مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل
گذشتہ سال (اکتوبر ۲۰۰۲ء میں) امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں 'مجمع فقہاے شریعت، امریکہ' (Assembly of Muslim Jurists of America)کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا، جس میں دنیا بھر سے اہل ِعلم کو دعوت دی گئی۔ پاکستان سے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی اور مولانا ارشاد الحق اثری، فیصل آباد رکن کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے۔ مجمع کا مرکزی دفتر میری لینڈ میں قائم کیا گیا۔اس اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل پائی جس کو ہمہ وقت شرعی سوالات کے جوابات دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اِمسال مئی ۲۰۰۳ء میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر ساکرا منٹو میں بھی ایک اہم دعوتی کانفرنس تھی، جس میں محترم حافظ ثناء اللہ مدنی بھی شریک تھے۔ یہاں 'مجمع' کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صلاح صاوی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے محترم حافظ صاحب کو کمیٹی کی طرف سے صادر شدہ چند فتوے پیش کئے۔ سابقہ شمارے میں ان فتاوی کے اردو ترجمہ کی پہلی طویل قسط شائع کی گئی تھی، باقی سوالات کے جوابات اب پیش خدمت ہیں۔
صدقہ فطر کے بعض مسائل
امریکہ میں مسلمانوں کے بعض علاقوں میں، اور ملک کے بعض دوسرے حصوں میںبعض اوقات وہ خوردنی اشیا دستیاب نہیں ہوتی جن کا ذکر شرعی نصوص میں کیا گیاہے۔ اسی طرح بعض اوقات بہت سے غریب مسکین مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ان اشیاء خوردنی سے کیسے استفادہ کرسکتے ہیں، اس صورتِ حال میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں :
صدقہ فطر میں معینہ غذائی جنس کی بجائے مالیت وغیرہ ادا کرنا
سوال 24:کیا 'طعام' (غذائی اشیا) کے مفہوم میں وسعت پیدا کی جاسکتی ہے، تاکہ ہر وہ چیز اس حکم میں شامل ہوجائے جس کو 'طعام' کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً تیل، سبزی، پھل، چاول، گوشت، مٹھائی وغیرہ یا ان میں سے بعض اشیائِ خوردنی کاجواز صرف اس صورت میں ہوگا، جب یقینی طور پرمعلوم ہو کہ ان فقراء و مساکین کیلئے طویل عرصے تک یہ غذائی اشیااستعمال کرنا مشکل ہے؟
جواب:صدقہ فطر کے لئے حدیث میں جن غذائی اشیا کا نام لیا گیا ہے وہ یہ ہیں: کھجور، جَو، منقیٰ، پنیر اور گندم۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
''اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پرایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر مقرر کیا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کے نماز کی طرف نکلنے سے پہلے ادا کردیا جائے۔ ''
صحیح بخاری میں حضرت ابوسعید خدری کا یہ فرمان مروی ہے:
''ہم لوگ صدقہ فطر کے طور پر ایک صاع غلہ، یا ایک صاع جویا ایک صاع کھجوریں، یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقیٰ نکالتے تھے۔''
نبی علیہ السلام کے زمانہ میں یہی چیزیں زیادہ استعمال ہوتی تھیں۔ ابو سعید خدری کی ایک اور حدیث میں ہے:
''رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں ہم لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع کھانا دیا کرتے تھے۔''
ابو سعید خدری فرماتے ہیں: ''ہمارا کھانا جو، منقیٰ، پنیر اور کھجوریں ہوتا تھا۔'' (بخاری)
علمائے کرام نے اس پر قیاس کرکے ہراس چیز کو اس حکم میں شامل کیا ہے جسے لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرنے لگیں مثلاً چاول، دالیں وغیرہ ۔ وہ کہتے ہیں : صدقہ فطر ادا کرنے والے کو چاہئے کہ اس چیز کاایک صاع ادا کرے جو علاقے کی عام غذا ہو۔
لیکن کیا غذائی اجناس کے بجائے ان کی قیمت درہم و دینار کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے؟ اس کے جواب میں علما کی مختلف آرا ہیں۔ اکثر علماے کرام اس کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدقہ فطر میں غذائی اجناس ادا کرنا ہی اصل مقصود ہے۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ نقد رقم کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بعض غریب لوگ رقم کو حرام اِخراجات میں خرچ کرسکتے ہیں۔ جبکہ اَحناف اور ان کی رائے سے اتفاق کرنے والے دیگر علما مقصود کا لحاظ رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں: صدقہ فطر کا مقصد یہ ہے کہ محتاجوں کو اس دن سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہ مقصد جس طرح غلہ دینے سے حاصل ہوتا ہے، اسی طرح دوسری چیز سے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات قیمت ادا کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس سے اس کی حاجت زیادہ پوری ہوتی ہے، اور وہ اس کے لئے زیادہ مفید ہوتا ہے۔
بعض علماء فرماتے ہیں: جوچیز غریب آدمی کے لئے زیادہ مفید، اور اس کی ضرورت کو بہتر طور پر پورا کرنے والی ہو، اس کا لحاظ رکھا جائے، وقت اور مقام کی تبدیلی سے یہ چیز بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ محمد بن سلمہ کہتے ہیں: ''خوشحالی کے ایام میں قیمت ادا کرنا مجھے زیادہ پسند ہے، اور سختی (غذائی قلت) کے ایام میں گندم ادا کرنا مجھے زیادہ پسند ہے۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بیان کیا ہے کہ بغیر حاجت کے اور بغیر راجح فائدہ کے قیمت (نقدرقم)ادا کرنا ممنوع ہے۔ لیکن ان کے نزدیک حاجت، فائدہ اور انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت اد کرنا بھی جائز ہے۔ (دیکھئے مجموع الفتاویٰ: ۲۵؍۸۲،۸۳)
اس لئے متاخرین میں سے اکثر علما نے اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کے قول کو ترجیح دی ہے کیونکہ نقد رقم سے ضرورت جس طرح پوری ہوتی ہے، دوسری اشیا سے نہیں ہوتی، اور غریبوں کو صرف خوراک ہی کی ضرورت نہیں ہوتی، بعض اوقات انہیں کھانے پینے سے زیادہ لباس یادوا کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
صدقہ فطر کی جگہ غذائی اشیا کے کوپن تقسیم کرنا؟
سوال 25:کیاغذائی اشیا دینے کے بجائے یہ جائز ہے کہ اسلامی مرکز مسلمانوں سے ایک اندازے کے مطابق صدقہ فطر کی نقد رقم وصول کرلے۔ پھر غذائی اشیا کے دکان داروں کے تعاون سے ایسے کارڈ یا کوپن جاری کرے جو غریبوں اورمسکینوں کو دے دیے جائیں، تاکہ وہ ان کے ذریعے جب چاہیں اپنی ضرورت کے مطابق غذائی اشیا حاصل کرسکیں؟
جواب:اس تصور میں غالباً دو اجتہاد جمع ہوگئے ہیں جو اس مسئلہ میں وارد ہیں۔ اس سے یہ تسلی بھی ہوجاتی ہے کہ صدقہ فطر کی رقم صرف غذائی اشیا پر صرف ہو جیسے اکثر فقہا کا قول ہے، اس کے ساتھ ساتھ غذائی اشیا کے انتخاب کی اور ضرورت کے وقت میسر آنے کی سہولت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ غریب آدمی کے پاس غلے کاڈھیر لگ جائے جس کی اس کو ضرورت نہ ہو، یا ضرورت ہولیکن دوسری اشیا سے کم ضرورت ہو، اور بجائے اس کے غریب آدمی کے پاس اتنا غلہ جمع ہوجائے جسے سنبھالنا اور سٹور کرنا اس کے لئے مشکل ہو، اس تصور سے یہ موقع ملتا ہے کہ غلہ اُٹھائے پھرنے کی بجائے وہ یہ کوپن لے لے جن سے وہ اپنی مرضی کے مطابق، اور ضرورت کے وقت کھانے پینے کی چیز حاصل کرسکتا ہے۔ اس طرح وہ نہ ان غذائی اشیا کو وصول کرنے پر مجبور ہوتا ہے جن کی اسے ضرورت نہیں، نہ اس وقت وصول کرنے پر مجبور ہوتا ہے جب اسے ضرورت نہیں ہوتی۔ اور پھر غذائی اشیا کے دائرہ سے باہر بھی نہیں نکلتا، جبکہ صدقہ فطر کے مسئلہ میں اکثر فقہا اس دائرہ تک محدود رہتے ہیں۔ اس طرح صدقہ فطر کا مقصود کامل ترین انداز سے پورا ہوجاتا ہے۔ اور کسی معاملہ میں جب شارع کا مقصود معلوم ہو، تو اس کو حاصل کرنے کے لئے وہ راستہ اختیار کرنا چاہئے جس سے اس کا حصول زیادہ ممکن ہو۔ واللہ أعلم
صدقہ فطر کے مال سے کپڑوں کی تقسیم کردینا؟
سوال 26: کیا صدقہ فطر کی رقم سے کپڑے خرید کر ان افراد یا خاندانوں کو دیے جاسکتے ہیں جن کے پاس ضرورت کے مطابق لباس نہیں ہے؟
جواب:اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ہم خیال علما کا قول پیش نظر رکھا جائے، جو صدقہ فطر میں قیمت ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں اور اس مقام پر اس اجتہاد کا اعتبار کیاجاسکتا ہے تو اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ غریب آدمی کو اس رقم کا مالک بنا دیا جائے اور وہ اپنی مرضی سے حسب ِضرورت اسے خرچ کرے۔ سواے اس صورت کے کہ یہ غریب لوگ یتیم بچے ہوں یا کم عقل ہوں اور صدقہ فطر کا منتظم ہی ان کا سرپرست ہو۔ لیکن یہ فرض کرلینا کہ تمام حاجت مند کم عقل ہیں، جن کے معاملات کے نگران اور ان کی طرف سے ان کے مال میں تصرف کرنے والے وہی ہیں جوصدقہ فطر اداکرنے والے ہیں، تو یہ سوچ درست نہیں، واللہ أعلم
صدقہ فطر کو عید سے چندروز قبل تقسیم کرنا؟
سوال 27:کیا یہ جائز ہے کہ صدقہ فطر شریعت کی طرف سے مقرر کردہ وقت سے پہلے ہفتہ وار چھٹی کے دن تقسیم کردیاجائے۔ کیونکہ اس دن رضا کارانہ کام کرنے والے افراد زیادہ تعداد میں مل سکتے ہیں، جو کسی دوسرے وقت دستیاب نہیں ہوتے؟
جواب:صدقہ فطر کا اصل مقصد یہ ہے کہ عید کے دن غریبوں کو مانگنے کی ضرورت نہ رہے، لہٰذا یہ صدقہ ان تک اس انداز سے پہنچنا چاہئے کہ یہ مقصد حاصل ہوجائے۔ اسے نمازِ عید سے موخر کرنا جائز نہیں کیونکہ نبیﷺ نے حکم دیا ہے کہ وہ نمازِ عید کے لئے نکلنے سے پہلے ضرور ادا کردیاجائے اور فرمایا: ''جس نے اسے نماز سے پہلے ادا کیا تو یہ مقبول صدقہ ہے، اور جس نے نمازِ (عید) کے بعد ادا کیا، تووہ صدقوں میں سے ایک (عام) صدقہ ہے۔''
اس کی ادائیگی نمازِ عید سے متصل پہلے یعنی فجر کی نماز اور عید کی نما زکے درمیان بھی ہوسکتی ہے بلکہ عید کی رات کو بھی ہوسکتی ہے۔ اسے عید سے ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے جیسے ابن عمرؓ سے مروی ہے اور یہی عام فقہا کی رائے ہے۔ بعض علماکے قول کے مطابق آدھا مہینہ پہلے بلکہ مہینے (رمضان) کے شروع میںبھی درست ہے۔ میرے خیال میں اس امر کا تعلق صدقہ فطر کے شرعی مقصد سے ہے اور وہ مقصد ہے عید کے دن حاجت مندوں کو مانگنے کی ضرورت نہ رہنے دینا۔ چونکہ عید سے پہلے ادا کرنے سے بھی یہ مقصدحاصل ہوجاتا ہے، اس لئے اس معاملے میں گنجائش ہے۔ واللہ أعلم
چندے کے ڈبوں میں صدقہ فطر کی رقم کی تقسیم؟
سوال 28:اسلامی مراکز صدقہ فطر کی اس رقم کاکیا کریں جو مسلمان، نمازِ عید سے پہلے چندے کے ڈبوں میں ڈال دیتے ہیں؟
جواب:اس رقم کو شرعی مصارف میں ہی خرچ کرنا چاہئے۔ صدقات کی تقسیم کے عام معروف اُصول و ضوابط کے مطابق وہ رقم غریبوں اور مسکینوں کی ملکیت میں دی جائے، اوران کی تقسیم عید کے دن سے مؤخر نہیں کرنی چاہئے، البتہ اس قدر تاخیر ہوسکتی ہے جس میں مستحقین تک رقم پہنچانے کا بندوبست کیاجاسکے۔
دعوت وتبلیغ اور مساجد سے متعلقہ مسائل
مسجد میں غیرمسلم کو خطاب کی اجازت؟
سوال 29: کیاغیر مسلموں کومسجد میں آنے کی دعوت دی جاسکتی ہے تاکہ وہ بعض اہم معاملات کے بارے میں مسلمانوں سے خطاب کریں یا اس لئے کہ اُنہیں مسلمانوں کی ضروریات سے آگاہ کیاجائے؟ اگر خطاب کرنے والی کوئی خاتون ہو تب کیا حکم ہے؟
جواب:غیر مسلموں کو مسلمانوں کے اجتماعات میںدعوت دینے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے :
اگر اس میں مسلمانوں کا واضح فائدہ ہو، اس کے مقابلے میں کوئی اس سے بڑی خرابی نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، تاہم خرابیوں کو حسب ِاستطاعت کم کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ بالخصوص جب لیکچر دینے والی کوئی خاتون ہو، تو فتنہ کے اسباب کم کرنے میں اجتہاد کرنا چاہئے۔ نشستوں کو اس انداز سے ترتیب دیا جائے کہ ممکن حد تک اختلاط کم سے کم ہو۔
اس کی مثال یہ ہے کہ بعض علاقوں میں متعصب غیر مسلموں کی طرف سے مسلمان افراد پر تشدد کے واقعات کے بعدبعض افسر اور ذمہ دار افراد تشدد کے ان واقعات پر احتجاج کرنے اور مجرموں کی مذمت کرنے کے لئے، یامسلمانوں کے قانونی حقوق واضح کرنے کے لئے، اور زیادتی وغیرہ کے موقع پر دفاع کے طریقے بتانے کے لئے آتے ہیں یا کوئی ایسا دنیوی علم سکھانے کے لئے آتے ہیں جو مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہے، تو اس قسم کے معاملات میں تعاون کرنا چاہئے۔
اگر اس میں دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے فائدہ ہو، اور اس کے ساتھ کوئی اس سے بڑی خرابی نہ ہو، تو بھی اس میں حرج نہیں۔ جب کہ ایسے پروگرام منعقد کرانے والوں کی نیت شروع میں بھی نیک ہو اور بعد میں بھی ہمیشہ نیک رہے۔ جب کہ اس سلسلے کا اصل مقصد اللہ کی طرف بلانا، اور اسلام کو دوسرے مذاہب سے برتر ثابت کرنا ہو۔ اس کی مثال وہ مناظرے ہیں جو مسجدوں اور کلیساؤں میں ہوتے ہیں تاکہ حق واضح ہو، اور حجت قائم ہو۔ اس مقصد کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے ہونے والی ملاقاتیں اور دوسری ملاقاتیں جن کا تعلق تبلیغ اور اس کے پروگراموں سے ہو، وہ سب اس میں شامل ہیں۔
ان فوائد کا اندازہ لگانا مسجد کے اہل حل و عقد کا کام ہے۔باقی افراد کو ان کاساتھ دینا چاہئے، اور انہیں بہتر مشوروں سے نوازنا چاہئے، کیونکہ ایسے معاملات میں اکثر غلط فہمیاں اور لغزشیں ہوجایا کرتی ہیں۔ ان سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے، جسے اللہ محفوظ رکھے۔
اگر ان اجتماعات میں مذکورہ بالا فوائد نہ ہوں، بلکہ ان کامقصد محض غیر مسلموں سے میل ملاپ بڑھانا، ان کااحترام کرنا، اور ان سے محبت کا اظہار کرنا ہو، جب کہ اس میں مسلمانوں کاکوئی واضح فائدہ نہ ہو، اور دعوت و تبلیغ کا بھی کوئی واضح فائدہ نہ ہو، تو یہ بنیادی طور پرممنوع ہیں۔ اس کی دلیل ان نصوص کاعموم ہے جو مؤمنوں سے محبت رکھنے کا حکم دیتی ہیں اور کافروں سے دلی دوستی کرنے، اور مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو ہم راز بنانے سے منع کرتی ہیں اور اس لئے بھی کہ مسجدوں کا احترام برقرار رکھنا واجب ہے۔ واللہ أعلم
غیر مسلم خواتین کی نامناسب لباس میں مسجد میں آمد؟
سوال 30: اگر ہم غیر مسلموں کو مسجد میں آنے کی دعوت دیں تو ان عورتوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو نامناسب لباس پہن کر مسجد میں آجائیں گی، اسی طرح مردوں اور عورتوں کے اختلاط کا مسئلہ بھی پیش آئے گا؟
جواب:اسلام کی دعوت دینا فرض ہے، جس کو ترک کرنا کسی طرح جائز نہیں، اور دعوت کا طریقہ ہے: دوسروں سے رابطہ قائم کرنا، ان کو اپنی بات سنانا، اور ان کی بات سننا، اور ان سے براہِ راست میل جول رکھنا اور غیرمسلم جب تک اپنے غلط مذہب پر قائم ہے، اسے اسلامی شریعت کے مطابق پردہ کرنے کا اور اپنی عزت کا خیال رکھنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک عارضی خرابی ہے، اس پر صبر کریں اور اسے کم کرنے کی کوشش کریں، خرابی کم کرنے کے چند طریقے مندرجہ ذیل ہیں :
1. ان کو نرمی سے سمجھایاجائے کہ مسجدمیں آنے کے آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ان آداب میںباپردہ اور باوقار لباس پہننا، اور تہذیب سے گری ہوئی بات چیت نہ کرنا بھی شامل ہے۔
2. اس دعوت کے لئے ایسا وقت مقرر کیا جائے کہ وہ افراد شامل نہ ہوں، جن کے اختلاط اور بے پردگی سے متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔
3. مسجد میں ٹھہرنے کا وقت مختصر رکھا جائے۔ مثلاً وہ مسجد کی سرسری زیارت کریں، پھر سب کو اس مقصد کے لئے مختص ہال میں ہی چلنے کی دعوت دی جائے، جو نمازیوں سے الگ ہو، تاکہ ایک طرف تو مسجد کا احترام قائم کرے، دوسری طرف فتنہ کے ذرائع محدود ہوجائیں۔
4. جگہ کو اچھے انداز سے ترتیب دیاجائے، تاکہ جو ڈسپلن قائم رکھنا ممکن ہے وہ جہاں تک ہمارے اختیار میں ہے، زیادہ سے زیادہ قائم رکھا جاسکے۔
مسجد میں موسیقی والی اسلامی فلمیں دکھانا؟
سوال 31:ہماری مسجد کی ایک سرگرمی یہ بھی ہے کہ یہاں ہرجمعہ کی شام مسلمانوں کوکوئی ویڈیو فلم دکھائی جاتی ہے۔ ان میں سے فلمیں بہت مفید ہوتی ہیں لیکن ان میںبیک گراؤنڈ میں تصویریں، موسیقی یابے پردہ عورتوں کی تصویریں موجود ہوتی ہیں، کیاایسی فلمیں اس ہال میں دکھائی جاسکتی ہیں جس میں نماز ادا کی جاتی ہے؟ اگر دوسرے کمرے میں دکھائی جائیں، جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی، تو کیاحکم بدل جائے گا؟
جواب:اُصول یہ ہے کہ مسجدوں کو حرام اور مشتبہ کاموں سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ انہیں اللہ کی عبادت اور اطاعت کے کاموں کے لئے مخصوص رہنا چاہئے۔ اس بات کا ان مساجد میں زیادہ خیال رکھنا چاہئے، جہاں سے لوگ دین سیکھتے ہیں، اور جن میں ہونے والی کاموں کی اقتدا کرتے ہیں۔
فلموں کے معاملے میں دو پہلوقابل غور ہیں:
ایک پہلو یہ ہے کہ ان میں جو تصویریں ہوتی ہیں، یا ان کے لئے جوتصویریں کھینچنا پڑتی ہیں، یہ ٹیلیویژن کے معاملے میں محل نظر ہیں۔ ہمارے دین میں یہ بذاتِ خود حرام نہیں کیونکہ یہ ان صورتوں سے قریب ہیں جو آئینے میں نظر آتی ہیں یا پانی میں دیکھنے سے نظر آتی ہیں۔a
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان میں بعض خلافِ شریعت چیزیں پائی جاتی ہیں، جیسے سوال میں اشارہ کرتے ہوئے بے پردہ عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے، یا ان فلموں کے ساتھ بعض اوقات تصویری موسیقی پائی جاتی ہے تو یہ واضح طور پر غلط کام ہے۔ پہلی چیز (بے پردہ عورتوںکی تصویروں کی حرمت) کے بارے میں تو اجماع ہے۔ دوسری چیز (تصویری موسیقی) کے بارے میں کم از کم جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مشتبہ ہے۔ یعنی ہمارے سامنے ایسی چیز آگئی ہے جس میں فائدہ اور خرابی دونوں موجود ہیں۔ اگر اس کا فائدہ واضح اور غالب ہو تو ان فوائد کے حصول کے لئے ان کی اجازت bدی جاسکتی ہے اور اس کی خرابیوں کوختم یا کم کرنے کے لئے مسلمان حسب ِطاقت اللہ کاتقویٰ پیش نظر رکھے۔ مثلاً جب بے پردہ عورتوں کی تصویریں آئیں تو نظر جھکالے اور جب موسیقی آئے تو اسے توجہ سے نہ سنے۔ البتہ احتیاط اسی میں ہے
کہ جس شخص کے لئے ممکن ہو وہ ان سب چیزوں سے بچ کر رہے۔ جب کوئی ایسی فلم دکھانے کی ضرورت پڑے توچاہئے کہ وہ حتیٰ الامکان مسجد اور اس سے تعلق رکھنے والی عمارت سے الگ جگہ میں دکھائی جائیں تاکہ اللہ کے گھر نامناسب اُمور سے محفوظ رہیں اور ان کا وقار قائم رہے۔ واللہ اعلم
بچوں کے لئے اسلامی فلموں میں موسیقی؟
سوال 32: بچوں کے لئے اسلامی کارٹون فلمیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر صورتوں میں موسیقی پائی جاتی ہے کیا مسلمان کے لئے جائز ہے کہ بچوں کو یا سکول کے طلبہ کو یہ فلمیں دکھائے؟
جواب:ضروری ہے کہ ایسے متبادل تلاش کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے جن میںموسیقی نہ ہو۔ یا ان فلموں کو موسیقی سے پاک کرنے کے لئے کسی ماہر فن کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اگر نہ یہ ممکن ہو نہ وہ، اور کوئی ایسی متبادل تلاش کرنا ممکن نہ ہو جس میں پوری طرح شرعی حدود کی پابندی کی گئی ہو، تو یہ ایسی صورت ہے جس میں مصالح اور مفاسد (فوائد اور خرابیاں) دونوں موجود ہیں؛ ہماری رائے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ مغربی فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہ بچوں کے اَذہان پر اثرانداز ہورہی ہیں، اور اُمت ِمسلمہ اس کے مقابلے میںموسیقی سے پاک متبادل پیش نہیں کرسکی، تو ان کو استعمال کیاجاسکتا ہے، لیکن بچوں کو سمجھا دیا جائے کہ موسیقی حرام ہے، اوران(موسیقی والی فلموں) کا استعمال عارضی طور پر کیا جارہا ہے، اور یہ شرعی اُصولوں کے خلاف ہے۔ اس لئے ان کا استعمال صرف اس وقت تک ہوگا، جب تک مناسب متبادل میسرنہ آجائے، جس میں شرعی حدود کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہو۔ واللہ أعلم
چھوٹی عمر کی لڑکی کا مسلمانوں سے خطاب؟
سوال33:کیا چھوٹی عمر کی لڑکی باپردہ ہوکر عوام سے براہِ راست خطاب کرسکتی ہے؟
جواب:گذشتہ سوال کے ضمن میں اس کا جواب موجود ہے۔ تاہم مختصر طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر خطاب کرنا ضروری ہو اور یہ ضرورت خود ساختہ نہ ہو اور نوجوان لڑکی خطاب کے دوران پردے کو اور اسلامی آداب کو ملحوظ رکھ سکے تو کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
اختلاطِ مردوزن اور غیر مسلموں سے میل جول
نوجوان مرد ، نوجوان عورت کو ٹیوشن پڑھا سکتا ہے؟
سوال34:کیا مرد بالغ عورتوں کو عربی زبان کی تعلیم دے سکتا ہے جب کہ کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ؟ اگر جائز ہے تو کیا غیرمسلم عورتوں کوتعلیم دینے کا حکم بھی یہی ہے؟
جواب:مرد کے لئے بالغ عورتوں کو تعلیم دینے میںکوئی حرج نہیں، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ بشرطیکہ تنہائی اختیار نہ کی جائے اور فتنہ کاخوف نہ ہو۔ بہتر یہ ہے کہ یہ فریضہ بڑی عمر کے بوڑھے مرد ادا کریں اورجوان یہ منصب نہ سنبھالیں۔اس سے فتنہ کا راستہ بند ہونے کی زیادہ اُمید ہے اور شکوک و شبہات پیدا ہونے کا امکان کم ہے۔ وا ﷲ اعلم
سوال 35: کیا (غیرمسلم) مذہبی رہنماؤں کو نمازِ جمعہ کے موقع پر لیکچر کی دعوت دیناجائز ہے؟
جواب:اس کا جواب سوال نمبر۲۹کے ضمن میں آچکا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُصولی طور پر تو یہ کام ممنوع ہے کیونکہ قرآن کی آیات کافروں سے دوستی کرنے اور انہیں ہم راز بنانے سے منع کرتی ہیں، اور یہ صورت ا س ممانعت کے تحت آتی ہے۔ علاوہ ازیں مسجدوں کو شرک اور مشرکوں سے بچانا بھی ضروری ہے۔ اس ممانعت سے صرف وہ صورت مستثنیٰ ہوگی جس میں مسلمانوں کا واضح فائدہ ہو، یا اس میں دعوت و تبلیغ کے لحاظ سے واضح فائدہ ہو، اور اس کے ساتھ کوئی زیادہ بڑی خرابی نہ پائی جاتی ہو۔ اس کا موازنہ کرنا ان اہل حل و عقد کا کام ہے جو اس مقام پر موجود ہیں اور حقیقی صورتحال سے آگاہ ہیں۔ واللہ أعلم
عورتوں کے لئے 'کیئر' جیسی تنظیموں میں شرکت کا حکم؟
سوال 36: عورتوں کیلئے 'کیئر' جیسی تنظیموں میں شریک ہونے کا حکم اور قواعد و ضوابط کیا ہیں؟
جواب:'کیئر' تنظیم اس لئے قائم کی گئی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرے، اس ملک میں نسلی امتیاز اور نفرت کے جذبات کے نتیجے میں ہونے والے مظالم سے بچایا جائے۔ اس کے پیش نظر اچھے مقاصد ہیں۔ ان کے حصول کے لئے جس شخص کو طاقت حاصل ہے، اس کا شریک ہونا نیکی کا کام ہے، جس پراللہ کی طرف سے ثواب کی اُمید ہے۔ دوسری تنظیموں کی طرح اس تنظیم میںشامل ہونے کے لئے شرعی اُصول و ضوابط موجود ہیں، جن کی پابندی کرنامردوں اور عورتوں پر برابر فرض ہے۔ عورتوں کے لئے یہ ضوابط مندجہ ذیل ہیں:
ا۔ شرعی پردے کی پابندی
ب۔ غیر محرموں کے ساتھ تنہائی میں ملاقات سے اور محرم کے بغیر سفر سے اجتناب
ج وقار اور سنجیدگی قائم رکھنا، وقار کے منافی حرکات اور اندازِ کلام سے اجتناب
د اس کے نتیجے میں دوسرے فرائض کی ادائیگی متاثر نہ ہو، جن کی فرضیت زیادہ مؤکد، اور جن کی ادائیگی زیادہ ضروری ہو۔
'فی جل' میں مسلمانوں کی شرکت؟
سوال 37: کیا مسلمانوں کو فیجل میں حاضر ہونے کی دعوت دینا جائز ہے؟
جواب:ظاہر ہے کہ 'فی جل' میں عیسائیت کی مذہبی بنیادیں موجود ہیں۔ اس لئے یہ دو وجہ سے ممنوع ہے: ایک اس لئے کہ یہ غیر مسلموں سے مشابہت ہے۔ دوم اس لئے کہ یہ بدعت عبادت میں، اور باطل مذہب کے دینی اعمال میں شامل ہے۔ لہٰذا مسلمان کو اس قسم کی تقریبات میں حاضرنہیں ہوناچاہئے۔
اس مقام پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک تو یہ تقریبات ہیں جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے منعقد کی جاتی ہیں۔ دوسری وہ تقریبات ہیں جن میں دوسرے مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں اور ضمناً یہ چیز بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس تقریب کا بنیادی مقصد یہ نہ ہو، اور ان میںحاضر ہونے میں مسلمانوں کا کوئی واضح مفاد ہو تو ان میں حاضر ہونا جائز ہے۔ لیکن جب مذہبی رسوم ادا کی جائیں تو مسلمان ان سے الگ رہیں۔اس طرح فائدہ بھی حاصل ہوجائے گا اور خرابی سے بچاؤ بھی ہوجائے گا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کسی نے ایسا اجلاس بلایا ہے جس میں مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کے افراد شامل ہیں، اور وہ لوگ اس اجلاس میں مسلمانوں پرہونے والے ظلم و تشدد کی مذمت کرنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمان اس جلسہ سے غیر حاضر نہیں رہ سکتے جو منعقد ہی ان کے لئے کیا گیا ہے، وہاں وہ اپنا مسئلہ تفصیل سے بیان کرسکتے ہیں اور الزامات کاجواب دے سکتے ہیں۔ اگر اس پر وگرام میں مذہبی عمل کی کوئی شق موجود ہو، تو غیر مسلموں کے اس کی ادائیگی کے وقت مسلمان اس سے اجتناب کریں۔
غیر مسلموں کی قومی تقریبات میں شرکت ؟
سوال 38: کیا قومی تقریبات مثلاً مارٹن لوتھر کے یومِ پیدائش کی تقریبات میں اس مقصد کے لئے شرکت جائز ہے کہ معاشرے میں مسلمانوں کے وجود کا احساس دلایا جائے؟
جواب:عید اور جشن مذہبی اعمال میں شامل ہیں۔ مسلمان کو مسلمانوں کے ملک کے اندر بھی اور باہر بھی صرف شرعی عیدیں، یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی منانا چاہئیں۔ اس سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ اسے کسی یقینی یاغالب شر سے بچنے کے لئے ان پر حاضر ہونا پڑے۔ یا اس کا مقصد محض تبلیغ و دعوت کا ایسا کام ہو جو صرف ان تقریبات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان جشنوں اور تقریبات میںسے جس کی بنیاد مذہبی تصورات پرہو، ان کے بارے میں یہی قطعی فیصلہ ہے۔ باقی رہیں قومی تقریبات، تو ان کا معاملہ نسبتاً نرم ہے اور یہ اُصول قائم رہے گا کہ بنیادی طور پر غیر مسلموں کے جشنوں اور تقریبات میںشرکت سے اجتناب ضروری ہے، سوائے اس مقام کے، جہاں یقینی یا غالب شر سے بچنا، یادعوت و تبلیغ کاواضح فائدہ حاصل کرنامقصود ہو۔ واللہ اعلم
اپنے غیرمسلم خاندان کی سالگرہ تقریب میں شرکت؟
سوال 39:جس شخص نے اسلام قبول کرلیا ہے کیا وہ اپنے خاندان کے غیر مسلم افراد کی سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں شریک ہوسکتا ہے جب کہ اس کا مقصد ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات قائم رکھنا ہو؟
جواب:سالگرہ بنیادی طور پر ایک مذہبی تقریب ہے۔ ا س میں شریک ہونا باطل اور گناہ والے قول و عمل میں شریک ہونا ہے اور انہیں قائم رکھنے میں تعاون ہے۔ جبکہ یہ تقریب منانا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ثُمَّ جَعَلنـٰكَ عَلىٰ شَريعَةٍ مِنَ الأَمرِ فَاتَّبِعها وَلا تَتَّبِع أَهواءَ الَّذينَ لا يَعلَمونَ ﴿١٨﴾... سورة الجاثية ''پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راہ پرقائم کردیا، سو آپ اس پر قائم رہیں، اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں۔''
رشتہ داری کا نیکی اور صلہ رحمی کا حق ادا کرنے کے لئے اس کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کئے جائیں جنہیں اللہ نے اور اس کے رسولؐ نے جائز قرار دیا ہے۔ دعوت وتبلیغ کا یہ حق بھی باقی رہتا ہے کہ انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے اور اسلام سے مانوس کرنے کے لئے ہر قسم کاجائز طریقہ اختیار کیاجائے۔ مذہبی تقریبات اور مذہبی رسوم میں شریک ہونا ان جائز طریقوں میں شامل نہیں۔
سالگرہ کے علاوہ کسی اور موقع پر مثلاً چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ملاقات کے لئے چلے جانے میں کوئی حرج نہیں، جس کامقصد صلہ رحمی ہوگا، نہ کہ ان کی تقریب میں شرکت اور اس کی مبارکباد دینا۔ یہ ملاقات وغیرہ اس رات کے گزر جانے کے بعد ہوگی، جس میں وہ یہ تقریب منعقد کرتے ہیں۔ کوئی ایسا تحفہ لے جانا بھی جائز ہے جس کا اس تقریب سے کوئی تعلق بظاہرنہ ہو۔ بلکہ اس ملاقات کی حیثیت ایک ملاقات کی ہوگی۔ اور یہ تحفہ بھی ایک عام تحفہ ہوگا، جیسے کوئی شخص طویل عرصہ کے بعد ملاقات کے موقع پر لے جاتاہے۔ واﷲ أعلم
مغربی معاشرے میں بازاروں میں ملنے والا عام گوشت
سوال 40:مغربی معاشروں میں بازار میں ملنے والا عام گوشت استعمال کرنا کس حد تک جائز ہے؟ اس مسئلہ کی بنا پر بہت جھگڑے پیدا ہورہے ہیں۔ ان معاشروں میں رہنے والے بعض افراد بتاتے ہیں کہ گوشت بیچنے والے بعض مسلمان بہت مہنگا بیچتے ہیں اور دنیاوی غرض کے لئے اور تجارتی مقاصد کے لئے ان فتوئوں کو مشہور کرتے ہیں جو بازار میںموجود عام گوشت کو حرام قرار دیتے ہیں۔
جواب:علماے کرام کااس بات پر تو اتفاق ہے کہ بت پرست، کمیونسٹ اور لادین ممالک میں عام ملنے والاگوشت حرام ہے، تاہم مغربی(عیسائی) ممالک میں پائے جانے والے گوشت کے بارے میں ان کی آرا مختلف ہیں :
بعض حضرات مطلقاً حرام ہونے کے قائل ہیں، ان کے دلائل یہ ہیں: ان میں بعض ممالک میں یہ بات عام معروف ہے کہ وہ معروف شرعی طریقہ سے ذبح نہیں کرتے بلکہ دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں جو ان کے خیال میں جانور پر رحم کرنے کی بہتر صورت ہیں مثلاً فائرنگ کرکے ماردینا، یا بجلی کا جھٹکا دے کر مار دینا وغیرہ اور جو لوگ معروف شرعی طریقہ اختیارکرتے ہیں، وہ بھی پہلے ایسا کوئی کام کرتے ہیں جس سے جانور کی مزاحمت کی قوت کمزور ہوجائے۔ مثلاً کوئی بھاری چیز اس کے سر پرمارنا، یا بجلی کا ہلکا جھٹکا دینا۔ ان میں سے بہت سے جانور انسان کے ہاتھ سے ذبح ہونے سے پہلے ہی مرجاتے ہیں۔
غالب گمان یہ ہے کہ ان جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیاجاتا۔
آج کل کے اہل کتاب عام طور پراِلحاد اور بے دینی اختیار کرچکے ہیں۔
بعض حضرات مطلقاً جواز کے قائل ہیں، ان کے دلائل یہ ہیں:اہل کتاب جانور کو بے روح کرنے کے لئے جو بھی طریقہ اختیار کرتے ہیں، اور ان کے علما اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں، وہ ان کا کھانا ہے۔ جس کو اللہ نے ہمارے لئے حلال قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم...٥﴾... سورة المائدة ''جنہیں کتاب دی گئی، ان کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے۔'' ابن العربی کی کتاب 'احکام القرآن' میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔
اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی شرط یہ نہیں کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیاہو، بلکہ یہ شرط ہے کہ وہ غیرا للہ کے نام منسوب نہ کیا گیا ہو۔
اہل کتاب میں سے جو شخص نصرانیت کو اپنا دین ماننے کامجمل اقرارکرتا ہے،وہ اہل کتاب میں شامل ہے، اس پراہل کتاب کے احکام جاری ہوں گے، خواہ انہوں نے اپنے مذہب میں تحریف کرلی ہو۔
بعض علماء کرام فر ق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا ذبیحہ بنیادی طورپر حلال ہے۔ تاہم اس سے مندرجہ ذیل اشیا مستثنیٰ ہیں:
1. جس جانور کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ اس کو اسلامی طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا۔
2. جسے غیراللہ کے نام منسوب اور مشہور کیا گیا ہو۔
3. جس کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ اسے ذبح کرنے والا بت پرستی یا الحاد کامذہب اختیار کرچکا ہے اور تمام آسمانی مذاہب کا کلیۃ ً منکر ہے۔
ان اجتہادات پر غور کرنے سے ہمیں مندرجہ ذیل اُمور صحیح معلوم ہوتے ہیں :
اہل کتاب کا وہ ذبیحہ جائز ہے جس کاذکر قرآن و حدیث میں ہے، اور جس پر اُمت کا اجماع ہے۔
ان کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ اسے (اللہ کا نام لے کر) ذبح کیا جائے، اوروہ غیر اللہ کے نام کا نہ ہو۔
ہر اس شخص کو اہل کتاب میںشامل سمجھا جائے گا جو خود کو یہودی یا عیسائی کہتا ہے، اور اِجمالی طور پر یہودیت یا عیسائیت کو اپنا دین قرار دیتا ہے۔ وہ اس وقت تک اس صفت کے حامل سمجھے جائیںگے جب تک اس اقرار کے منکر ہوکر مکمل طور پر بت پرستی یا اِلحاد کومذہب کے طور پر قبول نہیںکرتے۔ تثلیث وغیرہ کے غلط عقائد رکھنے کی وجہ سے وہ اس صفت سے (یعنی اہل کتاب ہونے سے) خارج نہیں ہوں گے۔ قرآن میں یہ عقائد رکھنے والوں کو اسی نام سے مخاطب کیا گیا ہے۔
اہل کتاب کا ذبح کیا ہوا وہ جانور، جو شرعی طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا، اسے حلال قرار دینا محل نظر ہے۔ اس بارے میں ابن العربی کے قول پر اعتماد کرنا ضعیف موقف ہے۔کیونکہ ابن العربی سے پہلے کسی عالم نے یہ موقف اختیار نہیں کیا۔ بلکہ خود ابن العربی نے مذکورہ بالا کتاب میں اس فتویٰ کے خلاف بات کی ہے۔ اس لئے بہت سے مالکی علما اسے شاذ قول قرار دیتے ہیں۔ بسطامی نے یہاں تک کہہ دیا ہے:
''کاش ان کا یہ قول موجود نہ ہوتا، اور مسلمانوں کی کتابوں میںدرج نہ کیا جاتا۔''
سوال 41: ان میں سے جس ملک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کے لوگ شرعی طریقے سے ذبح نہیں کرتے حتیٰ کہ ان کے ہاں یہی چیز غالب اور اکثر ہے تو ان کے ذبح کئے ہوئے جانوروں سے پرہیز کرناضروری ہے، کیونکہ احکام کا دارومدار اکثر اور غالب کیفیت پر ہوتا ہے۔ گوشت اور نکاح کے مسائل میںاُصول یہ ہے کہ جس کے جواز کی دلیل ملے، وہی جائز ہوگا، باقی ممنوع رہے گا۔ اس بارے میں آپ کی شرعی رائے کیا ہے؟
جواب:مندرجہ بالاتفصیلات کی روشنی میں اس مسئلہ میں تیسرے فریق کی رائے زیادہ درست ہے، لیکن اس میں اس شرط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ان لوگوں کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا درست نہیں، جن کے ہاں عدمِ ذبح کا عمل زیادہ ہے۔ واللہ أعلم
ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں امریکہ کے ماحول میں مندرجہ ذیل صورت حال ہے :
امریکہ کا اصل قانون یہ ہے کہ ذبح اس طریقے سے کرنا ضروری ہے جس سے خون بہہ جائے۔ یہ قانون بعض طبی اسباب کی بنا پر وضع کیا گیا ہے۔ وہ اس طریقے کے بغیر ذبح کرنے کو جرم قرار دیتے ہیں۔ ان کے ہاں ذبح کرنے کا طریقہ عام طور پر ہمارے شریعت میں معروف ذبح یا نحر ہی میں شامل ہوجاتاہے۔
تمام حیوانات پر کوئی نہ کوئی ایسا عمل کیا جاتاہے جس سے جانور کی مزاحمت کی طاقت کمزور ہوجائے تاکہ ذبح کرنا ممکن ہوسکے۔مثلاً اس مقصد کے لئے اسے ضرب لگائی جاتی ہے یا بجلی کا جھٹکا دیا جاتا ہے۔
یہ ضرب یا جھٹکا بنیادی طور پر جانور کو ہلاک نہیںکرتا، بلکہ اس کی مزاحمت کو کم کرتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی جانور ذبح کرنے والے کا ہاتھ لگنے سے پہلے مرچکے ہوتے ہیں۔ جس جانور کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے، اسے انسان کے استعمال کے قابل گوشت سے الگ کردیاجاتا ہے، لیکن بعض جانوروںکے بارے میں یہ علم نہیں ہو پاتا (کہ وہ پہلے ہی مرچکا تھا)، اور وہ دوسرے جانوروں میںمل جاتے ہیں، اس وجہ سے شبہ پیدا ہوجاتاہے۔
تجربات اور اَعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ ذبح ہونے سے پہلے مرجانے والی مرغیوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ کیونکہ بجلی کاکرنٹ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اس سے جانور مرتا نہیں، سوائے شاذ و نادر تعداد کے۔ اوراتنی قلیل مقدار پرمسئلہ کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔
البتہ دوسرے جانور مثلاً گائیں اور بکریاں چوٹ یا کرنٹ کی وجہ سے زیادہ تعداد میں مرتی ہیں۔ کسی مذبح میں ان کی نسبت کم ہوتی ہے، کسی میں زیادہ۔ بعض ذبح خانوں میں تویہ تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مجموعی طور پر ان ذبیحوں کو حلال قرار دینا مشکل ہوجاتاہے، اور انہیں مشکوک یا حرام کے ذیل میں شامل کردیتاہے۔ اس لئے ان معلومات کی روشنی میں ان ذبیحوں کے حلال ہونے میں شبہ اور اختلاف پیدا ہوگیاہے۔
شبہ کی وجہ سے اس مسئلہ میںدو عموم باہم متعارض ہیں: ایک تو یہ عموم ہے کہ اہل کتاب کے تمام ذبیحے حلال ہیں، سوائے اس خاص جانور کے، جس کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ وہ مردار ہے۔ دوسرا عموم یہ ہے کہ ہر گوشت کھانا اور ہر عورت سے نکاح کرنا حرام ہے سوائے اس کے جس کے حلال ہونے کی دلیل مل جائے۔ قدیم اور ہم عصر علما میں دونوں اقوال کے قائل موجود ہیں۔
اس سلسلے میں جو بات ہمیں صحیح معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس قسم کا گوشت کھانا شبہ کے دائرہ میں داخل ہے۔ لہٰذا تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اس سے پرہیز کیاجائے، تاہم یہ حرمت کی سطح تک نہیں پہنچتا۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کی بنا پر، یا کسی دوسرے عالم کی رائے کی بنا پر اس رائے سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے برا نہیں کہا جاسکتا۔ واللہ أعلم
جب صورتِ حال یہ ہو، اور مسلمان کے لئے ممکن ہو کہ وہ شبہ سے بچ سکے اور مسلمانوں کی مارکیٹ سے ایسا گوشت خرید سکے جس کے حلال ہونے کا یقین ہو، پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ دوسرا (مشکوک) گوشت استعمال کرے؟ وہ ایسا کیوں نہیں کرتا کہ ایک طرف تو تقویٰ کی، اور اختلاف سے بچنے کی نیت رکھے، دوسری طرف غیر مسلم ممالک میں قائم اسلامی منصوبوں کی امداد اور ان کو کامیاب کرنے کی کوشش کی نیت رکھے؟ اس طرح اللہ تعالیٰ اسے دگنا ثواب دے گا، اور اسے اللہ کی دگنی رحمت حاصل ہوگی۔
یہاں ان معاشروں میں مسلمان کا روباری افراد کے لئے ایک نصیحت کرنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس قسم کے معاشرے میں یہ بھی ایک بہت بڑی نیکی بلکہ جہاد ہے کہ بہت زیادہ منافع نہ لیا جائے۔ اجنبی دیس میں رہنے والے مسلمانوں پر نرمی کی جائے، او ریہ کوشش کی جائے کہ وہ اسلامی منصوبوں سے محبت رکھیں اور یہ بالکل حلال نہیں کہ وہ مسلمانوں کی دین سے محبت اور نبی علیہ السلام کی پیروی کی خواہش سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اور ان سے ایسے نرخ وصول کریں جن سے وہ خوش نہ ہوں۔
داڑھی کاحکم؟
سوال 42: میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں داڑھی کا کیا حکم ہے؟
جواب:داڑھی رکھنا واجب ہے۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جنہیں فطرت قرار دیا گیا ہے اورشعائر ِاسلام میں سے ہے۔ بہت سی صحیح اور صریح حدیثوں میں اسے بڑھانے کا حکم آیا ہے۔ صیغہ امر کے بارے میں اُصول یہ ہے کہ اس سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی قرینہ دوسرے مفہوم کی طرف اشارہ کررہا ہو۔ اس لئے جمہور علما نے داڑھی بڑھانا واجب قراردیا ہے اور اسے منڈوانا گناہ اور نافرمانی قرار دیاہے۔ مسلمان کو یہ کام نہیںکرنا چاہئے سوائے اس کے کہ وہ انتہائی مجبور ہوجائے۔ جس طرح ممنوع اُمور کامعاملہ ہے کہ ان کا جواز صرف شدید مجبوری کی حالت میںہوتاہے، مسلمان مرد کو چاہئے کہ ایسی مجبوری کو جلد ازجلد ختم کرنے کی کوشش کرے۔
کسی کی وفات پر کیا کرنا چاہئے؟
سوال 43:میرے خاوند کے ساتھ ترکی کا ایک عالم آدمی کام کرتاہے۔ آج صبح وہ کام پرنہ آیا، اور اس نے ہمیں اطلاع دی کہ اس کا بڑا بیٹا فوت ہوگیا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس کا بیٹا وفات پاگیاہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے کچھ پھول وغیرہ بھیجیں۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ اس حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیونکہ اسلام کے بارے میں ہماری معلومات محدود ہیں۔ اس موقع پر اس سے اور اس کے گھر والوں سے تعزیت اور اظہارِ افسوس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:سب سے پہلے تو میں آپ کے نیک جذبات پر آپ کی تحسین کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اس سے فون پر رابطہ کرسکتے ہیں اور اسے اچھے الفاظ کے ساتھ تسلی تشفی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کرسکتے ہیں۔ اور اس کے بیٹے کے لئے بخشش اور جنت کی دعا کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی دلجوئی کے لئے کچھ رقم بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ کسی قریبی مقام پر رہتے ہیں تو اس کے لئے اور اس کے گھر والوں کے لئے کھانا بھیج سکتے ہیں، کیونکہ مرحوم کے گھر والے جنازہ وغیرہ میںمشغول ہونے کی وجہ سے کھانا تیار نہیں کرسکتے۔ اس لئے اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ اس حال میں ان کے لئے کھانا تیار کیاجائے۔
انتخابات میں حصہ لینے کا حکم؟
سوال 44: انتخابات میں حصہ لینے کاکیا حکم ہے؟
جواب:دین کی تائید اور مسلمانوں کے لئے بعض فوائد کے حصول کے لئے سیاست میں حصہ لے کر انتخابات میں شریک ہونا، اور بعض امیدواروں کو ووٹ دینا حالات پراثر انداز ہونے کی ایک صورت ہے جس کا مقصد حالات کو کلی یا جزوی طور پر تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اس کا فیصلہ فوائد اور خرابیوں کے موازنہ کے اُصول کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہئے۔لہٰذا زمان و مکان اور حالات کے لحاظ سے فتویٰ تبدیل ہوجاتا ہے۔ دوسرے اعمال کی طرح اس کے مشروع ہونے کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہے اور کچھ ممنوعہ اُمور سے بچنا ضروری ہے، تاکہ یہ عمل صحیح طریقے سے پورا ہوسکے۔
مذکورہ بالا انداز کا سیاسی عمل، ان قوانین اور نظام ہائے عمل کی روشنی میں، جن پر مسلم ممالک میں یا ان سے باہر عمل کیاجاتاہے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بعض فوائد کے حصول، بعض خرابیوں کے ازالہ اور بعض مظالم کے خاتمہ کے لئے جزوی تبدیلی لانے کاایک راستہ ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے ذریعے مکمل تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور وہ اسلامی نظام قائم کیا جاسکتا ہے جو واقعۃ ً مطلوب ہے۔ ترکی اور الجزائر میںپیش آنے والے بعض واقعات غالباً اس کی ایک واضح دلیل کے طورپرپیش کئے جاسکتے ہیں۔
اسلامی ذہن رکھنے والے بعض افراد کا سیاسی عمل میں حصہ لینا اور اس سلسلے میں دوسرے افراد کا ان کی مدد کرنا درست ہے جب کہ اس کے فوائد اس کے نقصانات سے زیادہ ہوں۔ بشرطیکہ ساری کی ساری جدوجہد اسی مقصد (یعنی انتخاب میں کامیاب ہونے) کے لئے نہ ہوجائے، اور کارکنوں کے ذہن میں یہ بات نہ بیٹھ جائے کہ مطلوبہ تبدیلی کے لئے صر ف یہی طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، اور اس کی وجہ سے یہ کام کرنے والوں میں اختلاف اور گروہ بندی پیدا نہ ہوجائے، اور ایک پارٹی کو دوسری پارٹی پرترجیح دینے کے بارے میں ان کا موقف ایک دوسرے کے خلاف نہ ہو اور اس کی وجہ سے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا کام کم نہ ہوجائے۔
مغرب میں سیاسی کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک سیاسی منشور پر اتفاق ہو، جس میں وہ کم ا زکم مطالبات اور مقاصد بیان کئے جائیںجو معقول بھی ہوں اور اس معرکہ آرائی کے ماحول میں ان کو پورا کرنا ممکن بھی ہو، اور ضروری ہے کہ ایک تنظیم موجود ہو جو اس پہلو سے مسلمانوں کی نمائندگی کرے، اور وہی ان کی طرف سے بات چیت اور مذاکرات کرے تاکہ ا ن میں انتشار پیدا ہوکر وہ بے وقعت نہ ہوجائیں۔
مسلمانوں کی جدوجہد میں جب تک یہ چیزیں نہ پائیں جائیں گی۔ تب تک اس میدان میں ان کی کوشش ناقص رہے گی، جن پر کسی حق کے حصول یا زیادتی سے بچاؤ کے لئے بہت زیادہ انحصار نہیں کیاجاسکے گا۔
کتابچہ شائع کرنے کا اعلان محدث کی ۵ سالہ سی ڈی
ویب سائٹ پر سوالات کی سروس
مجمع فقہاء الشریعۃ بأمریکا Assembely of Muslim Jurists of America
8909 Tonbridge Ter, Adelphi, Maryland 20783, USA Tel: 301 474 7400 Fax: 301 982 1813
Mailing Address: P.O. Box: 777, College Park, Mary Land 20741 E-mail: amjafatwa@yahoo.com