شیخ حسن الہضیبی کا خط

جمال عبد الناصر کے نام

یہ خط مارچ 1945ء میں حسن الہضیبی نے کرنل ناصر کے نام تحریر کیا تھا۔ حسن النباء شہید تحریک اخوان المسلمون کے بانی کی شہادت کے بعد حسن الہضیبی اخوان کے مرشد عام منتخب ہوئے تھے جن کو 1954ء میں پھانسی کی سزا کے احکامات جاری ہوئے لیکن عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے پھانسی کی سزا دس سال قید با مشقت میں تبدیل کر دی گئی اور اب پھر ان کو تین سال قید با مشقت کی سزا دے کر مقید کر دیا گیا ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔ والصلوٰة والسلام علی أشرف المرسلین۔

آپ کو یقیناً یاد ہو ا کہ جس دن آپ نے اخوان المسلمون کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ ماضی کے واقعات بھول جائیں اور جو کچھ ہو چکا ہے، اس پر پانی پھیر دیںَ اس دن آپ نے ہمارے ساتھ عہد کیا تھا کہ اس عجیب و غریب صورت حال کو ختم کر دیا جائے گا جو الاخوان المسلمون کی تحریک کو توڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ آپ کی یہ رائے تھی کہ وطن کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ اخوان اور ملکی رہنماؤں کے مابین از سرِ نو باہمی تعاون کی فضا پیدا ہو۔

اس وقت آپ نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ اخوان المسلمون کو توڑنے کا فیصلہ منسوخ کر کے تمام نظر بندوں کو رہا کیا جائے گا اور اس اثر کو، جو خلاف قانون قرار دینے کے بیان سے پیدا ہوا ہے کلی طور پر زائل کیا جائے گا اور ہمیں اس بیان پر الجھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اگرچہ ہم جماعتی مخصوص مسائل میں ابھی کسی متفق علیہ رائے پر نہیں پہنچے ہیں۔ لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر مصلحتِ وطن کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے سامنے ملکی پیچیدگیوں کے بارے میں اپنی رائے پیش کریں جو تمام لوگوں میں اطمینان و سکون پیدا کرنے کا باعث ہو گی۔ جس کے بغیر اجتماعی، اقتصادی اور دوسرے امور کی مکمل طور پر اصلاح کرنا ناممکن ہے۔ اور ''دین نصیحت ہے'' جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے۔ چنانچہ اس عائد شدہ فرض کو آپ تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔

مصر آج تک جتنے مراحل سے گزرا ہے اس وقت ان سب سے نازک ترین مرحلہ سے گزر رہا ہے۔ ہم سب کے پیش نظر ملک کی آزادی اور انگریزوں کا اخراج ہے۔ یہ گوری چمڑی والے محض تقاریر اور بیانوں سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ ان کو نکالنے کے لئے ایک متواتر اور شدید جہدوجہد رکار ہے۔ اسی طرح ان یہودیوں کے مقابلے میں جو ہم پر دلیر ہو رہے ہیں صرف اپنا دفاع ہی نہیں چاہئے بلکہ فلسطین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان ایک مستقل جنگ ٹھنی ہوئی ہے۔ اگرچہ بظاہر جنگی صورت حال نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ہم پر سب سے پہلا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو، اپنی فوجوں کو اسی بنیادی مہم کے لئے مکمل طور پر تیار کریں۔

مصر کو اس وقت امن و سکون کی شدید ضرورت ہے اور یہ نہ تو باتوں سے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ تشدد اختیار کرنے سے بلکہ اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کے اندر حقیقی طور پر یہ شعور پیدا ہو جائے کہ وہ اس انقلاب کے اور اس سے حاصل ہونے والی اصلاحات کے محافظ ہیں اور انقلاب تب ہی قائم رہ سکتا ہے کہ لوگوں کے دل اس کی نگرانی اور حفاظت کریں (یعنی حقیقی انقلاب ذہنی اور فکری ہے) محض طاقت کے زور سے یہ مطلب حل نہیں ہو گا بلکہ عدل اور اصلاح اور ترقی سے ہو گا۔ ان دونوں صورتوں کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ استقرار و سکون کے حصول کے کچھ وسائل ہیں جن میں چند یہ ہیں:

عصرِ حاضر میں ہر حکومت کے لئے پارلیمانی زندگی ہی صحیح اساس ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ماضی کے تجربات نے اس کے بعض عیوب ہمارے سامنے ظاہر کیے ہیں لیکن ہمارا فرض ہے کہ اسے تمام نقائص سے پاک کر کے کمال کے قریب تر لے آئیں۔ عبوری دور میں پارلیمانی زندگی کو ختم کر کے قوم کو جمہوریت کی ترتیب نہیں دی جا سکتی بلکہ بالفعل پارلیمانی زندگی کی موجودگی سے یہ تربیت مل سکتی ہے۔ ہمیں جلد از جلد اس کی طرف قدم اُٹھانا چاہئے۔

ہنگامی قوانین اگرچہ وقتی سکون اور ظاہری خاموشی پیدا کر دیتے ہیں لیکن اندر ہی اندر آتشیں مادے تپتے رہتے ہیں اور راکھ کے نیچے چنگاریاں سلگتی رہتی ہیںَ اگر کہیں آتش کے شعلے بھڑک اُٹھے تو وطن کے مستقبل کی خیریت نہیں۔

میں چاہتا ہوں کہ آپ ہر قسم کی آزادی بحال کر دیں، بالخصوص آزادیٔ صحافت۔ کیونکہ مصر کی خیر و سلامتی اسی میں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ لوگوں پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ جہاں فاروق کی بات کو رد کرنا چاہئے، نہیں کرتے ہیں (بلکہ خوشامد کے طور پر ڈر کی وجہ سے ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ اب آپ صحافت پر کڑی پابندی لگا کر لوگوں کو روکتے ہیں کہ وہ قابل تردید باتوں کی نفی نہ کریں۔ ایسی روش حق کی نصرت اور باطل کی نگوں سازی کے لئے قوم کی صحیح تربیت نہیں کر سکتی۔

ہم یہ بھی مناسب نہیں سمجھتے کہ صحافت اپنی حدود سے تجاوز کر جائے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ اس کو مطلق العنان کر دیا جائے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ حق و باطل میں امتیاز کرنا ہی ناممکن ہو جائے۔ بلکہ صحافت کو آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ قانون کی حدود میں رہ کر حق و صداقت کی راہ اختیار کرے۔ اگر قانون کی حدود کو پھاندے تو مستوجب سزا ٹھہرائی جائے۔ اخبارات کی تنقید آپ کے لئے بہت ہی مفید ہو گی۔

اور یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ نظر بندوں اور ہنگامی قوانین کے تحت دیگر گرفتار شدگان کی رہائی قومی اتحاد اور وحدت کلمہ کے لئے نہایت ضروری ہے اور حق و عدل کا تقاضا بھی یہی ہے۔

رہیں اصلاحات تو ان کا میدان بہت وسیع ہے ہماری رائے میں ذہن و قلب کی اصلاح تمام اصلاحات سے بڑھ کر ہے بلکہ ہر اصلاح کی بنیاد اسی پر ہے۔

آخر میں ہم اللہ سے عا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں قولی و عملی سچائی کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں لغزشوں سے بچائے۔ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت بخشے۔ بے شک وہی سمیع و مجیب ہے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

حسن الہضیبی المرشد العام للإخوان المسلمین

(جنگ کراچی ۲ ستمبر ۱۹۶۶ء)