اسلام آباد میں علماءِ اہلحدیث کاکنونشن
[حالاتِ حاضرہ اور علماء کرام کی ذمہ داریاں]
معاشرے میں بڑھتی بے اطمینانی اور لادینیت کی روک تھام کے لئے علماء کرام سرگرم ہیں لیکن مقابل میں اس قدر زیادہ منظم طورپر اور غیرمعمولی وسائل کے ساتھ عریانی ، اِباحیت پسندی اور دین بیزاری کو فروغ دیا جارہا ہے کہ علما کی کوششیں کامیاب نہیں ہوپارہیں۔عالمی سطح پر بھی اسلام کی دعوت کو درپیش مسائل اس پر مستزاد ہیں۔ چنانچہ معاشرے میں اپنے کام کی رفتار بڑھانے، باہمی رابطے کو فروغ دینے اور اسلام کے پھیلائو کیلئے اپنے اثر ورسوخ کو پھیلانے کی غرض سے علما کو باہمی مشاورت کا اہتمام کرنا اور کبار علما سے رہنمائی لینا چاہئے اسی غرض سے حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب نے گذشتہ مہینوں میں ملک بھر میں علما کے متعددکنونشن منعقد کئے۔
اس سلسلہ کا پہلا کنونشن فیصل آباد میں مولانا حافظ محمد شریف صاحب کی دعوت پر مرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد میں ہوا، یہ کنونشن مولانا عبد اللہ امجد چھتوی کے زیر صدارت ۲؍اگست ۲۰۰۳ء کو منعقد ہوا جس میں فیصل آباد اور گرد ونواح کے ممتاز علما نے شرکت کرکے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔
اسی سلسلے کا دوسرا اجتماع لاہور میں مجلس التحقیق الاسلامی کے مرکزی دفتر میں ۱۰ ؍اگست ۲۰۰۳ء کو منعقد ہوا جس میں بھی انہی موضوعات پر طویل مشاورت کی گئی اور علماء کے اثر ورسوخ کوبڑھانے اور دین حقہ کی دعوت پھیلانے کیلئے تجاویز وآرا پیش کی گئیں۔اس اجلاس میں بڑے جامعات کے شیوخ الحدیث اور اساتذہ کے علاوہ لاہور اورگوجرانوالہ کے ممتاز علما نے شرکت کی۔ڈیڑھ سو علما کا یہ اجلاس صبح سے مغرب تک جاری رہا۔
حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے اس سلسلے میں علما کا تیسرا اجلاس 'حالاتِ حاضرہ اور علما کی ذمہ داریاں' کے نام سے کراچی میں طلب کیا۔ یہ کنونشن ۲۴؍اگست کو جامعہ ستاریہ ، کراچی میں حافظ محمدسلفی کی دعوت پر منعقد ہوا۔ اس کنونشن کے مقاصد بھی اسی نوعیت کے تھے کہ علما کرام کو آپس میں زیادہ مربوط کرکے باہمی قوت کا احساس دلایا جائے اور معاشرے میں دین کے فروغ کے لئے سرگرم کاوشوں پر منظم کیا جائے۔
اس سلسلے کا چوتھا اجتماع اسلام آباد میں ہوا جس کی رپورٹ ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ
۱۴؍ ستمبر ۲۰۰۳ ء کو مرکز دعوۃ التوحید، اسلام آباد کے زیر اہتمام علمائے اہلحدیث کا اجتماع منعقد کیا گیا، جس میں ۶۰ سے زائد علماء کرام نے شرکت کی۔ اجتماع میں دعوتِ اہلحدیث کو مؤثر بنانے اور موجودہ حالات میں علما کی ذمہ داریوں پر گفتگو کی گئی۔ پہلی نشست کی صدارت ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر اور دوسری نشست کی صدارت حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کی۔ اس اجتماع کی غرض و غایت یہ تھی کہ بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں کتاب و سنت کی خالص دعوت پیش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، ان حالات میں اہلحدیث کو کیا حکمت ِعملی اپنانی چاہیے؟ اجتماع میں ہونے والی گفتگو کاخلاصہ ہدیۂ قارئین ہے ...
افتتاحی کلمات: ڈاکٹر سہیل حسن، پروفیسر انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
۱۱؍ ستمبر کے حادثے کے بعد مسلمان مسلسل پستیوں کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عالم اسلام میں دومسلم ممالک کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اور وہ 'طاغوت' کے پنجہ استبداد میں پھنس کر رہ گئے جبکہ دیگر ممالک بھی اپنی سا لمیت کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں بلکہ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ جبکہ کمزور مسلمانوں کو سہارا دینے کے لیے جو فلاحی ادارے کام کر رہے تھے، ان پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ علم کے چشموں اور دعوت کے سوتوں کو خشک کیا جا رہا ہے تاکہ دعوتِ حقہ کے علمبردار محرومیوں کا شکار ہو کر ختم ہو جائیں۔ مسلمان ممالک میں داخلی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ نصابِ تعلیم کو تبدیل کر کے مسلمان طلبا کے ذہنوں میں سیکولرازم کا بیج بویا جا رہاہے۔ یہودونصاریٰ کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں تبدیلیوں کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ أخبار العالم الإسلامي کے مطابق دشمنانِ اسلام اس موضوع پر تبصرے کر رہے ہیں کہ 'سعودی عرب' میں اب تک جو قرآن مجید چھپ رہا ہے وہی قرآن جو دلوں میں جہاد کی روح پھونکنے والا اور دشمنانِ دین سے قطع تعلقی اور بیداری کا سبق دینے والا ہے۔ بعض ہرزہ سرائی کرنے والے یہاں تک بھی کہہ چکے ہیںکہ (نعوذ باللہ) خانۂ کعبہ کو نشانہ بنانا چاہیے۔ اسلام کے خلاف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ زہر اگلا جا رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈہ مہم اپنے عروج پر ہے۔ وہ جہاد جو مسلمانوں کی آزادی، انسانی حقوق کے تحفظ، دین کے دفاع اور فتنہ وفساد کی جڑ کاٹنے کا سبب ہے، اسے دہشت گردی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ تاکہ اس کی آڑ میں جہاد کانام لینے والوں کو پس دیوارِ زنداں دھکیل دیا جائے ۔
کالے پانیوں اور عبور دریائے شور کی یادوں کو پھر سے تازہ کیا جائے۔ ذ ہنی اور فکری بگاڑ پیدا کرنے کے لئے عیاشی وفحاشی کو فروغ دے کے مسلمان معاشروں کو لادین اور سیکولر بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ان حالات میںمسلمان عوام کو بالعموم اور علما حضرات کو بالخصوص دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا اِدراک ہوناچاہیے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ان سازشوں کا توڑ کر سکیں۔ اپنے عقائد، دینی اقدار اور انسانی واسلامی حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ آج کے اجلاس میں علمائِ کرام کو اس لیے دعوت دی ہے کہ ہم موجودہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل حدیث بھائیوں کو ایک فکر دیں۔ جس کی روشنی میں وہ موجودہ دور کے فتنوں سے نبرد آزما ہو سکیں اور کتاب وسنت کی دعوت کے کام کو مزید بہتر اور مؤثر طریقے سے آگے پھیلا سکیں۔ آج لوگ قرآن وسنت کی دعوت کے پیاسے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کس طرح دعوت کے دائرہ کار کو وسیع سے وسیع کرسکتے ہیں۔
پہلی نشست کا صدارتی خطاب: ڈاکٹرحافظ عبدالرشید اظہر
ڈاکٹرحافظ عبدالرشید اظہر صاحب نے 'سورۃالعصر' کی روشنی میں علماء کرام کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ انہیں اپنے منصب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اور پھر دعوت کا کام اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے سرانجام دینا چاہیے۔ علماء کرام کا منصب اللہ کے بندوں کی اصلاح اور تعمیر شخصیت ہے۔ یہ ایساکام ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں !
ہمارے منصب کا تقاضا پہلے اپنی اصلاح ہے۔ دوسروں کو مخاطب کرنے سے قبل اپنے آپ کو مخاطب کیا جائے۔ علماء کرام کو اللہ تعالیٰ نے بہت اونچے مقام پر فائز فرمایا ہے۔ وہ جہاں کہیں بھی ہیں۔ علم کی بدولت سب کچھ ان کے پاس ہے۔ وہ کسی کے محتاج نہیں۔ نہ ہی انہیں کسی سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔ نبی اکرمﷺکے یہ فرامین انہیں مد نظر رکھنا چاہئیں:
1.«لاینبغي للمؤمن أن یذل نفسه» ( سنن ابن ما جہ)
''نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' کسی مؤمن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو آپ نے فرمایا:'' اپنے آپ کو ایسی مشکلات میں اُلجھا لے جن کا سامنا کرنے کی اس میں استطاعت نہ ہو۔''
2. «تعس عبدالدینار وعبدالدرهم وعبدالخمیصة ...» (صحیح بخاری)
''ذلیل ہو گیا درہم ودینار اور چادر کا حریص۔ اگر اسے دیا جائے تو خوش رہے اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہو جائے، ایسا شخص حقیر و ذلیل ہو گیا، اگر اسے کانٹا چبھے تو کوئی اس کا کانٹا نکالنے والا نہ ہو۔ خوشخبری ہے اس بندے کے لیے جو اللہ کے راستے میں گھوڑے کی لگام تھامنے والا ہے، پراگندہ سر اور غبار آلود قدموں والا ہے، اگر اسے حفاظت پر مامور کیا جائے تو حفاظت کرتا ہے، اگر لشکر کے پیچھے اس کو رکھا جائے تو پیچھے رہتا ہے۔ اگر کسی کے پاس آنے کی اجازت مانگے تو اسے اجازت نہیں دی جاتی اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی۔''
3. «ائتمروا بالمعروف وتناھوا عن المنکر» ( سنن ابن ماجہ)
''نیک کام کرو، برائی سے اجتناب کرو۔''
خصوصاً جب بخیلی کا راج ہو، خواہش کی پوجا کی جا رہی ہو، دنیا کو ترجیح دی جا رہی ہو اور ہر ایک اپنی رائے پر فریفتہ ہو اور معاملہ آپ کے بس سے باہر ہو تو آپ صرف اپنے آپ کو سنبھالیں۔ ان احادیث کی روشنی میں ہمیں تین باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
1. ہماری باتوں میں سچائی ہو، اپنے قول وفعل کو جھوٹ سے پاک وصاف رکھنا چاہیے۔
2. گفتگو اور تقریر میں مبالغہ آرائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جب ہم اپنی کامیابیوں کے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں جو حقیقت میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے۔تو دشمن چوکنا ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ واقعتا ہم دنیا پر چھا رہے ہیںتو وہ ہمارے خلاف مصروفِ عمل ہو کر سازشوں کا جال بچھا دیتا ہے۔ جس کا ہمیں نقصان زیادہ اور فائدہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم میں سے ہر ایک غلبہ اسلام کی خواہش اور تمنا رکھتا ہے۔ یہ اُمیدیںاورخواہشیں ہیں۔ہمیں خواہش اورحقیقت کے درمیان فرق سمجھنا ہو گا۔ خواہشات کی بنیاد پر بڑے بڑے دعوے کرنا اہل کتاب کا شیوہ رہا ہے۔ یہ ہمارا وطیرہ نہیں ہوبلکہ ہمیں اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔
3. ہمیں دعوت کے نام پر محض مہم جوئی نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہماری محنت اور سرگرمیوں کا ثمر کیا ہوگا؟ کیونکہ مثبت نتائج کا تعلق خلوصِ نیت کے ساتھ ہے۔ جو خلوص سے کام کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے اور ایسی دوڑ دھوپ جس کا کوئی نتیجہ نہ ہو اس سے اجتناب کیا جائے کیونکہ جس چیز کا دنیا میں کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہو رہا، اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے کیا پذیرائی ہوگی؟
دوسری نشست کا صدارتی خطاب: حافظ عبدالرحمن مدنی مدیر اعلیٰ 'محدث'
حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کہاکہ اس سے قبل مختلف مقامات پر علما کے اجتماعات منعقد ہو چکے ہیں۔ اس اجتماع میں علما کی گفتگو سن کر محسوس ہوا ہے کہ جو احساسات وجذبات یہاں کے علما کے ہیں، تقریباً یہی جذبات دیگر شہروں کے علما بھی رکھتے ہیں۔ علما کے مابین رابطہ رکھنے کے لیے دیگر شہروں میں بھی ایسے اجتماعات منعقد ہونے چاہئیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اُمت ِمسلمہ کے اجتماعات کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اُمت ِمسلمہ کو درپیش مسائل کا حل نکالے کیلئے کوشش کریں۔ انہوں نے اجتماعات کا ماحاصل چار چیزوں کو قرار دیا :
1. جید علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جس کے سامنے تمام تر جدید مسائل پیش کیے جائیں اور وہ کتا ب وسنت کی روشنی میں ان کے تسلی بخش جوابات دیں۔
2. جماعت اہل حدیث کی تمام تر تنظیموں کے مابین اتحادواتفاق کی ضرورت کوشدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں کوشش کی جاسکتی ہے بشرطیکہ کوئی ممکن صورت نظر آئے ۔
3. دعوت کے کام کو مؤثر بنانے کے لیے مختلف مقامات پر اُصولِ دعوت کے کورسز کا اہتمام ہوناچاہیے۔
4. دہشت گردی کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد کر کے اس الزام اور تاثر کو دور کرنا چاہیے کہ مسلمان دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے اسباب کو واضح کرنے کی ضرورت ہے اور ان اسباب کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ حقائق منظر عام پر لانے چاہئیں۔
مولانا عبدالواحد سلفی کا خطاب ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث، بلتستان
مولانا عبدالواحد سلفی نے گفتگو کرتے ہوئے بلتستان میں مذہبی کشیدگی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ۱۹۸۸ء سے گلگت میں مذہبی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اب ان فرقہ وارانہ اور تشدد پسندانہ کاروائیوں کا آغاز بلتستان میں بھی ہو چکا ہے۔ گلگت میں شیعہ رہنما آغا ضیاء الدین نے پورے بلتستان کا دورہ کیا اورجگہ جگہ جلسوں میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمارے بچوں کو ابوبکر، عمر، عثمان 'رضی اللہ عنہم' پڑھا پڑھا کر ان کے ذہنوں کو خراب کیا جا رہا ہے۔ اور لوگوں کو یہ مطالبہ کرنے کے لئے مشتعل کیا کہ نصاب تعلیم سے خلفائِ راشدین کے ناموں کو نکال دیا جائے۔ سکولوں اور کالجوں کے طلبا کو تعلیمی اداروں سے نکال کر پورے سکردو میں احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ توڑ پھوڑ کی گئی۔ وہاں کی انتظامیہ کو چاہیے تھاکہ وہ شہریوں کی املاک کا تحفظ کرتی مگر انتظامیہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ اگر پاکستان کے علما، اہل فکر، اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیتوں نے اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی کوشش نہ کی تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ بلتستان کے اہل حدیث اور غیر اہل حدیث علماء نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان میں نصاب کمیٹی کے ممبران اور اثر و رسوخ رکھنے والے علما سے اس سلسلے میں ملاقاتیں کی جائیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وہاں کی انتظامیہ ان کے تشددآمیز مظاہروں سے مرعوب ہو کر نصاب بدلنے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کر لے۔ لہٰذا یہاں کے علما کو بلتستان میں اپنے بھائیوں کے مسائل اور مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لئے بھر پور تعاون کرنا چاہیے۔
حافظ مقصود احمد مدیر مرکز 'دعوۃ التوحید' کا خطاب
حافظ مقصود احمد نے دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بین الاقوامی سازشوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسلامی فلاحی اداروں کی بندش اور مغربی این جی اوز کی بڑھتی ہوئی مداخلت کا تذکرہ کیا۔ امریکہ کی طرف سے سعودی عرب پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے، یہ اصل میں مدارس، مساجد اور مسلم اقلیات کے خلاف بڑی گہری سازش ہے، کیونکہ سعودی عرب کی حکومت دینی مدارس اور مساجد کی سرپرست ہے جہاں کتاب و سنت کی تعلیم دی جاتی ہے جن کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں، لہٰذا علما کا فرض ہے کہ وہ مغربی ممالک کے اس پروپیگنڈے کی بھی تردید کریں جو اسلامی فلاحی اداروں اور سعودی عرب کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ مغربی این جی اوز کی سازشوں سے بھی ہمیں واقف ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح اسلامی اقدار کے خلاف اپنے آقائوں کے اشاروں پر زبانی پروپیگنڈہ اور عملی اقدامات کر رہی ہیں۔
علماء کرام کی آراء
اجتماع سے تقریباً پینتیس ۳۵ علماء کرام نے خطاب کیا۔ اور اپنی مفید آرا اور قیمتی مشوروں سے نوازا۔ جن کا تعلق علماء کی ذمہ داریوں، خطبا کے اسلوبِ دعوت، اہل حدیث مساجد و مدارس کے ذمہ داران، ذیلی اداروں کے سربراہان اور دیگر تمام اہل حدیث افراد کے ساتھ ہے۔ ہم ان آرا کو اس غرض سے شائع کر رہے ہیں کہ ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے اہلحدیث عوام و خاص اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ وہ آرا جن کا متعدد علماء نے اظہار کیا :
1. علما کے تحفظ کیلئے وکلا کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو کہ علما اہلحدیث پر ناجائز قائم کئے جانیوالے مقدمات کا دفاع کرے۔ کیونکہ بدعات و خرافات اور ملحدانہ افکار ونظریات کی تردید جو کہ علمائے حق کی ذمہ داری ہے۔ اس کے نتیجہ میں مختلف مقامات پر مشکلات کا سامنا پیش آرہا ہے۔ لہٰذا ہر سطح پر علما کے تحفظ کے لئے وکلا کی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
2. اہلحدیث صحافیوں کی کمیٹی قائم کی جائے جن کا تعلق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے ہو۔ جو اہلحدیث کے موقف کو ذرائع ابلاغ پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ باطل افکار کی تردید میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کیا گیا کہ میڈیا میں اہلحدیث کا اثر و رسوخ انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے غلط افکار واقدار فروغ پا رہے ہیں۔ جبکہ اہلحدیث کی دعوت جو کہ کتاب وسنت پر مبنی اور ہر ایک کے لئے قابل قبول ہے۔اس کی نشر و اشاعت کے لئے میڈیا کو جس طرح استعمال کرنا چاہیے تھا، استعمال نہیں کیا جا رہا ۔ خصوصاً میڈیا کا وہ حصہ جس کے استعمال میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً اخبارات میں آرٹیکل لکھنا، انٹرویوز کا نشر کیا جانا، انٹرنیٹ پر ویب سائٹ قائم کرنا، اخبارات میں ان خبروں کی تردید کرنا جن کے ذریعے اہلحدیث فکر پر رکیک حملے کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے اَربابِ حل و عقد کو سنجیدگی سے غور و فکر کر کے کوئی عملی صورت پیدا کرنی چاہیے۔
3. دعوت کے میدان میں تمام اہلحدیثوں کو اپنے اختلافات ختم کر کے مشترکہ پلیٹ فارم پر کام کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ جماعتی اختلافات علما کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ دھڑے بندیوں کی وجہ سے علما کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقعہ نہیں مل رہا۔ کم از کم دعوت کے میدان میں تمام تراختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔
4. اہلحدیث قائدین کو ایک ایسا فورم قائم کرنا چاہیے جہاں سے ہماری آواز ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچ سکے۔ اور جدید مسائل کے متعلق ہمارے علما اس فورم کے ذریعہ اپنا موقف عوام الناس کے سامنے پیش کر سکیں۔
5. اہلحدیث علما، وکلا، پروفیسرز اور دیگر اہل فکر کا کمپیوٹر ڈیٹا ہونا چاہیے جس کے ذریعہ سے پتہ چل سکے کہ ہمارے علما اور رجالِ کار کہاں کہاں ہیں اور ان سے رابطہ ممکن ہو سکے۔
انفرادی آراء
1. قرآن کریم کی کلاسز کا ہر جگہ پر اجرا کیا جائے۔
2. پاکستان میں دعوتِ اہلحدیث کو درپیش مشکلات سے سعودی علما کو آگاہ کیا جائے۔
3. شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل میں قانون کے مطابق اپنا حق وصول کرنا چاہیے۔
4. اہلحدیث ہی اصل میں اہل سنت ہیں۔ جبکہ اہلسنّت کی اصطلاح زیادہ طور پر دیگر فرقوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ ہمیں یہ باور کرانا چاہیے کہ اہلسنّت سب سے پہلے اہلحدیث ہیں۔
5. عریانی، فحاشی، بدعات کے خلاف ہینڈبلز شائع کیے جائیں جو پارکوں، مزاروں اور پبلک اجتماعات میں تقسیم کئے جائیں۔
6. جدید مسائل پر گفتگو کرنے اور کتاب و سنت پر مبنی موقف پیش کرنے کے لئے جید علما کا ایک بورڈ ہونا چاہیے۔
7. علماء کرام کا مقام بہت اونچا ہے۔ انہیں کسی عہدے کی طرف للچائی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
8. جماعت الدعوۃ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مابین اتحاد ہونا چاہیے۔
9. علماء کو خطباتِ جمعہ اور تقاریر کے معیار کو بلند کرنا چاہیے۔
10. علما کے اجتماعات کی روایت کو قائم رکھا جائے۔ ماہانہ اجتماعات منعقد کئے جائیں اور ہر شہر میں علما کو اس قسم کے اجتماعات منعقد کرنے چاہئیں تاکہ ان میں محبت و قربت فروغ پائے اور شیطان کے پیدا کردہ اندیشے ختم ہو جائیں۔
11. علما کو اپنا فریضہ یقین اور صبر سے ادا کرتے رہنا چاہیے اور حالات کی سنگینی سے بد دل نہیں ہونا چاہیے۔
توہین ِرسالت کے مقدمات
اس موضوع پر بہت سارے علما نے گفتگو کرتے ہوئے علماء اہلحدیث کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا۔ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کہا کہ یہ قانون بنیادی طور پر تو بڑا مبارک تھا کہ اس کی زد میں وہ قادیانی اور عیسائی آتے جو نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں مگر کوئی عدالت ان کے خلاف اس قانون کے تحت فیصلہ نہیں کر سکتی، اگر کہیں ہوتا بھی ہے تو باہر کی حکومتیں اور این جی اوز ان کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں، اب اس قانون کو اہلحدیث علما کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ اہلحدیث ہی سب سے زیادہ نبی اکرمﷺ سے محبت کرنے والے ہیں۔ اہلحدیث کی تو نسبت ہی رسول اللہﷺ کی طرف ہے، ہمارے مخالفین ہمارے عدمِ اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قسم کے مقدمات قائم کر رہے ہیں بلکہ اب تو علمائے اہلحدیث کے قتل تک بات جا پہنچی ہے۔
پروفیسر حافظ عزیز الرحمن بن مولانا عبدالعزیز حنیف نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:'' ہمیں اس حساس مسئلے میں ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنا ہوگی کہ وہ سیکولر طبقہ جو اس قانون کا مخالف ہے، ان کی حمایت کا الزام بھی ہم پر نہ آئے ، دوسری طرف اس قانون کو غلط استعمال کرنے والوں کی سازشوں سے بھی ہم اپنے علما کو تحفظ دے سکیں۔ اگر اس مسئلے پر ہم نے کوئی مثبت اور مدبرانہ پالیسی وضع نہ کی تو ہمارا بڑا نقصان ہوگا، لہٰذا جہاں کہیں کسی اہلحدیث عالم کے خلاف مقدمہ قائم ہو وہاں ہمیں عوامی پریشر بھی تیارکرنا ہوگا کیونکہ بعض دفعہ جج یہ جاننے کے باوجود کہ ملزم بریٔ الذمہ ہے ،اسے بری نہیں کر سکتا،کیونکہ دوسری طرف سے شدید احتجاج، پریشر اور قتل کی دھمکیاں ہوتی ہیں۔ اس صورت میں پریشر کا مقابلہ ہمیں پریشر کے ساتھ کر کے عدالت سے ریلیف لینا ہوگا، دوسرے نمبرپر انگریزی صحافت میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنا ہوگا کیونکہ انگلش اخبار اگرچہ ان کی اشاعت کم ہے مگر پالیسیوں کے نفاذ و عدمِ نفاذ کے حوالے ان کا کردار بڑا مؤثر ہوتا ہے۔
انجینئرعبدالقدوس سلفی اور دیگر بعض علمائے کرام کی یہ بھی رائے تھی کہ ہمارے علمائِ کرام کو بدعات و خرافات کی تردید کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ کسی مخالف کو توہین رسالت کا مقدمہ قائم کرنے کا موقع نہ مل سکے۔