ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ
ترکش ِمارا خدنگ ِ آخریں
برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کودرخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کرکے ڈوب گئے...! اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ٭ ڈاکٹرمحمد حمیداللہؒ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سوگیا۔ انالله وانا اليه راجعون
محمد حمید اللہؒ، ۱۶؍ محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹؍ فروری ۱۹۰۸ء حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت ِآصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کئے اور عثمانیہ یونیورسٹی سے ، جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی، ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کرکے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی گئے اور بون (Boon) یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرئہ آفاق تصنیفMuslim Conduct of State بنی۔ جرمنی سے فرانس منتقل ہوگئے اور سوربون (Sorbonne) یونیورسٹی سے 'عہد ِنبویؐ اور خلافت ِراشدہ میں اسلامی سفارت کاری' کے موضوع پر مقالہ لکھ کر 'ڈی لٹ' کی سند حاصل کی۔
اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ئ) کا سانحہ رونما ہوا۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہؒ پیرس ہی کے ہوکر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک باربتایا کہ میں دولت ِآصفیہ کے پاسپورٹ پریورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پرتمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری(Travel Documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھ ماہ کے اندر اندر انہیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذ ہنی اور مادّی، ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخر وہاں چلے گئے جہاں کسی دنیاوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہو تی ... ہاں ان کے پاس ایمان، عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے!!
ڈاکٹر حمید اللہ مشرق اور مغرب کی نوزبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو، انگریزی، فرانسیسی، عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی، اطالوی، فارسی، ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکزCentre National de la Researche Scientifique سے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔
علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصہ تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں بھی ۱۲؍ خطبات دیئے جو خطباتِ بہاولپور کے عنوان سے شائع ہوئے اور ان کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔
میری نگاہ میں ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (Orientalist) تھے۔ مستشرق میںان کو اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (Methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کرلی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میںمستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں۔ انہوں نے اسلام کو، جیسا کہ وہ ہے، دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف، تلاش و جستجو، نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا، اسے فرضِ کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورے Paying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!
ڈاکٹر حمید اللہؒ فکر و نظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انہوں نے سلف کے نقطہ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اُسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔
ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام کثیر جہتی (Multi Dimensional) تھا۔ انہوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میںبڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (Contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انہوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں، سترہویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔ تدوین حدیث کے باب میںبھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ہمام ابن منبہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کردیا کہ حدیث کی کتابت دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں ایڈٹ کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اوّلین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ہے، انہوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی، آپؐ کے غزوات، سفر ہجرت، خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب ... ان سب میدانوں ٭میں ڈاکٹر حمیداللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کئے ہیں جو تادیر چراغِ راہ رہیں گے۔
اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہ ؒ کیMethodology پر ان کا کام8 راہ کشا حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی قانون اور قانونِ روما کے فرق کو بھی انہوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانونِ روما سے ماخوذ ہے۔ دنیا کی مختلف زبانوں میںقرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے۔ ان کے طرزِ تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی۔ حضورِ پاک ﷺ کے سفر ہجرت کی تحقیق میں انہوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا، جس سے حضورِ پاکؐ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کومتعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآنِ پاک اور سیرتِ مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے، ان کی علمی دلچسپی کا بھی محور تھے۔
فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرتِ پاک کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہوگیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہؒ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میںہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میںمدد دینے کے لئے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور ان کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلا پتلا اور سادہ سا فقیر منش انسان پایا۔ اِکہرابدن، لمبا قد، صاف رنگ، کتابی چہرہ، اوسط لمبائی مگر غیر کفی ڈاڑھی، پرنور آنکھیں ... اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ٭، تواضع کا پتلا، سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا، وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پاؤں میںکھڑاوں ... پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں؟ ہمارے بچپن میں وضو کے لئے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے 'کھڑاوں' کہتے تھے اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آسکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں 'کھڑاوں' پہنے بیٹھا ہوگا۔
حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میںان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دور ہوگئی اور تبحر علمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں، کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگراس طرح کہ دل میں اُتر جاتی تھی۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب 'چراغِ راہ' کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پر بالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا، کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصر حاشئے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخدلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لئے دوسرے ایڈیشن کے لئے کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کررہا ہوں ... اور اس طرح صفحہ اور سطر کے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انہوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کردیاتھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کرائے پر لیا تھا، وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا، جس میں لفٹ نہ تھی۔ انہوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانۂ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پرگزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانور کی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ، قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیم (تربیتی کیمپ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میںفرانس کی مسلمان طلبہ کی اسلامی تنظیم (UMSO) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمالِ التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میری تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا۔ جزاھم اللہ خیرا الجزاء
وقت کی پابندی میں بھی ڈاکٹر صاحب اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی کوئی دوسری مثال اگر میں دے سکتا ہوں تو وہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیر متعلق نہ ہو ( اور اس کے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں) کہ حیدر آباد کا نوجوان حمید اللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میںصرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا (غیرحاضری کا تو سوال ہی نہ تھا) اور یہ وہ دن تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہوگیا ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ڈاکٹر حمید اللہ صرف علم و تحقیق ہی کے مردِ میدان نہ تھے، دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ انفرادی ملاقاتوں سے لے کر تبلیغی دورے اور ملکی بین الاقومی کانفرنسیں ... ہر جگہ انہوں نے دعوت کا کام انجام دیا۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کا ہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا بھی ایک حلقہ ان کے گرد قائم تھا۔ طلبہ اور نوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخ دل تھے۔
ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ اربابِ حکومت نے ان کوقریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے۔ علمی و ادبی اعزازات نے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انہوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونیورسٹی کے لئے وقف کردی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فاؤنڈیشن، لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے کھلے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیںکرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے!!
ڈاکٹر حمید اللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لئے وقف کردی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرِ مملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیشکش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہوگئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر، علم ودعوت کی سینکڑوں شمعیں روشن کرکے، اللہ کا یہ بندہ اپنے ربّ کی طرف مراجعت کرگیا تاکہ عبادالرحمن کے اَبدی مسکن کو پالے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے صرف ِ نظر کرے اور انہیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے!
ع آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
حاشیہ