عمرہ کا وجوب،اسقاط حمل،لڈوتاش کھیلنا

عمرہ کا وجوب،اسقاط حمل،لڈوتاش کھیلنا؟

٭قربانی کی کھال اور سرفروخت کرنے کا حکم ٭کیا عمرہ واجب ہے ؟حج کے ساتھ ہی عمرہ کرنے کا حکم

٭جنین میں روح پڑنے سے قبل اسقاطِ حمل کا حکم ٭ ازراہِ تفریح لڈو، تاش اور شطرنج کھیلنے کا حکم اور ! 'عشر' کے مسائل

سوال: ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جو حصہ دار قربانی کے جانور کو پالتا ہے، وہ دوسرے حصہ داروں کے اتفاق سے جانور کا سر او رچمڑہ اپنے پاس رکھتا ہے، جس کی قیمت اس کے حصہ میں شامل کردی جاتی ہے۔او رباقی حصہ داروں کے حصص میں کمی کردی جاتی ہے۔ یا پھر کھال کسی کے ہاتھ فروخت کر دی جاتی ہے تو کیا یہ صورتیں جائز ہیں؟ ( عبدالرحیم روزی، غواڑی)

جواب:قربانی سے مراد وہ جانور ہے جو عید کے دن اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جاتاہے اور وہ شئ ایک ہے، اس میں شراکت نہیںہونی چاہئے۔ اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ مختلف نیتوں کے حامل افراد اس میں شریک نہیںہوسکتے۔ مثلاً بعض کی نیت محض حصول گوشت کی ہو اور دیگر کی نیت کچھ اور ہو تو اس طرح کی قربانی نہیں ہوگی۔

شریعت نے سات کی شراکت کی جو سہولت دی ہے، یہ صرف ربّ العزت کا احسان ہے یہ حکم اپنے محل کے ساتھ خاص ہے۔اس میں محض اپنی طرف سے استثنائی صورت پیدا کرنا غیر درست عمل ہے۔ دوسری طرف اس شخص کی نیت کے خلوص میںبھی کمی واقع ہوجاتی ہے جس سے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیداہوجاتا ہے۔ بنابریں پھر سر اور کھال کی تخصیص نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس میں سب حصہ دار برابر ہیں۔ اور پھر کھال تو ویسے بھی فقراء و مساکین کا حق ہے جس کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے۔ اور اسے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ ترغیب وترہیب میں حدیث ہے:« من باع جلد أضحيته فلا أضحية له» (رواہ الحاکم وقال: صحیح الاسناد۲؍۱۵۵،۱۵۶) ''جس نے قربانی کا چمڑا فروخت کیا، اس کی قربانی نہیں۔'' اسی طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا بھی بالاتفاق ممنوع ہے۔ مذکورہ مسئلہ بھی اسی سے ہے۔ لہٰذا اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ سب حصہ دار گائے پالنے والے کو باقاعدہ الگ سے مزدوری دیں۔

سوال:کیا صاحب ِاستطاعت پرحج کی طرح عمرہ بھی فرض ہے؟

جواب: عمرہ کے وجوب میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام شافعی ؒاور امام احمدؒ وجوب کے قائل ہیں ۔امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں وجوب کو ا ختیار کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: «باب العمرة: وجوب العمرة وفضلها: وقال ابن عمر: ليس أحد إلا وعليه حجة وعمرة» ''ابن عمر فرماتے ہیں:ہر ایک پر حج اور عمرہ فرض ہے '' اس تعلیق کو ابن خزیمہؒ ،دارقطنیؒ اور حاکم ؒنے ابن جریج ؒکے واسطے سے موصول بیان کیا ہے۔

حنفیہ اور مالکیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ عمرہ نفلی عبادت ہے، لیکن جن چند روایات سے انہوں نے استدلال کیا ہے، ان میں سے بیشتر ضعیف ہیں۔

وجوب ِعمرہ کے بارے میں کئی احادیث ہیں جن میں سے ایک حدیث میں ہے کہ جبرائیل نے نبی ﷺ سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: «الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلوٰة وتؤتي الزکاة وتحج البيت وتعتمر وتغتسل من الجنابة وتتم الوضوء وتصوم رمضان»

''اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرے، غسل جنابت کرے اور وضو پورا کر ے اور رمضان کے روزے رکھے ۔ ''

اس حدیث کو ابن خزیمہؒ اور دارقطنیؒ نے حضرت عمرؓ سے بیان کیا ہے ۔ دارقطنیؒ نے کہا: هذا إسناد ثابت صحیح ''یہ اسناد صحیح ثابت ہے۔ ''اور حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا: یارسول اللہﷺ ! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے۔

فرمایا:«عليهن جهاد لاقتال فيه: الحج والعمرة» ''ان کے ذمہ ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں، اوروہ جہاد حج اور عمرہ ہے۔''

یہ حدیث مسنداحمد اور ابن ماجہ میں بسند ِصحیح موجود ہے۔ اور ترمذی میں ہے: «تابعوابين الحج والعمرة... الخ» (ترمذی مترجم: ۱؍۲۹۹)

لہٰذا راجح مسلک یہ ہے کہ عمرہ اور حج کو پے در پے بجا لائو۔

سوال:کیا حج کے ساتھ عمرہ کیا جا سکتا ہے یا عمرہ کے لئے الگ سفر اختیار کیا جائے؟ اگر کیا جا سکتا ہے تو اسے حج کی کون سی قسم کہیں گے ؟

جواب:آدمی کو چاہئے کہ جب حج کے لئے سفر پرروانہ ہو تو میقات پر احرام باندھتے وقت عمرہ کی نیت کرلے ،بعد ازاں عمرہ ادا کرکے اِحرام کھول دے۔پھر آٹھ ذوالحجہ کو اپنی رہائش گاہ سے حج کا احرام باندھ کر منیٰ کی طرف روانہ ہوجائے۔ شرعی اصطلاح میں اس کا نام 'حج تمتع' ہے متعدد اہل علم کے نزدیک حاجی کے ساتھ ہدي (قربانی) نہ ہونے کی صورت میں حج کی افضل ترین قسم یہی ہے۔ اس طرح ایک ہی سفر میںحج اور عمرہ بآسانی دونوں ادا ہوجائیں گے۔

سوال:جنین میں روح پڑنے سے پہلے اسقاطِ حمل سے گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟

جواب:مذکورہ صورت میں چونکہ جسمانی طور پر بچہ کے تخلیقی مراحل طے ہوچکے ہیں، لہٰذا اسقاطِ حمل ناجائز ہے بلکہ خلقت کے آغاز میں بھی ناجائز ہے۔ البتہ ضرورت کی بنا پر فقہائِ کرام نے چالیس دن سے قبل اخراجِ نطفہ کی اجازت دی ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ :۳؍۱۸۹)

ہمارے استاد علامہ محمد امین شنقیطی فرماتے ہیں:« إذا مجّت الرحم النطفة في طورها الأول قبل أن تکون علقة، فلا يترتب علی ذلك حکم من أحکام إسقاط الحمل، وهذا لاخلاف فيه بين العلماء» (تفسیر اضواء البیان :۵؍۳۲)

'' اگر رحم میں نطفہ کو پہلے ہی مرحلہ میںیعنی علقہ (جما ہوا خون) بننے سے پہلے ضائع کردیا جائے تو اس پر اسقاط حمل کا حکم لاگو نہیں ہوگا، اس بارے میں علما میں کوئی اختلاف نہیں۔''

نیز وسائل کی کمی کی وجہ سے اولاد کی تعداد میںکمی کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ یہ فعل انسانی فطرت کے خلاف ہے جو اللہ نے انسان میں ودیعت کر رکھی ہے اور شرع نے جس کی تحریض وترغیب دی ہے ۔ نیز یہ فعل جاہلی اعمال میں سے ہے۔ اس کا ارتکاب کرنا بالخصوص فقروفاقہ کے ڈر سے ،گویا اللہ کے بارے میں سوء ظن اور عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔قرآن میں ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّ‌زّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ ﴿٥٨﴾... سورة الذاريات"اللہ ہی تو رزق دینے والا اور زور آور مضبوط ہے۔ '' نیز فرمایا : ﴿وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَر‌ضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِ‌زقُها...٦﴾... سورة هود'' اور زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی نہیں ،مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔''

سوال:نماز اور دیگر ذمہ داریوں کا خیال رکھتے ہوئے،جواکے بغیر از راہ ِتفریح تاش، لڈو، شطرنج وغیرہ کھیلنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: امام بیہقی ؒکی شعب الایمان میں حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ شطرنج عجمیوں کا جواہے اور حضرت ابوموسیٰ فرماتے ہیں :'' شطرنج گناہگار کا کھیل ہے۔'' دوسری روایت میں ہیکہ اس بارے میں جب ان سے دریافت کیا گیا توکہا: ''یہ باطل ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند نہیںکرتا۔'' صحیح مسلم میں حدیث ہے:

«من لعب بالنرد شير فکأنما صبغ يده في لحم خنزير ودمه» (حدیث۵۸۵۶) ''جو نرد شیر سے کھیلا،گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں ڈبو دیا۔ ''

اور امام مالک نے شطرنج کے کھیل کو گمراہی قرار دیا ہے۔ ( مرقاۃ :۷؍۳۳۸)

امام منذری فرماتے ہیں کہ ذھب جمهور العلماء إلی أن اللعب بالنرد حرام یعنی ''جمہور علماء کے نزدیک نرد سے کھیل حرام ہے۔'' (مرقاۃ:۸؍۳۳۳)

لہٰذا ایسے بیہودہ کھیلوں سے اجتناب ضروری ہے۔

سوال:اگر گانے فحش اور اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں اور گانا گانے کا انداز بھی غیر شرعی نہ ہو تو ایسے گانے کا کیا حکم ہے؟

جواب:گانے کی آواز شرع میں ناپسندیدہ ہے لہٰذا کسی حالت میں بھی اس کو اختیار نہیں کرنا چاہئے۔قرآن میں شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا ہے: ﴿وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ...٦٤﴾... سورة الاسراء'' اور ان میں سے جس کو بہکاسکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ ''مجاہد نے اس کی تفسیر 'غنا' وغیرہ سے کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر:۳؍۷۰)

اسی طرح گانے کی طرز پرکوئی چیز گانا بھی حرام ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ''ایک مؤذن نے جھوم کر اذان دی تو عمر بن عبدالعزیز ؒنے فرمایا: "أذِّنْ أذانا سمحا وإلا فاعتزلنا"کہ ''سادہ اور نرم لہجہ میں اذان دو ، ورنہ اس منصب سے علیحدہو جاؤ۔''

سوال:کیا آدمی اپنی ربیبہ (بیوی کی پچھ لگ بیٹی ) سے اپنی فوت شدہ بیوی کے بیٹے کی شادی کر وا سکتا ہے ۔

جواب:مذکورہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان چونکہ حرمت ِنکاح کا کوئی تعلق یا سبب موجود نہیں،اس بنا پر ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔

سوال:ایک آدمی دس ایکڑ کپاس بوتا ہے۔ ہرایکڑ پر تقریباًدو ہزار روپے خرچ آتا ہے اور کل آمدن ۲۰ من ہوتی ہے ۔کیا اب اس پر عشر ہوگا جبکہ اس پر کوئی قرض بھی نہیں؟

جواب :فصل پر جو خرچ آتاہے ،اس میں سے ایک تو زمیندارہ جیسے بیل، ٹریکٹر یا لوہار اور ترکھان کی مزدوری وغیرہ کاشتکاری کے لئے ضروری ہے۔یہ اشیا چونکہ کھیتی کے لوازمات میں داخل ہیں، لہٰذا عشر دیتے وقت ان کی اُجرت نہ کاٹی جائے، البتہ مزدوری کی اُجرت کاٹی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ٹھیکہ اور مالیہ نکال کر عشر ادا کرے اور آبیانہ الگ نہ کرے کیونکہ نہری زمین کو کنوئیں کے حکم میں سمجھنا چاہئے یعنی عشر کے بجائے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ اَدا کرے۔ سوال میں مذکور مجمل خرچ کو اِسی معیار پر پرکھنا چاہئے۔

سوال:کیا کھاد، سپرے اور دوائی وغیرہ کا خرچ نکال کر عشر ادا کیا جائے گا؟

جواب:کھاد، سپرے دوائی وغیرہ کے اخراجات کو بوقت ِعشرنہ نکالا جائے،اس سے اگر ایک طرف خرچ آتا ہے تو دوسری طرف اضافہ بھی تومتوقع ہے۔

سوال: میں ایک پرائیویٹ کمپنی (ICI) میں افسر ہوں۔کمپنی نے زرعی ادویات کی ایڈوانس بکنگ کے لئے انعامی سکیم تیار کی ہے جو اس طرح ہے:

ایک لاکھ روپے ڈیلر سے لیاجائے گااور اس کو ایک لاکھ روپے کی رسید دی جائے گی۔ جس پر ایڈوانس ریٹ پرزرعی ادویات مہیا کی جائیں گی ۔اس کے علاوہ ہر ڈیلر کو ایک کلر ٹیلی ویژن اور اسلام آباد ہوٹل میں ایک دن کا قیام اور ۱۰؍موٹر سائیکل قرعہ اندازی کے ذریعے نکالے جائیں گے۔توکیا چار یا پانچ سو ڈیلروں میں سے ۱۰؍ حضرات کو اس طرح قرعہ اندازی کے ذریعہ انعام دینا شرعاً درست ہے ؟ (محمد اجمل خان ، عارفوالہ)

جواب :مذکورہ صورت جوئے کی ایک شکل ہے ، نصوصِ شریعت میں اس کی حرمت بڑی صراحت سے کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دس ڈیلر وں نے ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کے عوض میں انہیں متعدد اشیا کی صورت میں مزعومہ انعام سے نوازا جا رہا ہے؟ یہ کمپنیاں اور ادارے اس قسم کے حیلوں سے جمع شدہ رقم سے اپنے مالی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں جو دوسروں کی شراکت کے بغیر جملہ منافع پر قبضے کی ایک غیر مرئی شکل ہے۔ جس کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔