ایک عجیب جعل سازی
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور کے بیشتر اہلِ قلم ارکان حلّتِ سماع کی طرف مائل ہیں اور اس مضمون پر انہوں نے خاصی محنت کر کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش فرمائی ہے ہ سماع کا ذوق قابلِ قدر ہے، با ذوق لوگ موسیقی کی دل نواز تانوں سے لطف انداز ہونا چاہیں تو ضمیر کی خلش سے آزاد ہو کر محظوظ ہو سکتے ہیں۔ ان دوستوں کے تعامل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اس امر کے بھی قائل ہیں کہ سیاست کی طرح دین کو بھی عوامی ہونا چاہئے یعنی عوام کا رہنما نہیں، ان کی خواہشات کے تابع ہونا چاہئے، اس لئے یہ نیم سرکاری ادارے ''دین'' کو دلچسپ، معشوق اور مرغوب بنانے کے لئے متداول ثقافتی غازے اور کاجل پیش فرماتے رہتے ہیں گویا کہ ایمان داعیہ قلب نہیں، نفسی و ہویٰ کا کوئی شکار ہے۔ انا للہ!
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور نے مختلف اوقات میں''موسیقی'' کو اسلامی ثقافت بنانے کے لئے جتنا کچھ کیا ہے وہ ان کی مطبوعات کے مطالعہ سے بالکل واضح ہے۔ اس وقت اس ادارے کا ''المعارف'' (بابت ماہ جولائی) ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اس میں ''امام شوکانیؒ اور مسئلہ غنا'' کے عنوان سے سماع کے بارے میں امام شوکانیؒ کے نقطہ نظر پیش کرنے کا اعلان کر کے دراصل وہ اپنی بات امام شوکانی کے طویل اقتباس سے اگلوانے کی ایک عجیب چال چلے ہیں، جس کی ایک اہلِ قلم سے توقع نہ تھی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:
سماع کے موضوع پر حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خاص رسالہ تحریر کیا ہے اور نیل الاوطار میں بھی اس سے بحث کی ہے اور باب ما جاء في اٰلة اللھو میں جانبین کے دلائل کےسے بحث کر کے آخر میں ''محاکمہ'' بھی کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
''اگر سماع حرام نہ ہو تو مشتبہ ضرور ہے جس سے مومن (حرام کی طرح) ہی بچتا ہے۔''
(نیل الأوطار باب ما جاء في اٰلة اللھو ص ۸۷، ۸)
معاصر ''المعارف'' کے جناب پھلواروی صاحب (جنہوں نے ہر ''اسلام دشمن موضوع'' کو دل نواز بنانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے) امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا محاکمہ کے اثرات کو غلط کرنے کے لئے بالکل ایک نئی چال چلے ہیں یعنی امام موصوف کے اس تبصرہ اور محاکمہ کو جو سارے مضمون اور باب کے آخر میں درج ہے، بین السطور کر کے اس کی اہمیت کو غارت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امام صاحبؒ کے نام پر کچھ معصوم ذہنوں کو شکار کیا جا سکے۔ افسوس تو یہ ہے کہ پھلواروی صاحب نے مضمون کے شروع میں جو بات کہی ہے اس کے آخر میں ہی اس کو پی گئے ہیں۔ شروع میں یہ بات کہی ہے کہ:
''اس مضمون کو انہوں (یعنی امام شوکانیؒ) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب نیل الاوطار میں أسرار منتقی الأخبار کے جز ہفتم (جز ہشتم ہے جز ہفتم نہیں ہے، شاید کاتب سے سہو ہو گیا ہو) میں بھی دہرایا ہے جو پوری کتاب کا صرف ایک باب ہے یعنی ''باب ما جاء في آلة اللھو'' بہر کیف ہم اس باب کا ترجمہ ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔'' (المعارف جولائی ۲۲۔۲۳)
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ پھلواروی صاحب صرف ''باب ما جاء في آلة اللھو'' کا ترجمہ پیش کریں گے مگر ان کو اس میں مشکل یہ پیش آگئی ہے کہ مضمون اور باب کے آخر میں حضرت امام شوکانیؒ کا جاندار تبصرہ اور محاکمہ آگیا، جو ثقافتی احباب کے منصوبے کے خلاف پڑتا ہے اس لئے انہوں نے اس کو گول مول کرنے کے لئے یہ سکیم بنائی کہ اس باب کے بعد جو باب ہے اس کا ترجمہ بھی اس سے جوڑ دیا جائے تاکہ امام صاحبؒ کا تبصرہ اور محاکمہ ''بین السطور'' ہو جائے۔ اور بعد کے باب میں امام صاحبؒ نے بعض استثنائی صورتوں سے متعلقہ ایک حدیث پر جو روشنی ڈالی ہے، اس کا استحصال کیا جائے تاکہ ''تبصرہ'' اور ''محاکمہ'' کے ممکن اثرات سے کسی طرح پیچھا چھڑایا جا سکے۔ ہمارے نزدیک پھلواری صاحب کی یہ جعل سازی صحافتی دیانتداری کے بالکل خلاف ہے اور موصوف سے جو ہمیں حسن ظن ہے، اس کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے بلکہ انہوں نے اصل محاکمہ کو ''بین السطور'' کر کے اس سے صرفِ نظر کرنے کے امکانات پیدا کرنے کی جو سعی فرمائی ہے، اس کو کوئی بھی اہلِ علم بنظرِ استحسان نہیں دیکھے گا۔
مضمون اور تبصرہ کے اخیر میں اپنے خصوصی اغراض کے لئے انہوں نے جس باب کے اضافے سے ''المدد'' کی درخواست کی ہے۔ دراصل وہ بات ان کے لئے مفید طلب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اصل میں سماع حرام ہے مگر بعض استثنائی صورتیں ایسی بھی ہیں جو بے ضرر ہونے کی وجہ سے جائز ہو سکتی ہیں لیکن ان بعض استثنائی صورتوں کی پوری حرام موسیقی کے لئے وجہِ جواز بنانا ایک ''حیلۂ پرویزی'' ہے۔
فاضل پھلواروی نے حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ''ابطال دعوت الاجماع علی تحریم مطلق السماع'' کا ذِکر چھیڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش فرمائی ہے کہ حضرت الامام کے نزدیک سماع حرام نہیں ہے۔ ''حرام نہیں ہے'' کے یہ معنے پیدا کرنے کی سعی کی کہ جائز ہے اور یہ ثقافی احباب یہی چاہتے ہیں۔
دراصل اس کتاب کے نام کو بھی انہوں نے ''مغالطۂ ادبی'' کے لئے ہی استعمال کیا ہے۔ ورنہ بات وہ نہیں ہے جس کو وہ نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ امام موصوف نے ''ثقافتی کرم فرماؤں'' کی طرح سماع کو ''حلال طیب اور مزکی نہیں کہا بلکہ یہ بات سمجھائی ہے کہ سماع کی بعض بے ضرر استثنائی صورتیں بھی ہیں جن کی وجہ سے سب کو بالکل حرام کہنا احتیاط کے خلاف ہے، ہاں ان استثنائی صورتوں کے باوجود یہ سارا کھیل مشتبہ ضرور ہے اور جو مشتبہ امور ہوتے ہیں ان کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ:
''ان کے نزدیک بھی نہ پھٹکو۔''
محاکمہ کی اصل عبارت یہ ہے:
وإذا تقرر جمیع ما حررناہ من حجج الفریقین فلا یخفٰی علی الناظر أن محل النزاع إذا خرج عن دائرة الحرام لم يخرج عن دائرة الاشتباه والمؤمنون وقافون عند الشبھات كما صرح به الحديث الصحيح ومن تركھا فقد استبراء لعرضه ودينه ومن حام حول الحمي يوشك أن يوقع فيه الخ (نيل الاوطار ص ۸۷، ۸)
خود پھلواروی صاحب کے الفاظ میں اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے:
''ہم نے دونوں فریقوں کے جو دلائل نقل کئے ہیں ان پر نظر رکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ محل نزاع (گانا، بجانا) اگر حرام کے دائرے سے باہر ہو جائے تو اشتباہ کے دائرے سے باہر نہیں جاتا اور اہل ایمان شبہات کے موقع پر رُک جاتے ہیں جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ من ترکھا الخ (یعنی جو مشتبہات کو ترک کر دے وہ اپنی آبرو اور اپنے دین کو بچا لیتا ہے اور جو ممنوعہ علاقے کے گرد چکر لگاتا ہے اس کے لئے اس میں جا پڑنے کا قریبی امکان ہے۔'' (المعارف جولائی ص ۴۰)
فلا یخفی علی الناظر کا ترجمہ بھی اپنے مطلب کا کیا ہے، یعنی ان پر نظر رکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا۔ (المعارف ص ۴۰)
یہ ترجمہ کر کے وہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اپنا نہیں، کسی تیسرے کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کا اپنا نظریہ ہے۔ اصل ترجمہ یہ ہے ''تو اہلِ نظر سے مخفی نہیں ہے۔'' (جس میں خود امام موصوف بھی شامل ہیں)
کیا پردہ اور غضؔ بصر رضا کارانہ چیزیں ہیں؟
معزز معاصر نوائے وقت کے کالم 'سرراہے' کے کالم نویس کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا ہے جو کافی دلچسپ بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ ملاحظہ فرمائیں: