عالم اسلام میں اسالیب ِقرا ء ت ِقرآن کا فروغ و ابلاغ

پورے عالم اسلام میں اور عالم اسلام کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا میں قرآن مجید، فرقان حمید کے انوار و تعلیمات کے فروغ و ابلاغ کے لئے تجوید و قراء ت کے مختلف اسالیب میں کلامِ حکیم تلاوت کرنے کی کاوش کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کا عمل جاری ہے جس میں پاکستان کے دینی مدارس اور قرآن و سنت کے نفاذ کے لئے کوشاں ادارے بھی نہایت تاریخی انداز میں اپنا اہم کردار اداکررہے ہیں اور ان اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ مدینہ یونیورسٹی، قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی اور دیگر اسلامی ممالک کی دینی یونیورسٹیوں میں بھی پہنچے ہیں اور وہاں سے ڈگریاں لے کرقرآن و سنت کی تعلیمات عام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ جس کا ایک شعبہ کلیۃ القرآن الکریم والعلوم الإسلامیۃ 'فیکلٹی آف قرآن اینڈ اسلامک سائنسز' کے نام سے بھی سرگرم ہے؛ گذشتہ ۱۴ برس سے یہ اہم خدمت شبانہ روز سرانجام دے رہا ہے۔ ۲۲؍ ستمبر ۲۰۰۳ء کو جامعہ ہذا کے نگران 'اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ، پاکستان' نے اسالیب ِقراء ت قرآنِ مجید کے موضوع پر نمازِ مغرب کے بعد ۹۱ بابر بلاک، نیوگارڈن ٹاؤن میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے قائم مقام صدر محمد میاں سومرو کرسی ٔصدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔ وہ اتنے بروقت پہنچ چکے تھے کہ نمازِ مغرب انہوں نے جامعہ لاہور الاسلامیہ ہی میں ادا کی۔ اگرچہ وہ اپنے سرکاری پروٹوکول ہی میں تشریف آور ہوئے مگر ضروری تکلفات کو برطرف رکھا گیا۔ بنا بریں اس تقریب میں شمولیت کرنے والی دیگر مہمان شخصیات کو مرکزی پنڈال تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔

نمازِ مغرب کے فوراً بعد جب 'ناظم سٹیج' ڈاکٹر ظفر علی راجا مائیک پر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ صدر پاکستان محمد میاں سومرو پہلے ہی مہمانوں کی پہلی قطار میں خاموشی سے براجمان ہوچکے ہوئے تھے۔ وہ میانہ قد و قامت اور سانولے رنگ کی پرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک انگریزی سوٹ میں ملبوس باریش پاکستانی صدر کو دیکھ کر رفیق تارڑ کی یادتازہ ہوئی۔ سٹیج پر محمد میاں سومرو کے دائیں طرف جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مہتمم حافظ عبدالرحمن مدنی اور بائیں طرف ظفر علی راجا فروکش ہوئے۔ پنڈال مہمان شخصیات اور طلبہ سے معمور تھا۔

عام لوگ تویہی تصور کرتے ہیں کہ پاکستان میں قراء حضرات قرآنِ مجید کی تلاوت جس اُسلوب میں کرتے ہیں شاید پوری دنیاے اسلام کے قراء حضرات بھی اسی اسلوب ہی کو اپنائے ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت کے اسالیب متعدد ہیں جن میں سے چھ اسالیب کا مظاہرہ اس تقریب میں ہوا۔ کچھ دیر تک وزیراعلیٰ پنجاب کا انتظار کیا گیا مگر ان کا پیغام آگیا کہ وہ کسی اور ضروری کام میںمصروف ہونے کی وجہ سے تشریف آور نہ ہوسکیں گے ورنہ وہ بھی اس محفل کی برکات سے متمتع ہوتے۔

آج اس بزمِ قراء ت میں قاری عصام الدین، قاری محمد ریاض عزیزی، قاری فضل خالق، قاری عارف بشیر، قاری حمزہ مدنی اور قاری محمد ابراہیم میر محمدی ان اسالیب ِقراء ت کے دوائر میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے تھے جو برصغیر پاک و ہند کے علاوہ یورپی اور دیگر ایشیائی ممالک یا سوڈان، لیبیا، موریطانیہ،تیونس، مراکش، الجزائر، صومالیہ اور دیگر عرب ممالک میں رائج ہیں۔ یہاں تو زیادہ تر(دانشور) لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ پوری دنیا میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے امام عاصمؒ کی روایت 'حفص' ہی کو اپنایا جاتا ہے جبکہ امام نافع مدنی ؒکی روایت 'قالون اور ورش' کے علاوہ ابو عمرو بصری کی روایت 'دوری اور سوسی' اور دیگر روایات کو بھی دنیا میں بڑی مقبولیت حاصل ہے۔

قاری محمد ابراہیم میر محمدی تو متعدد اسالیب قراء ت میں قرآنِ مجید تلاوت کرتے ہیں۔ اس محفل میں بھی انہوں نے قرآنِ مجید کی دو آیاتِ مبارکہ کو کئی اسالیب ِقراء ت میں تلاوت کرکے خوب داد سمیٹی اور بارانِ انوار و برکات کو طوفانی انداز دیا۔

صدرِ مجلس محمد میاں سومرو جو سینٹ کے چیئرمین بھی ہیں نے گھنٹہ بھر چند قراء کی تلاوت سننے کے بعد حاضرین سے خطاب کیا جس کے بعد انہوں نے محفل سے اجازت چاہی کیونکہ وہ کسی اور ضروری اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لے جاناچاہتے تھے مگر بارانِ انوارِ تلاوت ان کے بعد بھی جاری رہی۔ دوسرے روز اخبارات میں قائم مقام صدرِ پاکستان کی ایک تصویر پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ساتھ چھپی جس سے اندازہ ہوا کہ وہ اس محفل سے اُٹھ کر وہیں تشریف لے گئے ہوں گے جہاں سے وزیراعلیٰ پنجاب اس محفل میں نہ آسکے۔ ممکن ہے وزیراعلیٰ پنجاب تشریف لے آتے تو اخبارات کے کیمرہ مین اور ٹیلی ویژن والے بھی نظر آجاتے۔

نجانے ان اداروں نے قائم مقام صدر پاکستان کی تشریف آوری پر اپنے کیمرے متحرک کیوں نہ کئے اور ان کی یہاں آمد کو 'کوریج' کیوں نہ دی۔ بہرحال محمد میاں سومرو نے جاتے جاتے اپنی تقریر میں فرمایا کہ اس محفل میں شرکت، میں اپنے لئے ایک اعزاز تصور کرتا ہوں۔ قرآن مجید کی تلاوت سننا خوشی بختی ہے۔ لہجے اور اسلوب قرأت خواہ مختلف ہوں مگر قرآنِ مجید تووہی رہتا ہے۔ اسلام حصولِ تعلیم کو انتہائی اہمیت دیتا ہے جو قومیں علم حاصل کریں گی، وہی اپنے آپ کو مستحکم اور خوش حال بنائیں گی اور علم ہی کا مطلب عمل بھی ہے۔

( روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور بروز یکم اکتوبر، ۲۰۰۳ء ؛ لاہوریات)