رودادِ مذاکرہ 'پاکستان میں نفاذِ اسلام کی ترجیحات'
۱۱؍ستمبر کے بعد آنے والی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ان تبدیلیوں میں ایک نمایاں تبدیلی دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے سیاسی 'اَپ سیٹس' ہیں اور یہ سیاسی 'اپ سیٹس' امریکہ گردی کا ردّعمل اور اس کی استعماریت کے خلاف نوشتہ دیوار ہیں۔ اس استعمار نے مبینہ 'دہشت گردوں'کے تعاقب میں افغانستان میں جس طرح سے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو تہ تیغ کیا ہے،اس پر پوری دنیا بالعموم اور مسلم دنیا بالخصوص انتہائی اذیت اور کرب سے گزری ہے۔ اس درد اور کرب کا شکار سب سے زیادہ اہل پاکستان ہوئے،جس کی سرزمین سے ملنے والی 'لاجسٹک سپورٹ' نے اس خونی کھیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی و جہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں خاص طور سے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے عوام نے دینی جماعتوں کے اتحاد بنام 'متحدہ مجلس عمل' کو بھرپور مینڈیٹ دے کر اپنے امریکہ مخالف جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ماضی میں کئی بار دینی جماعتوں کا اتحاد بنا، لیکن عوام کا ایسا اعتماد اُنہیں پہلی بار ملا ہے۔ اب پوری قوم کی نظریں اُن پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ درویش نہ صرف ووٹ دینے والوں کی اُمید و توقعات کا مرکز بنے ہوئے ہیں بلکہ بیگانوں کی خصوصی 'نظر کرم' بھی ان پر ہے۔معمولی کوتاہی پر بھی میڈیا ان کی خبر لینے یا کنفیوژن پیدا کرنے کو بھی بے تاب نظر آتا ہے۔
ا س صورتحال میں اس دینی اتحاد کے ہمدرد حضرات کا فکرمند ہونا فطری سی بات ہے۔اس امر کی بھی بڑی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے لئے ایک مفصل لائحہ عمل پیش کیاجائے اور ان کے لئے ترجیحات کا تعین کیا جائے، جس کا ایک مظہر محدث کی مفصل ادارتی تحریر بھی ہے۔جنوری کے پہلے ہفتے 'مجلس فکر ونظر' کے ڈاکٹر محمد امین صاحب نے اس سلسلے میں مشاورت اورباقاعدہ سیمینار کے انعقاد کے سلسلے میں مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی سے ادارئہ محدث میں ایک ملاقات کی اور ایسے سیمینار کے مقررین اورمدعوین کے بارے میں ان سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
چنانچہ ۲۱؍جنوری کو ہمدرد سنٹر، لاہور میں ایک سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں سیکرٹری جنرل متحدہ مجلس عمل جناب حافظ حسین احمد کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا۔ اس مذاکرہ میں نامور مقررین نے اظہارِ خیال کیا۔ چند مقررین کے افکار کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
جسٹس(ر) عبدالحفیظ چیمہ نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے کچھ زمینی حقائق کا تذکرہ ضروری ہے۔ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کے وسائل ہتھیانا چاہتی ہے۔ وہ اپنے استعماری عزائم کی راہ میں جہادی جذبے کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔ اس نے اپنے استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنے پروردہ حکمرانوں کی سرپرستی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ایسے میں متحدہ مجلس عمل کو چاہئے کہ وہ Go-Slow کی پالیسی اختیار کرے اور عملی اعتبار سے دور رَس اقدامات کرے۔
اس کے بعد انہوں نے چند مسائل کا تذکرہ کرتے ہو ان کے حل زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ پچھلے پچاس سال سے سمگلنگ کا مرکز رہا ہے ،جس سے سارا پاکستان متاثر ہوا ہے۔ اسی طرح ڈرگ کے ساتھ بیرونی ٹریڈ اور غیر قانونی گاڑیوں کا کاروبار بھی یہاں وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکے، چوریاں اور دیگر جرائم کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔ ۴۳۰؍ انڈسٹریل یونٹس بند پڑے ہیں، مرکز سے مل کر ان کو Revive کرنے کی ضرورت ہے۔ نظامِ تعلیم کے حوالے سے انگریزی کو نصابِ تعلیم سے نکالنے کی بجائے انگریزی کو مسلمان کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دینی علوم کے ساتھ سائنسی اور جدید علوم پڑھائے جائیں ،تاکہ اسلام کی فوقیت اور آفاقیت ان کے ذہنوں پر نقش کی جائے۔ ٹی، وی میں جو وقت ریجنل پروگرام میں مل سکتا ہے، اس کے دوران اُردو اور پشتو زبان میں اخلاق، شرافت اور دیانت داری وغیرہ کے موضوعات پر لیکچرز کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح احتساب کا کڑا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اوپر سے شروع ہو۔
انہوں نے اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے بتایا کہ ایک چیف جسٹس اگر چاہے تو صوبائی عدلیہ میں پائی جانے والی کرپشن کو روک سکتا ہے۔ قانون پر عمل درآمد کے سلسلے میں انہوں نے سفارش کی کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم کی اسلامی سزائیں معاشرے کی درستگی اور امن بحال کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن اس میں بشروا ولا تنفروا اور يسّروا ولاتعسّروا کے نبوی اُصول کو سامنے رکھنا چاہئے۔
'تحریک ِاسلامی، پاکستان' کے امیر حکیم محمود سہارنپوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے اخلاص میںکوئی شک نہیں ،لیکن یہ ضروری ہے کہ افراط و تفریط کے درمیان راہِ ِاعتدال اختیار کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس عمل کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے عمل وکردار سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے۔ رسول اللہﷺ کی زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے دعوت کے ساتھ ساتھ عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ صوبہ سرحد میں مجلس عمل کو اپنی اصلاحات ممکن حد تک نافذ کرنی چاہیں ۔اس ضمن میں اہم توجہ طلب پہلو تعلیمی نظام کی اصلاح ہے ،جس پر وفاق کی مداخلت کے بغیر صوبائی حکومت ، عمل درآمد کرسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام لوگوں کی فلاح کے لئے بھی کوششیں تیز کرناچاہیے ۔یہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مختلف تحریکوں میں اصل کردار عام اور بظاہر بے عمل لوگوں نے ہی ادا کیا ہے۔ عوام نے دینی جماعتوں کو اپنے اعتماد سے نوازا ہے ۔اب دینی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امانت کا پاس کریں ۔نیز حکومت میں رہتے ہوئے سادگی کو اپنا شعار بنائیں۔
اس کے بعد شعبہ ابلاغیات،جامعہ پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ دور سٹیلائٹ کا دور کہلاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کس طرح سے اس جدید عہد کے انسان کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ کس طرح سے انسانی زندگی پر مثبت و منفی پہلوؤں سے اِحاطہ کئے ہوئے اور موجودہ اسلام اور مغرب کی کشمکش میں اس کا کیا کردار ہے اور ہونا چاہئے، اس سے ہر ذی شعور انسان بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بڑے افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ دینی جماعتوں کے پروگرام میںاس کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کا یہ شعبہ متقاضی ہے اور حد تو یہ ہے کہ انگریزی جرنلزم میں دس افراد بھی شاید دینی جماعتوں کے پاس نہ ہوں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اس شعبے کو کتنی اہمیت دی ہے؟ اس کے برعکس سیاسی جماعتیں نسبتاً زیادہ متحرک ہیں۔ آپ دیکھیں جیسے ہی پیپلزپارٹی کی حکومت آتی ہے تو ان کا کلچرل وِنگ فوراً فعال ہوجاتا ہے۔ ان کے پاس اس شعبے کے تربیت یافتہ افراد ہیں ۔ان کی باقاعدہ ایک کمیونی کیشن پالیسی ہے،جبکہ ہماری نہ تو باقاعدہ ہ کمیونی کیشن پالیسی ہے اور نہ ہی اس فیلڈ کے تربیت یافتہ افراد۔ انہوں نے کہا کہ دینی جماعتوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعبہ پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ پی ٹی وی اور اس پر نشر ہونے والے پروگراموں اور بیرونی چینلز کی حالت ِزار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں مجلس عمل پر زور دیا کہ وہ اس میں خیر کا پہلو تلاش کرنے کی جستجوکرے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس اِبلاغی یلغار نے ہمارے معاشرتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ ہماری غفلت اور عدمِ توجہی کا شکار رہا تو اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ ہمارا روایتی حریف انڈیا اس حوالے سے بہت آگے ہے، حال ہی میں وہ کارگل پر فلم کے علاوہ طالبان پر ایک فلم انٹرنیشنل مارکیٹ میں لے کر آیاہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس عمل کو اس حوالے سے توجہ دینی چاہئے ، انہوں نے بسنت، ویلنٹائن ڈے اور نیوایئر نائٹ ایسے پروگراموں کے موقع پر سرکاری افسران کے رویہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دینی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں توقعات کا ہمالیہ تعمیر کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔اُمت ِمسلمہ صدیوں کی ستم رسیدہ ہے، اس کے حالات ومسائل پیوند کاری کے بجائے سرجری کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل ہمیں معاشی یا سیاسی بحران نہیں ،کردار کا بحران درپیش ہے اور اس بحران کا دائرئہ اثر سیاست کے ایوانوں سے لے کر محراب و منبر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحد اسمبلی کو چاہیے کہ وہ اپنے اختیارات اوردستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خیر اور فلاح کا کام کرے۔ امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک موقع ہے کہ دینی جماعتیں سرحد میں ممکن حد تک اصلاحات نافذ کرکے دوسرے صوبوں کے لئے ایک ماڈل بن سکتی ہیں۔ سیمینار سے جناب کے ایم اعظم، ڈاکٹر محمود الحسن عارف اور مجلس عمل صوبہ سرحد کے نائب صدر پروفیسر محمد ابراہیم نے بھی خطاب کیا۔جبکہ کمپیئرنگ کے فرائض ڈاکٹر محمد امین صاحب نے انجام دیے۔
اس موقع پر مدیر الشریعہ جناب ابو عمار زاہد الراشدی اور محترم محمد عطاء اللہ صدیقی کو بھی خطاب کرنا تھا لیکن مولانا زاہد الراشدی نے مذاکرہ کا دورانیہ طویل ہوجانے کے سبب چند کلمات پر ہی اکتفا کیا جبکہ محترم عطاء اللہ صدیقی صاحب بعض دفتری مصروفیات کی بنا پر تشریف نہ لاسکے۔ ۳؍ بجے سے جاری یہ مذاکرہ ساڑھے آٹھ بجے رات اپنے اختتا م کو پہنچا۔ ٭٭