شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؔ رحمۃ اللہ علیہ
۲۴،۲۳،۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء کو جامعہ سلفیہ (لائل پور) کانفرنس ہو رہی ہے، اس موقع پر اس درسگاہ کے ایک بانی اور پہلے ناظمِ تعلیمات کی یاد میں یہ نظم دی جا رہی ہے۔ حسنِ اتفاق سے سابقہ آرٹیکل''سیاستدان ابن تیمیہؒ کی نگاہ میں'' کے ساتھ بھی نظم کے مضمون اور ناظم کے ممدوح کی کئی مناسبتیں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مولانا مرحوم نے اسی شب وصال فرمایا جس میں حافظ ابن تیمیہؒ فردوس بریں کو سدھارے تھے۔
حق گوئی و بے باکی میں تو تیغِ رواں تھا تو دشمنِ ایماں کے لئے برقِ تپاں تھا
گفتار میں کردار میں اک سوزِ اناں تھا لاریب کہ تو دین کی عظمت کا نشاں تھا
تھی علم کی توقیر ترے حسنِ عمل سے! تاثیر میں اکسیر ترا حسنِ بیاں تھا
بدعت کے صنم خانے میں تو نصف صدی سے اک جذبۂ صادق لیے مصروفِ اذاں تھا
تو حلم کی تصویر تھا، اخلاص کا پیکر اخلاصِ مجسم تھا تو اک عزمِ جواں تھا
اسلاف کے کردار کی تصویر تھا سلفیؔ اس دور میں سنت کا نقیب و نگراں تھا
یہ دینی حمیت، یہ شرافت، یہ جلالت واللہ تو اس دور کا انسان کہاں تھا!
کیوں تجھ کو ابن تیمیہؒ وقت نہ مانوں! وہ بھی تو اسی شب ہوا فردوس مکاں تھا
تھے دین و سیاست نہ جدا تیری نظر میں دستور ہو قرآں سے جدا، تجھ پہ گراں تھا
ہستی سے تری شہر مرا فخرِ وطن تھا اب شہر ہے ویران کہ تو رواحِ رواں تھا
ماتم میں ترے مرد و زن و طفل تھے گریاں اک لاکھ کا مجمع تھا کہ بس محوِ فغاں تھا
آہیں وہ دعائیں کہ فضا کانپ رہی تھی اُف تیرے جنازے کا سماں کیسا سماں تھا؟
یہ سوچ کے اب تک مرے آنسو نہیں تھمتے مٹی میں نہاں ہے وہ جو منبر پہ عیاں تھا