ہجرتِ نبوی ﷺ سے قبل اہم دعوتی وتعلیمی مراکز
اسلام کی دعوت کا نازک اور مشکل ترین دور وہ تھا جو مکہ مکرمہ میں نبی کریمﷺنے اپنے صحابہ کی معیت میں گزارا۔ اس دور میں صحابہ کرام اور ذ۱تِ اقدسؐ نے کس طرح جان جوکھوں میں ڈال کر اسلام کے نازک پودے کو خونِ جگر سے سینچا، زیر نظر مقالہ میں اس کی بعض جھلکیاں ملتی ہیں۔
میدانِ دعوت کے مبارک نفوس آج اگر اِن صحابہ کرامؓ کے قربانی سے بھرپور طرزِ عمل کے امین ہیں تو وہاں اُنہیں ان جیسے حوصلے ،صبر واستقلال اور قوتِ برداشت کا حامل بن کر مصائب وآلام کی تند وتیز آندھیوں کامقابلہ کرنے کیلئے بھی ذ ہنی طور پر تیار رہنا چاہئے اور دعوت کی راہ میں درپیش مصائب سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ (ح م)
مکہ مکرمہ کے دعوتی مراکز
قبل از ہجرت، مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے معروف معنوں میں کوئی متعین تبلیغی ودعوتی مرکزنہ تھا۔جہاں رہ کر وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ۔ درحقیقت مکی دور میں خود رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہی متحرک درس گاہ تھی۔ سفروحضر، دن اور رات ہر حال اور ہر مقام میں آپ ﷺ ہی کی ذات دعوت وتبلیغ کا منبع تھی۔صحابہ کرام ؓ عام طو ر پر چھپ کر ہی قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔تاہم کفارِ مکہ کی ستم رانیوں کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے علاوہ حضرت ابوبکر ؓ،خباب ؓبن ارت، مصعب ؓبن عمیر اور دیگر صحابہ کرامؓ قرآنِ مجید کی تعلیم اور اشاعت میں مصروف رہے۔مکی دور کے ایسے مقامات اور حلقہ جات کو دعوت وتبلیغ کے مراکز سے تعبیر کیاجاسکتاہے جہاں حالات کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق کسی نہ کسی انداز میں قرآنِ مجید کی تعلیم دی جاتی تھی یا قرآن کی تلاوت کی جاتی تھی۔ذیل کی سطور میں مکی دور کے چند دعوتی وتبلیغی مراکز کا مختصر تعارف پیش کیاجاتا ہے، جہاں پر رسول اکرم اور صحابہ کرامؓ نے کسی نہ کسی حیثیت میں فریضہ دعوت انجام دیا۔
1. مسجد ابی بکرؓ
مکی دور میں دعوت وتبلیغ کا اوّلین مرکز حضرت صدیق اکبرؓ کی وہ مسجد تھی جو آپؓ نے اپنے گھر کے صحن میں بنا رکھی تھی۔ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میں آپؓ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔عام طور پرآپؓ بلند آواز سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تو کفار ومشرکین مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گر دجمع ہوکر قرآن سنتے، جس سے ان کا دل خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتا۔
یہ صورتِ حال مشرکین ِمکہ کو بھلا کب گوارا تھی،چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کو سخت اذیت میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے آپؓ نے مکہ سے ہجرت کاارادہ کرلیا۔مگر راستے میں قبیلہ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔اس نے پوچھا: اے ابوبکرؓ! کدھر کا ارادہ ہے؟ آپؓ نے فرمایاکہ میری قوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے، اب دنیا کی سیر کروں گااور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے ربّ کی عبادت کروں گا،مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کرآپ کو واپس لے آیاکہ آپؓ جیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیاجاسکتا اور پھر حضرت ابوبکرؓ کیلئے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکر ؓ واپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی، صحیح بخاری میں ہے:
«ثم بدأ لأبي بکر ؓفابتنٰی مسجدا بفناء داره وبرز فکان يصلي فيه ويقرأ القرآن»(۱) ''پھر ابوبکرؓ نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی،اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے۔''
مسجد ِابی بکر ؓمیں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا۔البتہ یہ مسجد تلاوتِ قرآن اور اشاعت ِ قرآن کیلئے مکی دور کی اوّلین درس گاہ اور تبلیغی مرکز قراردی جاسکتی ہے جہاں پر کفارِ مکہ کے بچے بچیاں اور عورتیں قرآن کے آفاقی پیغام کو لحن صدیقیؓ میں سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے۔چنانچہ ابن اسحق حضرت عائشہؓ کی سند سے روایت کرتے ہیں :
«وکان رجلا رقيقا، إذا قرأ القرآن استبکی، فيقف عليه الصبيان والعبيد والنساء، يعجبون لما يرون من هيئته، فمشی رجال من قريش إلی ابن الدغنة، فقالوا: يا ابن الدغنة ، إنك لم تجر هذا الرجل ليؤذينا ! إنه رجل إذا صلی وقرأ ماجاء به محمديرق ويبکي، وکانت له هيئته ونحو فنحن نتخوّف علی صبياننا ونسا ئنا وضعفتنا أن يفتنهم، فأتِهٖ فمُرْه: أن يدخل بيته فليصنع فيه ماشاء»
''حضرت ابوبکر ؓ رقیق القلب انسان تھے، جب قرآن پڑھتے تو روتے،اس وجہ سے آپؓ کے پاس لڑکے،غلام اور عورتیں کھڑی ہوجاتیں،اور وہ آپؓ کی اس کیفیت کو پسند کرتے۔ قریش کے چند لوگ ابن الدغنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا:اے ابن الدغنہ! تونے اس شخص کو اس لئے تو پناہ نہیں دی تھی کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچائے۔ وہ ایسا شخص ہے کہ جب نمازمیں وہ کلام پڑھتا ہے جو محمد ﷺ لایا ہے تو اس کا دل بھر آتا ہے اوروہ روتا ہے۔اس کی ایک خاص ہیئت اور طریقہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں بچوں،عورتوں اور دیگر لوگوں کے متعلق خوف ہے کہ کہیں یہ انہیں فتنے میں نہ ڈال دے۔ اس لئے تو اس کے پاس جااور کہہ کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور اس میں جو چاہے کرے''۔
چنانچہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یا تو آپؓ اس طریقے سے باز آجائیں یا پھر میر ی پناہ مجھے واپس لوٹادیں۔حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا:
''میں نے تیری پناہ تجھے واپس کردی، میرے لئے اللہ کی پناہ کافی ہے۔'' (۲)
2. بیت فاطمہ بنت ِ خطابؓ
حضرت فاطمہ بنت ِخطابؓ،حضرت عمر بن خطابؓ کی بہن ہیں، جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے خاوند سعید ؓبن زیدسمیت اسلام قبول کرلیا۔یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں ہی حضرت خبابؓ بن ارت سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کیاکرتے تھے۔حضرت عمرؓ ایک دن اسلام لانے سے پہلے گلے میں تلوار حمائل کئے رسول اللہ ﷺ کے قتل کے ارادے سے نکلے، لیکن رستے میں اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو انتہائی غصے کی حالت میں تلوار ہاتھ میںلیکر ان کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مشغول پایا۔ابن اسحق کی روایت ہے:
«وعند هما خبابؓ بن الأرت، معه صحيفة فيها: 'طٰهٰ'يقرئهما إياها» (۳)
''ان دونوں کے پاس خبابؓ بن الارت تھے، جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورئہ طہٰ لکھی ہوئی تھی جو وہ اِن دونوں کو پڑھا رہے تھے۔''
سیرتِ حلبیہ میں حضرت عمرؓ کی زبانی منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیاتھا:ایک خباب بن الارت ؓاور دوسرے کانام مجھے یاد نہیں،خباب بن الارت ؓمیری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔(۴)
اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کایہ بیان ہے : «وکان القوم جلوسا يقرء ون صحيفة معهم» (۵)
''اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا۔''
بیت ِ فاطمہ بنت ِ خطابؓ کو مکی دور میں قرآنِ مجید کی تعلیم اور اشاعت کا مرکز کہاجاسکتا ہے جہاں کم ازکم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔اور اگر حضرت عمرؓ کے بیان میں لفظ'قوم'کا اعتبار کیا جائے تو یقینی طور پریہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتاہے۔
3. دارِ ارقم ؓ
حضرت ارقم بن ابی الارقم ؓ سابقون اوّلون اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔
«وکانت دارہ علی الصفا» (۸) ''مکہ میں ان کا مکان کو ہِ صفا کے اوپر تھا۔''
دارِ ارقم٭ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس مکان کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ مکان 'دارالاسلام'کے متبرک لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔(۹)
آپؓ کے بیٹے عثمان بن ارقم،جو ثقہ محدث ہیں،کہاکرتے تھے:
«أنا ابن سبع الإسلام،أسلم أبي سابع سبعة» (۶) ''میں(عثمان) ایک ایسی ہستی کافرزند ہوں جنہیں اسلام میں ساتواں درجہ حاصل ہے، میرے والد اسلام قبول کرنے والے ساتویںآدمی ہیں۔''
حافظ ابن حجرؒ نے بھی 'الاصابہ' میں ابن سعد کے قول کوہی اختیار کیا ہے تاہم ابن الاثیر کے مطابق حضرت ارقم ؓ کاقبولِ اسلام میں دسواں یابارہواں نمبر ہے۔(۷)
البتہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ارقم ؓ٭ان لوگوں میں سے تھے جنہوںنے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔
مشرکین مکہ جب اسلام کے پھیلائو کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انہوں نے کمزور ضعفائِ اسلام پر عرصۂ حیات تنگ کردیا۔رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے سے روکتے، ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں خلل انداز ہوتے،دست درازی کرتے اور اکثر ان کارویہ انتہائی گستاخانہ ہوتا تھا۔حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لئے گوشوں اور گھاٹیوں تک میں محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ ابن اسحق کا بیان ہے :
''ایک دفعہ مسلمان مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انہیں دیکھ لیا اوران کو سخت سست کہنا شروع کیا۔بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے ایک شخص کو اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری، جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے لئے بہایا گیا۔(۱۰)
یہ وہ سنگین حالات تھے جن میں رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو لے کر دارِارقم میں پناہ گزین ہوگئے تاکہ مسلمان پورے انہماک سے اپنے ربّ کے حضور اپنی جبین نیاز کو جھکاسکیں،چنانچہ جلد ہی دارِارقم اسلا م اور دعوتی سرگرمیوں کامرکز بن گیا، جہاں پر نہ صرف لوگوں کودائرۂ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا بلکہ ان کی مناسب تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس بھی کیاجاتا تھا، ابن ِسعد کی روایت ہے:
«کان النبي ﷺ يسکن فيها في أول الإسلام وفيها يدعو الناس إلی الإسلام فأسلم فيها قوم کثير»(۱۱)
''رسول اللہ ﷺ ابتداے اسلام میں ہی اس مکان (دارِ ارقم ؓ)میں رہتے تھے، لوگوں کواسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا۔''
ابن جریر طبری بھی مکی عہد ِنبوت میں 'دارِ ارقم' کو دعوتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں جہاں پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ حضرت ارقم ؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وکان داره علی الصفا، وهي الدار التي کان النبي ﷺ يکون فيها في أول الإسلام وفيها دعا الناس إلی الإسلام فأسلم فيها قوم کثير»(۱۲)
''حضرت ارقم ؓکا گھر کوہِ صفا پرواقع تھا اور یہی وہ گھر ہے جہاں آغازِ اسلام میں رسول اللہ ﷺ رہاکرتے تھے۔یہیں پر آپ ﷺ لوگوں کو دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔''
ابن عبد البر اپنی شہرئہ آفاق کتاب'الاستیعاب 'میں حضرت ارقم ؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:« وفي دار الأرقم ؓ بن أبي الأرقم هٰذا کان النبيﷺمستخفيا من قريش بمکة يدعو الناس فيها إلی الإسلام في أول الإسلام حتیٰ خرج عنها، وکانت داره بمکة علی الصفا فأسلم فيها جماعة کثيرة» (۱۳)
''یہ ارقم بن ابی ارقم ؓوہی ہیں جن کے گھر میں رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں قریش سے پوشیدہ مقیم رہتے تھے۔کھل کرسامنے آنے سے قبل اسلام میں آپ ﷺ یہاں پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔حضرت ارقم ؓکا یہ مکان مکہ میں کوہِ صفا پر واقع تھا،چنانچہ یہاں پر بہت بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا۔''
دارِ ارقم کے مرکز ِ اسلام بننے کے بعد دعوت وتبلیغ کاکام اب قدرے اطمینان کے ساتھ مشرکین کی نظروں سے اوجھل انجام پانے لگا۔دعوتِ اسلام کایہ مرحلہ وہ ہے جس میں مکہ مکرمہ کے بے کس، زیردست اور غلام اس نئی تحریک میں اپنی دنیاوآخرت کی نجات تصور کرتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ابن الاثیر نے حضرت عمار بن یاسرؓ اورصہیب رومیؓکے قبولِ اسلام کے متعلق ایک بڑا دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے:
ایک دن یہ دونوں حضرات چھپتے چھپاتے اور دبے پائوں دارِ ارقم کے دروازہ پر اکٹھے ہوجاتے ہیں، حیرت واستعجاب سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں پھر گفتگو کا رازدارانہ اندازشروع ہوجاتاہے۔عمار بن یاسرؓ خود بیان کرتے ہیں:
''میں نے صہیبؓرومی سے پوچھا:تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟... صہیب ؓنے کہا:تم کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا:میں چاہتا ہوں کہ محمد ﷺ کے پاس جائوں اور ان کی باتیں سنوں۔صہیبؓ نے کہا:میں بھی تو یہی چاہتا ہوں۔''
چنانچہ یہ دونوں حضرات اکٹھے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔ ان بزرگوں کا اسلام تیس سے کچھ زائد آدمیوں کے بعد ہوا۔(۱۴)
دارِ ارقم نہ صرف ضعفائے اسلام کی جائے پناہ تھی بلکہ یہاں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اجتماعی طور پر عبادات،ذکراللہ اور دعائوں کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا تھا۔اس میں وہ دعا خصوصیت سے قابل ذکرہے جو رسول اللہﷺ نے عمر بن خطاب ؓاور (ابوجہل)عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے قبولِ اسلام کے لئے مانگی تھی۔ابن اسحق کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمرؓرسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے (معاذ اللہ)روانہ ہوئے،راستہ میں اپنی بہن فاطمہ بنت ِ خطاب ؓکے گھر سورہ طہٰ کی تلاوت سنی تو کایا ہی پلٹ گئی۔ ان کو مائل بہ اسلام دیکھ کر حضرت خبابؓ بن ارت نے انہیں خوشخبری کے انداز میں بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دارِ ارقم میں یہ دعا کرتے سناہے
«اللّٰهم أيد الإسلام بأبي الحکم بن هشام أو بعمر بن الخطاب»(۱۵)
''اے اللہ!ابوالحکم بن ہشام یا عمر بن خطاب ؓسے اسلام کی تائید فرما...''
چنانچہ حضرت عمرؓ یہاں سے سیدھے دارِ ارقم پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔
دارِ ارقم'دارالاسلام'ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے'دارالشوریٰ'بھی تھا۔پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ جیسے اہم معاملات بھی اسی جگہ باہمی مشاورت ہی سے انجام پائے۔ابن ہشام کے الفاظ اس مجلس مشاورت کی صاف غمازی کررہے ہیں: «قال لهم: لو خرجتم إلی أرض الحبشة فإن بها ملکا لايظلم عنده أحد، وهي أرض صدق،حتی يجعل اللّٰه لکم فرجا مما أنتم فيه» (۱۶)
''رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓسے فرمایا: اگر تم سرزمین حبشہ کی طرف نکل جائو تو وہاں ایک بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی سرزمین ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مشکل سے نجات دلادے جس میں تم گرفتار ہو...''
ان الفاظ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ خطاب صحابہ کرامؓ کے کسی اجتماع سے ہی ہو گا جو دارِ ارقم میں انعقاد پذیر ہوگا۔اسی طرح ایک روز رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ جمع ہوئے اور باہمی مشاورت سے طے کیا کہ قریش نے قرآن کو اپنے سامنے بلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا، لہٰذا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ فریضہ انجام دے۔چنانچہ حضرت عبداللہؓ بن مسعودنے یہ ذمہ داری قبول کی اور قریش کو ان کی مجلس میں جاکر قرآن کی طرف دعوت دی۔(۱۷)
اگرچہ یہ تفصیل معلوم نہیں ہوسکی کہ صحابہ کرامؓ کی یہ مجلس مشاورت کہاں پر منعقد ہوئی تاہم گمان یہی ہے کہ یہ مجلس مشاورت دارِ ارقم ہی میں قائم ہوئی ہوگی، کیونکہ اس کے علاوہ صحابہ کا اجتماع کسی اور جگہ پر مشکل تھا۔
ابتدائی دور کے تذکرہ نگار اور مؤرخین رسول اللہ ﷺ کے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کو اتنا اہم اور انقلابی واقعہ تصور کرتے ہیں کہ واقعاتِ سیرت وتذکرۂ صحابہ میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ یہ واقعہ دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل کاہے اور یہ اس کے بعدکا ہے۔گویا جس طرح عام الفیل اور حلف الفضول جیسے واقعات کے حوالے سے اہل مکہ اپنی معاصر تاریخ کے واقعات کا تعین کرتے تھے، مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد ِنبوت میں سیرت وتاریخ اسلام کے واقعات کا تذکرہ اور اندراج بھی ہادیٔ اسلام ﷺکے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کے حوالے سے کرتے ہیں۔مثلاًمؤرخ ابن اثیر نے مسعود ؓبن ربیعہ، عامرؓبن فہیرہ،معمر ؓبن حارث وغیرہ کے تراجم (تذکروں)میں تصریح کی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے دارِ ارقم میں منتقل ہونے سے قبل مسلمان ہوچکے تھے۔اسی طرح مصعبؓ بن عمیر، صہیبؓ بن سنان،طلیبؓ بن عمیر، عماربن یاسرؓ،عمر فاروقؓ وغیرہ کے تذکروں میں ابن اثیر نے تصریح کی ہے کہ یہ لوگ دارِ ارقم میں جاکر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تھے۔(۱۸)
ابن سعد نے مہاجرین مکہ میں سے اوّلین وسابقین اسلام کے قبول دین ِحق کو دومرحلوں میں تقسیم کیاہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ حضرات کون کون تھے جو دارِ ارقم کو دعوتِ دین کا مرکز بنانے کے بعد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ابن سعدنے مندرجہ ذیل صحابہ کرامؓ کے تذکروںمیں یہ بات خصوصیت سے ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دارِ ارقم میں تشریف فرماہونے سے قبل اسلام قبول کرچکے تھے:حضرت خدیجہؓ، ابوبکرؓ، عثمان غنیؓ،علی المرتضیٰؓ،زیدؓ بن حارثہ، عبیدہؓ بن حارث،ابو حذیفہؓ بن عتبہ،عبداللہؓ بن جحش،عبدالرحمنؓ بن عوف،عبداللہؓ بن مسعود،خبابؓ بن الارت،مسعودؓ بن ربیع،واقدؓ بن عبداللہ،عامرؓ بن فہیرہ،ابوسلمہؓ بن اسد،سعید ؓبن زید،عامرؓ بن ربیعہ،خنیسؓ بن حذافہ،عبداللہؓ بن مظعون اور حاطبؓ بن عمرو۔
اسی طرح ابن سعدنے ان بزرگوںکی بھی نشاندہی ضروری سمجھی ہے جو دارِارقم کے اندر آکر رسول ﷺ کے دست ِمبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ان صحابہ کرامؓ میں حضرت صہیبؓ،عمار بن یاسرؓ، مصعبؓ بن عمیر،عمر بن خطابؓ، عاقل ؓبن ابی بکر،عامرؓ بن ابی بکر،ایاسؓ بن ابی بکراورخالدؓ بن ابی بکرشامل ہیں۔(۱۹)
ابن سعد کے اس طرزِ ترتیب سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دارِ ارقم کو دین حق کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کا مرکزو محور بنانے کا واقعہ ایک ایسانقطہ تغیر ہے جس نے دنیا کی بے مثال اور انقلابی اسلامی تحریک کو ایک نیا رُخ عطاکرنے میں ایک محفوظ پناہ گاہ اور بے مثال تربیت گاہ کاکام دیا۔اس بات پرتمام مؤرخین اور محققین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت عمرفاروقؓ کے قبولِ اسلام تک دارِ ارقم میں ہی مقیم رہے۔جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عمرؓ نے نبوت کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا تھا۔
البتہ مؤرّخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ ﷺ دارِارقم میں کب فروکش ہوئے اور کتنا عرصہ دارِارقم مسلمانوں کی پناہ گاہ کاکام دیتا رہا۔اگرچہ بعض مؤرخین نے دارِ ارقم میں قیام کی مدت کے حوالے سے چھ ماہ اور ایک ماہ کے اقوال بھی نقل کئے ہیں(۲۰)لیکن اگر مآخذ کا تفصیلی جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کا قیام کافی مدت تک رہا ۔ اگرچہ اس مدت کا تعین تو مشکل ہے اور یہ بتانا بھی ممکن نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کب دارِ ارقم میں پناہ گزین ہوئے، تاہم مؤرخین کے بعض نامکمل اشارات سے ہم اس مدت کا اندازہ ضرور کرسکتے ہیں مثلاً ابن اثیر حضرت عمرؓکے قبولِ اسلام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''عمر بن خطاب تلوار لٹکائے گھر سے نکلے، ان کا ارادہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کاتھا(معاذ اللہ)۔مسلما ن بھی آپ ﷺ کے ساتھ دارِارقم میں جمع تھے،جو کوہِ صفا کے پاس تھا۔اس وقت آنحضرت ﷺ ان مسلمانوں میں سے تقریباً چالیس مردوزَن کے ساتھ وہاں پناہ گزین تھے جو ہجرتِ حبشہ کے لئے نہیں نکلے تھے۔(۲۱)
ابن اثیر کے اس قول سے واضح ہوتاہے:
1. حضرت عمرؓنے ہجرت ِحبشہ کے بعد اسلام قبول کیاجبکہ ابن قیمؒ نے تصریح کی ہے کہ پہلی ہجرت حبشہ ماہِ رجب سن ۵نبویؐ میں پیش آئی۔ (۲۲)
2. دارِ ارقم میں صرف وہ مسلمان پناہ گزین ہوئے تھے جو کسی و جہ سے حبشہ کی طرف ہجرت نہ کرسکے۔ لہٰذا ان باقی ماندہ مسلمانوں کی تعداد تقریباًچالیس تھی، نہ کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے والوں کی کل تعداد ہی چالیس تھی۔
پہلی اور دوسری ہجرتِ حبشہ کا فیصلہ دارِارقم ہی میں باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اگر حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام اور ہجرتِ حبشہ کے درمیانی عرصہ کو شمار کیا جائے تو وہ بھی ایک سال سے زائد ہی بنتا ہے۔جبکہ یہ بدیہی بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت ِحبشہ سے کافی پہلے دارِ ارقم میں پناہ گزیں ہوچکے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایک دو سالوں میں ہی رسول اللہ ﷺ دارِا رقم میں مقیم ہو گئے تھے۔ مثلاً ابن اثیر عمار بن یاسرؓ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں:
''میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اپنے اسلام لانے کے بعد)دیکھاتو آپﷺکے ساتھ صرف پانچ غلام، عورتیں اور ابوبکر صدیق ؓتھے۔'' (۲۳)
مجاہد کا بیان ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے سات آدمیوں میں سے ایک تھے۔(۲۴)جبکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دارِا رقم میں جاکر اسلام قبول کیا۔(۲۵)اس صور ت میں تو رسول اللہ ﷺ کا ابتدائے اسلام ہی میں دارِ ارقم میں قیام پذیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
حضرت حمزہؓ کا قبولِ اسلام:اسی طرح حضرت حمزہؓ نے کب اسلام قبول کیا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے کہاہے کہ اعلانِ نبوت کے پانچویں سال اور بعض نے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال۔لیکن علماء محققین کی تحقیق یہ ہے کہ آپؓ اعلانِ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔چنانچہ علامہ ابن حجرؓ جو فن ِرجال کے امام ہیں، تحریر فرماتے ہیں:
«وأسلم في السنة الثانية من البعثة ولازم نصر رسول اللّٰه ﷺ وهاجر معه»(۲۶) ''آپؓ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے اور ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدد کرتے رہے اور آپ ﷺ کے ساتھ ہی ہجرت کی۔''
اگرچہ ابن حجرؒ نے۶نبوی کا قول بھی نقل کیا ہے لیکن 'قیل'کے ساتھ، جو ضعف پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں:
«أسلم في السنة الثانية من المبعث» (۲۷)
''آپ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے۔''
حضرت عمر ؓنے حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کیا اور علماء محققین کی یہ رائے بھی بیان کی گئی ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت حمزہؓ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمرؓنے نبوت کے دوسرے سال حضرت حمزہؓکے تین دن بعد رسول اللہ ﷺ کے دست ِ مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ اس قول کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر علماء کی یہ رائے ہے کہ آپؓ سے پہلے اُنتالیس مرد مسلمان ہوچکے تھے۔آپؓ کے مسلمان ہونے سے چالیس کا عدد پورا ہوا۔ حضرت عمرؓکا بیان ہے :
«لقد رأيتني وما أسلم مع رسول اللّٰه ﷺ إلا تسعة وثلاثون وکمّلتهم أربعين»(۲۸) ''میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف اُنتالیس آدمی اسلام لاچکے ہیں اور میں نے ایمان لاکرچالیس کا عدد مکمل کیا''
حاصل بحث یہ ہے کہ اگر محققین کے اس قول کا اعتبار کیا جائے کہ حضرت حمزہؓاور عمرؓ نے نبوت کے دوسرے سال ہی اسلام قبول کرلیا تھا تو یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت ابتدا ہی میں دارِارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بناچکے تھے کیونکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان دونوں حضرات نے دارِ ارقم میں ہی جاکر اسلام قبول کیاتھا۔
مؤرخین اسلام اور سیرت نگاروں کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے :
1. رسول اللہ ﷺ یہاں آنے والے طالبانِ حق کو دعوتِ اسلام دیتے تھے اور جویہاں آیا فیض ہدایت پاکر ہی نکلا۔
2. دارِ ارقم اہل اسلام کے لئے اطمینانِ قلب اور سکون کا مرکز تھا؛ بالخصوص نادار،ستائے ہوئے اور مجبور ومقہور اور غلام یہاں آکر پناہ لیتے تھے۔
3. یہاں پر ذکر اللہ اور وعظ وتذکیر کا فریضہ بھی مسلسل انجام پاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے جانثاروں کے ساتھ اجتماعی دعائیں بھی فرماتے تھے۔حضرت خباب ؓ کے بیان سے تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ محسن انسانیت یہاں راتوں کو بھی بندگانِ خداکی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور التجائیں فرماتے تھے۔
4. اس مکان میں مبلغین اسلام کی کارکردگی کاجائزہ لیاجاتا تھا، تبلیغ کے آئندہ منصوبے بنتے تھے اور خود مبلغین کی تربیت کا کٹھن کام بھی انجام پاتا تھا۔ دارِارقم کے تربیت یافتہ معلّمین میں سے حضرت ابوبکرؓ، خبابؓ بن ارت،عبداللہ ؓبن مسعوداور مصعبؓ بن عمیرخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
5. دارِ ارقم مسلمانوں کے لئے دارالاسلام ہونے کے ساتھ ساتھ'دارالشوریٰ'بھی تھاجس میں باہمی مشاورت سے آئندہ تبلیغ کے منصوبے بنتے تھے۔ ہجرتِ حبشہ کا فیصلہ بھی باہمی مشورہ سے یہیں پر طے ہوا اور اس جگہ کو تاریخ اسلام میں وہی مقام حاصل تھا جو قریش کے ہاں دارالندوۃ کو حاصل تھا۔
6. دارِ ارقم میں رسول اللہ ﷺ کا پناہ گزین ہونا ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا اور یہ بھی حلف الفضول،حرب الفجار اور عام الفیل جیسا مہتم با لشان واقعہ تھاجس طرح کفارِ مکہ اپنی معاصر تاریخ کا تعین ان واقعات سے کرتے تھے، اسی طرح مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد ِنبوت میں پیش آنے والے واقعات کا تعین دارِ ارقم میں رسول اللہ ﷺ کے داخل ہونے سے قبل اور بعد کے حوالے سے کرتے ہیں۔
7. حضرت ارقم ـؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے بہت ابتدا ہی میں اپنے مکان کو تبلیغی سرگرمیوں کے لئے وقف کردیا ہو اور آپﷺابتدائی سالوں میں ہی دارِارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کامرکز بناچکے ہوں۔
8. مؤرخین کے مختلف بیانات کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ دارِارقم میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کی مدت ایک سال سے بہرحال زائد تھی۔
9. کفارِ مکہ مسلمانوں کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پوری طرح واقف تھے،تاہم دارارقم کی اندرونی سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں سے وہ قطعاًناواقف تھے۔
4. شعب ِ ابی طالب
کفارِمکہ کویہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے وحشیانہ جبر وتشدد سے اسلام کی اس تحریک کوموت کی نیند سلادیں گے، لیکن جب ان کی تمام مساعی اور تدبیروں کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ اورعمرؓجیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور نجاشی کے دربار میں بھی ان کے سفیروں کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس چوٹ نے کفارِ مکہ کو مزید حواس باختہ کردیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے طویل غوروخوض کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے خاندان کو محصور کرکے تباہ کردیاجائے، چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ کیاکہ کوئی شخص خاندانِ بنی ہاشم سے قربت کرے گا، نہ ان کے ہاتھ خریدوفروخت کرے گااورنہ ہی ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا۔یہ معاہدہ لکھ کر کعبۃ اﷲ کے دروازے پر آویزاں کردیاگیا۔(۲۹)
جناب ابوطالب مجبو ر ہوکر رسول اللہ ﷺ اور تمام خاندانِ بنی ہاشم سمیت شعب ِابی طالب میں محرم سن۷نبویؐ میں محصور ہوگئے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاندان سمیت اس حصار میں تین سال بسر کئے۔ ایامِ حج میں چونکہ تمام لوگوں کو اَمن تھا، اس لئے حج کے موسم میں رسول اللہ ﷺ شعب ِ ابی طالب سے باہر نکل کر مختلف قبائل عرب کو دعوت دیتے، جبکہ باقی اوقات میں آپﷺ اسی گھاٹی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔شعب ِابی طالب میں خاندانِ بنی ہاشم کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی موجودگی کے اشارات بھی ملتے ہیں۔امام سُہَیْلِی نے سعد بن ابی وقاص ؓکا بیان نقل کیا ہے...سعدبن ابی وقاص ؓخود بھی محصورین میں شامل تھے... وہ فرماتے ہیں:
«لقد جُعت حتی أني وطئت ذات ليلة علی شيءرطب ووضعته في فمي وبلعته وما أدري ما هو إلی الآن»(۳۰)
''میں ایک دن از حد بھوکا تھا، رات کو اندھیرے میں میرا پائوں کسی گیلی چیز پر آگیا۔ میں نے اسے اُٹھا کر منہ میں ڈالا اور نگل لیا۔مجھے اتنی ہوش بھی نہ تھی کہ میں پتہ کرتا کہ وہ کیا چیز ہے اور اب تک مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔''
اسی طرح حضرت عتبہ بن غزوانؓ نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
«فلقد رأيتني سابع سبعة مع رسول اللّٰه ﷺ ، ما لنا طعام نأکله إلا ورق الشجر، حتی قرحت أشداقنا» (۳۱)
''میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتواں مسلمان تھااور ہمارے پاس کھانے کے لئے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا، حتیٰ کہ ہمارے جبڑے زخمی ہوگئے۔''
یہ اور اسی نوعیت کی وہ تمام حدیثیں جن میں صحابہ ؓ کی زبان سے مذکورہے کہ ہم گھاس اور پتے کھا کر گزر بسر کرتے تھے، یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے ۔ اس نوع کی احادیث سے جہاں محصوری کے اس دور میں صحابہ کرامٔؓ کی مشکلات کا پتہ چلتاہے وہاں شعب ِ ابی طالب میں صحابہ کرامؓ کی موجودگی کا بھی واضح طور پر اشارہ ملتا ہے۔محصوری کے اس دور میں جس قدر وحی نازل ہوئی، یقینا شعب ِ ابی طالب میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓکو اس کی تعلیم دی ہوگی اور یہاں صحابہ کرامؓ بھی دینی اُمور پر تبادلہ خیال کرتے ہوں گے۔ اس لحاظ سے شعب ِ ابی طالب کو بھی مکی عہد ِنبوت کا ایک دعوتی مرکز قرار دیا جاسکتا ہے۔جہاں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ عرصہ تین سال تک تعلیم وتعلّم اور دعوت وتبلیغ میں مشغول رہے۔
ہجرت سے قبل مدینہ کے اہم دعوتی وتبلیغی مراکز
بیعت ِ عقبہ اولیٰ کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلا۔ بالخصوص حضرت مُصعبؓ بن عمیرکے خوبصورت اور دلکش اسلوبِ دعوت کی بدولت انصار کے دونوں قبائل اوس وخزرج کے عوام اور اَعیان واَشراف جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔اور ہجرتِ عامہ سے دوسال قبل ہی وہاں مساجد کی تعمیر اور قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا۔ حضرت جابرؓ کابیان ہے :
«لقد لبثنا بالمدينة قبل أن يقدم علينا رسول اللّٰه ﷺ سنتين، نعمر المساجد ونقيم الصلوٰة» (۳۲) ''ہمارے یہاں رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے دوسال پہلے ہی ہم لو گ مدینہ میں مساجد کی تعمیر اور نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے''۔
اس دوسالہ درمیانی مدت میں تعمیر شدہ مساجد میں نماز کی امامت کروانے والے صحابہ کرامؓ ہی معلم کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔اسی دوران مدینہ منورہ میں تین مستقل درسگاہیں بھی قائم ہوچکی تھیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا۔چونکہ اس وقت تک صرف نماز ہی فرض ہوئی تھی، اس لئے قرآنِ مجید کے ساتھ عموماً نماز کے احکام ومسائل اور مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی۔یہ تینوں درس گاہیں اس طرح اہل مدینہ کی دینی ضروریات کو اس انداز میں پورا کررہیں تھیں کہ شہر مدینہ اور اس کے انتہائی کناروں اور آس پاس کے مسلمان آسانی سے وہاں تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔
پہلی درسگاہ قلب ِ شہر میں مسجد ِ بنی زُریق تھی۔دوسری درسگاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر قبا میں تھی اور تیسری درسگاہ مدینہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر نقیع الخضمات نامی علاقے میں تھی۔ ان تین مستقل تعلیمی مراکز کے علاوہ انصار کے مختلف قبائل اور آبادیوں میں قرآن اور دینی احکام کی تعلیم جاری تھی۔اور ان کے معلم ومنتظم انصار کے رئوسا اور بااثر حضرات تھے ۔مکہ مکرمہ میں ضعفاء ومساکین نے سب سے پہلے دعوتِ اسلام پر لبیک کہا اور سردارانِ قریش کے مظالم اور جبروتشدد کانشانہ بنے جبکہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں کامعاملہ اس کے برعکس تھا۔ یہاںسب سے پہلے سردارانِ قبائل نے برضا ورغبت اسلام قبول کیا اور دعوتی سرگرمیوںمیں بھر پور حصہ لیا۔بالخصوص قرآنِ مجید کی اشاعت اور تعلیم کامعقول انتظام کیا۔ قبل از ہجرت مدینہ میں جو درسگاہیں تعلیم قرآن کا مرکز تھیں، ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
1. درسگاہِ مسجد بن زریق
مدینہ منورہ میں تعلیم قرآن کا اوّلین مرکز اور درسگاہ مسجد ِبنی زریق تھی۔ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
«فأول مسجد قریٔ فيه القرآن بالمدينة مسجد بني زريق»(۳۳) ''مدینہ میں سب سے پہلے جس مسجدمیں قرآن پڑھا گیا،وہ مسجد ِبنی زریق ہے۔''
اس درسگاہ کے معلم حضرت را فع ؓ بن مالک زرقی قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق سے تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور دس سال کی مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ نے ان کو عنایت فرمایاجس میں سورئہ یوسف بھی تھی۔ وہ اپنے قبیلے کے نقیب اور رئیس تھے۔ انہوں نے مدینہ واپس آنے کے بعد ہی اپنے قبیلے کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم پر آمادہ کیااور آبادی میں ایک بلند جگہ (چبوترے)پر تعلیم دینا شروع کی۔ مدینہ میں سب سے پہلے سورئہ یوسف کی تعلیم حضرت رافعؓ ہی نے دی تھی۔جب مکہ میں سورۃ طہٰ نازل ہوئی تو انہوں نے اسے لکھا اور مدینہ لے آئے اور بنی زریق کو اس کی تعلیم دی اور یہاں کے پہلے معلم ومقری یہی تھے۔ بعد میں اسی چبوترہ پر مسجد ِبنی زریق کی تعمیر ہوئی جو قلب ِشہر میں مصلّٰی (مسجد ِغمامہ) کے قریب جنوب میں واقع تھی۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت رافعؓ کی تعلیمی ودینی خدمات اور ان کی سلامتی طبع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔(۳۴)
اس درسگاہ کے استاد اور اکثر شاگرد قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق کے مسلمان تھے۔
2. قبا کی درسگاہ
دوسری درسگاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پرمقامِ قبا میں تھی،جہاں بعد میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔ بیعت ِعقبہ کے بعد بہت سے صحابہ کرامؓ جن میں ضعفائِ اسلام کی اکثریت تھی، مکہ سے ہجرت کرکے مقامِ قبا میں آنے لگے اور قلیل مدت میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوگئی۔ ان میں حضرت سالم ؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے، وہی ان حضرات کو تعلیم دیتے تھے اور امامت بھی کرواتے تھے۔یہ تعلیمی سلسلہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری تک جاری تھا۔عبدالرحمن ؓبن غنم کا بیان ہے:
«حدثني عشرة من أصحاب رسول اللّٰه ﷺ قالوا: کنا نتدارس العلم في مسجد قبا إذ خرج علينا رسول اللّٰه ﷺ ، فقال: تعلّموا ماشئتم إن تعلّموا فلن يأجرکم اللّٰه حتی تعملوا» (۳۵)
''رسول اللہ ﷺ کے کئی صحابہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم لوگ مسجد قبا میں علم دین پڑھتے پڑھاتے تھے۔اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ ہمار ے پاس آئے اور فرمایا: تم لوگ جو چاہو پڑھو،جب تک عمل نہیں کرو گے، اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اجروثواب نہیں دے گا۔''
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبا کے مہاجرین میں متعدد حضرات قرآن کے عالم ومعلم تھے۔ان میں حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور وہی امامت کے ساتھ تدریسی خدمت میں بھی نمایا ں تھے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کابیان ہے:
«لما قدم المهاجرون الأولون العصبة (موضع بقباء) قبل مقدم رسول اللّٰه ﷺ کان سالمؓ مولٰی أبي حذيفهؓ يؤم المهاجرين الأولين في مسجد قباء وکان أکثرهم قرآنا»ا(۳۶)
''رسول اللہ ﷺ کے آنے سے پہلے مہاجرین اوّلین کی جماعت جب عصبہ آئی،جو قبا کی ایک جگہ ہے، تومسجد ِ قبا میں ان لوگوں کی امامت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ کرتے تھے،وہ ان میں قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے۔''
حضرت سالمؓ جنگ ِ یمامہ میں مہاجرین کے علمبردار تھے،بعض لوگوں کو ان کی قیادت میں کلام ہوا تو انہوں نے کہا : بئس حامل القرآن أنا (یعنی إن فررت) ''اگر میں جنگ سے فرار ہوا توبرا حامل قرآن ہوں گا۔''
اور غزوہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیاتو جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور وہ بھی زخمی ہوگیا تو بغل میں لے لیا اور جب زخمی ہوکر گرگئے تو اپنے آقا حضرت ابوحذیفہؓ کا حال دریافت کیا۔ جب معلوم ہوا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں تو کہا کہ مجھے انہی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ حضرت ابوحذیفہؓ نے سالمؓ کو اپنا بیٹا بنالیاتھا۔(۳۷)
ان تصریحات سے حضرت سالم ؓکے علم وفضل اور قرآن میں ان کے امتیاز کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے اور یہ کہ وہی قبا کی درسگاہ میں تعلیمی اور تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو قرآن کے جن چار علما اور قاریوں سے قرآن پڑھنے کی تاکید فرمائی ان میں سے ایک حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہ ؓ بھی تھے۔
یہاں حضرت ابو خیثمہ سعد بن خیثمہ اویسی ؓ کامکان گویا مدرسہ قبا کے طلبہ کے لئے دارالاقامہ تھا ۔وہ اپنے قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے نقیب ورئیس تھے۔بیعت ِعقبہ کے موقع پر اسلام لائے،مجرد تھے اور ان کا مکان خالی تھا،اس لئے اس میں ایسے مہاجرین قیام کرتے جو اپنے بال بچوں کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر آئے تھے یا جن کے آل اولاد نہیں تھی۔اس وجہ سے ان کے مکان کو 'بیت الاعزاب'یعنی کنواروں کا گھر کہاجاتا تھا۔ رسو ل اللہ ﷺ ہجرت کے وقت قبا میں حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے مکان میں فروکش تھے۔ اسی کے قریب حضرت سعد بن خیثمہؓ کا گھر تھا۔ رسول اللہ ﷺ وقتاً فوقتاً وہاں تشریف لے جاتے اور مہاجرین کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ یہ مکان مسجد ِ قبا سے متصل جنوبی سمت میں تھا اور یہیں دارِ کلثوم بن ہدمؓ بھی تھا۔(۳۸)
گویا اس درسگاہ کے استاد اور شاگرد دونوں مہاجرین اوّلین تھے، تاہم مقامی مسلمان بھی اس میں شامل ہوتے تھے۔
3. درسگاہ نقیع الخضمات
تیسری درسگاہ مدینہ کے شمال میں تقریباً ایک میل دور حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان میں تھی جو حرہ بنی بیاضہ میں واقع تھا۔یہ آبادی بنو سلمہ کی بستی کے بعد نقیع الخضمات نامی علاقے میں تھی۔یہ درسگاہ اپنے محل وقوع کے اعتبارسے پرکشش ہونے کے ساتھ اپنی جامعیت اور اپنی افادیت میں دونوں مذکورہ درسگاہوں سے مختلف اور ممتاز تھی۔بیعت ِ عقبہ میں انصار کے دونوں قبائل اوس اور خزرج کے رئوسا نے قبولِ اسلام کے بعد بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا کہ مدینہ میں قرآن اور دین کی تعلیم کے لئے کوئی معلم بھیجا جائے تو ان کے اصرار پر آپﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو روانہ فرمایا۔
ابن اسحق کی روایت کے مطابق بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد ہی رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو انصار کے ساتھ مدینہ روانہ فرمایا:
«فلما انصرف عنه القوم بعث رسول اللّٰه ﷺ معهم مصعبؓ بن عمير وأمره أن يقرئهم القرآن ويعلّمهم الإسلام، ويفقّههم في الدّين فکان يسمی المقریٔ بالمدينة معصبؓ، وکان منزله علی أسعدؓ بن زراره بن عدس أبي أمامةؓ »(۳۹)
''جب انصار بیعت کرکے لوٹنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ مصعبؓ بن عمیرکو روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہاں لوگوں کو قرآن پڑھائیں،اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی بصیرت اور صحیح سمجھ پیدا کریں۔چنانچہ حضرت مصعبؓ مدینہ میں 'معلم مدینہ' کے لقب سے مشہور تھے اور ان کا قیام حضرت ابو امامہ اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر تھا۔''
حضرت مصعب ؓبن عمیر ابتدائی دور میں اسلام لائے۔نازونعمت میں پلے ہوئے تھے۔ جب ان کے مسلمان ہو نے کی خبر خاندان والوں کو ہوئی تو انہوں نے سخت سزا دے کر مکان کے اندر بند کردیا،مگر حضرت مصعبؓ بن عمیر کسی طرح نکل کر مہاجرین حبشہ میں شامل ہوگئے۔(۴۰) بعد میں جب قریش کے اسلام قبول کرنے کی افواہ پھیلی تو آپؓ مکہ واپس آئے اور پھرمدینہ کی طرف ہجرت کی۔(۴۱)
حضرت اسعدؓ بن زرارہ خزرجی نجاری بیعت ِ عقبہ اولیٰ میں اسلام لانے والوں میں سے تھے۔اپنے قبیلے کے نقیب تھے،ایک روایت کے مطابق وہ'نقیب النقبائ'بھی تھے۔یہ دونوں حضرات قرآن کی تعلیم اور اسلام کی اشاعت میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔حضرت مصعبؓ ؓبن عمیر قرآن کی تعلیم کے ساتھ اوس اور خزرج دونوں قبائل کی امامت بھی کرتے تھے اور جب ایک سال کے بعد بیعت ِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر اہل مدینہ کو لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو ان کا لقب 'مقریٔ المدينه 'یعنی معلم مدینہ مشہور ہوچکا تھا۔(۴۲)
حضرت اسعدؓبن زرارہ نے جمعہ کی فرضیت سے پہلے ہی مدینہ میں نمازِ جمعہ کااہتمام فرمایا۔نمازِ جمعہ کا اجتماع بنی بیاضہ کی جگہ نقیع الخضمات میں ہوتا تھا۔(۴۳) گویانقیع الخضماتکی یہ درسگاہ صرف قرآنی مکتب اور مدرسہ ہی نہیں تھی، بلکہ ہجرت سے پہلے مدینہ میں اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔حضرت مصعبؓ بن عمیر اوس وخزرج کے اس مشترکہ اجتماع کی امامت کیاکرتے تھے۔(۴۴)اسی لئے نمازِ جمعہ کے قیام کی نسبت بعض روایتوں میں ان کی طرف کی گئی ہے۔(۴۵)
اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیرکے ہمراہ ابن اُمّ مکتومؓ کو بھی مدینہ روانہ فرمایا تھا لیکن چونکہ حضرت مصعب ؓبن عمیرکو خاص طور پر تعلیم کے لئے بھیجا تھا، اس لئے اس درسگاہ کی تعلیمی سرگرمیوں میں ابن اُمِ مکتومؓ کا تذکرہ نہیں آتا۔ ویسے بھی ابن اُمّ مکتومؓ نابینا ہونے کی وجہ سے محدود پیمانے پر ہی تبلیغی ودعوتی خدمات سرانجام دے سکتے تھے۔
نقیع الخضماتکی اس درسگاہ اور اسلامی مرکز کی وجہ سے مدینہ کے یہودیوں کے دینی وعلمی مرکز'بیت المدارس'کی حیثیت کم ہوگئی، جہاں جمع ہوکر یہود ِمدینہ درس وتدریس،تعلیم وتربیت اور دعا خوانی کے ذریعہ اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے تھے۔
اوس وخزرج یہودیوں سے بے نیاز ہوکر اپنے علمی ودینی مرکزسے وابستہ ہوگئے۔اسلام سے قبل اوس وخزرج میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا اور اس معاملہ میں وہ یہودیوں کے محتاج تھے، البتہ چند لوگ لکھنا جانتے تھے۔ان میں رافع ؓ بن مالک زرقی،زیدؓ بن ثابت،اُسید ؓبن حضیر،سعدؓبن عبادہ،اُبی ؓبن کعب وغیرہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے ہجرت سے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا اور وہ اب بڑی سرگرمی سے مسلمانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے تھے۔نقیع الخضمات کے مرکز سے ان کا خصوصی رابطہ تھا۔ اس زمانے میں مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں اور قبائل میں تدریسی وتعلیمی مجالس برپارہتی تھیں۔خاص طور پر بنو نجار،بنو عبدالاشہل،بنوظفر،بنو عمرو بن عوف،بنو سالم وغیرہ کی مساجد میں علمی مجالس کا انتظام تھااور عبادہ ؓبن صامت،عتبہؓ بن مالک،معاذ ؓبن جبل،عمر ؓبن سلمہ،اسید ؓبن حضیراور مالک ؓبن مویرت ان کے امام ومعلم تھے۔(۴۶)
نصابِ تعلیم
ان درسگاہوں کے نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت تک عبادات میں صرف نماز فرض ہوئی تھی لہٰذا یہاں پر زیادہ تر نماز کے احکام ومسائل، قرآن اور اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی تھی اور اسی طرح وہ اخلاقیات جن پر بیعت ِ عقبہ میں رسول اللہ ﷺ نے انصار کے مردوخواتین، سب کو بیعت کیاتھا،کی تعلیم دی جاتی تھی ۔عبادۃ ؓبن صامت اس بیعت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
«بايعنا رسول اللّٰه ﷺ ليلة العقبة الأولٰی علی أن لا نشرك باللّٰه شيئًا، ولا نسرق، ولا نزني، ولا نقتل أولادنا، ولا نأتي ببهتان نفتريه من بين أيدينا وأرجلنا،ولا نعصيه في معروف»(۴۷)
''ہم نے بیعت ِعقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت اس چیز پر کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کریں گے،نہ چوری کریں گے،نہ زنا کریں گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گے،نہ کسی پر بہتان لگائیں گے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کی معروف میں نافرمانی کریں گے۔''
چنانچہ ان درسگاہوں میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ان ہی اخلاقی امور کی تعلیم وتربیت دی جاتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت حضرت مصعب ؓبن عمیر کو اہل مدینہ کے ساتھ روانہ فرمایا تو ان کویہ حکم دیا تھا :
«أن يقرأهم القرآن، ويعلّمهم الإسلام، ويفقّههم في الدين»(۴۸) ''ان کو قرآن پڑھائیں،اسلام کی تعلیم دیںاور ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں...''
اس مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوچکا تھا، ان درس گاہوں میں اس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔اور عام طور پر آیات و سورتیں زبانی یاد کرائی جاتی تھیں۔انصارنے بیعت ِ عقبہ میں جن باتوں کااقرار کیاتھا، ان پر عمل کی تلقین وتاکید کی جاتی تھی۔چنانچہ اس درسگاہ کے ایک طالب علم حضرت براء ؓبن عازب کا بیان ہے :
«فما قدم حتی قرأت﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ﴾ في سور من المفصّل»(۴۹) ''رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ہی میں نے 'طوال مفصل'٭ کی کئی سورتیں یاد کرلی تھیں۔''
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو بڑے فخر سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیااور عرض کیا :
«يا رسول اللّٰه ﷺ! هذا غلام من بني النجار معه مما أنزل اللّٰه عليك بضع عشرة سورة، فأعجب ذلك النبي ﷺ» (۵۰)
''اے اللہ کے رسول ﷺ!اس لڑکے کا تعلق بنو النجار سے ہے،جوکلام آپ ﷺ پر نازل ہوا ہے، اس کو اس میں سے دس سے زائد سورتیں یاد ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر خوشی کا اظہار فرمایا۔''
یہ درسگاہیں دن رات،صبح وشام کی قید سے آزاد تھیں اور ہر شخص ہر وقت ان سے استفادہ کرسکتاتھا۔
خلاصۂ بحث
مکی دور میں صحابہ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں، تاہم بعض منتشر معلومات سے اس قدر ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ کارِ نبوت کی انجام دہی میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بھرپور معاونت کی اور حق کی تبلیغ میں انہو ں نے بھی رسول اللہ ﷺ کی طرح ہر تکلیف اور مصیبت کا بڑی خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
مکی دور کے ابتدائی سالوں میں اشاعت ِ اسلام کاایک طریقہ تو یہ تھا کہ نبوی ہدایت کے مطابق صحابہ کرامؓ اپنے اپنے خاندان اور اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دیتے تھے جس کے نتیجہ میں کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔چنانچہ حضرت عمار ؓبن یاسر اسلا م لائے تو تمام گھر والوںکو بھی اسلام کی دعوت پیش کی جس کے نتیجے میں ان کے تمام اہل خانہ نے اسلام قبول کرلیا۔اسی طرح حضرت طلیب ؓبن عمیر کی دعوت پر ان کی والدہ ارویٰ ؓ بنت عبدالمطلب نے اسلام قبول کیااور حضرت ابو بکرؓ کی والدہ اُم الخیر ؓ بھی ان کی کوششوں سے ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگوں کو اپنے ذاتی کردار اور محاسن سے متاثر کرکے اسلام کی طرف بلایا جائے۔ جیساکہ ابوبکر ؓکی شخصی خوبیوں کی وجہ سے لو گ ان کی مجلس میں آتے تو آپ ان لوگوں کواسلام کی دعوت دیتے اور جب ایک دفعہ آپؓ کو ہجرت پر مجبور کیاگیا تو ابن د غنہ یہ کہہ کر آپ ؓکو واپس لے آیا :
«إن مثلك لا يخرج ولا يخرج، فإنك تکسب المعدوم وتصل الرحم، وتحمل الکل، وتقري الضيف وتعين علی نوائب الحق فأنا لك جار، وارجع واعبد ربك ببلدك» (۵۱) ''اے ابو بکر! تیرے جیسے آدمی کو نہیں نکالا جانا چاہئے۔ آپؓ تو مفلس اور نادار کے لئے مال کماتے ہیں،صلہ رحمی کرتے ہیں،لوگوں کابوجھ اٹھاتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں، ان کی مدد کرتے ہیں؛میں آپؓ کو پناہ دیتا ہوں۔آپؓ اپنے شہر لوٹ جائیے اور آزادی سے اپنے ربّ کی عبادت کیجئے۔''
چنانچہ حضرت ابوبکر ؓواپس لوٹ آئے اور آپؓکی دعوت پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ابن ہشام نے پچاس سے زائد صحابہ کے نام گنوائے ہیں جنہوں نے ابوبکر ؓکی دعوت اور تحریک پر اسلام قبول کیا۔(۵۲)
مکی عہد ِنبوت میںتبلیغ اسلام کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام سرزمین مکہ تک محدود نہ رہا بلکہ بہت جلد جزیرہ نمائے عرب کے مختلف علاقوں میں اسلام کی گونج سنائی دینے لگی۔صحابہ کرامؓکی کوششوں سے قبیلہ غفار،قبیلہ ازدشنوء ۃ،قبیلہ دوس اور یثربی قبائل اوس وخزرج کے علاوہ کئی دیگر قبائل میں بھی اسلام پھیل گیا،بلکہ ہجرتِ حبشہ کی بدولت اب اسلام اور رسول اللہﷺ کی ذات اہل حبشہ کے لئے بھی کسی تعارف کی محتاج نہ رہی تھی۔ہجرتِ مدینہ کے وقت مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد یثرب اور دیگر کئی قبائل میں موجود تھی۔
اسلام کی اس عالمگیر اشاعت میں یقینی طور پر رسول اللہ ﷺکے علاوہ ان مبلغ صحابہ کرام ؓکی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں جنہوںنے دعوتِ اسلام کے پھیلائومیں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ان صحابہ کرامؓ میں حضرت ابوذرّ غفاریؓ،ابوموسیٰ اشعریؓ، طفیل ؓبن عمرو دوسی، ضمادؓ بن ثعلبہ اَزدی،جبکہ قریشی صحابہ میں سے حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، ابوعبیدہؓ، زبیرؓ، جعفرؓ، سعیدؓ بن زید، طلحہ ؓاور مصعبؓ بن عمیر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انکے علاوہ رسول اللہﷺ کا ہر صحابی داعی اور مبلغ تھا۔
مکی دور میں اسلام کے فروغ میں ان مراکز کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے، جہاں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ؓ تعلیم قرآن او رعبادت کے لئے جمع ہوتے تھے۔ہجرت سے قبل مکہ میں دارِ ارقم ؓ، بیت ِفاطمہ بنت خطابؓاورشعب ِ ابی طالب وغیرہ کو مسلمانوںکی تعلیمی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے دعوتی وتبلیغی مراکز میں دارِ ارقم ؓکو اس وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ یہ جگہ نہ صرف کمزور مسلمانوں کی جائے پناہ تھی بلکہ یہا ں ان کا تزکیۂ نفس بھی کیا جاتا تھا۔
مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ میں بھی ہجرت سے قبل چند دعوتی وتبلیغی مراکز کا سراغ ملتا ہے۔ قبا،مسجد ِ بنی زریق اور نقیع الخضمات کی درسگاہیں قبل ازہجرتِ مدینہ، اہم دعوتی وتبلیغی مراکز تھے،جہاں پر سالم مولیٰ ابی حذیفہ ؓاور مصعبؓبن عمیر جیسے معلّمین، انصار کی تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔
ہجرت سے قبل مدینہ میں اسلام کی ہمہ گیر اشاعت اور فروغ میں ان انصار صحابہ کرام ؓکا کردار بھی بڑا اہم ہے جن کو رسول اللہﷺ نے بیعت ِعقبہ ثانیہ کے بعد اپنے اپنے قبیلے اور خاندان کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ ان صحابہ میں سے حضرت اسعدؓ بن زرارہ، رافع ؓبن مالک،اُسید ؓبن حضیر،عبادہ ؓبن صامت اور سعدؓ بن معاذ خاص طو رپر قابل ذکر ہیں جنہوں نے اسلام کے فروغ میں اپنے علم اور اثرو رسوخ کو پوری طرح استعمال کیا ۔
حاشیہ وحوالہ جات
(۱) صحیح البخاری، کتاب ا لکفالۃ، باب جوار ابی بکر الصدیقؓ فی عہد النبیﷺ وعقدہ، ح:۲۲۹۷، ص:۳۶۷... ایضا، کتاب الصلوٰۃ، باب ا لمسجد فی الطریق، ح:۴۷۶، ایضاً ، کتاب مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی و اصحابہ اِلی المدینۃ، ح:۳۹۰۵،(۲) ۲۔ابن ہشام 'السیرۃ النبویۃ'دخول ابی بکرؓ فی جوار ابن الدغنہ ورد جوارہ علیہ، ۱؍۴۱۱۔ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۹۵ئ(۳) ابن ہشام، اسلام عمر بن الخطابؓ، ۱؍۳۸۲(۴) السیرۃ الحلبیۃ، ۲؍۱۳(۵)السمہود دی ، نور الدین علی بن احمد، 'السیرۃ الحلبیۃ'، ۲؍۱۳، دارالنفائس، الریاض(۶)المستدرک، تذکرہ ارقم بن ابی الارقم، ۳؍۵۰۲ (۷)ابن اثیر، اسد الغابہ، تذکرہ ارقمؓ بن ابی الارقم، ۱؍۶۰، داراحیاء التراث العربی، بیروت (۸)المستدرک، تذکرہ ارقمؓ بن ابی الارقم، ۳؍۵۰۲(۹)ابن سعد، 'الطبقات الکبریٰ'، تذکرہ ارقمؓ بن ابی الارقم، ۳؍۲۴۳، دارصادر، بیروت، ۱۹۸۵ئ(۱۰)ابن ہشام، مباداۃ رسول اللہﷺ قومہ وما کان منہم ، ۱؍۲۶۳ (۱۱) ابن سعد، تذکرہ ارقمؓ بن ابی الارقم ۳؍۲۴۲، المستدرک، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم، ۳؍۵۰۲(۱۲)الطبری، محمد بن جریر، 'تاریخ الامم والملوک'، ۳؍۲۳۰، المطبعۃ الحسینیۃ(۱۳)ابن عبدالبر، 'الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب'، تذکرہ ارقمؓ بن ابی الارقم، ۱؍۱۳۱، دارالجلیل، بیروت، ۱۹۹۲ئ(۱۴)اسدالغابہ، تذکرہ عمار بن یاسرؓ، ۴؍۴۴(۱۵)ابن ہشام، اسلام عمر بن الخطابؓ،۱؍۳۸۳،ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۲؍۵۸، دارالکتب ، بیروت، ۱۹۶۷ئ(۱۶)ابن ہشام، ذکر الحجرۃ الاولی الی ارض الحبشہ، ۱؍۳۵۸(۱۷)ایضاً، اول من جھربالقرآن، ۱؍۳۵۱(۱۸)تفصیل کے لئے 'اسد الغابہ' میں ان صحابہ کرامؓ کے تراجم ملاحظہ کیجئے۔(۱۹)ابن سعد، ۳؍۱۱۵، ۲۷۳،۴۲۵(۲۰)حلیۃ الاولیائ، ۱؍۱۹۲تا۱۹۵(۲۱)الکامل فی التاریخ، ۲؍۵۸(۲۲)زادالمعاد، ۲؍۱۰۰... تاریخ الامم والملوک، ۱؍۹۵ (۲۳)اسد الغابہ ، تذکرہ عمار بن یاسرؓ، ۴؍۴۴(۲۴)ایضاً
(۲۵)ایضاً(۲۶)الاصابہ ، تذکرہ حمزہؓ بن عبدالمطلب، ۱؍۳۵۴ (۲۷) اسدالغابہ، تذکرہ حمزہؓ بن عبدالمطلب، ۲؍۴۶(۲۸)ابن حجر، احمد بن علی، 'فتح الباری' کتاب فضائل الصحابہ مناقب عمر بن الخطابؓ، ۷؍۴۸، دارالمعرفۃ، بیروت(۲۹)ابن ہشام، خبر الصحیفۃ، ۱؍۳۸۸(۳۰)الروض الانف، حدیث نقض الصحیفۃ، ۱؍۲۳۲...حلیۃ الاولیائ، تذکرہ سعد ؓ بن ابی وقاص، ۱؍۱۳۵،۱۳۶(۳۱)المسند، حدیث عتبہؓ بن غزوان، ح:۲۰۰۸۶،۶؍۵۲ ... الاستیعاب، تذکرہ عتبہؓ بن غزوان، ۳؍۱۰۲۶(۳۲) وفاء الوفائ، ۱؍۲۵۰ ۳۳۔زاد المعاد، ۱؍۱۰۰ (۳۴) اسد الغابہ، تذکرہ رافعؓ بن مالک، ۲؍۱۵۷... فتوح البلدان، ص:۴۵۹ (۳۵) جامع بیان العلم، باب جامع القول فی العمل بالعلم، ۲؍۶(۳۶) صحیح البخاری، کتاب الاذن ، باب امامۃ العبدوالمولی، ح:۶۹۲، ص:۱۱۳ایضاً... کتاب الاحکام، باب استقضاء الموالی و استعمالہم، ح:۷۱۷۵،ص:۱۲۳۶
الاصابہ، تذکرہ سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہ، ۲؍۷(۳۷) الاصابہ، تذکرہ سالمؓ مولی ابی حذیفہ ۲؍۷... اسدالغابہ،تذکرہ سالمؓ موالی ابی حذیفہؒ،۲؍۲۴۶(۳۸) ابن ہشام، حجرۃ الرسول ﷺ ، ۲؍۱۰۶-۱۰۷(۳۹) ابن ہشام، العقبۃ الاولیٰ و مصعبؓ بن عمیر، ۲؍۴۷،۴۸(۴۰) ایضاً ... ذکر الحجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشہ، ۱؍۳۶۲(۴۱) ایضاً، ذکر من عاد من ارض الحبشۃ لما بلغھم اسلام اھل مکہ، ۱؍۴۰۳ (۴۲) ابن ہشام، العقبۃ الاولیٰ و مصعبؓ بن عمیر ۲؍۴۸ (۴۳) کنزالعمال، فضائل ابوامامہؓ، ۱۳؍۶۱۰(۴۴) ابن ہشام، العقبۃ الاولیٰ و معصبؓ بن عمیر، ۲؍۴۸(۴۵) ابن ہشام، اول جمعۃ اقیمت بالمدینۃ، ۲؍۴۸(۴۶) یہ معلومات سیردرجال کی مختلف کتب مثلاً طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام، سیرت حلبیہ، وفاء الوفاء اور روض الانف وغیرہ میں موجود ہیں۔(۴۷) ابن ہشام، العقبۃ الاولیٰ و مصعبؓ بن عمیر، ۲؍۴۷ المسند، حدیث عبادہؓ بن صامت، ح:۲۲۲۴۸،۶؍۴۴۱(۴۸) ابن ہشام، العقبۃ الاولیٰ و مصعب ؓ بن عمیر، ۲؍۴۷(۴۹) صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مقدم النبیﷺ و اصحابہ المدینۃ، ح:۳۹۲۵، ص۶۶۲، ایضاً... کتاب التفسیر، سورۃ سبح اسم ربک الاعلیٰ، ح:۴۹۴۱، ص:۸۸۲، المسند، حدیث البراؓء بن عازب، ح:۱۸۰۴۱،۵؍۳۶۰(۵۰) المسند، حدیث زیدؓ بن ثابت، ح:۲۱۱۰۸، ۶؍۲۳۸(۵۱)صحیح البخاری، کتاب الکفالہ، باب جوار ابی بکرؓ فی عہد الرسول و عقد ہ، ح : ۲۲۹۷ ،ص :۳۶۷، ایضاً، کتاب مناقب الانصار، ہجرۃ النبیﷺ ح :۳۹۰۵، ص:۶۵۶(۵۲) ابن ہشام، ذکر من اسلم من الصحابہ بدعوۃ ابی بکر ؓ، ۱؍ ۲۸۷،۲۹۷