو سکتے جیسا کہ علمائے محققین کے ہاں معروف ہے تاہم میں ایسی احادیث کا ذِکر بتوفیقِ الٰہی ان ائمہ کے باطل یا نہایت کمزور قرار دینے کے ساتھ کرتا ہوں جو اس معاملہ میں سند ہیں۔

سفر کو جائز قرار دینے والوں کی طرف سے پیش کی جانے والی چودہ حدیثیں اور ان کے مفید مطلب نہ ہونے کے دلائل

1. «من زار قبري وجبت له شفاعي»

جس نے میری قبر کی قیارت کی اس کے لئے میری سفارش ضروری ہو گئی۔

نقد و جرح:

اس حدیث کو ابو الشیخ اور ابن ابی الدنیاؒ نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث ابن خزیمہؒ میں بھی ہے اور امام موصوف نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، کہتے ہیں:

''اس کی سند کے بارے میں میرے دل میں کھٹکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔''

میں کہتا ہوں اس میں دو راوی مجہول ہیں۔ (الف) عبد اللہ بن عمر العمری جس کے بارے میں ابو حاتم نے کہا ہے، وہ مجہول ہے۔ (ب) موسی بن ہلال البصری۔ اسے ابو حاتم نے مجہول کہا ہے اور بقول عقیلیؒ اور ذہبیؒ محدثین نے اس کی حدیث کا انکار کیا ہے۔ ایک روایت میں ''وجبت'' کی بجائے ''حلت'' کا لفظ آیا ہے۔ (مختصراً)

2. «من حج فزار قبري بعد وفاتي کان کمن زارني في حیاتي»

جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔

نقد و جرح:

اسے طبرانیؒ اور بیہقی نے عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں حفص بن سلیمان القاری ہے جس کے متعلق ابن عدیؒ نے کہا ہے کہ اس پر جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔ امام احمدؒ کہتے ہیں: ''وہ متروک الحدیث ہے۔'' بخاریؒ کہتے ہیں، ''ائمہ حدیث نے اسے ترک کیاکر دیا ہے۔'' ابن خراشؒ کہتے ہیں ''جھوٹا ہے حدیثیں گھڑتا ہے' ' اور ذہبیؒ نے اس حدیث کو اس کے منکرات میں شمار کیا ہے، کہتے ہیں امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الضعفاء میں تعلیقاً اس کے حالات کے بیان میں یوں کہا ہے: ابن ابی القاضیؒ کہتے ہیں ہم کو سعید بن منصور نے حدیث سنائی، وہ کہتے ہیں ہم کو حفص بن سلیمان نے لیث سے، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے جو نبی ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہیں جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی۔۔۔۔ الخ (یعنی امام بخاریؒ نے اس راوی کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے وہاں اس حدیث کا ضعف بھی بیان کر دیا۔)

3. «من زارني بالمدینة محتسبا کنت له شھیدا أو شفیعا یوم القیامة»

جس نے ثواب کی خاطر مدینہ میں میری زیارت کی، میں روزِ قیامت اس کا گواہ اور سفارشی ہوں گا۔

نقد و جرح:

اس حدیث کو بیہقیؒ نے انسؓ سے روایت کیا ہے اس کی سند میں ابو المثنی سلیمان بن یزید الکعبی ہے جس کے بارے میں ذہبیؒ نے کہا ہے: ''وہ متروک ہے''۔ ابو حاتم کہتے ہیں: ''منکر الحدیث ہے'' اور ابن حبانؒ کہتے ہیں: ''اسے قابلِ حجت ماننا درست نہیں۔''

4. «من حج ولم یزرني فقد جفاني»

جس نے حج کیا اور میری (قبر کی) زیارت نہ کی اس نے مجھ سے زیادتی کی۔

نقد و جرح:

امام سخاویؒ نے ''المقاصد الحسنة'' میں لکھا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن عدیؒ نے اسے ''الکامل'' میں، ابن حبانؒ نے الضعفاء میں، دار قطنی نے ''العلل'' اور غرائب مالک میں عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ ذہبیؒ نے ''میزان الاعتدال'' میں لکھا ہے: ''بلکہ یہ حدیث موضوع ہے۔''

5. «من زار قبري أو قال من زارني کنت له شفیعا أو شھیدا ومن مات بأحد الحرمین بعثه اللہ من الآمنین یوم القیمة»

جس نے میری قبر کی زیارت کی یا فرمایا، جس نے میری زیارت کی، میں (قیامت کے دن) اس کا سفارشی یا گواہ ہوں گا۔ اور جو حرمین (مکہ و مدینہ) میں سے کسی جگہ فوت ہوا اللہ تعالیٰ اسے میدانِ حشر میں امن والوں میں سے اُٹھائے گا۔

نقد و جرح:

اس حدیث کو ابو داؤد و طیالسیؒ نے اپنی ''مسند'' میں عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے۔ اس کے سلسلۂ رواۃ میں ایک راوی مجہول ہے جس کی سند حسب ذیل ہے:

«قال أبو داود: حدثنا سوار بن میمون أبو الجرّاح ۔۔۔۔۔۔ قال حدثنا رجل من اٰل عمر عن عمر قال سمعت رسول الله ﷺ ۔۔۔۔» (الحديث)

(يعنی سند ميں آل عمر سے ''رجل'' (كوئی شخص) مجہول ہے)

6. «من زارني بعد موتي فکأنما زارني في حیاتي ومن مات بأحد الحرمین بعث من الاٰمنین یوم القیامة»

جس نے میری موت کے بعد میری (قبر کی) زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی اور جو حرمین میں سے کسی جگہ فوت ہوا قیامت کے دن امن والوں میں سے اُٹھایا جائے گا۔

نقد و جرح:

اس حدیث کو دار قطنیؒ نے اپنی سنن میں اور ابن عساکرؒ نے حاطب سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں ہارون بن قزعہ یا قزعہ ابن ابی قزعہ راوی ہے۔ جس کے متعلق امام بخاریؒ نے کہا ہے: ''اس کی اس حدیث پر کسی نے متابعت نہیں کی اور قزعہ کا شیخ بھی مجہول ہے۔'' ذہبیؒ نے ''میزان الاعتدال'' میں ذکر کیا ہے کہ حاطب کی مذکورہ حدیث اور عمر کی حدیث جو اس سے پہلے گزری ہے۔ قزعہ بن ابی قزعہ کی منکرات سے ہیں۔

7. «من زارني وزار أبی إبراھیم في عام واحد دخل الجنة»

جس نے میری اور میرے باپ ابراہیمؑ کی (قبروں کی) ایک ہی سال میں زیارت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔

نقد و جرح:

نوویؒ نے ''المجموع'' (شرح المہذب) میں لکھا ہے، ''یہ حدیث بناوٹی ہے جس کا کوئی اصل نہیں اور اسے ائمہ حدیث میں سے بھی کسی نے روایت نہیں کیا۔''

8. «من جاءني زائر الم تنزعه حاجة إلا زیارتي کان حقا علي أن أکون له شفیعا یوم القیٰمة» جو شخص میری (قبر کی) زیارت کے لئے آیا اور اسے میری زیارت کا شوق ہی کھینچ کر لایا ہو تو اس کا مجھ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ قیامت کے روز میں اس کا سفارشی ہوں۔

نقد و جرح:

اس حدیث کو ابن نجارؒ نے ''الدرة الثمینة في تاریخ المدینة'' میں اور دار قطی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں مسلمہ بن سالم ہے جس کے بارے میں ذہبیؒ نے ''دیوان الضعفاء'' میں کہا ہے اس میں جمیہ کی طرف میلان ہے۔ ابن عبد الہادی ''الصارم المنکی'' میں لکھتے ہیں: یہ ''مجہول الحال ہے۔ نقلِ علم میں معروف نہیں اور اس کی روایت کے ساتھ حجت پکڑنا بھی ٹھیک نہیں۔ وہ موسیٰ بن ہلال عبدی، جس کا ذکر ہو چکا ہے کی مانند ضعیف ہے۔''

9. «من لم یزر قبري فقد جفاني»

جس نے میری قبر کی زیارت نہ کی اس نے مجھ سے جفا کی۔

نقد و جرح:

ابن نجارؒ نے اس حدیث کو تاریخ المدینہ میں بے سند او صیغۂ تمریض (جو کمزوری کی طرف اشارہ ہوتا ہے) کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں:

«وروي عن علي قال قال رسول اللہ ﷺ» (الحدیث)

ابن عبد الہادیؒ کہتے ہیں حضرت علیؓ بن ابی طالب سے منسوب یہ حدیث بناوٹ اور جھوٹ ہے۔ میں کہتا ہوں، اس کی سند میں نعمانِ بن شبل باہلی متّہم ہے۔ ابن حبانؒ کہتے ہیں: ''وہ آفتیں لاتا ہے۔'' ذہبیؒ نے اس کا ذِکر ''میزان الاعتدال'' میں کیا ہے۔ نیز اس کی سند میں محمد بن فضل بن عطیہ مدینی ہے جو مشہور جھوٹا اور گھڑنے والا ہے۔ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں یہ بھی لکھا ہے۔ ''امام احمد کہتے ہیں۔ اس کی حدیث جھوٹوں کی حدیث ہے۔'' اور ابن معین کہتے ہیں۔ ''فضل بن عطیہ (باپ) ثقہ ہے اور اس کا بیٹا محمد کذّاب ہے۔ نیز ذہبیؒ لکھتے ہیں۔ ''اس شخص کی منکرات بہت ہیں کیونکہ وہ باتونی تھا۔'' لکھتے ہیں۔ ''فلاس نے اسے کذاب کہا ہے۔'' اور بخاریؒ کہتے ہیں: 'محدثین نے اس سے خاموشی اختیار کی ہے'' (یعنی نکما سمجھ کر حدیث نہیں لی) ابن ابی شیبہ نے اس پر جھوٹ گھڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ حدیث حضرت علیؓ سے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب بھی بیان کی گئی ہے لیکن اس کی سد میں عبد الملک بن ہارون بن عنترہ ہے اور جھوٹ گھڑنے کے ساتھ متہم ہے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں: ''کذّاب ہے۔'' ابو حاتم کہتے ہیں: نکمی باتوں والا اور متروک ہے۔'' سعدیؒ کہتے ہیں: ''کذّاب ہے۔'' اور ذہبی لکھتے ہیں: ''اس پر حدیث (من صام یوما من أیام البیض عدل عشرۃ اٰلاف سنة یعنی جس نے ایّام بیض (تیرہ، چودہ اور پندرہ) کے روزے رکھے اسے دس ہزار سال کے روزوں کا ثواب ملے گا) گھڑنے کاالزام ہے۔'' (صاحب مقالہ لکھتے ہیں:) ''اس عبدالملک بن ابی عمرو کذّاب کی طرف سے بہت سی آفتیں ہیں جن کو ذہبیؒ کی میزان الاعتدال میں دیکھا جا سکتا ہے۔''

10. «من أتی المدینة زائراً لي وجبت له شفاعتي» (الحدیث)

جو شخص مدینہ میں میری زیارت کے لئے آیا اس کے لئے میری سفارش ضروری ہو گئی۔

نقد و جرح:

اسے یحییٰ الحسنی نے بکیر بن عبد اللہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے، اس کے بارے میں عبد الہادی لکھتے ہیں: ''یہ حدیث باطل ہے جس کا کوئی اصل نہیں۔''

علاوہ ازیں یہ مفید مطلب نہیں کیونکہ اس میں قبر کی طرف سفر کا ذکر نہیں۔ (احتمال ہے کہ زندگی میں آنا مراد ہو)

11. «من لم تمکنه زیارتي فلیزر قبر إبراھیم الخلیل»

جو شخص میری زیارت نہ کر سکے اسے چاہئے کہ ابراہیم خلیل اللہ کی قبر کی زیارت کر لے ۔

نقد و جرح:

ابن عبد الہادی کہتے ہیں۔ یہ جھوٹ اور من گھڑت احادیث میں سے ہے اور اس سے تو ایک معمولی طالب علم بھی واقف ہے کہ یہ موضوع اور خود ساختہ ہے۔ اس قسم کے جھوٹ کو حقیقتِ حال کے انکشاف کے بغیر ذکر کرنا بھی اہلِ علم کے لئے بہت بڑا گناہ ہے ۔

12. «من حج حجة الإسلام وزار قبري وغزا غزوة وصلّٰی علي في بیت المقدس لم یسأله اللہ فیما افترض علیه»

جس نے اسلامی طریقہ پر حج کیا، میری قبر کی زیارت کی، جہاد میں شریک ہوا اور بیت المقدس میں مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس سے اس کی ذمہ داریوں میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔

نقد و جرح:

اس حدیث کو ابو الفتح ازدیؒ نے اپنی فوائد کی دوسری جلد میں عبد اللہ بن ابی سہل مصیصی تک اپنی سند کے ساتھ حسن بن عثمان زیادی سے روایت کیا ہے۔ ذہبیؒ نے لکھا ہے، بدر کی حسن بن عثمان زیادی سے حدیث (روایت مذکورہ بالا) باطل ہے۔ اس حدیث کو بدر سے نعمان بن ہارون نے روایت کیا ہے۔ اس سب کمزوری کے باوجود ابو الفتح ازدی بھی ضعیف ہے۔ ابن جوزیؒ کہتے ہیں: ''(ابو الفتح ازدی) حافظ الحدیث تھا لیکن اس کی احادیث میں بہت سی منکرات موجود ہیں اسی لئے محدثین اسے ضعیف گردانتے ہیں۔'' خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں۔ ''اس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے۔ اسے برقانی نے ضعیف کہا ہے اور اہلِ موصل اسے کوئی مقام نہیں دیتے۔''

13.« من زارني حتی ینتھي إلٰی قبري کنت له یوم القیمة شھیدا أو قال شفیعا»

جو شخص میری زیارت کے لئے میری قبر تک پہنچا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ (یا کہا) سفارشی ہوں گا۔

نقد و جرح:

یہ حدیث عقیلیؒ نے الضعفاء میں عبد اللہ بن عباسؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے اور اسی سند سے اسے ابن عساکرؒ نے بھی روایت کیا ہے۔ یہ حدیث ابن جریج پر جھوٹ ہے۔ ابن عبد الہادی لکھتے ہیں: ''اس کے متن اور سند میں غلطی ہوئی ہے'' یعنی متن میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ''زیارت'' سے ''مَنْ زَارَنِي'' بیان ہوا ہے۔ حالانکہ عبارت یوں ہے:

«من راٰني في المنام کان کمن راني في حیاتي»

یعنی جس نے نیند میں مجھے دیکھا ایسا ہے گویا اس نے مجھے زندگی میں دیکھا۔

عقیلیؒ کی کتاب میں نسخہ ابن عساکرؒ کے اندر من راٰنی رؤیا سے ہی مذکور ہے۔ اس صورت میں اس حدیث کا معنی صحیح حدیث میں آپ ﷺ کا فرمان یوں موجود ہے:

«من راٰني في المنام فقد راني لأن الشیطان لا یتمثل بي»

یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔

رہا سند میں غلطی کا معاملہ تو وہ راوی کا ذِکر سعید بن محمد حضرمی نام سے ہوا ہے حالانکہ صحیح نام شعیب بن محمد ہے جس طرح کہ ابن عساکر کی روایت میں ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا الفاظ سے یہ حدیث ثابت نہیں خواہ ''زیارۃ'' کے لفظ سے ہو یا ''رؤیا'' سے۔ کیونکہ اس کا راوی فضالہ بن سعید بن زمیل مزنی مجہول ہے اس کا ذِکر اس روایت کے سوا معروف نہیں اور اس روایت میں بھی وہ منفرد ہے جس کی کسی نے متابت نہیں کی۔ ذہبیؒ نے لکھا ہے۔ عقیلیؒ کہتے ہیں، اس کی حدیث غیر محفوظ ہے (شاذ) یہ حدیث ہم کو سعید بن محمد حضرمی نے سنائی جس کو فضالہ نے سنایا۔ اس نے محمد بن یحییٰ سے تحدیث کی، وہ ابن جریج سے، وہ عطاء سے اور وہ عبد اللہ بن عباس سے مرفوعاً روایت کرتا ہے:

«من زارني في مماتي کان کمن زارني في حیاتي»

یعنی جس نے میری عدم موجودگی میں میری زیارت کی ایسا ہے جیسا کہ اس نے میری زندگی میں زیارت کی۔

ذہبیؒ کہتے ہیں: ''یہ حدیث ابن جریج پر جھوٹ ہے۔''

14. «ما من أحد من أمتی له سعة ثم لم یزرني فلیس له عذر»

میری امت میں سے صاحبِ استطاعت ہو کر بھی جو شخص میری زیارت نہ کرے اس کے لئے کوئی عذر مسموع نہ ہو گا۔

نقد و جرح:

ابن نجارؒ نے اس حدیث کو تاریخ مدینہ میں انسؓ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں سمعان بن مہدی راوی ہے جس کے متعلق ذہبیؒ لکھتے ہیں: ''سمعان بن مہدی انسؓ بن مالک سے روایت کرنے والا گمنام جانور ہے۔ اس کے پاس ایک خود ساختہ احادیث کا نسخہ تھا جسے میں نے دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ ایسے گھڑنے والے کو ذلیل کرے۔'' ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں: ''مذکورہ نسخہ محمد بن مقاتل رازی کی روایت سے ہے، وہ جعفر بن ہارون واسطی سے، وہ سمعان سے روایت کرتا ہے۔ پھر ابن حجرؒ نے اس نسخہ کا ذکر کیا ہے جو تین سو سے زیادہ موضوع احادیث پر مشتمل ہے۔''

میں (صاحبِ مقالہ) کہتا ہوں۔ یہ چودہ حدیثیں ہیں جن سے قبر کی طرف سفر کو جائز کہنے والے دلیل پکڑتے ہیں اور یہی وہ تمام احادیث ہیں جن سے مسجد نبوی کو چھوڑ کر صرف روضہ اقدس کی زیارت کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے، جبکہ یہ بات کھل کر آپ کے سامنے آگئی ہے کہ ان روایات میں سے کوئی صحیح ہے نہ حسن بلکہ سب کی سب سخت ضعیف ہیں یا موضوع ہیں جن کا کوئی اصل نہیں، جیسا کہ معتمد ائمہ حدیث کے تفصیلی تبصرے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا ان روایات کی کثرتِ تعداد اور متعدد سندوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ بسا اوقات ایسی احادیث جن کی سندیں مذکورہ بالا سندوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کثرت کے باوجود اہلِ فن کے ہاں موضوع ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ کثرت اس وقت کوئی فائدہ نہیں دیتی جب اس کا مدارکذّابین، متّہمین، متروکین یا مجہولین پر ہو جیسا کہ ان احادیث میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں جن میں سے کوئی بھی کسی کذاب یا متہم یا متروک یا مجہول (جس کی معرفت کبھی حاصل نہ ہو سکے) سے خالی نہیں۔ اس قسم کی احادیث علمائے حدیث کے ہاں کسی متابع یا شاہد سے تقویت نہیں پکڑا کرتیں بلکہ اعتبار و تقویت کا مسئلہ بھی وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں صحیح حدیث تردید نہ کر رہی ہو اور یہاں تو (اعلیٰ رجہ کی) صحیح حدیث تین مساجد کے سوا سب جگہوں کی طرف سفر کرنے سے روک رہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ''اقتضاء الصراط المستقیم في مخالفة أصحاب الجحیم'' فرماتے ہیں۔

''کسی مخصوص قبر کی طرف سفر کی اجازت کے بارے میں کوئی ایک صحیح حدیث بھی ثابت نہیں بلکہ صحاح، سنن اور مساند کے مصنفین امام احمد وغیرہ جیسے ائمہ دین نے تو ایسی کوئی حدیث نقل بھی نہیں کی ان کو صرف ان ائمہ نے نقل کیا ہے جو ہر قسم کی حدیث موضوع ہو یا غیر، سب جمع کر دیتے ہیں۔ ان روایات میں سب سے اہم حدیث وہ ہے جسے دار قطنیؒ نے روایت کیا ہے جبکہ اس کے ضعف پر کل اہلِ علم متفق ہیں۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں وارد احادیث مثل «من زارني وزار أبي إبراھیم الخلیل في عام واحد ضمنت له علی اللہ الجنة» جس نے میری اور میرے باپ ابراہیمؑ کی ایک ہی سال میں زیارت کی میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں اور «من زارني بعد مماتي فکأنما زارني في حیاتي» جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ اور «من حج ولم یزرني فقد جفاني» جس نے حج کیا لیکن میری زیارت نہ کی اس نے مجھ سے جفا کی۔ وغیرہ احادیث خود ساختہ جھوٹ ہیں۔''

(صاحب مقالہ) یہی صحیح و درست بات ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے، جس کسی کے پاس اس مسئلہ (کسی خاص قبر کی طرف سفر کرنے) کے بارے میں کوئی ایک صحیح حدیث بھی ہو اس پر اس کا بیان کرنا فرض ہے۔ (مزید افسوس یہ ہے کہ) جس قدر احادیث پیش کی گئی ہیں وہ سب یا تو بناوٹی جھوٹی ہیں یا صرف زیارتِ قبر (جس کے مشروع ہونے پر اجماع ہے) کے بارے میں ہیں۔ قبر کی زیارت کی نیت سے سفر سے متعلق نہیں (حالانکہ مابہ النزاع قبر کی طرف سفر ہے نہ کہ زیارتِ قبر عام یا خاص) حالانکہ اس زیارت کی مشروعیت یا استحباب کے حق میں صریح صحیح احادیث موجود ہیں جن کے بعد ان باطل اور من گھڑت روایات کی کوئی ضرورت نہیں جو کسی بھی شرعی مسئلہ میں قابلِ استناد نہیں بلکہ جن کی روایت کی بھی اجازت نہیں ہاں صرف ایک شرط کے ساتھ کہ ان کا جھوٹ اور من گھڑت ہونا بیان کر دیا جائے تاکہ مندرجہ ذیل فرمانِ نبوی ﷺ کی وعید سے بچا جا سکے۔

«من حدث عني بحدیث ویری أنه کذب فھو أحد الکاذبین»

جو مجھ سے ایسی بات منسوب کرے حالانکہ جانتا ہو کہ وہ جھوٹ ہے، وہ دو (۲) جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے یعنی یا گھڑنے والا یا جھوٹ پھیلانے والا۔

یہ حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں مغیرہ بن شعبہؓ اور سمرہ بن جندبؓ سے متعدد الفاظ کے ساتھ مرفوعاً آئی ہے۔ واللہ اعلم

وَصَلَّی اللہُ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِه وَسَلَّمَ

نوٹ: عربی متن کی طباعت میں کئی غلطیاں رہ گئی تھیں جن کی تصحیح اب الحمد للہ ترجمہ میں ہو گئی ہے۔ (ادارہ)
حاشیہ

یہ حدیث ابو صالح تابعی (جو عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں) کی سند سے صحیح ہے۔ ابو صالح مذکور کے بارے میں بعض محدثین کا خیال ہے کہ یہ اُمّ ہافی کا آزاد کردہ غلام ''باذام'' ہے اور بعضوں کا خیال ہے کہ میزان بصری ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں حدیث صحیح ہے۔ کیونکہ باذام سے راوی جس وقت محمد بن جحادہ ہو تو حدیث صحیح ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کہ کلبی جیسے لوگ اس سے روایت بیان کرتے ہیں اور یہ حدیث محمد بن جحادہ کی روایت سے ہے اور اگر یہ ابو صالح میزان بصری ہے پھر تو حدیث بالاتفاق صحیح ہے۔ ۱۲ منہ۔

یہ اگرچہ حضرت عائشہؓ کا فرمان ہے لیکن مختلف روایات میں نبی ﷺ سے اس سے ملتے جلتے الفاظ آئے ہیں جنہیں امام احمد اور مسلم وغیرہ نے مختلف صحابہؓ سے نقل کیا ہے گویا یہ نبی ﷺ کا فرمان ہی ہے۔ مطبوعہ عربی زبان میں عن النبی ﷺ کے الفاظ غلطی سے درج ہو گئے ہیں۔ مدیر

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا نبی ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا ہے لیکن اصطلاحی سفر اختیار کیے بغیر قبروں کی عام زیارت مستحسن ہے جس میں نبی ﷺ اور بزرگوں کی قبریں بھی داخل ہیں کیونکہ اس سے انسان کو موت اور آخرت یاد آتی ہے (کہ جب اتنے بڑے بڑے آدمی بھی ہمیشہ دنیا میں نہ رہے تو ہمیں بھی دنیا سے دل نہ لگانا چاہئے) عورتوں کے لئے صرف زیارت کی بھی اجازت اس لئے نہیں دی کہ وہ جزع و فزع بہت کرتی ہیں اور ان کے اوہام میں مبتلا ہو کر شرک میں مبتلا ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ چند ایک احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی عورت عاملہ صابرہ ہو تو کسی ضرورت کی خاطر اسے اجازت مل سکتی ہے جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہؓ کا ایک سفر کے دوران اپنے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کی قبر پر آنا ثابت ہے۔ زیارت کے وقت انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں تیری موت کے وقت موجود ہوتی تو پھر قبر پر نہ آتی۔ اسی طرح ایک دفعہ نبی ﷺ کا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا جہاں ایک عورت نوحہ کر رہی تھی۔ آپ نے اسے صبر کی تلقین کی لیکن قبر پر آنے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ حدیث میں ہے کہ جب آپ ﷺ نے اسے صبر کی تلقین اور ثواب کی امید دلائی اور اس نے چڑ کر کہا کہ تو اگر میری جگہ ہوتا تو میں پھر دیکھتی۔۔۔۔

اس حدیث میں نبی ﷺ کی زیارت نہ ہو سکنے کی صورت میں ابراہیمؑ کی قبر کی زیارت کی ترغیب دی گی ہے جس سے دوسرے بزرگوں کی قبروں کی زیارت مستحسن ثابت ہوتی ہے۔ حدیث من گھڑت ہے۔

یہاں شیخ موصوف ایک عام غفلت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کسی غیر ثابت شدہ بات کو اس کا پول کھولے بغیر ذکر کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہوتا ہے لیکن عام حقیقت کے بغیر ایسی باتوں کو قبول کر کے آگ ذکر کرتے رہے اور علماء اس کی حالت اور ضعف بیان کئے بغیر بیان کر دیتے ہیں حالانکہ محدثین کا یہ قاعدہ ہے کہ کسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے اس کی صحت و ضعف ضرور ذکر کرتے ہیں اور اگر اس کی تصریح نہ کریں تو پھر ایسے لفظ اور انداز سے بیان کرت ہیں جس سے اس کی کمزوری واضح ہو جائے مثلاً صیغہ مجہول قیل یا روی وغیرہ کے ساتھ۔ محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی طرف کسی بات کے نسبت کرنے میں اس قدر احتیاط برتی ہے کہ اگر صحت و ضعف واضح نہ ہو سکے تو پھر بھی صیغہ تمریض کے ساتھ ہی بیان کریں گے بلکہ جو ضعیف حدیثیں مختلف وجوہات کی بنا پر تقویت حاصل کر لیتی ہیں انہیں بھی کسی یقینی نسبت سے ذکر نہیں کرتے۔ مقولہ معروف ہے۔ ''يعمل عليه احتياطاً لا اعتقادًا'' یعنی ایسی حدیث پر عمل بطور احتیاط ہو گا نہ کہ نبی ﷺ کا فرمان سمجھتے ہوئے کیونکہ اس بارے میں وعید کی متواتر حدیث موجود ہے: ''من کذب علی متعمدا فقد تبوء مقعدہ من النار او کما قال علیه السلام'' یعنی جو شخص جانتے ہوئے میری طرف جھوٹ کی نسبت کر دے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ اسی طرح آپ سے منقول ہے: ''کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع'' یعنی کسی شخص کو اتنا جھوٹ ہی کافی ہے کہ جو سنے بیان کر دے۔۔۔۔۔۔ (مترجم)

مطبوعہ عربی متن میں ''من فوائدہٖ'' کے بعد ''بسندہٖ'' کا لفظ طباعت سے رہ گیا تھا۔ یہ اس کا ترجمہ ہے۔ (مدیر)